طارق حسین بٹ( چیر مین پیپلز ادبی فورم یو اے ای)
پی پی پی کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں مفاہمتی سیاست نے جو گل کھلائے وہ سب کے سامنے ہیں ۔جس طرح کی گورنس کا منظر پیش کیا گیا وہ پی پی پی کے فلسفے سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔پی پی پی ایک عوامی جماعت ہے لیکن اس نے عوام کو جس بری طرح سے مسائل کو شکار کیا اس نے اس کی ساری مقبولیت کو ہوا کر دیا ہے ۔پی پی پی کا دورِ حکومت کرپشن، لوڈ شیڈنگ ،مہنگائی اور بے روزگاری کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔اس دور میں دھشت گردی نے اپنی جڑیں مضبوط کیں اور امن وامان ایک خواب بن کر رہ گیا۔دن دھاڑے قتل اور اغوا برائے تاوان معمول کے واقعات ٹھہرے۔کسی کے جان و مال کی کوئی ضمانت نہیں تھی ۔ صبح کو گھر سے نکلا ہوا شخص زندہ لوٹ کر آئے گا اس بات کا کسی کو کوئی یقین نہیں ہوتا تھا۔ ٹارگٹ کلنگ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یوں پاکستان کی پہچان ایک ایسے ملک کے طور پر ہونے لگی جس میں کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں اور جس کے آنگن میں موت ناچ رہی ہے ۔ اس ساری صورتِ حال میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے تھے اگر اپوزیشن اپنا آئینی کردار ادا کرتی اور غلط کاموں پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتی لیکن وہ تو مفاہمتی سیاست کی ڈور سے بندھی ہوئی تھی لہذا اس نے حکومت کے ہر اچھے برے فیصلے سے آپنی آنکھیں بند کر لیں۔ پہلا سال تو مشترکہ حکومت کی نذر ہوا جس میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اکٹھی شریکِ اقتدار بنیں لہذا اس دور میں تو اپوزیشن کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ایک سال کے بعد ججز بحالی کے ایشو پر ان دونوں جماعتوں کے راستے الگ ہوئے تو پھر بھی صورتِ حال جوں کی توں ہی تھی۔ مسلم لیگ (ن پنجاب میں موج میلہ کرتی رہی اور پی پی پی مرکز اور باقی صوبوں میں اپنی ڈفلی بجاتی رہی ۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب قاتل لیگ ،مسلم لیگ (ق) بھی مفاہمتی سیاست کے ثمرات سمیٹنے لگی۔پاکستان کی کوئی قابلِ ذکر جماعت ایسی نہیں تھی جو اقتدار کے ایوانوں سے دور ہو۔سب کو حصہ بقدرے جثہ مل گیا تھا اور یہی مفاہمتی سیاست کا مفہوم لیا گیا تھا حالانکہ مفاہمتی سیاست کے یہ معنی ہر گز نہیں تھے کے کرپٹ عناصر کو کھلی چھٹی دے دی جائے ۔ا س روش کا نتیجہ تو نوشتہ دیوار تھا لہذا ان پانچ سالوں میںقرضوں کی مد میں بے شمار اضافہ ہوا،کرپشن ہمالیہ کی بندیوں کو چھونے لگی،کئی اہم قومی ادارہے تباہ ہوئے،امن و امان کا نام و نشان مٹ گیا۔انرجی کرائسس نے عوام کی جان نکال لی اور بے روزگاری سے تنگ آ کر لوگوں نے خود کشیاں شروع کر دیں۔آصف علی زرداری صدارتی محل میں محصور ہو گئے اور انھیں سب اچھا ہے کی رپورٹ ملتی رہی ۔جموریت پسند حلقے چیختے چلاتے رہے اور انصاف کے متلاشی دہائی دیتے رہے لیکن کون تھا جو ان کی آہ و بکا ہ کو سنتا یہاں تو راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا ۔سب سے زیادہ زیادتی جیالوں کے ساتھ ہوئی جھنوں نے ایک جدید اور ترقی پسند معاشرے کا خواب دیکھا تھا اور جن کی بے مثال جدو جہد سے جمہوریت کا سورج روشن تھا۔ جن کی قائد نے موت کے سامنے سینہ سپر ہو کر عوامی حا کمیت کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔جیالوں کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا اور ن کی جگہ خو شامدی ٹو لے کو خوش آمدید کہہ کر اقربا پروری کو فروغ دیا گیا ۔جو جتنی خو شامد کا ماہر تھا وہ ا تنے ہی بڑے عہدے کا ھقدار ٹھہرا۔ میرٹ کا کہیں بھی نا م و نشان نہیں تھا ۔دوستوں کا ایک مخصوص حلقہ تھا اور نوازشوں کی ساری بارش انہی پر ہوتی رہی۔بی بی کے قریبی ساتھی یہ سارا منظر دیکھتے رہے۔ انھیں صرف دیکھنے کی اجازت تھی کیونکہ امورِ مملکت میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا۔اقتدار ان کے لئے شجرِ ممنوعہ تھا کیونکہ ان میں سچ کو سچ کہنے کی قوت ابھی تک زندہ تھی اور یہ انداز حکمرانوں کو پسند نہیں تھا۔۔
عوام نے ۱۱ مئی ۲۰۱۳ کے انتخا بات میں پی پی پی کے اس طرزِ عمل کے خلاف کھلی بغاوت کر دی اور اسے عبرتناک شکست سے دوچار کر دیا۔ایک ایسی جماعت جس کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو ہے وہ اپنے آپ کو عوامی غیظ و غضب سے نہ بچا سکی ۔ سندھ کے سوا باقی سارے ملک میں پی پی پی کا صفایا ہوگیا۔مسلم لیگ (ن) ایک بڑی قوت بن کر ابھری ۔عوام نے اس جماعت سے بڑی توقعات وابستہ کر لیں کہ شائد حالات میں بہتری کے امکانات پیدا ہو جائیں اور انھیںوہ سحر دیکھنا نصیب ہو جائے جو ان کا دیرینہ خواب ہے لیکن ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہی دے رہا کیونکہ مسلم لیگ کی اپنی تجیحات ہیں ۔مسلم لیگ (ن) نے مہنگائی کے جس جن کو بوتل سے باہر نکالا ہے وہ وہ عوام کی گردنیں مروڑ رہا ہے۔ قرضوں کی مد میں بے پناہ اضافے ، بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔لوگ مہنگائی کے بوجھ سے مرتے جا رہے ہیں لیکن نیرو بنسری بجا رہا ہے۔لوگوں نے پی پی پی کو محض اس وجہ سے مسترد کیا تھا کہ اس کی پالیسیاں عوام کش ہیں اور اسے عوامی فلاح و بہبود سے کئی دلچسپی نہیں ہے لیکن مسلم لیگ (ن) تو پی پی پی سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔لوگوں کو یقین آگیا ہے کہ شیر ایک ایسا جانور ہے جو چیر پھاڑ کرنے میں ماہر ہے اور وہ اپنا کام انتہائی ایمانداری سے سر انجام دے رہا ہے۔جمہوریت کے معنی تو عومی مسائل کو حل کرنا اور عوام کی حالتِ زار کو بدلنا ہوتا ہے لیکن پاکستانی سیاست میں حکمران اپنی حالت کو بدلنے میں لگ جاتے ہیں جس سے عوام کا کچومر نکل جاتا ہے۔اب حا لت یہ ہے کہ عوام دونوں بڑی جماعتوں سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں ۔انھوں نے عمران خان کی صور رت میں ایک تبدیلی کی کوشش کی تھی لیکن دھاندلی اور دوسرے بہت سے عوامل کی وجہ سے وہ تبدیلی بھی برپا نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے عوام جمہوریت سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں ۔عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے وو ٹوں ے ساتھ سازش کی گئی ہے اور ایک مخصوص جماعت کو زبردسی جتوایا گیا ہے ۔ا نتخابی سیاست سے مایوسی کے معنی یہ نہیں کہ وہ طالع آزمائوں کا ساتھ دینا چاہتے ہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انقلاب کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
عمران خان اس وقت بھی امید کی ایک کرن کی صورت میں اب بھی سب کی توجہ کا مرکز ہیں ۔ان کا بے داغ ماضی اور کھرا پن اب بھی عوام کو ایک امید اور حو صلہ دے رہا ہے۔مایوسی کفر ہے اور پاکستانی عوام مایوسی کی اس حد تک نہیں گئے جہاں ہر چیز الٹ جاتی ہے اور کونی انقلاب اپنا رنگ دکھاتا ہے ۔وہ اب بھی جمہوری دائرے میں رہ کر ملک کا مقدر بدلنا چاہتے ہیں لیکن اگر تبدیلی کے سارے راستے مسدود کر دئے گئے تو پھر خونی انقلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ہمار ا موجودہ نظام بالکل بوسیدہ ہو چکا ہے ،کرپٹ ہو چکا ہے اور یہ زندہ رہنے کی صلاحیت کھو چکا ہے ۔یہ عدل و ا نصاف کی صلاحیتوں سے عاری ہو چکا ہے ۔یہ طبقاتی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔اس کی نظر میں اعلی اور کمتر کی تخصیص واضح تر ہوتی جا رہی جس کی وجہ سے یہ جمہور کے حقوق کی حفاظت کرنے سے عاری ہو چکا ہے ۔اس میں مفادِ خویش کی ریشہ دوانیاں گہری ہوتی جا رہی ہیں،یہ ارتکازِ دولت کی راہیں کھولتا ہے، یہ حرص و ہوس کی جولانیوں کو شہ دیتا ہے ،یہ کمزوروں کو کچلنے کے راستے دکھاتا ہے، یہ ا ستحصال کرنے کے نئے حربے سکھاتا ہے اور کمزوروں، ناتوانوں اور محروموں پر ظلم و جبر کے نت نئے طریقے سجھاتاہے۔ یہ تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے کہ وہ نظام جو بوسیدہ ہو جائے وہ حیات بخش نتائج دینے سے قاصر ہو جاتاہے اور پاکستان کا موجودہ نطام بھی اسی بوسیدہ پن کی انتہائی نا قص شکل ہے۔یاد رکھیں خونی انقلاب پہلے ہی ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے اور طالبان موجودہ نظام کی جگہ ایک نیا نظام لانے کی دہائی دے رہے ہیں۔ایک ایسا نظام جس میں کردار کی بالا دستی ہو گی، فحا شی کاگزر ز نہیں ہو گا، بے حیائی کا رواج نہیں ہوگا ، جمہوریت کے بکھیڑے نہیں ہوں گئے ، ووٹوں کی خر یدو فروخت نہیں ہو گی، کمزور وں کوطاقتور بنایا جائیگا اور جس میںہر ایک کے لئے انصاف کے دروازے یکساں کھلے ہوں گئے ۔ طالبان کی اس یلغار کو اسی صورت میں روکا جا سکتا ہے کہ ہم اپنا نظامِ حکومت شفاف بنیادوں پر استوار ر لیں وگرنہ طالبان کے ہاتھوں گردن زدنی سے بچنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں رہیگا۔۔۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،