بھارت اور پاکستان کے رشتے سے متعلق یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف نعرے دونوں ملکوں کی کچھ خاص سیاسی جماعتوں کے لیے ان کے وجود کو بچائے رکھنے کے لیے تریاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ایک عرصے سے بھارت کے خلاف نعرے انتخابات کی زینت رہے ہیں لیکن کذشتہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (نواز ) نے نہ صرف ان نعروں سے پرہیز کیا بلکہ بھارت سے رشتے بہتر بنانے کی بات بہت زور و شور سے کی اور حیرت یہ کہ عوام نے اس پیش رفت کا مثبت جواب دیا۔ اس بات کا ذکر نواز شریف نے اپنے انٹرویو میں بھی کیا جو انھوں نے ایک غیر ملکی ٹی وی کو دیا تھا۔ اس انٹر ویو میں نواز شریف نے ایک سلجھے ہوئے انسان کی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ کو فضول قرار دیا اور دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کی بات کی۔ انتخابات کے دوران بھی انہوں نے اپنے جلسوں میں اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وزیر اعظم بننے کی صورت میں وہ مذاکرات کا آغاز وہیں سے کریں گے جہاں سے ان کے دور حکومت میں ختم ہوا تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ باتیں نواز شریف پاکستان کے مفادات کو طاق پر رکھ کر کر رہے ہیں بلکہ اگر غور سے دیکھیں تو وہ ہر بار اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے پر امن حل کی کوشش کریں گے۔ یہ باتیں نواز شریف جیسا سیاسی رہنما ہی کر سکتا ہے کیونکہ اس کے تجربات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جنگ اور تشدد کی راہ کسی حل کی طرف نہیں جاتی بلکہ وہ مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔
اس بات سے بھی کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا کہ تمام مسائل کا حل راتوں رات ممکن نہیں ہے اور ان کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مذاکرات کا عمل چلتا رہے اور یکے با دیگرے تمام تصفیہ طلب مسائل حل ہوتے رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد پر فریقین کے درمیان گولہ باری پر نواز شریف کا کوئی شدید رد عمل سامنے نہیں آیا ہے ، شاید وہ جانتے ہیں کہ ان کے اپنے ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کا مفاد بھارت سے دشمنی نبھانے میں ہے اور وہی لوگ ان موضوعات پر بڑھ چڑھ کر بول رہے ہیں۔ کارگل کی اس لڑائی کو کون بھول سکتا ہے جو نواز شریف کی مرضی کے خلاف لڑی گئی اور نواز شریف کو ان کے رد عمل کی پاداش میں حکومت سےنہ صرف ہاتھ دھونا پڑا بلکہ ملک بدر بھی ہونا پڑا۔
امید ہے اس بار نواز شریف جب پھر اسی راہ پر چل رہے ہیں ان عناصر کا بھی کوئی بندوبست کریں گے جو مذاکرات کی بات سنتے ہی آتش زیر پا ہو جاتے ہیں۔