Home / Socio-political / ۔،۔۔ کٹھن مرحلہ ۔۔،۔

۔،۔۔ کٹھن مرحلہ ۔۔،۔

۔،۔۔ کٹھن مرحلہ ۔۔،۔

طارق حسین بٹ( چیر مین پیپلز ادبی فورم یو اے ای)

۱۱ مئی ۲۰۱۳؁ کے انتخا بات کیلئے جو جماعتیں اس وقت اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہی ہیں ان میں سرِ فہرست پاکستان تحریکِ انصا ف ہے۔اس نے جس طرح میاں برادران کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں وہ ایک علیحدہ داستان ہے۔میاں برادران پاکستان تحریکِ انصا ف اور پی پی پی کو مسلم لیگ (ن) کے خلاف یک مشت دیکھ رہے ہیں جس کا اظہار وہ اپنی تقاریر میں بھی کرتے ہیں۔وہ پاکستان تحریکِ انصا ف کی سرگرمیوں کو پی پی پی کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ اور سازش کا نام دیتے ہیں حالانکہ اس الزام میں بالکل کوئی صداقت نہیں ہے۔ پی پی پی اور پاکستان تحریکِ انصا ف میں کبھی بھی ا عتماد کی فضا نہیں رہی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان آصف علی زرداری کے سخت ناقدین میں شمار ہو تے ہیں۔عمران خان نے تو آصف علی زرداری کی موجودگی میں انتخابات کے شفاف ہونے پر بھی سوالات اٹھا دئے تھے اور ان کے استعفے کا مطالبہ داغ دیا تھا ۔ اگر میاں برادران ان کا ساتھ دیتے تو شائد آصف علی زرداری پر استعفے کیلئے دبائو میں مزید ا ضا فہ ہو جا تا جوان کے استعفے کی جانب پیشقدمی میں ممدو معا ون ثا بت ہو جا تا لیکن میاں برادران نے اس جانب خاموشی اختیار کر لی اور یہ کہہ کر کے یہ ایک بچگانہ مطالبہ ہے اس پر مزید اظہارِ خیال کرنا مناسب نہ سمجھاجسکی بنیاد پر عمران خان کو یہ کہنے کا موقعہ مل گیا کہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی اندر سے ملی ہوئی ہیں اور ان کا تبدیلی کے خلاف مک مکا ہو چکا ہے۔انکی ساری تقاریر کا زور ہی اسی بات پر ہے کہ ان دونوں جماعتوں نے اپنی باریاں لگا رکھی ہیں لہذا ان سے جان چھڑائی جانی انتہائی ضروری ہے۔ جب تک یہ دونوں جماعتیں اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھی رہیں گی عوام کی حالتِ زار میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے لہذا ان دونوں جماعتوں کو شکست سے ہمکنار کرنا لازمی ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں یہ کہنا کہ عمران خان آصف علی زرداری کے کسی خفیہ ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں سچائی سے نظریں چرانے کے مترادف ہے اور پھر وہ لو گ جو عمران خان کو بخوبی جانتے ہیں انھیں علم ہونا چا ئیے کہ عمران خان کس قسم کے انسان ہیں۔وہ دوسروں کی وکٹ پر کبھی بھی کھیلنا پسند نہیں کرتے۔وہ کس کے بغلی بچہ (شو بوائے) نہیں بن سکتے کیونکہ وہ ایک انا پرست اور خو دار انسان ہیں جو اپنی ذات کے احترام اور وقار کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ کرکٹ میں انکی عظمت اور شوکت خا نم کی تعمیر کاکارنامہ اس بات کا کھلا اور بین ثبوت ہے کہ عمران خان کو خریدا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اسے کھلونا بنا کر اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عمران خان اس وقت خود کو دوسرا ذولفقار علی بھٹو ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔وہ تبدیلی کو برپا دیکھنا چاہتا ہے جیسی تبدیلی ۱۹۷۰؁ میں وقوع پذیر ہوئی تھی ۔اس وقت بھی سارے وڈیرے ،چوہدری،نواب،سردار اور سرمایہ دار ایک جانب کھڑے تھے اور اکیلا ذولفقار علی بھٹو اپنے فاقہ مست سا تھیوں کے ساتھ دوسری جانب کھڑا تھا۔ کسی کوبھی یقین نہیں تھا کہ ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی بڑے بڑے برج الٹ دیگی اور معاشرے کے معمولی لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں میں لے جائیگی۔اس وقت بھی یہی کہا جاتا تھا کہ یہ لوفر اور لفنگے قسم کے چند لوگ ہیں جو جھا گ کی طرح خود ہی بیٹھ جا ئینگے لیکن اس وقت ان سب کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب لنڈے بچے قسم کے یہی لوگ پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے اور اکثر معتبر اور وڈیرے عوامی عدالت میں رسوا ہو کر خاک چا ٹنے پر مجبور ہو گئے۔ اگر ہم اس حقیقت پر غور کریں کہ ۱۹۷۰؁ اور ۲۰۱۳؁ میں تقریبا نصف صدی کا فاصلہ ہے لہذانصف صدی میں ایک اور تبدیلی نا گزیر ہے۔یہ تبدیلی کس کے ہاتھوں برپا ہوتی ہے یہ ایک الگ سوال ہے لیکن اتنا  بہر حال طے ہے کہ تبدیلی کو برپا ہو کر رہنا ہے ۔ عمران خان کو بھی ذولفقار علی بھٹو کی طرح دوسروں پر سبقت حاصل ہے کہ قوم اس سے محبت بھی کرتی ہے اور اس پر اعتماد بھی کرتی ہے۔ذولفقار علی بھٹو نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا کر اپنی عظمت کا لوہا منوایا تھا جب کہ عمران خان نے عالمی کپ جیت کر اپنا سکہ جمایا ہے ۔ ذولفقار علی بھٹو کو عالمی سیاست پر جو عبور حاصل تھا اور پھر فنِ تقریر میں اسے جو ملکہ حاصل تھا عمران خان اس سے محروم ہے۔عمران خان میں نہ ہی شعلہ بیانی ہے اور نہ ہی اسے عا لمی سیاست پر ذولفقار علی بھٹو کی طرح دسترس حاصل ہے لیکن اس کے باوجود اسے عوامی حمائت حاصل ہے کیونکہ اس نے جو نعرہ بلند کیا ہے وہ انتہائی دلکش اور پر اثر ہے۔اسے بھی ذولفقار علی بھٹو کی طرح نوجوان نسل کی حمائت حاصل ہے۔دونوں پر کشش شخصیت کے حا مل انسان ہیں لیکن ایک نے خود کو منوا لیا تھا جب کہ دوسرے کو ابھی اپنی برتری ثابت کرنی ہے۔کیا عمران خان خود کو ایک کامیاب سیاستدان ثا بت کر پائیگا ؟ اسی اہم سوال پر عمران خا ن کی ساری سیاسی زندگی کا دارو مدار ہے۔عمران خان کی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے تو یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے ہدف کو حاصل کر لیگا ۔یہ سچ ہے کہ اپنے ہدف کو حاصل کرنا اس کیلئے ہمیشہ ہی ایک محبوب مشغلہ رہا ہے لیکن سیاست کا میدان قدرے مختلف ہے کیونکہ اس میں چھوٹی سی لغزش سب کچھ بہا کر لے جاتی ہے۔۔

یہ سچ ہے کہ ۱۹۷۰؁ کے زمانے میں سیا ست کے ڈھنگ قدرے نرالے تھے۔قیامِ پاکستان کے بعد کبھی بھی با لغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کا انعقاد نہیں ہوا تھا۔ محلاتی سازشوں نے سیاست کو بالکل بے اثر کر کے رکھ دیا تھا ۔وزرائے اعظم کی تبدلیاں اور بیوور کریسی کے عمل دخل نے عوام اور حکمرانوں کے درمیان خلیج کو بہت گہرا کر دیا تھا۔ وزرا اور دیگر حکومتی اہل کاروں کا عوام سے رشتہ منقطع ہو چکا تھا ۔جمہوریت برئے نام رہ گئی تھی ۔ان حالات میں جنرل ایوب خان نے اسی بے اثر جمہوریت کا بوریا بستر گول کر کے بنیادی جمہوریت کا ایک نیا نظام متعارف کروایا تھا جس کے تحت جو انتخا بات کروائے گئے تھے ان میں عوام کو اپنے نمائندے چننے کا اختیار نہیں تھابلکہ بی ڈی ممبرز صدرِ مملکت کا انتخا ب کرتے تھے۔ان بی ڈی ممبرز کو بھی ڈپٹی کمشنر، پولیس اور انتظامیہ کی مدد سے اغوا کر لیا جاتا تھا۔عوام اصلی جمہوریت کو ترس گئے تھے۔ گھٹن اور جبر کے اس ماحول میں ذولفقار علی بھٹو نے طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں کا نعرہ لگا کر پوری سیاسی بسا ط کو پلٹ دیاتھا۔ ۱۹۷۰؁ کے انتخا بی نتائج عوام کی جمہو ریت کیلئے بے پناہ محبت کا اظہار تھے ۔عوام کو ان انتخا بات کے بعد ملکی معاملات میں شریک کیا گیا تھا لیکن آ ج کے زمینی حقا ئق ۱۹۷۰؁ سے بہت مختلف ہیں۔اب انتخا بات تواتر سے ہو رہے ہیں لیکن عوامی فلاح اور عدل و انصاف کا تصور معاشرے سے عنقا ہوتا جا رہا ہے ۔،۱۹۷۰؁ کی سیاست میں پیسے کا عمل دخل نہیں تھا لوگ کردار ،نظریات اور اصولوں پر سیاست کرتے تھے لیکن موجودہ دور میں سیا سی عمل کے اندر پیسے کی عمل داری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جس سے سٹیٹسکو نے اپنی جڑیں بہت مضبوط کر لی ہیں۔غریب ،کمزور اور محروم طبقات کا کوئی پرسانِ حا ل نہیں رہا ۔۱۹۷۰؁ کے انتخا بات نے جہاں سٹیٹسکو کے آہنی شکنجے کو توڑا تھا وہی پر عوام کو بھی احساسِ حکمرانی سے نوازا تھا ۔ ذات برادری پر ووٹ دینے کے کلچر کا خا تمہ کیا تھا لیکن جنرل ضیا ا لحق کے مارشل لانے سب کچھ تہس نہس کر کے ۱۹۸۵؁ کے غیر جماعتی انتخا بات کے ذریعے ایک دفعہ پھر ذات برادری اور خا ندانوں کی سیاست کو عروج بخشا تھا ۔اب یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے لہذا وہ سارے سیاسی حلقے جن کی آبیاری جنرل ضیا الحق کے اندازِ سیاست نے کی تھی بہت مضبوط ہوچکے ہیں۔سیاست کے ساتھ ساتھ وہ کاروباری دنیا میں بھی اپنے قدم جما چکے ہیں۔ان سارے عناصر کی نمائندگی کا شرف میاں محمد نواز شریف کو حا صل ہے کیونکہ میاں محمد نوا ز شریف ہی جنرل ضیا ا لحق کی رو حا نی اولاد ہیں لہذا ایسے سارے عناصر کا ان کے گرد جمع ہو جا نا ایک فطری عمل ہے ۔ میاں ں محمد نواز شریف اگر چہ اپنے سیاسی سفر میں اب جنرل ضیا الحق کا نام نہیں لیتے لیکن اپنے پیرو مرشد اور رو حا نی باپ کا اندازِ سیاست ان کے قلب و نگاہ کے اندر ہے جسے چھوڑ دینا ان کیلئے ممکن نہیں ہے ۔کیا عمران خان ان مضبوط عناصر کی موجودگی میں وہ تبدیلی برپا کر سکیں گئے جو ۱۹۷۰؁ میں ذولفقار علی بھٹو نے برپا کی تھی ؟ ایک کٹھن مر حلہ ہے جس کا بیڑہ عمران خان نے اٹھا یا ہے۔یہ سچ ہے کہ اسے عوامی تائید حا صل ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ استحصالی گروہ بہت طاقتور ہیں جھنیں شکست دینا آسان نہیں ہے ۔کیا عمران خان انھیں شکست دینے کا کرشمہ دکھا سکتا ہے؟۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *