طارق حسین بٹ( چیر مین پیپلز ادبی فورم یو اے ای)
میڈیا ، فوج، عدلیہ اور سیاستدان اس وقت پاکستان کے وہ چار بڑے اہم طبقے ہیں جو حکومت پرنظر یں جمائے ہوئے ہیں اور اپنی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔میڈیا اس دور کا سب سے موثر ذر یعہ ابلاغ ہے ۔ یہ لوگوں کو حالا تِ حاضرہ سے باخبر بھی رکھتا ہے اور لوگو ں کی رائے سازی میں بڑا اہم کردار بھی ادا کرتا ہے۔میڈیا کے بغیر آج کی دنیا کا تصور ہی عجیب لگتا ہے۔ آج کا نوجوان تو میڈیا کے بغیر زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اسے بھلے ہی کھانے کو کچھ نہ ملے لیکن میڈیا تک اس کی رسائی ہر حال میں ہو نی چائیے تاکہ صنفِ نازک سے اس کی چیٹنگ اور رابطہ متاثر نہ ہو سکے لیکن بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا بڑی ہی کمزور وکٹ پر کھیل رہا ہے کیونکہ اس کے پاس الزام تراشیوں اور سنسنی خیزی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ و ہ حکومت پر قبضہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسکے پاس کوئی قانونی،اخلاقی اور آئینی اختیار نہیں ہے جس سے وہ حکومتیں گرانے کا کارنامہ سر انجام دے سکے اور حکمرا نو ںکو دباؤ میں رکھ کر انھیں اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کر سکے۔ میڈیا ڈ ھنڈو رچی کا کردار تو ضرور ادا کر سکتا ہے لیکن حکومت کو آئینی اور انتظامی بحران میں مبتلا کرنا اس کے دائرہ اختیار سے ماورا ہے ۔فوج کے پاس عسکری قوت ہو تی ہے اور ملک کی سب سے بڑی منظم جماعت سمجھی جاتی ہے اسکے پاس چونکہ اسلحہ اور طاقت ہو تی ہے لہذا اس کے بل بوتے پر وہ جب چاہے اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے۔ جنرل ایوب خان، جنر ل یحی خان،جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف اسکی واضح مثا لیں ہیں جنھوں نے ۳۵ سالوں تک اقتدار کو اپنی مٹھی میں بند کر رکھا اورسیا ستد انوں کو جلاوطنیوں اور زندانوں کے حوالے کئے رکھا ۔ جنرل ضیا الحق تو برملا کہا کرتا تھا کہ سیاستدانوں کی میرے سامنے کوئی اوقات نہیں ہے میں جب چاہوں سیاستدان دم ہلاتے ہوئے میر ے آگے پیچھے گھو میں گئے کیونکہ اقتدار میری مٹھی میں بند ہے ۔ جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی ایک ایسا الم ناک واقعہ ہے جس نے پاکستانی سیاست کو نفرتوں کی ایسی دلدل میں دھکیل رکھا ہے جس سے یہ آج تک باہر نہیں نکل سکی۔ لوگ آج بھی ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل سے تعبیر کرتے ہیں اور جنرل ضیا ا لحق کو ایک سفاک اور بے رحم قاتل کے روپ میں دیکھتے ہیں۔پھانسی کی اس وارد ت نے ذولفقار علی بھٹو کو ایک ایسے ہیرو کا روپ عطا کر دیا ہے جس سے ساری دنیا کے لوگ محبت کرتے ہیں ۔جنرل پرویز مشرف کے دور میںجب میاں محمد نواز شریف پر آزمائش کی ایسی ہی گھڑی آئی تھی تو وہ معافی نا مے پر دستخط کر کے سعودی عرب جلا وطن ہو گئے تھے۔ عوام نے ان کے اس انداز کو پسند نہیں کیا تھا وہ ان سے بھی ذولفقار علی بھٹو جیسی جرات کا اظہار چاہتے تھے لیکن ہر شخص تو ذولفقار علی بھٹو نہیں ہوا کرتا۔جنرل پرویز مشرف کے دورِِ حکومت میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی معزولی ا ور بحالی کے بعد عدلیہ خود کو آزاد تصور کرتی ہے اور حکومت پر اسکی نظریں جمی ہو ئی ہیں۔ فوج کی طرح وہ بھی اپنی قسمت آزمائی کرنا چا ہتی ہے جسکا آغاز حکومت کے خلاف مختلف قسم کے مقدمات کھول کر کیا گیا ہے۔ سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی بھی اسی خوا ہش کی تکمیل کی جانب اہم قدم ہے۔نئے وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف کو بھی اسی طر ح کی مثال بنانے کی تیاریاں مکمل کی جا رہی تھیں تاکہ کسی مخصوص اور من پسند جماعت کیلئے اقتدار کی راہیں آسان بنائی جا سکیں لیکن اس دفعہ عدالت اپنی پرانی کامیابی کو دہرا نہیں سکی کیونکہ حکومت نے عدلیہ کے عزائم کو خا ک میں ملانے کی بہتر منصوبہ بندی کر لی تھی ۔ ۔ توہینِ عدالت کا نیا قانون حکومتی حکمتِعملی کا واضح اشارہ تھا جس سے منہ زور عدلیہ کو لگام دینے کی کوشش کی گئی تھی لیکن حکومت اس میں کامیا ب نہیں ہو سکی تھی کیونکہ عدلیہ نے اپنے اختیار ات استعمال کرتے ہوئے اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا تھا ۔ اس بات کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کریگا کہ آخرِ کار کس کی ہار اور کس کی جیت ہو ئی ۔میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ اس دفعہ حکومت نے بہتر منصوبہ بندی کر کے عدلیہ کو وہ کچھ نہیں کرنے دیا جس کا عدلیہ خواب دیکھ رہی تھی ۔ضمنی انتخابات میں کامیابیو ں نے پی پی پی کو نیا اعتماد عطا کیا تھا اور اس کیلئے اہم فیصلے کرنے آ سا ن ہو گئے تھے ۔ ۱۴ نومبر نئی تا ریخ تھی جس دن وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف کی قسمت کا فیصلہ ہوناتھا ۔ میں تو اسے جمہوری نظام کی خوش بختی ہی کہوں گا کہ اس دن توہینِ عدالت کی پٹیشن خارج ہو گئی اور حکومت اپنے وزیرِ اعظم کو بچانے میں کامیاب ہو گئی۔ یہ وہی موقف ہے جسے کل تک عدالت ماننے پر تیار نہیں تھی لیکن یوسف رضا گیلانی کی رخصتی کے بعد اس پر سخت دباؤ تھا جس سے اس کیلئے ایک اور وزیرِ اعظم کو نا اہل کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ آصف علی زرداری نے اس دفعہ اپنے پتے بہتر انداز میں کھیلے اور بھر پور وار کرکے وہ کچھ حاصل کر لیا جسے وہ پہلے حاصل نہیں کر پائے تھے ۔۔
پاکستان میں چند افراد نے پورے جمہوری نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ کوئی فرد کوئی ادارہ ان مٹھی بھر افراد کے خلاف لب کشائی کی جرات نہیں کر سکتا۔ کیونکہ عدالت ان پرتوہینِ عدالت کی فردِ جرم لگا کر انکی زندگی کو اجیرن کرنے کی قوت رکھتی ہے ۔پارلیمنٹ جسے اتھارٹی کا منبہ تصور کیا جاتا ہے اسکی حیثیت ثانوی ہو چکی ہے اور عدالتوں کے چند ججز ہر قسم کے اختیارات کا منبہ بن چکے ہیں۔میں تو اسے آئینی سقم سے ہی تشبیہ دونگا کہ آئین میں اس صو رتِ حال کا کوئی موثر حل موجود نہیں ہے ۔ عدالتوں کا کام پارلیمنٹ کے مدون شدہ قوانین پر عمل درآمد کرنا ور انکی حقیقی رو ح کے مطابق فیصلے صادر کرنا ہوتا ہے جو کہ دیکھنے میں نہیں آرہا بلکہ عدلیہ آئین و قانون کی سرپرست بن کر ابھر رہی ہے۔پارلیمنٹ کوئی قانون منظور کرتی ہے تو عدلیہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر اسے معطل کر دیتی ہے اسطر ح کا انداز پار لیمنٹ کے اختیارات سلب کرنے کے مترادف ہے جسکی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ پارلیمنٹ کے قوانین کو اسطر ح معطل کرنے کے اختیارات نہیں رکھتی لیکن ہمارے ہاں چونکہ پارلیمنٹ کو ایک بے کار ادارہ ثا یت کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں جسکی وجہ سے عدلیہ کی حا کمیت کا نیا تصور ابھرا ہے اور جس کی بدولت پورے پاکستان پر سپریم کورٹ کی عملا عکومت قائم ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ کو حکو مت کرنے اور انتظامی امور کے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے؟اس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ یہ عدلیہ کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا میدان ہے لیکن عدلیہ نے اسے بزور اپنا میدا ن بنا لیا ہے اور من پسند فیصلے صادر کرکے حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل اور پاکستان کی بقا کا دارو مدار اس سوال پر ہے کہ قوم کے فیصلے عدلیہ نے سر انجام دینے ہیں یا پار لیمنٹ ایسا کرنے کی مجاز ہے۔غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اس وقت عدلیہ کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ پارلیمنٹ اس کے سامنے بھیگی بلی بنی ہو ئی ہے۔ موجودہ جو ڈیشل ایکٹو ازم کی نئی روش کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کریگا لیکن فی الحال عدلیہ نے پارلیمنٹ کو اپنے پیروں تلے دبا رکھا ہے اور وہ درد سے تلملا رہی ہے لیکن کچھ کر گزرنے سے معذور ہے۔ چند حکومتی عمائدین کی طرف سے عدلیہ کے کردار پر سخت بیانات داغے جاتے ہیں ، الزامات لگائے جاتے ہیں اور سخت تنقید بھی کی جاتی ہے لیکن حکومت کو کوئی ایسی کوئی گدڑ سنگھی نہیں مل رہی جس سے وہ عدلیہ کو سرنگوں کر کے پارلیمنٹ کی بالا دستی قائم کر سکے۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت عدلیہ کے اس جان لیوا شکنجے سے چھٹکارا حاصل کرنا چا ہتی ہے لیکن اسے کوئی راہ نظر نہیں آرہی کیونکہ آئین اسے اس راہ سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں دکھا رہا ۔دنیا میں سارے ادار ے کسی نہ کسی کو جواب دہ ہوتے ہیں۔ وزیرِ اعظم پارلیمنٹ کو جواب دہ ہو تا ہے ۔ اسے پارلیمنٹ کے اکثریتی ارکان کی حمائت حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے وگرنہ بصو رتِ دیگر اسے اپنے عہدے سے مستعفی ہو نا پڑتا ہے ۔صدر کے خلا ف مواخذے کی تحریک سے صدر کو ان کے عہدے سے فارغ کیا جاتاہے۔ جنرل پرویزمشرف اور سردار فاروق لغا ری مو اخذے کی تحریکوں کے خوف سے ہی مستعفی ہو ئے تھے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ چیف جسٹس کو فارغ کرنے کیلئے آئین میں کوئی بھی طریقہ مو جو د نہیں ہے جسکی وجہ سے تصادم اپنے پورے عروج پر ہے ۔ ایک ادارہ سپریم جوڈیشل کونسل کاہے جس میں ججز اپنے سا تھی ججز کے مقدر کا فیصلہ کر سکتے ہیں لیکن اگر تمام ججز تہیہ کر لیں کہ انھوں نے حکومت کو تگنی کا ناچ نچانا ہے تو پھر حکومت کیلئے بچ جانے کے امکانا ت باقی نہیں رہتے اور اس وقت پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا اور حکومت منہ دیکھتی رہ گئی ہے وہ اپنے وزیرِ اعظم کو عدلیہ کی تلوار سے بچا نہ سکی۔اب صدرِ پاکستان پر بھی توہینِ عدالت کی تلوار لٹکا دی گئی جس سے عدلیہ کی موجودہ یلغار کو روکنا اس کے بس میں نظر نہیں آتا ۔اگر حکومت اس یلغار کر روک کر جموری روایات کو مضبوط کرنا چاہتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کو عدلیہ کی موجودہ روش سے نجات حاصل کرنے کیلئے قانون سازی کرنی ہو گی۔ پارلیمنٹ ہی وہ واحد ادارہ ہے جو ملکی مسائل کو حل کر سکتا ہے ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مارچ ۱۹۹۳ میں وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اور صدررِ پاکستان غلام اسحاق خان کے درمیان کشیدگی نے جنم لیا تھا جسکی وجہ سے ان دونوں کے درمیان تصاد م نا گزیر ہو گیا تھا ۔ آئین کی شق ۵۸ ٹوبی کے تحت صدررِ پاکستان غلام اسحاق خان نے میاں محمد نواز شریف کی حکومت برخاست کر دی تھی جسے سپریم کورٹ نے بحال کر دیا تھا لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کا استد لا ل تھا کہ چونکہ مسئلہ سیاسی ہے لہذا عدالتوں سے بحالی بھی اسے سلجھا نہیں سکے گی کیونکہ سیاسی مسئلے عدالتوں میں نہیں سیاسی مید ان میں حل کئے جاتے ہیں ۔ ان کا کہنا بالکل درست ثابت ہوا اور میاں محمد نواز شریف اور غلام اسخاق خان کو اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہو کر نئے انتخابات کا علان کرنا پڑا تھا۔ مسئلہ سیاسی تھا جسے سیاسی انداز میں ہی حل کیا گیا تھا۔اب بھی عدلیہ کھلم کھلا اختیارات استعمال کر نے کے باوجود سیاسی گتھیوں کو سلجھا نہیں سکے گی کیونکہ یہ اس کا میدان نہیں ہے ۔ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات کے مصداق عدلیہ پارلیمنٹ سے ٹکر نہیں لے سکتی کیونکہ اسے آئین سازی کا اختیار حاصل نہیں ہوتا اور پھر انتظامی معاملات بھی اس کی پہنچ میں نہیں ہو تے۔وہ حکم تو صادر کر سکتی ہے لیکن اسے عملی جامہ پہنانے سے قا صر ہوتی ہے۔۔ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،