ہندستان کے پانچ صوبوں میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں سیاسی سر گرمی شباب پر ہے ۔ خاص طور پر اتر پردیش کی انتخابی مہم کچھ زیادہ ہی دلچسپ اور سیاسی معرکوں سے مبنی ہے ۔ چار بڑی سیاسی پارٹیاں اس الیکشن میں کامیابی کے لئے اپنی اپنی کوششوں میں مصروف ہیں ۔نتیجہ جو بھی ہو لیکن اس سیاست کے منظر نامے پر ایک نقشہ ابھر کر سامنے آئے گا جو مرکزی حکومت پر براہ راست اثر انداز ہوگا۔اس الیکشن میں تمام سیاسی پارٹیاں کرپشن کو اپنے الیکشن کا ایجنڈا بنا رہی ہیں ۔آج گفتگو شروع ہوئی تو عین ممکن ہے کہ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ بھی کسی دن ہوجائے ۔ عوامی تحریک بھی کرپشن کے حوالے جاری ہے لیکن اس کی سہی سمت میں پیش رفت نہ کرنے سے اس تحریک کو نقصان پہنچا ہے ۔لیکن اس سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سیاسی پارٹیوں کے اصل چہرے سامنے آگئے ہیں اور وہی پارٹی جو ملک سے کرپشن ختم کرنے کی باتیں چیخ چیخ کر رہی تھی اب وہی پارٹی کرپٹ لوگوں کو اپنی پارٹی میں شمال کر رہی ہیں ۔ قول و فعل کا یہ تضاد الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی سمت میں ایک ناکام کوشش ہے۔ لیکن ان سیاسی پارٹیوں کے اتھل پتھل سے سے یہ اندازہ تو ہو گیا کہ الیکشن آتے ہی ان کے چہرے بے نقاب ہونے لگتے ہیں ۔ ان انتخابات کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن بڑی باریک بینی سے تمام سیاسی تگ و دو پر نظر رکھ رہی ،اس لیے امید کی جارہی ہے کہ انتخابات میں بہت زیادہ گڑ بڑی نہیں ہوگی۔ ابھی دو دن قبل ہی بڑے پیمانے پر نوٹوں کا ذخیرہ پکڑا گیا ہے جو اس بات کی علامت ہے سیاسی پارٹیاں بد عنوانیوں پر آمادہ ہیں اور دوسری جانب الیکشن کمیشن ان کے تعاقب میں ہے ، مقام شکر ہے کہ یہاں ہندستان میں کم ازکم ایسے ادارے آزاد اور خود مختار ہیں جس کے سبب شفافیت نظر آرہی ہے اور بد عنوانیوں کو بے نقاب بھی کیا جا رہا ہے۔
لیکن اس کے بر عکس اپنے پڑوسی ملک پاکستان پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں کسی بھی ادارے کو ایسی خود مختاری حاصل نہیں ہے یہ ادارے یا تو حکومت کے زیر نگیں ہیں یا یہ ادارے مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔کب حکومت ختم ہوجائے اور کب کوئی آمر تخت نشیں ہوجائے یہ کہنا مشکل ہے۔ ابھی صورت حا ل یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت کی مدت ختم نہیں ہوئی لیکن حالات یہ ہیں کہ کبھی وقت سے پہلے انتخابات کی گونج سنائی دے رہی تو کبھی یہ بات سامنے آرہی ہے کہ کہ کہیں فوج حکومت پر قابض نہ ہوجائے ۔ عمران کی بڑھتی مقبولیت کے پیش نظر بھی یہ کہا جا رہے کہ شاید الیکشن وقت سے پہلے کرانے پڑیں گے کیونکہ عمران خان کی مقبولیت کا ا یک مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں پی پی پی کی مقبلویت کم ہو رہی ہے اور جس جس طرح کے انکشافات ہورہے ہیں اس سے یہ لگتا ہے عوامی تحریک کھڑی ہوجائے اور وقت سے پہلے الیکشن ہو سکتا ہے ۔
پاکستان میں اس اعتبار سے الیکشن کی آہٹ محسوس کی جارہی ہے اور ابھی سے سیاسی پارٹیاں اپنی تیاریوں میں مصروف بھی ہیں لیکن ہر سیاسی پارٹی کے اپنے منصوبے ہیں وہ وقت کا انتظار کر رہی ہیں ۔ عمران خان کے کراچی کی کامیاب ریلی کے بعد بڑی سیاسی شخصیات کا ان کی پارٹی میں شمولیت کا سلسلہ چل پڑا ہے اور کئی اہم شخصیات نے عمران خان کا دامن تھام بھی لیا ہے ۔ ان کی اس مقبولیت سے پی پی پی کے علاوہ نواز شریف کی پارٹی بھی خائف ہے کہ کہیں آصف زردار ی کی ناکامیوں کا فائدہ عمران خان کو نہ مل جائے اس لیے پاکستان میں سیاسی داو پیچ کی ابتدا ہوچکی ہے ۔ اسی دوا پیچ کے وجہ سے یہ خبر بھی سر گرم ہے کہ موجودہ حکومت کو وقت سے پہلے انتخابات کرانے اک اعلان نہ کرنا پڑے ۔ الیکشن کی اس آہٹ کو موجودہ حکومت اچھی طرح سے سمجھ رہی ہے اسی لیے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو بیان دینا پڑا کہ ‘‘پیپلز پارٹی قبل ازوقت انتخابات کی حامی نہیں ہے ، انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہونگے ، ہمیشہ آئین کی بالادستی کی بات کی ، جمہوریت کیخلاف ہونے والی سازشوں سے خوفزدہ نہیں ہیں ، کسی کے دباؤ میں پہلے آئے تھے نہ ہی آئندہ آئینگے جبکہ اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کئے جائینگے ۔’’انھیں خدشات کے پیش نظر اور کئی معاملات پر غور وخوض کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے مٹینگ بلانی پڑی ۔اس مشاورتی اجلاس میں سینٹ الیکشن کے وقت کا فیصلہ کرنے کیلئے تمام اتحادی جماعتوں نے اس کا اختیار صدر زرداری کو دیا اور اپنے مکمل اعتماد کابھی اظہار کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی کے ملک میں جمہوریت کے استحکام کیلئے سیاسی قوتیں پیپلز پارٹی کے ساتھ اپنے تعاون کو جاری رکھیں گے ۔ مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی پالیسی پر گامزن ہے اور مفاہمت کی پالیسی کو وہ جاری رکھے گی انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بڑی قربانیاں دیکر جمہوریت حاصل کی ہے اسے غیر مستحکم نہیں ہونے دینگے ۔صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز اور اراکین قومی اسمبلی کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جمہوریت کے لئے کوئی خطرہ نہیں دیکھ رہے، تاہم کوئی بھی معاملہ ہو جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی عوام کو مایوس نہیں کرے گی، عوام ہمیں حوصلے اور عزم کے ساتھ کسی بھی مہم جوئی کا سامنا کرنے میں مکمل طورپر تیار پائے گی۔ اس طرح کے بیانات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت غیر مستحکم ہوتی جارہی ہے ۔خاص طور پر آصف زرداری کی غیر مقبولیت نے ملک میں کئی مسائل کھڑے کر دئے ہیں ۔
ابھی حال ہی میں امریکی فارن پالیسی میگزین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی سویلین حکومت فوجی جرنیلوں کیلئے کافی عرصے سے تنگی کا باعث ہے اور پاکستان ایک سست رو فوجی بغاوت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ رپورٹ میں میمو کیس ‘ حسین حقانی، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ، عمران خان کی تحریک انصاف اور نواز شریف کی جانب سے آرمی سربراہوں کی برطرفی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر زرداری کے لئے سب سے بڑ ا خطرہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور اس کی جماعت ن لیگ ہے تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی آمد کے ساتھ ہی آرمی کی قسمت بھی تبدیل ہو رہی ہے اور عمران خان کی پارٹی میں کئی اہم رہنما تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔ فوج کے پاس حکومت گرانے کا میکنزم موجود ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے بعد صدر زرداری نے ان کی بحالی کی مخالفت کی تھی۔ رپورٹ میں این آر او کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے خلاف فوج کے پاس میمو گیٹ سکینڈل بھی موجود ہے ۔ رپورٹ کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی واقعی پاکستان کی کمزور جمہوریت کی حمایت کرنا چاہتے ہیں اور اسے مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس بغاوت کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔(رپورٹ اردو ٹائمس ، امریکہ )
ان تمام سیاسی انتشار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں بہت جلد قومی اسمبلی کے لیے انتخابات ہونے والے ہیں ، اس کی آہٹ ہر طرف سے سنائی دے رہی ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے اتنے اہم معاملات کے بعد بھی آصف زرداری کی قیادت والی حکومت اخلاقی طور پر کسی معالے کہ نہ تو ذمہ داری قوبل کر رہی ہے اور نہ ہی اس حکومت عوامی منشا کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی ایسا اقدام کیا جس سے عوا م کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ا پوزیشن پارٹیوں کو مطمئین کرتا، اسی لیے اب پاکستان میں پی پی پی کی حکومت متزلزل ہے اور عنقریب کوئی ایسا لمحہ آسکتا ہے کہ وقت سے قبل انتخابات کا اعلان ہوجائے بالفرض اگر ایسی صورت سامنے آتی ہے تو وہ پاکستان کے لیے مفید ہوگا یا نہیں ؟ تو اس حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ انتخاب کے بعد کوئی مضبوط سیاسی پارٹی سامنے آئےاور پاکستان کو مضبوط جمہوری نظام دے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہندستان کے حق میں بھی ہوگا کیونکہ ہمسایہ ممالک بھی جمہوری اعتبار سے اگر مضبوط ہو ں تو یہ خطے کے لیے بہتر ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندستان میں ہونے والے پانث صوبوں کے انتخابات اور کیا کیا رنگ دیکھائیں گے اور پاکستان میں شروع ہوچکی سیاسی سر گرمی کیا رنگ لائے گی۔
****