Home / Socio-political / یوپی میں بڑھتے تشدد کے واقعات ۲۰۱۴ کی تیاری تو نہیں؟

یوپی میں بڑھتے تشدد کے واقعات ۲۰۱۴ کی تیاری تو نہیں؟

یوپی میں بڑھتے تشدد کے واقعات ۲۰۱۴ کی تیاری تو نہیں؟

تیشہ فکر عابد انور

  ہندوتو کے علمبردار درحقیقت فرنگیوں کے چیلے ہیں خواہ یہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی کتنی بھی باتیں کرلیںلیکن سچائی یہی ہے کہ ہر معاملے میں انسانیت دشمن نظریہ رکھنے والے انگریز مفکروں، سیاست دانوں ،حکومتوںکے طور و طریقہ اور ان کے حیوانیت کا ننگا ناچ کرنے والے رویے کو خلوص دل سے اپناتے ہیں۔ انگریزوں نے پوری دنیا میں یہ نظریہ اپنا یا تھا کہ’’ لڑاؤاورحکومت کرو‘‘ہندوستان سے انگریز چلے گئے لیکن ان کے اس نظریہ کو ہندوتو کے علمبرداروں نے تہ دل سے قبول کرلیا۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ دین دیال اپادھیائے جو ابتداء میں ہندوستان کی جنگ آزادی میں پیش پیش تھے لیکن بعد میں وہ انگریزوں کے ہم نوا بن گئے تھے۔ ہندوتو کے ہمنواؤں میں ایک نام بھی ایسا نہیں ہے جس نے ملک کی آزادی میں کوئی اہم کردار ادا کیا ہو۔البتہ انگریزوںکی مخبری کرنے کے ڈھیرسارے الزامات ان پرعائدہوتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ آزادی کی تحریک کو ان جیسے عناصرسے سخت نقصان پہنچاتھا۔ ہندوستان کے آزاد ہوتے ہی ان عناصر نے اس فارمولا پرسرگرمی سے عمل شروع کردیا۔ تقسیم ہند کے دراڑ کو پاٹنے کی بجائے اسے مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیاراستعمال کیا جانے لگا اور اس طرح ملک کے تمام شعبے میں غیر اعلانیہ طور پر دراوزے بند کئے جانے لگے۔ اس کا مقصد جہاں مسلمانوں کو معاشی محاذ پرکمزور کرنا تھا وہیں انہیں نان شبینہ کامحتاج بھی بنانا تھا۔آزادی کے بعد ہندوستان جمہوری ملک بنا جہاں ووٹ کی ایک طاقت ہوتی ہے، فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کی افرادی قوت کم کرنے کی کوشش کی گئی اوران میں اس قدر دہشت پیدا کردی گئی کہ وہ سر اٹھاکر جینے کے لائق نہ رہیں اور نہ وہ متحد ہوکر جمہوری طاقت کا استعمال کرسکیں۔ یہ ہوا بھی، مسلمان ان طاقتوں سے ہمیشہ ناآشنا رہے اور وہ ہمیشہ ووٹ بینک کی طرح استعمال ہوتے رہے۔ کانگریس پارٹی نے بھی ہندوتو طاقتوں کا خوف دکھاکر مسلمانوں کو ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا اور دوسری طرف فرقہ پرست عناصر کو کھلی چھوٹ دے دی کہ جب چاہیں جہاں چاہیں فسادات برپاکرکے مسلمانوں کا ناطقہ بند کردیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج تک کسی فسادی کو سزا نہیں ہوئی اورنہ ہی کسی کو تختہ دار پرچڑھایاگیا کیوں کہ مسلمانوں کے خلاف ایک نفسیات کی جنگ ہے جس میں مسلمانوں کو فتحیاب کوئی پارٹی نہیںدیکھ سکتی۔ فسادات اس لئے بھی کرائے جاتے ہیں کہ دونوں فرقوں میں خلاپیداہو،دوریاںپیداکی جائیں، ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں تاکہ وہ سیاسی پارٹیوں کے کھیل کو نہ سمجھ سکیں۔ ہندوستان میں اس وقت نوجوانوںکی تعداد تقریباً ۴۵ فیصدسے زائد ہے۔ان میں سے کثیرتعدادایسے ہیں جنہیں تعلیم اور روزگارسے مطلب ہے وہ ان جھمیلوںمیں نہیں پڑناچاہتے۔ اس کے بعد فرقہ پرست عناصر نے مسلمانوں کودہشت گردی کے نام پر زندگی اجیرن بنانے کی کوشش کی جو اب تک زور و شور سے جاری ہے بلکہ ترقی پسند اتحاد دوم حکومت کے عظیم کارناموں میں اسے شمار کیا جائے گا۔ مسلمانوں نے ان سب چیزوں سے نمٹنے کے لئے تشدد کا سہارا لئے بغیر جمہوری طریقہ کو اپنایا جس کا عملی مظاہرہ ۲۰۰۹ کے لوک سبھا کے عام انتخابات اور یوپی اسمبلی کے۲۰۱۲ کے انتخابات میں دیکھنے کو ملے۔ یہیں فرقہ پرست پارٹیوں سمیت کانگریس کے بھی چودہ طبق روشن ہوگئے۔یہ پارٹیاں فسادا ت کے توسط سے ہندوؤں کو متحد کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کو ووٹ نہ دیں ۹۹ فیصدایساہی ہوتا ہے۔

                ماہ جون کے دو فسادات متھرا کے کوسی کلاں اور پرتاپ گڑھ کنڈہ کے موضع ایستھاںکے فسادات کو اسی آئینے میںدیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ فسادات نہیں بلکہ ملک میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کے سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ جس کی قیمت صرف اور صرف مسلمانوںکو ادا کرنی پڑتی ہے اور پڑے گی۔کوسی کلاں میں تقریبا چھ گھنٹے تک خونی کھیل جاری رہاتھا اوراس میں چار افراد ہلاک، 16 زخمی ہوئے، 36 مکانوں کو جلا دیا گیا اور 15 گاڑیاں جلاد ی گئیںتھیں۔ یہ علاقہ قومی شاہراہ نمبر2 پر دہلی اور آگرہ کے درمیان میںواقع ہے ، ہریانہ، راجستھان کی سرحدیں یہاں سےٰقریب ہیں اور دہلی سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ صنعتی بھی ہے۔اس کی آبادی ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے جس میں مسلمانوں کی آبادی پندرہ ہزار کے قریب ہے۔ یکم جون  ۲۰۱۲ کی دوپہر تقریبا دو بجے کوسی کلاں کے سرائے شاہی کی ایک مسجد کے باہر رکھے شربت کے ٹب میں ایک ہندو نوجوان نے پیشاب کرنے کے بعد اپنا ہاتھ اس ٹب میں دھولیاجس پر مسلمانوں نے اعتراض کیا۔ اس معمولی سی بات نے اتنا طول پکڑا کہ دو نوں فرقوں کے لوگ آمنے سامنے آ گئے اور پتھراؤشروع ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے علاقہ فرقہ وارانہ فسادکی زد میں آگیا۔اس کے بعد فرقہ پرست عناصر نے مسلمانوں کی دوکانوں ،و مکانوں اوران کی عورتوںکے ساتھ بدسلوکی کا کھیل شروع کردیا۔ وہاں پربھی وہی ہوا جوتمام فسادات کے دوران دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور فسادیوں کے تشددکا ننگا ناچ جاری رہا۔ انتظامی مشنری کی فعالیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس موقع پرکوئی بڑا افسر موجود نہیں تھا۔ فسادات کے چار گھنٹے کے بعدڈی ایم اور ایس پی فسادات کی جگہ پر پہنچے بھی تواس وقت فسادی اپنا کام کرچکے تھے۔ فساد شروع ہونے کے چار گھنٹے بعد انتظامیہ حرکت میں آیا اور کرفیو لگایا گیا۔ فسادات کے بعد سے اب تک نصف درجن سے زائد مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ان میں۱۳۹۱  لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے، جس میں 171 لوگ نامزد ہیں۔ ان میں بی ایس پی حکومت کے سابق وزیر زراعت چودھری لکشمی نارائن اور ان کے بھائی بی ایس پی کے ایم یل سی لیکھراج سنگھ اور ان کے بیٹے نردیو سمیت 54 لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے۔

                متھرانگری کرشن جی کی بھومی ہے جن کے بارے بعض لوگوں کاخیال ہے کہ وہ نبی تھے جو اپنی قوم کی اصلاح کے لئے بھیجے گئے تھے۔ اردوشاعری میں متھرا اور کرشن جی کو بہت احترام سے یاد کیاگیا ہے اور اسے مقدس مقام تسلیم کیا گیاہے۔ یہ علاقہ عام طور پرپرسکون علاقہ ہے ۔ کشیدگی کے واقعات بہت کم پیش آتے ہیں۔ ۱۹۹۲میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد جہاں ملک فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جل رہا تھا، وہیں متھرا کا کوسی کلا ںعلاقہ خاموش رہ کر محبت اور ہم آہنگی کا پیغام دے رہا تھا۔لیکن برجبھومی کے اس علاقے میں گزشتہ دنوں جو ہوا، وہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا تھا۔اس معمولی واقعہ کو بڑھانے میں سیاست کارفرماتھی۔ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے مدنظر یہ طے ہے کہ میونسپلپٹی کے صدر کی کرسی بھی بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔بی جے پی نے اس سیٹ کو برقرار رکھنے کے لئے فسادات کوبڑھاوا دیا۔ اس کے علاوہ مایاوتی حکومت کے ایک سابق وزیر زراعت پر الزام ہے کہ انہوں نے کوسی کلا ںقومی شاہراہ نمبر 2 کے پاس قبرستان اور عید گاہ کی 27 ایکڑ زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ سماج وادی پارٹی کی حکومت بننے کے بعد مسلم برادری کے لوگوں نے زمین واپس لینے کے لئے جدوجہد شروع کردی ہے ۔ لکشمی نارائن پر الزام ہے کہ انہوں نے فسادات کی آڑ میں زمین واپس مانگنے والوں پر ظلم ڈھائے۔اب تک اس طرح کے جتنے واقعات پیش آئے ہیں ان میں ان میں لوکل لیڈروں کارول بہت نمایاں رہاہے۔علاقے کے ممبر پارلیمنٹ ،ممبراسمبلی اوربلدیاتی اداروں سے وابستہ لیڈران نے چنگاری کو شعلہ بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس کا مقصد جہاں مسلمانوں کو خوف و ہراس پیدا کرنا ہوتا ہے وہیں فرقہ پرست لیڈروں کا مسلمانوں سے بدلہ لینا بھی ہوتا ہے کیوں کہ بڑی تعداد میں مسلمان سیکولر امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں جس کی وجہ سے فرقہ پرست عناصر کی شکست ہوتی ہے اور وہ فسادات برپاکرکے اپنا ساراغصہ مسلمانوں پر نکالتے ہیںاور سیکولر امیدوار مسلمانوں کا ساتھ دینا تودور کی بات ان کے آنسو بھی پوچھناگوارا نہیں کرتے۔

                دوسرا حالیہ واقعہ پرتاپ گڑھ کنڈہ کے موضع ایستھان کا ہے جہاں ایک واقعہ کو لے کر پورے گاؤں کو ہندوؤں نے آگ کے حوالے کردیا۔ یہ واقعہ فسادات اور دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک اس معنی میں ہے کہ اکثریتی طبقہ ایک گاؤں کا محاصرہ کرکے جس طرح لوٹ مار کی، گھروں، انسانوں کو جلایا وہ عورتوں کے ساتھ بدسلوکی وہ بے حد تشویشناک ہے۔ اس سے یہ پیغام آیا ہے کہ ہندو جو چاہے کرسکتے ہیںانتظامیہ اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتی۔ اس سے بڑھ کر تشویش کی بات یہ ہے کہ انتظامی مشنری خاموش تماشائی بنی رہی ہے بلکہ مسلمانوں کے گھروں کو جلتے ہوئے دیکھ کر وہ قہقہے لگا رہی تھی۔ معاملہ دلت لڑکی کی آبروریزی اورقتل کا ہے جس کے لئے اترپردیش بہت بدنام ہے۔اس واقعہ میں مسلم نوجوانوں کو نامزد کیا تھا اور پولیس انہیں گرفتار بھی کرچکی تھی، یہ ذلیل حرکت کس نے کی تھی یہ سب کو معلوم تھا۔ واقعہ سے پہلے علاقہ کے ممبرپارلیمنٹ ممبر اسمبلی اظہار ہمدردی کرنے متاثرہ افرادکے گھر پہنچے تھے۔اسی دوران اس واقعہ کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس واقعہ کو انجام دینے کیلئے ٹریکٹر پر ۱۸ ڈرم مٹی کاتیل لایاگیاتھا۔ یہاں بھی سیاست کارفرمارہی۔ یہاں اب تک ہندو پردھان منتخب ہوتے آرہے تھے۔پہلی مرتبہ اس گاؤں میں ریشما بانو زوجہ نظام الدین پردھان منتخب ہوئیں۔ اس واقعہ میں ایس پی اور ڈی ایم کو معطل کیا گیاہے لیکن یہ کافی نہیں ہے جب تک علاقے کے ممبر پارلیمنٹ اورممبر اسمبلی کو اس کے لئے مجرم نہیں ٹھہرایاجاتا اس وقت تک انصاف کا عمل پورا نہیں ہوگا۔ گاؤں میں جن لوگوں کا گھرلوٹا گیا ہے اور جلایا گیاہے اس کی بھرپائی ڈیوٹی پرتعینات پولیس اہلکار اور افسران کی تنخواہوں، جی پی ایف اور گریجویٹی فنڈ سے کیا جانا چاہئے۔ اسی وقت فسادات روکیں گے ورنہ کوئی کوشش کامیابی کے مرحلے سے پہلے ہی دم توڑ دے گی۔

                ۲۰۰۹ کے لوک سبھا کے عام انتخاب اور چند ماہ قبل اختتام پذیر یوپی اسمبلی کے انتخابات نے فرقہ پرست پارٹیوں کو بوکھلاہٹ میں مبتلاکردیا ہے۔ ویسے توفرقہ پرست پارٹیوںنے ۲۰۰۹ میںہی یہ طے کرلیاتھا کہ تشددکی دوکاندار ی کے بغیر ان کی دال گلنے والی نہیں ہے۔ ان کو اس تصور سے ہی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ اگر ملک کے نوجوان طبقہ اور مسلمانوں نے اسے اسی طرح اسے نظر انداز کردیاتوان کے وجود پر بھی سوالیہ نشان لگنا شروع ہوجائے گا۔ فرقہ پرست عناصر کو ان علاقوںمیں زیادہ ترکامیابی ملتی ہے جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ یوپی اسمبلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو جو سیٹیں ملی ہیں ان میں زیادہ تر وہ سیٹیں ہیں جہاں مسلمانوں کے فیصلہ کن ووٹ ہیں۔ اس طرح کے فسادات کا مقصد مسلمانوں کو جہاں جمہوری حق کے استعمال سے روکنا ہے وہیں یہ انہیں باور کرانا ہے وہ کوئی بھی سیکولرحکومت کو منتخب کرلیں لیکن ان کی جان محفوظ نہیں ہے۔ جب چاہیں جہاںچاہیں گے مسلمانوںکی زندگی اجیرن بناسکتے ہیں۔ ایسا ہوبھی رہا ہے۔ اکھلیش یادو حکومت اس طرح کے واقعات روکنے میںمکمل طور پرناکام رہی ہے۔ یوپی میںاتنے سارے مسلم ممبران اسمبلی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ ان میں سے کسی ممبر اسمبلی کا کوئی بیان اورنہ ہی احتجاج سامنے آیا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمان خواہ کتنے بھی ممبران اسمبلی ایوان میں بھیج دیں ان کو ظلم و تشدد سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ سکھ یا دیگرفرقہ کے ممبران اسمبلی اپنے فرقہ کے ساتھ ایساسلوک کرسکتے ہیں۔ اگرکوئی دیگرفرقہ کے ممبران ایسا کریں تو ان کا جینا دوبھر ہوجائے گا،سماج میں معطون ہوجائیںگے اورزندگی بھر وہ ایوان کا منہ نہیں دیکھ پائیں گے لیکن مسلمانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ خواہ وہ ہندو کو منتخب کریں یا مسلمان کو کوئی ان کام آنے والا نہیں ہے۔ مسلمان صرف اورصرف پارٹی کے وفادار ہوتے ہیں مسلمانوں کے نہیں۔ مسلمانوں کی پریشانی یہی ہے کہ ان کا کوئی لیڈر نہیں ہے جتنے بھی میدان میں نظرآتے ہیں وہ سب کے سب سوداگر ہیں یا دلال، ان میں مسٹر ،مولوی ، یاامام کی کوئی قیدنہیںہے۔ یہ سبھی بھکاری ہیں اوربھیک مانگنے والا کبھی اپنے حق کا مطالبہ نہیں کرتا جو ٹکڑا ان کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے اس سے انہیں مطمئن ہونا پڑتا ہے۔ یوپی کے ممبران اسمبلی کابھی یہی حال ہے۔ وہ اپنے ذاتی مفادات کے دائرہ سے کبھی باہر ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ حق کا مطالبہ کرنے اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم وتشدد سے لوہا لینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنے ذاتی مفادات اور جاہ کی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں۔ مسلمانوں پریہ الزام ہے کہ وہ کسی کو (مسلمان کو) اپنا لیڈر تسلیم نہیں کرتے گرچہ اس میں کچھ سچائی بھی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تلخق حقیقت یہ ہے انہوںنے قربانی دیکر جن لوگوں کو بھی آگے بڑھایا انہوں نے دلالی کے سوال کوئی کام انجام نہیںدیااور لیڈربنتے ہی جاہ پرستی میں اتنے مست ہوئے کہ انہوں نے مسلمانوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان ہی پہنچایا۔ ان کی وفاداری پارٹی تک محدود رہی۔ مسلمانوں کو مسلم لیڈر شپ سے صرف مایوسی اور ناکامی ہی ہاتھ لگی ہے۔

                کوسی کلاں کے معاملے میں ہندی میڈیا کا رویہ بے حد متعصبانہ رہا ہے۔مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی داستان ہندی میڈیا میںکبھی بھی جگہ نہیںپاتی لیکن اس بار یہ ہوا ہے کہ نیوزپورٹل ،ویب سائٹ، بلاگ یا متبادل میڈیا سب نے مسلمانوں کے خلاف زبردست زہر اگلا ہے۔ ایسے اشتعال انگیز مواد شائع کیا ہے کہ اسے پڑھ کر ہر ہندو کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہونالازمی ہے۔ کوسی کلاں فساد کے لئے مسلمانوں کو مکمل طور پر ذمہ دارقرار دیاگیاہے اور اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے ہی ہندو کے گھروں، دوکانوں کو لوٹا اور ان کی عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کی۔اسی کے ساتھ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بیدار ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔ یوپی کے مسلم نوجوان کے پاس بھی متبادل میڈیا کاآپشن موجود ہے ۔ ان لوگوں نے اسی سطح پر انہیںجواب دینے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ یوپی میں نہ توصحافیوں کی کمی ہے ،نہ لکھنے والوں کی ،نہ ہی دھواںدھار تقریر کرنے والوں کی اورنہ ہی سیاسی،ملی اور مذہبی لیڈروں کی، لیکن جس سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے وہاں وہ مکمل طور پرناکام نظر آرہے ہیں۔ جس سطح پراعتراض کیا جائے اسی سطح پر جواب دینے کی ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ بہت بڑاذریعہ ہے اپنی بات عوام اوریہاں تک پوری دنیا تک پہنچا نے کا۔ مسلم نوجوانوں کو چاہئے کہ بغیرکسی اشتعال کے حقائق کااظہار کریںاورجو کچھ ان کے ساتھ پیش آتا ہے وہ دنیا کو بتائیں۔ مسلم نوجوانوںکوبھی ہندوستان میں دیگر برادران وطن کی طرح بولنے اورلکھنے کی آزادی ہے اور مسلمانوں کو یہ جمہوری حق مکمل طورپر استعمال کرنا چاہئے۔

                مسلمانوں کیلئے اترپردیش ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ایک آزمائش کی گھڑی آنے والی ہے جہاں انہیں نہایت سمجھداری سے جہاں چھوٹے موٹے واقعات کو نظرانداز کرنا ہے وہیں حتی الامکان ناخوشگوار واقعہ انجام دینے سے بچنا ہے۔ فرقہ پرستوں نے پوری تیار ی کرلی ہے کہ وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات میں تشدد کے سہارے ہی اپنی ڈوبتیی نیا پارلگائیں گے۔ اس کے علاوہ انسداد فرقہ وارانہ بل کی اہمیت بھی اجاگرہوگئی ہے ۔ یوپی اے حکومت کو چاہئے کہ وہ مانسون اجلاس میں اسے پاس کرائے۔ ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت فرقہ پرستوں کو چھوٹ دیناچاہتی ہے اس کے خلاف کوئی کارروائی کرنا نہیں چاہتی۔ فرقہ پرستی سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے کہ ہندوستان میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں کاازسرنو جائزہ لیا جائے خواہ وہ سرکاری اسکولوںمیںپڑھائی جاتی ہوں یا پرائیویٹ اسکولوںمیں کیوں کہ فرقہ پرستی کا زہروہیں سے سرایت کرنا شروع ہوتا ہے۔ مسلم تنظیموں اور مسلمانوں کے نام نہاد تھنک ٹینک اداروں نے اس ضمن میں بیان بازی کے علاوہ کوئی کارنامہ انجام نہیں دیاہے۔ مسلم تنظیموںکو چاہئے کہ وہ مشترکہ طورپرایک ایسا گروپ تشکیل کریںجو ہندوستانی نصابوں میں گہرائی سے جائزہ لے اور مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جو جھوٹا اور نفرت آمیز موادشامل کیا گیاہے اس کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائے اور ضرورت پڑنے پر عدالت سے بھی رجوع کرے ۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *