Home / Socio-political / ۔۔،، ۔۔ تبدیلی ۔۔،،۔۔

۔۔،، ۔۔ تبدیلی ۔۔،،۔۔

ِِِِِِِِِ

۔۔،، ۔۔ تبدیلی ۔۔،،۔۔

طارق حسین بٹ(چیرمین پیپلز ادبی فورم یو اے ای )

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی بھی ذی شعور انسان کو مفر نہیں ہے۔تبدیلی کا ایک موسم ہو تا ہے جو اپنا رنگ دکھا کر رہتا ہے۔ یہ قانونِ فطرت بھی ہے اور ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ بھی ہے کہ جو قومیں تغیر نا آشنا ہو جاتی ہیں وہ حرفِ غلط کی طرح مٹ جایا کرتی ہیں کیونکہ جمود ترقی اور خو شخا لی کی راہیں ہی مسدود نہیں کر تا بلکہ قوموں کو ایک محدود دائرے میں قید بھی کر دیتا ہے جس سے ان کے اندر توانائی کا مادہ دھیرے دھیرے ضعف کا شکار ہو جاتا ہے۔تبدیلی بذاتِ خود ایک بہت بڑی قوت ہے جو انسانوں کے اندر نئی امنگوں اور آرزوئوں کو جنم دیتی ہے۔ تبدیلی کا عمل رک جانے کا مطلب سٹیٹسکو کو قائم رکھنا ہو تا ہے جو کسی بھی ملک کے لئے تباہی کا اعلان ہوتا ہے۔ موجودہ د نیا آزادیوں اور جمہوری قدروں کی دنیا ہے جس میں ذاتی رائے، سوچ، خیالات اور نظریات پر قدغن لگا نا ممکن نہیں ہے۔آزاد سوچ ہمیشہ تبدیلی کی پیام بر بنتی ہے اور یہی کچھ آج کی دنیا کا طرہِ امتیاز ہے۔موجودہ دنیا اتنی تیزی سے بدل رہی ہے کہ ہمیں خود اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا کہ ایسا کس طرح ممکن ہو گیا ہے ؟پرانی قدریں ،تہذ یب وتمدن اور کلچر دم توڑ ر ہا ہے اور نیا کلچر خود کو آشکار کر رہا ہے۔ فرسودہ خیالات،توہمات اور پرم پرا ہ کے داعیوں کو اس نئے کلچر پر بہت سے تحفظات ہیں لیکن سچائی یہی ہے کہ دنیا بدل چکی ہے اور پرانی روایات لپیٹ کر طاقِ نسیاں کر دی دی گئی ہیں ۔جو کوئی اس حقیقت کو جتنی جلدی تسلیم کر لے گا اس کی بقا اور وجود خطروں سے محفوظ ہو جائیگا وگرنہ تبدیلی کا یہ طوفان ان کا سب کچھ بہا کر لے جائیگا جن پر وہ فخر اور ناز کیا کرتے تھے۔موجودہ تبدیلی کی ہوا کے سامنے وہ بالکل تنہا کھڑے رہ جائینگے اور دنیا کہاں سے کہاں پہنچ جائیگی۔تبدیلی کی یہی ایک سچائی تھی جس کے پیشِ نظر شاعرِ مشرق نے کہا تھا کہ تبدیلی کو ہمیشہ خو ش آمدید کرتے رہا کرو کیونکہ تبدیلی ہی تمھاری زندگی میں انقلاب پرپا کر سکتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو تبدیلی کی آواز پر لبیک نہیں کہتے ان کے نقشِ کفِ پا بھی نہیں ملتے اور وہ وقت کی دھول میں گم ہو جاتے ہیں۔۔

آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا۔۔۔۔۔منزل کھٹن یہی ہے قوموں کی زندگی میں   (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال )

کمال یہ ہے کہ تبدیلی کا یہ شعور کسی خا ص خطے کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتا بلکہ دنیا کا ہر معاشرہ اس تبدیلی کا مرکز بنتاہے۔ امریکہ جو اس وقت شخصی آزادیوں اور جمہوری رویوں کا چیمپین بنا ہوا ہے اس کے ہاں بھی تبدیلی کا نعرہ لگتا ہے اور لوگ اس نعرے کوشرفِ ِ قبولیت بخشتے ہیں۔یہ بڑا عجیب لگتا ہے کہ امریکہ جیسا جمہوری ملک بھی تبدیلی کا نقیب بنا ہوا ہے حا لانکہ امریکیوں کو کسی ایسی آمرانہ صورتِ حال سے واسطہ نہیں پڑتا جو تیسری دنیا میں مروج ہے اور جس نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو تہس نہہس کر کے رکھ دیا ہوا ہے۔ بارک حسین اوبامہ جو اس وقت صدرِ امریکہ ہیں تبدیلی (چینج) کے نعرے سے سیاست میں وارد ہوئے اور دنیا کی نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔ایک سیاہ فام امریکہ کا صدر بنا جس کا چند سال قبل تک ا مریکی معاشرے میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ اس نے تبدیلی کے دلکش نعرے سے اپنے حریفوںکو اس بری طرح سے بچھاڑ دیا کہ دنیا شسدر رہ گئی لہذا ثابت ہوا کہ تبدیلی کا نعرہ اثر آفرینی رکھتا ہے تبھی تو امریکیوں نے تبدیلی کے اس نعرے پر مہرِ تصدیق ثبت کر کے صدیوں کی روایات کا جنازہ نکال دیا تھا اور رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانی تفر یق کو رد کر کے ایک سفید فام کے مقابلے میں ایک سیاہ فام کو صدر منتخب کیا تھا۔بہر حال یہ ایک خاموش انقلاب تھا جسے دنیا نے خود اپنی آنکھوں کے سامنے بر پا ہوتے ہوئے دیکھا ۔ کمال  یہ ہے کہ یہ انقلاب شمشیر و سنا سے نہیں بلکہ ووٹ کی قوت سے رونما ہوا تھا ۔ووٹ جسکی ہمارے ہاں کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ ا ہلِ ثروت اس ووٹ کو حیلوں بہانوں سے خرید لیتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ تبدیلی جسکا وعدہ امریکیوں کے ساتھ کیا گیا وہ پورا ہوا یا کہ  نہیں؟بادی الالنظر میں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ تبدیلی کا نعرہ ایک نعرہ ہی تھا جو فریبِ نظر کے سوا کچھ بھی نہیں تھا اورا س نعرے سے امر یکیوں کو بیو قوف بنایا گیا تھا۔ افغا نستان میں فوجی مداخلت سے امریکی معیشت تباہ و برباد ہونے لگی تو بارک حسین اوبامہ امن اور تبدیلی کا نعرہ لے کر میدان میں اترے لیکن ان کا یہ نعرہ امریکی پالیسیوں پر کوئی مثبت اور دیر تاثر قائم کرنے میں ناکام رہا کیونکہ امریکہ کی جو معاشی صورتِ حال ہے آج ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ تبدیلی کا نعرہ فقط نعرہ تھا جس کا واحد مقصد انتخابی معرکے کو سر کرنا تھا ۔امریکہ اس وقت معاشی مصائب کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے بجٹ کا میزانیہ اور خسارہ اپنی انتہائوں کو چھو رہا ہے۔اگر امریکہ نے اس جانب توجہ نہ کی تو اس کے دیوالیہ ہونے کے کافی امکانات ہیں۔اوبا مہ انتظامیہ مختلف قسم کے آپشن پر غو ر و حوض کر رہی ہے لیکن فی لحال انھیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی کہ اس بحران سے کیسے نپٹا جائے۔یہ سب کچھ اس صدر کے دور میں ہو رہاہے جس نے تاریخ کے بہائو کو روکا تھااور تبدیلی کا نیا نعرہ لگایا تھا۔۔

