ہندوستان اور پاکستان کے درمیان باہمی تنازعات کے کئی اسباب ہیں جن میں سے ایک ہے آبی تنازع۔ دراصل پاکستان کی 95 فیصد ندیوں کو پانی ہندوستان کی ریاست کشمیر سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان کی یہ اہم ندیاں جن کا نقطہٴ آغاز جموں و کشمیر ہے ، ان کے نام ہیں ستلج، راوی، بیاس، جھیلم، چناب، نیلم وغیرہ۔ نیلم ندی کو ہندوستان میں کشن گنگا کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس ندی کے پانی کی تقسیم کو لے کر 1960 میں دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جسے ’اندس واٹر ٹریٹی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کی رو سے ہندوستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کشن گنگا (نیلم) ندی کے پانی کا استعمال بجلی پیدا کرنے میں کر سکتا ہے۔ ہندوستان نے اپنے اسی حق کا استعمال کرتے ہوئے 1994 میں کشن گنگا ہائڈروپاور پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا جس کے تحت اس کے پانی کو جموں و کشمیر کے سوپور ضلع میں واقع وولر جھیل میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اسے بعد میں بجلی پیدا کرنے کے کام میں استعمال کیا جاسکے۔ اس پروجیکٹ پر کام اب بھی جاری ہے اور 2016 تک اس پروجیکٹ کے مکمل ہونے کی امید ہے۔ لیکن پاکستان کا اعتراض یہ ہے کہ ہندوستان کے ذریعے ایسا کرنے سے نیلم ندی کے پانی کی سطح میں کافی کمی آ جائے گی جس کا براہِ راست اثر پاکستان کے ان کھیتوں پر ہوگا جن کی فصل کا انحصار نیلم ندی کے پانی پر ہے۔ اپنے اس اعتراض کو صحیح ثابت کرنے کے لیے پاکستان بار بار ہندوستان پر پانی کی چوری کرنے اور پاکستان کے ایک بڑے علاقہ کو ریگستان میں تبدیل کرنے کا الزام لگاتا رہا ہے۔ وہ بارہا ہندوستان کو یہ دھمکی بھی دے چکا ہے کہ اگر اس نے آبی مسئلہ کو حل نہیں کیا تو پاکستان اس کے لیے ورلڈ بینک کا رخ کرے گا۔ اندس آبی معاہدہ 1960 کی رو سے اگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی آبی تنازع پیدا ہوتا ہے اور وہ باہمی مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو وہ کسی بیرونی معتدل ماہر کی مدد سے اس تنازع سے متعلق باہم تصفیہ کر سکتے ہیں، لیکن اگر اس سے بھی بات نہیں بنتی ہے تو پھر ایسے میں خود ورلڈ بینک اس میں مداخلت کرکے ایک معتدل ماہر کو منتخب کرسکتا ہے جس کی بات دونوں فریقین کو ماننی ہوگی۔ بگلیہار پروجیکٹ کے معاملے میں بھی پاکستان کے بار بار اعتراض کرنے کے بعد 2005 میں ورلڈ بینک نے مداخلت کرکے دونوں ممالک کے اس تنازع کو حل کیا، جس کے بعد ہندوستان نے بخوشی بگلیہار باندھ کی اونچائی کو کم کرنے پر اتفاق کر لیا۔ 1960 کی اندس واٹر ٹریٹی کے مطابق پاکستان کو 55 ہزار کیوسیکس پانی ملنا چاہیے لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ کشن گنگا پروجیکٹ کی وجہ سے گذشتہ برس اسے سردیوں کے موسم میں صرف 13 ہزار کیوسیکس اور گرمیوں کے موسم میں 29 ہزار کیوسیکس پانی ملا، جس کی وجہ سے اس کے بہت سے کھیت سوکھ گئے۔ اس کے بدلے اس نے ہندوستان سے معاوضہ طلب کیا، لیکن ہندوستان نے پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے معاوضہ ادا کرنے سے منع کردیا۔ کشن گنا یا نیلم ندی کے پانی کی تقسیم سے متعلق تنازع کو حل کرنے کے لیے دونوں ممالک میں ’اندس کمیشن‘ نام سے ایک عملہ موجود ہے جو اس سلسلے میں اکثر باہم گفت و شنید بھی کیا کرتا ہے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کے اندس کمشنر سید جماعت علی شاہ کی ملاقات اورنگ ناتھن کی قیادت والی ہندوستانی ’پرماننٹ کمیشن آن اندس واٹرس ‘ کی تین رکنی ٹیم سے ہوئی تھی جس نے اس موضوع پر بات چیت کے لیے حال ہی میں پاکستان کا پانچ روزہ دورہ کیا تھا۔ اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ دونوں کمیشن اس سال مارچ اور پھر جون کے اخیر میں مزید دو ملاقاتیں کریں گے اور آبی تنازع کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اورنگ ناتھن نے ملک واپسی کے وقت لاہور اےئر پورٹ پر ہی یہ بات واضح کردی تھی کہ یہ آبی تنازع اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر دونوں ممالک کے درمیان کوئی جنگ کی نوبت آئے۔ لیکن پاکستانی میڈیا اب بھی یہ شور مچانے میں لگی ہوئی ہے کہ اگر ہندوستان نے اس تنازع کو جلد حل نہیں کیا تو پاکستان اس سے جنگ کرنے کے لیے مجبور ہو جائے گا۔ دوسری جانب لشکر طیبہ کی ذیلی شاخ جماعت الدعوة اور اس قسم کی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیڈران بھی علی الاعلان ہندوستان کو یہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر ہندوستان نے پاکستان کے پانی کو زبردستی روکنے کی کوشش کی تو اپنے خون کے آخری قطرہ تک اس کے لیے مسلح جدوجہد کریں گے اور ہندوستان پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس قسم کی دھمکیوں سے کوئی تنازع حل ہونے والا ہے۔ ظاہر ہے کہ جغرافیائی، فوجی اور اقتصادی ہر اعتبار سے ہندوستان پاکستان سے کافی بڑا ملک ہے۔ چند سر پھرے لوگوں کی دھمکیوں سے اس پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ان جیسے لوگوں کی زبان پر لگام لگائے کیوں کہ یہی وہ عناصر ہیں جن کی وجہ سے ہند و پاک کے درمیان امن کی ہر سعی ناکام ہو جایا کرتی ہے۔ ہندوستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ اگر اس کی طرف سے پاکستان کو کوئی شکایت ہے تو وہ اسے سننے اور پھر اس کے حل پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ ابھی حال ہی میں 25 فروری کو نئی دہلی میں پاکستان کے خارجہ سکریٹری، سلمان بشیر کو بات چیت کی دعوت دینا بھی ہندوستان کی اسی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جو بات چیت کے ذریعے حل نہیں کیا جاسکتا، بشرطیکہ اس میں نیک نیتی شامل ہو۔ لیکن پاکستان کا رویہ بالکل اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خارجہ سکریٹری سطح کی بات چیت کے بعد سلمان بشیر یہ کہتے نظر آئے کہ ہندوستا
نی خارجہ سکریٹری نروپما راوٴ نے ان سے بات چیت نہیں کی بلکہ انھیں فرمان سناتی نظر آئیں اور یہ کہ ہندوستان کی جانب سے ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے ماسٹر مائنڈ حافظ سعید کے خلاف جو اضافی معلومات سونپی گئیں وہ محض ایک ’لٹریچر‘ تھا۔ دہشت گردی سے لڑنے کے لیے ہندوستان کے ان عزائم کا یوں مذاق اڑانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی نیت صاف نہیں ہے اور وہ آسانی سے اپنی حرکتوں سے باز آنے والا نہیں ہے۔
The above article is highly informative and throws ample light on the reality of Indo- Pak Water Treaty. Yes water problem is a big issue; it is not that big that it cannot be resolved by bilateral dialogues. But for that Pakistan has to stop commenting illogically and start pondering on this issue very sincerely. Also as far as the threat of war is concerned, I would like to ask question to the pro war community that “Could war be an answer to all the issues?”
آپ نے بہت صحیح کہا کہ ہندوستان ایسا کوئی مسئلہ نہیں کہ بات چیت سے حل نہ ہو۔ بشرطے کہ اس میں نیک نیتی شامل ہو۔واقئ پاکستان کے لوگ صرف باتیں بنانا جانتے ہیں اور کچھ نہیں۔ ابھی ایک اہم مذاکرہ ہو جاتا اگر پاکستان کی جانب سے الٹی سیدھی باتیں نہ کی جاتیں تو۔ ان لوگوں کو مقع کی نزاکت کو سمجھنا نہیں آتا۔ اگر وہ لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہندوستان معاملے کو حل نہیں کرنا چاہتا ہے تو نہ بات سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان کا کیا رویہ رہا ہے۔
صرف اور صرف جملہ بازیاں ہی کرنا آتا ہے۔کسی بات کا حل نہیں نکالنا آتا۔ کبھی کبھی تو افسوس ہوتا ہے کہ وہاں کی زندگی بہت خستہ حالی میں گزاری جا رہی ہیں اور کچھ لوگ صرف اپنا الوسیدھا کر رہے ہیں۔ عوام کی کوئی نہیں سوچتا
آپ نے صحیح کہا کہ دہشت گردی سے لڑنے کے لیے ہندوستان کے ان عزائم کا یوں مذاق اڑانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی نیت صاف نہیں ہے اور وہ آسانی سے اپنی حرکتوں سے باز آنے والا نہیں ہے۔ ویسے پاکستان کبھی سنجیدہ نہں ہوا کہ مسائل سلجھ سکیں۔
پاکستان کی حالت یہ ہے کہ لوگ روٹی اور اناج کے لیئ قطار کی قطار میں بھگدڑ کر کے مر جاتے ہیں لیکن ذمہ دار حضرات ان پر دھیان تک نہیں دیتے۔
صحیح کہا سر! کہ پاکستان کی نیت خراب ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ وہاں کے لوگ تو چاہتے ہوں گے کہ معاملہ کسی طرح سلجھ جائے لیکن ان کے رہنما لوگوں کو ہمیشہ گمراہ کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو اصل معاملہ سمجھ میں بھی نہیں آپاتا ہے۔ اب وہ لوگ یہ کہ رہے ہیں کہ نیروپما راؤ نے کوئی بات ہی نہیں کی۔ پھر یہ بھی کہ رہے ہیں کہ پانی کا مسئلہ بھی حل ہو تو جیسا کہ وہاں پہلے سے ایک ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے اس مسئلے کو سلجھا نے کے لیے تو پھر لوگ اس کمیٹی کی باتیں نہ کہ کر اپنی اپنی باتیں کیوں کہ رہے ہیں؟
اگر اس کمیٹی سے کوئی بات نہیں بنتی تو ٹھیک ہے کسی غیر جانب دار معتدل کے سامنے اس معاملے کو سلجھا لیا جائے گا۔ اس میں اتنا طول طویل کرنے کی کیا ضرورت؟
دوسرے لوگ مذاق اڑائیں گے اور ہنسیں گے کہ یہ دونوں چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ہی لڑتے رہیں گے۔