بھارتی سپریم کورٹ نے مالیگاں بم دھماکے کے ملزمان سابق فوجی افسر کرنل پروہت اور سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔سابق بھارتی فوجی شری کانت پرساد پروہت، سادھوی پرگیہ ٹھاکر اور بعض دیگر ہندو شدت پسند دو ہزار آٹھ۲۰۰۸ء کے مالیگاں بم دھماکے الزام میںگزشتہ چار برس سے جیل میں ہیں اور ان کے وکیل یو آر للت نے سپریم کورٹ سے ان کی عارضی ضمانت کے لیے استدعا کی تھی۔لیکن دو رکنی سپریم کورٹ کی بینچ نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہم اس سٹیج پر عارضی ضمانت نہیں دیں گے۔مسٹر پروہت کے وکیل نے کہا کہ ان کے مقدمہ کی سماعت میں پیش رفت نہیں ہورہی اس لیے انہیں کم سے کم عارضی ضمانت ملنی چاہئے جس کے جواب سپریم کورٹ نے مقدمے کے فیصلے کی تاخیرکا ذمہ دار حکومت کوٹھہرایاجس نے قومی تحقیقاتی ٹیم کو ملزمان سے پوچھ گچھ کیلئے منع کیا تھا۔عدالت نے اپنے فیصلے کو برقراررکھتے ہوئے سماعت تین ہفتے کیلئے ملتوی کردی ہے۔
۱۹ستمبر ۲۰۰۸ء کو مہاراشٹر کے صنعتی شہر مالیگاں میں عید سے ایک روز قبل بھکو چوک میں بم دھماکہ ہوا تھا جس میں سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔پولیس نے پہلی مرتبہ بم دھماکہ میں ہندو دہشت گرد تنظیموں کے ملوث ہونے کو بے نقاب کیا تھا اورگیارہ افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔اس میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر، لیفٹینٹ کرنل پرساد سری کانت پروہت ، شاردا پیٹھ کے سوامی دیا نند پانڈے ، رمیش اپادھیائے ، راکیش دتاتریہ دھاواڑے، شیونارائن کالسنگرا، سمیر کلکرنی، سدھاکر چترویدی، شیام ساہو، اجے راہیرکر اور جگدیش مہاترے شامل تھے۔ یہ سبھی اس وقت جیل میں ہیں۔ان افراد کی گرفتاری کے بعد ہی مالیگاں بم دھماکے کے سلسلے میں گرفتار شدہ مسلم نوجوان رہا ہوسکے تھے جنہیں پولیس نے انہیں الزامات کے تحت گرفتار کیا تھا۔
ظلم وبربریت کی ایک ایسی ہی داستان بھارتی مسلم نوجوان عامر کی ہے جسے دہشتگردی کے جرم میں بے پناہ تشدد ،انسانیت سوزسلوک روارکھنے کے ساتھ ساتھ ۱۴سال جیل میںرکھا گیااوراب سپریم کورٹ نے اسے بے گناہ قراردیکر جیل سے رہائی دلائی ہے۔اب بھی کئی مسلمان نوجوان جن کی جوانیاں جیل کا رزق بن گئیں ہیں،آسمان کی طرف منہ کرکے اپنے ساتھ ناانصافی کا مقدمہ ایک بہت بڑی عدالت میں دائر کرکے انصاف کے منتظرہیں۔بھارت میں دہشت گردی کے معاملات میں حالیہ مہینوں میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں اور پراسرارگمشدگیوں کے بارے میں حقوق انسانی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے پیچھے ایک منظم سوچ کارفرما ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر پست کرنا ہے ۔مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں اور گمشدگیوں کے خلاف دلی میں بارہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے پرانے معاملوں میں ملک کی کئی ریاستوں میں بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیے گئے بہار کے ایک مزدور قتیل صدیقی کو پونہ کی جیل میں قتل کیے جانے اور سعودی عرب میں ایک بھارتی انجینئر کی مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں گرفتاری کی خبروں کے بعد حقوق انسانی کی تشویش میں میں اضافہ ہوا ہے ۔ایک سرکردہ کارکن مشیشا سیٹھی کہتی ہیں، ’’دلی ہو ،بہار ہو ، یوپی یا مہاراشٹر ، کسی بھی جگہ مسلمانوں کو آتنک وادی کہہ کر گرفتار کیا جا سکتا ہے اور آپ کی کوئی جوابدہی نہیں ہو گی ۔ کئی برس کے بعد وہ بے قصور رہا ہو جائے گا لیکن اس کی زندگی برباد ہو چکی ہو گی‘‘۔
جیل میں قتیل کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سابق سربراہ اور کارکن روی نائر کہتے ہیں کہ ’’بھارت میں ٹارچر یا ایذا رسانی ریاست کے طریقہ کار کا ایک ایسا بدترین اورظالمانہ پہلو ہے کہ عدالت اسے بے گناہ کہہ کر رہا بھی کردے تب بھی وہ ساری زندگی کیلئے معذوریاہمیشہ کیلئے کسی المناک بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے اہم پہلو ہے جب تک ٹارچر اور تھرڈ ڈگری کے طریقہ کار کے لیے سزا نہیں ہو گی اور متاثرین کو معاوضہ نہیں دیا جاتا تب تک اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے‘‘۔روی کہتے ہیں کہ’’ بھارت میں ایک جمہوری نظام ہونے کے باوجود خفیہ ایجنسیاں کسی طرح کی جوابدہی سے پوری طرح آزاد ہیں اور حکومت ایجنسیوں کے جبر کے ذریعے مذہبی اقلیتوں اور قبائلی آبادی کیلئے خوف کا ایک ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو وہ ایک خوف کا ماحول بنائے رکھتی ہے ۔ حقوق کی پامالی کرنے والے مرتکبین کو یقین رہتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو گی‘‘۔
دلی کے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز(Objective Studies) کے سربراہ ڈاکٹر منظور عالم کا خیال ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری میں ایک منظم طریقہ کار نظر آتا ہے اور اس کا مقصد بھارتی مسلمانوں کو پسماندگی سے سے نکلنے سے روکنا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ’’پہلے کمزور ، مزدوروں ، مدارس اور علما ء کوبنیاد پرست متشدد کہہ کر نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اب تعلیم یافتہ اور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوانوں کو پکڑا جا رہا ہے ۔اس کا مقصد صاف نظر آتا ہے کہ اگر ان کی ہمت ٹوٹے گی تو پوری مسلم برادری پر اس کا منفی اثر پڑے گا اور وہ خوف کی نفسیات کا حصہ بنیں رہیں گے اور اس طرح انہیں سماجی اور اقتصادی ترقی اورتعلیم کے اصل دھارے سے الگ رکھا جا سکے گا‘‘۔دلی میں حقوق انسانی کے کارکنوں نے وزیر داخلہ پی چدامبرم کومسلمانوں کے خلاف جبر کا سلسلہ بند کرنے کی ایک عرضداشت پیش کی ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ صرف مذہبی تفریق کا سوال نہیں ہے ،اس پر انصاف اور جمہوریت کا مستقبل داؤ پرلگا ہوا ہے۔
اگر آپ کو یاد ہو توسنجیو بھٹ سینیئر پولیس افسر نے اپریل میں سپریم کورٹ میں اپنے ایک بیان حلفی میں الزام لگایا تھا کہ ۲۰۰۲ء کے فسادات کے دوران نریندر مودی نے ایک میٹنگ میں مبینہ طور پر اعلی افسروں سے کہا تھا کہ وہ ہندو فسادیوں کے خلاف کارروائی نہ کریں اور وہ مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ نہ کریں،انہیں مسلمانوں کے خلاف اپنا غصہ نکالنے دیں، اس میٹنگ میں ان کے ساتھ ان کے ایک ماتحت افسر بھی موجود تھے۔سنجیو بھٹ اس وقت احمد آباد میںفسادات کے دوران گجرات پولیس میں شعبہ انٹیلی جنس کے سربراہ تھے۔سنجیو بھٹ کواپنی ایمانداری کی سزایہ ملی کہ اس کو فوری طورپر ریاستی طاقت کے بل بوتے پر ایک پولیس افسر کو غلط بیانی پر مجبور کرنے کا الزام لگاکر اس کو گھر سے’’ باکھ لوگیا‘‘ پولیس سٹیشن لے جایا گیا اوربعدازں مودی حکومت نے انہیں برطرف کرتے ہوئے جیل بھیج دیا ۔پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سنجیو بھٹ کے ایک ساتھی بی کے پنت نے بھی نریندر مودی کے خلاف حلف نامہ داخل کیا تھا لیکن بعد ازاں شدید دباؤ کے بعداس نے اپنا حلف نامہ واپس لے لیا۔
گجرات میں فسادات سے متاثرہ افراد کی نمائندگی کرنے والے والے وکیل مکل سنہا نے کہا کہ انہیں بھٹ کی گرفتاری پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے۔گجرات میں جس افسر نے بھی فسادات کے سلسلے میں حکومت پر انگلی اٹھائی ہے اسے سزا دی گئی ہے۔حقوق انسانی کی کارکن تیستا سیتلواڈ نے کہا ہے کہ واضح طور پر حکومت کی انتقامی کارروائی ہے۔سنجیو کو گرفتار کرنے کے لیے ایک ایسا دن اور وقت چنا گیا ہے جب وہ اپنی رہائی کے لیے فوری طور پر عدالت سے رجوع نہیں کر سکتے تھے۔
حال میں سپریم کورٹ نے احمد آباد کے فسادات کا ایک معاملہ گجرات کی ذیلی عدالت کو سونپ دیا تھا۔ یہ عدالت یہ طے کرے گی کہ اس مخصوص معاملے میں مسٹر مودی کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس مقدمے میں درخواست گزار اور متاثرین کے علاوہ سنجیو بھٹ بھی ایک اہم گواہ ہیں۔اب بھارتی ریاست گجرات کے ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ۲۰۰۲ء کے فرقہ وارانہ فسادات سے متعلق پولیس کنٹرول روم کا ریکارڈ پولیس افسر سنجیو بھٹ کو فراہم کرے۔نریندو مودی کی حکومت کا موقف تھا کہ فسادات سے متعلق پولیس کنٹرول روم کا ریکارڈ تلف کر دیا گیا تھا،دستاویزی ریکارڈ اس کے پاس نہیں اور وہ انہیں سنجیو بھٹ کو نہیں دے سکتی جس پر سماعت کے بعد عدالت نے یہ حکم دیا ہے کہ فسادات کے دوران پولیس کنٹرول روم میں جو بھی دستاویزی ریکارڈ جمع کیے گئے تھے انہیں وہ اس ماہ کی انیس تاریخ تک سنجیو بھٹ کے حوالے کرے۔اس سے پہلے فسادات کی تفتیش کرنے والے نانا وتی کمیشن نے بھی مسٹر بھٹ کی اپیل کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ وہ دستاویزات دستیاب نہیں ہیں۔
حقوق انسانی کے سرکردہ کارکن پرشانت بھوشن کو دلی میں سپریم کورٹ کے احاطے میں واقع ان کے چیمبر میں بعض افراد نے بری طرح زد وکوب کیا ہے۔حملے سے چند لمحے پہلے وہ اپنے چیمبر میں ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے اور ان پر حملے کا پورا منظر ٹی وی پر دکھایاگیا ہے۔ حملہ آوروں میں سے ایک کو پکڑ لیا گیا ہے۔حملہ آوروں کی تعداد تین بتائی جاتی ہے۔گرفتار کیے گئے حملہ آور اندور ورما نے بتایا ہے کہ ان کا تعلق بھگت سنگھ کرانتی سیناسے ہے۔ انہوں نے یہ حملہ اس لیے کیا ہے کہ چند دنوں پہلے ایک نیوز کانفرنس میں پرشانت بھوشن نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ان کے خیال میں کشمیر میں ریفرنڈم کرایاجانا چاہئے۔پرشانت بھوشن کے سر میں بھی چوٹ لگی ہے اور انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ پرشانت کا تعلق حقوق انسانی کی تنظیموں سے رہا ہے اور کچھ دنوں پہلے وہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی پولیس سربراہ کے خلاف ایک فرضی مقابلے کے مقدمے میں ہلاک ہونے ولاے افراد کے رشتے داروں کی نمائندگی کرنے سری نگر گئے تھے۔ انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ وہ کشمیر کی گمنام قبروں کا معاملہ بھی اٹھائیں گے ۔
پرشانت کے والد اور معروف وکیل شانتی بھوشن نے بھی چند روز پہلے کہا تھا کہ گجرات کے وزیر اعلی نریندر انتہائی فرقہ پرست انسان ہیں اور یہ کہ اگر مودی مخالف پولیس افسر سنجیو بھٹ نے ان سے رجوع کیا تو وہ ان کا مقدمہ لڑنے کے تیار ہیں۔پرشانت کے والد اور معروف وکیل شانتی بھوشن نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ حملے کر کے پرشانت کے خیالات بدل سکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ پرشانت ایک بے خوف انسان ہے اور وہ جو صحیح سمجھتا ہے اس پر عمل کرتا ہے ۔میں گزشتہ بیس برس سے کہہ رہا ہوں کہ دنیا کے ہر خطے میں ہرشخص کو آزادی کا حق حاصل ہے ۔
یہ ا نسانوں کی بستی ہے یہاں پر خموشی کو زباں کہنا پڑے گا
چنو گے پستیاں خود پر تو اک دن ،زمیں کو آسمان کہناپڑے گا