برِ صغیر پاک و ہند ایک ایسا خطہ زمین تھا جو الگ الگ آزاد ریاستوں میں منقسم تھا اورجس نے صدیوں کے سفر میں بھی اپنی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھا تھا۔ یہ سچ ہے کہ مغلِ اعظم کے دور میں یہ ساری ریاستیں مغلیہ سلطنت کے زیرِ نگین آ گئی تھیں لیکن اس کیلئے بھی کیسے کیسے جتن کئے گئے تھے اور کتنی خوفنا ک جنگیں لڑی گئی تھیںلیکن اپنی انفرادی حیثیت سے دستبردار ہونے کیلئے پھر بھی کوئی ریاست تیار نہیں تھی لیکن ان ریاستوں کی کمزور فوجی حیثیت نے ایساممکن بنا دیا تھا۔انگریزوں کی آمد پران کی آزادانہ حیثیت متا ثر ہوئی اور یہ ساری ریاستیں یونین جیک کے جھنڈے تلے ایک مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام آ گئیں اور وہ سب کچھ جو صدیوں میں ممکن نہ ہو سکا برطانیہ کے تسلط نے ممکن بنا دیا۔ اگست ۱۹۴۷؁ میں برطانیہ سے آزادی کے وقت ہندوستان گیارہ صوبوں میں منقسم تھا اور ہر ایک صوبے کے اندر کئی کئی ریا ستیں تھیںلیکن پھر بھی انھوں نے اپنی علیحدہ شناخت پر زور نہیں دیا تھا کیونکہ برطانوی حکومت کی طاقت ان ریاستوں کی طاقت سے کئی گناہ زیادہ تھی لہذا ریاستوں کے پاس سرنگوں ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا ۔۱۴ اگست  ۱۹۴۷؁ کو ہندوستان دو علیحدہ ملکوں میں تقسیم ہوا جس میں ایک کا نام بھارت رکھا گیا جب کے دوسرے کو دینا پاکستان کے نام سے پکارتی ہے۔یہ ایک ایسی تا ر یخ ساز تبدیلی تھی جسے چشمِ فلک شائد دوبارہ نہ دیکھ سکے کیونکہ ایک نظریے کی بنیاد پر علیحدہ وطن کا قیام ایک ایسا محیر العقول واقعہ تھا جس نے متحدہ ہندوستان کی قسمت کا فیصلے کر کے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کو ممکن بنا دیا تھا۔پاکستان کے قیام کی ذمہ داری قائدِ اعظم محمد علی جناح کے کندھوں پر آن پڑی تھی اور انھوں نے اپنی فہم و فراست کی قوت سے اس ناممکن ہدف کو کو ممکن بنا کر دکھا دیا تھا۔یہ ایک ایسی تبدیلی تھی جس نے بر صغیر کے نقشے کو بدلنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا مستقبل بھی محفوظ بنا دیا تھا ۔مہاتما گاندھی ،پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل اس تبدیلی کے سخت مخالفین میں شمار ہو تے تھے لیکن چونکہ تبدیلی نا گزیر ہو چکی تھی لہذان قائدین کی کوششیں رائیگاں گئیں اور تبدیلی بر پا ہو کر رہی۔یہ وہ زمانہ تھا جب قائدِ اعظم محمد علی جناح کی عظمتوں کا ڈنکا ہر سو بج رہا تھا۔ پوری قوم ان کی قیات میں متحد ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ہوئی تھی ۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں لائی ہوئی یہ تاریخی تبدیلی ایک نئی صبح کی نوید بن رہی تھی۔ غلام اور محکوم قوموں کیلئے پاکستان ایک نئی علامت بن کر ابھرا تھا اور دنیا بھر کی قومیں اس کی جانب رشک بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیںلیکن قائدِ اعظم محمد علی جناح کی بے وقت موت نے اس تبدیلی کو با لکل الٹ کر رکھ دیا ۔جس عظیم مقصد کیلئے یہ تبدیلی لائی گئی تھی وہ بے ثمر ہونے لگی کیونکہ قا ئدِ اعظم کی رحلت کے بعد ملکی معاملات کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جن کا اس تبدیلی سے کوئی واسطہ اور تعلق نہیں تھا۔اسٹیبلشمنٹ،فوجی جنتا،جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور بیوو کریسی نے باہم مل کر اس ملک کے ساتھ جو کچھ روا رکھا وہ کسی ا لمیہ سے کم نہیں۔۔(جاری ہے)۔۔

،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *