محترمہ فوزیہ وہاب !
یہ کسی پارٹی کا نہیں بلکہ ملکی سلامتی کا معاملہ ہے
محمد اکرم خان فریدی
ہم امریکہ سے اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے،یہ میں نہیں کہتا بلکہ پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور رکن قومی اسمبلی فوزیہ وہاب نے کہا ہے ،انکا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ پاکستانی مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی ہے ‘ جس کے ساتھ چار ارب ڈالر سالانہ کی تجارت ہوتی ہے۔میں حیران ہوں کہ فوزیہ وہاب صاحبہ نے شاہ محمود قریشی کے اختیار کردہ موقف کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ ناکام نظر آتی ہیں ۔ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کے رہنماءہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے انتہائی اہم عہدے پر بھی فائض تھے اور ملکی سلامتی کی خاطر انہوں نے جو موقف اختیار کیا میں سمجھتا ہوں اُنہوں نے پاکستانی ہونے کا حق ادا کر دیا ہے دوسری جانب آپ کہتی ہیں کہ اُنہوں نے آپکی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے ۔محترمہ کیا آپ یہ چاہتی ہیں کہ ہمارے پیارے پاکستان میں کوئی بھی آئے اور یہ اں لوگوں کو مار جائے اور ہم کہیں کہ اگر اس قاتل کو کچھ کہا تو ہمارے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔تو پھر آپ اےسے کرےں کہ رےمنڈ نامی قاتل کو باہر نکالےں اور اپنی پارٹی کی جانب سے پھولوں کے ہار پہنا کر اُسے پروٹوکول کے ساتھ ائر پورٹ تک چھوڑ کر آئیں شائد آپکی پارٹی اور حکومت مزید مستحکم ہوجائے۔قارئین! اب تک پاکستان کے کسی بھی اعلیٰ حکومتی اور مملکتی منصب کی جانب سے تو ریمنڈ کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہونے کی بات نہیں کی گئی اس صورتحال میں آخر فوزیہ وہاب نے اتنے وثوق کے ساتھ ایک سنگین فوجداری مقدمہ کے ملزم کیلئے سفارتی استثنیٰ کا کیسے دعویٰ کردیا جبکہ ملزم کا معاملہ مجاز عدالت میں زیر سماعت ہے ‘ جس کی بنیاد پر حکومت کی جانب سے واضح طور پر باور کرایا جا چکا ہے کہ ریمنڈ کے کیس کا فیصلہ پاکستان کی مجاز عدالت نے ہی کرنا ہے ۔ اسی طرح سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خود اس امر کی گواہی دے رہے ہیں کہ انہیں ریمنڈ کے بارے میں واضح موقف اپنانے کی سزا دی جا رہی ہے جبکہ سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر تو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر ان سے کسی ملک میں سفارتی فرائض سرانجام دیتے ہوئے ریمنڈ جیسا کوئی جرم سرزد ہوا ہوتا تو وہ سفارتی استثنیٰ طلب ہی نہ کرتے ۔ فوزیہ وہاب کی جانب سے ریمنڈ کے سفارتی استثنیٰ کی وکالت کرنا قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔قارئین فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ شاہ محمود قریشی اور فوزیہ وہاب میں سے کس کا موقف ملکی مفاد میں ہے اور کون ملک کو داﺅ پر لگانے کے درپے ہے۔ ویانا کنونشن مجریہ 1961ءکے تحت کسی ڈپلومیٹک ایجنٹ کی کسی نجی رہائش کو سفارتی رہائش گاہ والی سہولتیں اور تحفظات حاصل نہیں ہونگے اور اسکی ذیلی شق (2) کے تحت کسی ڈپلومیٹک ایجنٹ کے کاغذات خط و کتاب اور اسکی پراپرٹی کو بھی سفارتی تحفظ حاصل نہیں ہو گا۔ ریمنڈ تو لاہور میں ایک نجی اقامت گاہ میں قیام پذیر تھا اور وقوعہ کے وقت وہ ایک نجی گاڑی میںمعلوم نہیں کہ کس مشن پر تھا۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رےمنڈ کسی خطرناک مشن پر ہو اور مقتولےن نے اسکے خطرناک مشن کو ناکام بنانے کے لئے قاتل کا تعاقب کر رہے ہوں۔بہر حال تحقےقاتی اےجنسیاں بہتر سمجھتی ہیں کہ تحقےقات کس کس انداز اور رُخ پر کرنی ہیں۔یہ اں میں محترمہ فوزیہ وہاب سے عرض کروں گا کہ خدارا اس ملک کو یا تو امریکہ کے حوالے کردےں یا پھر غلامانہ سوچ اور روےے ختم کردیں۔
………………………………………………………………………………………………..
محمد اکرم خان فریدی
کالم نگار
36مجاہد نگر،جنڈیالہ روڈ ،شےخوپورہ شہر
فون 03024500098