Home / Socio-political / اسی میں سب کا بھلا ہے

اسی میں سب کا بھلا ہے

اسی میں سب کا بھلا ہے

سمیع اللہ ملک

اسلام کے بارے میںجوخبط(Complex)پیداہوچکاہے ،وہ خودمغرب اوراستعمارہی کیلئے خطرہ بن ہے۔ یہ خبط مغرب ہی نے پیداکیایعنی اپنے لئے عصرِ حاضر کابہت بڑا خطرہ خود ہی کھڑاکرلیا۔ اب پوری دنیاکے سنجیدہ فکر،معقول اور متوازن دانشوراوراہل رائے مغربی طاقتوں بالخصوص ان کے دانشورطبقوں پرزوردے رہے ہیں کہ اپنی پروڈکشن کے مضمرات سے بچنے کی تدابیر بھی خود ہی کریں۔ پوری دنیاآگاہ ہوچکی ہے کہ اسلام کے بارے میں تعصب بلاجواز بے بنیاد ہی نہیں،بہت حد تک مضحکہ خیز بھی ہے۔ روزنامہ خلیج ٹائمز کی ایک حالیہ اشاعت میں معروف قلم کارمحترمہ نورین اکبری تحریر کرتی ہیں:مغرب میں مسلمانوں کے خلاف جہالت اوردقیانوسی تصورات کی چھتری تلے تعصب کے سائے پھیلتے جا رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اس میں میڈیاکا کتناکردار ہے؟ اس کا اندازہ ہمیں ناروے میں ہونے والے ایک افسوسناک واقعہ سے ملتا ہے۔ناروے میں جنونی قاتل کی طرف سے قتل و غارت گری کے چند لمحوں بعدکئی نیوز چینلوں نے بغیر کسی تصدیق اور قابل اعتماد ذریعے کے حوالے سے یہ خبر جاری کردی ’’ یہ حملہ انتہا پسند مسلمانوں کی طرف سے کیا گیاہے‘‘۔اس واقعہ پر نیویارک ٹائمز نے دہشت گردی پر مہارت رکھنے والے تجربہ کار میک کانٹس کاتجزیہ شائع کیا ﴿ جومغرب میں زرد صحافت کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے ﴾ جس میں اس نے حملے کا ذمہ دار ایک ایسے دہشت گردگروپ کو ٹھہرایاجو بین الاقوامی ’’جہادیوں‘‘ کا مددگار ہے۔فاکس نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ’’ اس حملے کی ذمہ دار منسلک ایک تنظیم ہے‘‘۔

اس وقعے کی سب سے زیادہ مضحکہ خیز کوریج برطانوی اخبار’’دی سن‘‘ کی تھی۔یہ اخبار لکھتاہے ’’ہم نہیں جانتے کہ یہ القاعدہ کاکام ہے جس نے ناروے کودہمکی دی ہے یاپھر لیبیاکے رہنما کرنل معمر قذافی کی طرف سے تنبیہ ہے۔ایسے …..ناقابل تصدیق معلومات اورمتعدد ذرائع ابلاغ کے غیر محتاط جائزے پریشان کن حقیقت کے آئینہ دار ہیں اور مسلمانوں کے خلاف منفی تاثر کی حمائت جاری ہے۔ اصل پریشان کن بات یہ ہے کہ مغرب اس معاشرے کے بارے میں منفی تاثر پھیلا رہا ہے جس کے بارے میں وہ زیادہ نہیں جانتا ۔ امریکی ٹی وی چینل کیبل نیوز نیٹ ورک ﴿سی این این ﴾ کے متعلق امریکا اپنے مسلمان اتحادیوں کے بارے میں تقسیم ہو چکاہے ۔ سی این این کا دعویٰ ہے کہ ۳۵ فیصد امریکی ذاتی طور پر مسلمانوں کے بارے میں جانتے ہی نہیں اور۵۵فیصد کے پاس اسلام کے بارے میں کوئی بنیادی معلومات نہیں ہیں۔حالیہ گیلپ سروے کے مطابق ۳۴ فیصد امریکی مسلمانوں کے متعلق کم تعصب رکھتے ہیں۔اس تعداد سے دوگنا وہ لوگ ہیں جو عیسائی ، یہودیوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے بارے میں تعصب محسوس کرتے ہیں۔۱۱۰۲ئ میں ہونے والی تحقیق کے مطابق مغرب میں بسنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کو متشدد اور جنونی سمجھتی ہے۔اس تحقیق کے مطابق اسپین میں ۰۸ فیصد، جرمنی میں ۸۶ فیصد ،روس میں ۴۶ فیصد اور فرانس میں ۲۵ فیصد لوگ مسلمانوں کومتشدد اور جنونی سمجھتے ہیں۔ تعداد کا یہ تناسب ایک ایسے معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے جو حالات سے بے خبری اور فرسودہ تصورات سے وجود میں آیا ہے اور اسلام فوبیا غیر واضح اور غلط تصورات پر پروان چڑھایا جا رہا ہے اور یہ جہالت کی پیداوار ہے ‘‘ ۔

’’مغرب کیوں اس مذہب ﴿ اسلام ﴾ اور اس کے پیروکاروں کے بارے میں شکوک وشبہات کاشکار ہے جس کے بارے میں زیادہ جانتا ہی نہیں۔میڈیا مختلف اقوام اور گروہوں کے بارے میں تاثر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جب کہ اس کا قائم کردہ ہر تاثر حقیقت نہیں ہوتا۔جب مغربی ذرائع ابلاغ جہاد اور شدت پسندی وغیرہ پر رائے زنی کرتے ہیںیا پھر اسلام کے متعلق تنقیدی فلمیں ،جیسے پامیلا گیلر گیرٹ ورلڈ ز ﴿ خلافِ اسلام موویز ﴾ دکھائے گا تو پھر تسلیم کیجئے کہ فتنہ تو میڈیا ہی سے اٹھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں بہت سے لوگ اسلام کے صحیح تصور سے نا آشنا ہیں ‘‘۔

’’ مسئلہ یہ نہیں کہ بے پناہ من گھڑت کہانیاں ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہو رہی ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ ان رپورٹوں کو غیر متوازن اور ہیجان خیز رخ دیا جا رہاہے اور مسلمان مخالف ماحول پیدا کرکے لوگوں کو بنیاد پرست اسلام سے خوفزدہ کرناہے اور اب ان لوگوں کو یقین ہو گیا ہے کہ ان کے درمیان رہنے والے مسلمان ’’دھوکے باز ‘‘ جہادیوں کی نمائندگی کرتے ہیں اس معاملے میں سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ بعض مسلمانوں کے منفی رویے ہیں جو پر تشدد حملوں اور مجرمانہ وارداتوںمیں ملوث ہیں،خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانا، معاشرے میں اسلام کی تذلیل کے متعلق مختلف فتوے مسلمانوں کیلئے پریشان کن ہیں۔اس طرح کے ’’اسلامی‘‘ ایکٹ کی جب کوئی غیر مسلم تعریف کے طور پر پیش کرتا ہے تو میڈیا اس کو نمایاں کرتا ہے اورعام طور پرقابل احترام مسلمانوں کوبھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے‘‘۔

’’ پبلک مذہب ریسرچ انسٹیوٹ ‘‘ کے مطابق فاکس نیوز اسلام کے متعلق منفی رویوں کو زیادہ کوریج دے رہا تھا۔امریکی جن کا زیادہ اعتماد فوکس نیوز فوکس نیوز پر ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اسلامی قوانین نافذ کریں گے اور ان کے خیال میں مسلمانوں کے بارے میں انتہا پسندی کے متعلق تحقیقات درست ہیں۔مسلمانوں کا جہادی ، اسلامی انتہا پسند یا اعتدال پسندی کے حوالے سے غلط تصور پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف تعصبا نہ نظریات کو تقویت ملتی ہے۔’’ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ اسٹڈ ی ‘‘کے سروے کے مطابق مغرب میں مسلمانوں کے درمیان ایک احساس ہے کہ مرکزی میڈیا ان کے کنٹرول سے باہر ہے اور ان کا حقیقی تصور پیش کرنے میں ناکام رہاہے اس کا واضح مطلب ہے کہ ’’وہ‘‘ یہ نظریات پیدا کررہے ہیں اوریہ کہ ’’وہ ‘‘ بڑی تعداد میں یہ نظریات پھیلا رہے ہیں ‘‘۔میڈیا کو مسلمانوں کے تبصرے بھی سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرنا چاہئیں اور متوازن اور معقول صحافیوں کو متوازن رپورٹ پیش کرنا چاہئے تاکہ مسلمانوں کے متعلق مغرب میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں وہ ختم ہوں تاکہ رواداری قائم ہو اور بنیاد پرستی کو ختم کرنے میں مدد ملے اس سے عوام یہ سمجھ جائیں گے کہ مسلمان بھی دہشت گردی کی کاروائیوں کی مذمت کرتے ہیں تاہم اگر میڈیا کا موجودہ رحجان جاری رہتا ہے تو مسلمانوں کے خلاف جذبات مزید ابھریں گے‘‘۔

روزنامہ الشرق الاوسط کی ۶۲ستمبر کی اشاعت میں ’’مامون فاندے ‘‘ نے’’ مغرب کو اسلام کے خبط سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ’’مغرب کیلئے بہتر یہی ہو گاکہ وہ اس خبط سے نجات حاصل کرے جسے آج کل ’’اسلام کمپلیکس ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جب کوئی شخص اہل مغرب سے اسلام کے متعلق بات کرتا ہے تو ان میں ابتدائی دور ﴿دورِ جہالت﴾ کی جبلت اتر آتی ہے ۔مجھے کہا گیا ہے کہ ’’آزادیٔ اظہار‘‘کے مقابلے میں’’آزدیٔ برہمی‘‘ کا دفاع کروں تومیں قارئین سے اجازت چاہوں گا کہ وہ مجھے ایک ’’ ناراض مسلمان‘‘کی حیثیت میں اظہار خیال کی اجازت دیں۔ایک مسلمان کو ناراض ہونے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔مغرب آزادیٔ اظہار کا دفاع کرتا ہے تو ہمیں یہ بھی حق حاصل ہے کہ ہم ’’ناراضگی کی آزادی‘‘کا دفاع کریں۔میں پورے شعور اور شرح صدر سے عرض کررہاہوں کہ آج میں ایک ناراض مسلمان ہوں اور مجھے ہر حوالے سے یہ حق حاصل ہے کہ میں اسلام اورمسلمانوں کی مقدس ہستیوں کا مذاق اڑانے والی اشرافیہ کے خلاف ’’اظہارِ ناراضگی‘‘کروں۔

’’مغرب کسی بھی مذہب یا عقیدے کے پیروکاروں حتیٰ کہ اقلیتوں کا دفاع کرتا ہے تاہم ان میں سے بہت سے ابھی تک اس دین کا تقدس پامال کرنے میں ذرہ بھر نہیں ہچکچاتے۔ اس مذہب کے پیروکاروں کی صریح دلآزاری کرتے ہیں جن کی تعداد پوری دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے ۔ میں نے مغربی فلاسفر، ان کے ایک دوسرے سے مختلف فکر وعمل اور تہذیبِ انسانی پر ان کے اثرات کامطالعہ کیا ہے ، مغرب کے سیاستدان ہوں یا یونیورسٹیوں میں لیکچر دینے والے پروفیسرز، صحافی ہوں ادیب ، سب کے سب مغربی اشرافیہ کے سامنے اسلام کو قدیم انسانی جبلت کے حامل دانشوروں کی حیثیت میں پیش کرر ہے ہیں۔میں اپنے علم اور اپنے دعوؤں کے بارے میں اپنے ذہن میں ذرہ سا بھی شبہ نہیں رکھتا۔ میں نے ٹیلی ویژن ،اخبارات اور تعلیمی اداروں کی راہداریوں میں ہونے والی بحث و تمحیص کا بغور جائزہ لیا ہے ۔

 حال ہی میں مجھے عربی زبان کے امریکی چینل ’’التحرہ‘‘ میں بطور مہمان مدعو کیا گیا۔ میرے ساتھ دوسری مہمان مقررامریکا کی جمہوریت ،انسانی حقوق اورمزدوروں کے امور کی اسسٹنٹ سیکرٹری آف اسٹیٹ تھی۔ ہماری بحث کا موضوع تھا ’’مغرب میںمشرقی مذاہب کے تقدس کے خلاف آزادیٔ اظہار‘‘۔ اس مباحثے میں مجھے اسسٹنٹ سیکرٹری کی جاہلانہ رائے کا جواب دینے کاموقع فراہم نہیں کیا گیا۔ اس پروگرام میں بمشکل میں یہ کہہ پایاکہ ’’امریکا میں آزادیٔ اظہار کی اجازت ہے لیکن حقیقت میں مسلمانوں کو اپنی ناراضگی کے اظہار کی قطعاً آزادی نہیں ہے‘‘۔ہم اس بحث میں عربی زبان میں گفتگوکررہے تھے نہ کہ امریکی یا مغربی سامعین کیلئے ۔میں جب تک امریکا میں رہا کسی امریکی چینل نے مجھے بطور میزبان مدعو نہیں کیا جب کہ سب جانتے ہیں کہ بہت سے مغربی چینلز پراپنامؤقف بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔میں متعدد مغربی اخبارات میں لکھتا ہوں اورمیں نے اہم مغربی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے ۔ اس پس منظر کے حوالے سے ایک بار پھر یہ سوال اٹھاتاہوں کہ مغربی دانشورتمام معاملات پر معقول تجزیئے دیتے ہیںمگر اسلام کے بارے میں ان کا طرزِ عمل یکسر بر عکس ہے‘‘۔

اگر میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے اس بیان کو غور سے دیکھوں جس مین ان کا کہنا تھا:بہار عرب آمروں کے ہجوم میں تبدیل ہو گئی ہے تو میں یہ کہوں گا کہ آمروں کا ہجوم نہیں، جب مسلمان اپنے مذہب اور پیغمبر اسلام کی توہین پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیںتو یہ آمروں کا ہجوم نہیں ہوتا،جب لوگ سفارت خانوں کے باہر مظاہرہ کرتے ہیں یا سفارت خانوں پر پتھراؤ کرتے ہیں تو یہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کی طرف سے اظہارِ ناراضگی ہوتا ہے اور اظہار کرنے والوں میں کوئی ایک بھی آمر نہیں ہوتا۔آمروں کو ہجوم کہنا سراسر لغوبات ہے ۔ ممکن ہے ہلیری کلنٹن کو ماضی میں اس طرح کی ناراضگی کا تجربہ نہ ہوتو اب اچھی طرح سمجھ لیں کہ مسلمان مغرب میں کس قسم کا اظہارِ آزادی چاہتے ہیں۔ یورپ جو زیادہ تر کہانیاں بیان کررہاہے وہ مسلمانوں کی نہیںہیں۔ مسلمانوںکے خیالات صرف بحران کے وقت اخبارات و ٹیلی ویژن پر نظر آتے ہیں جس کے بعد مسلمانوں کوپردۂ غیب میں بھیج دیا جاتا ہے اور ہر قسم کے بحث مباحثوں میں غیر مسلم ہی نظر آتے ہیں‘‘۔

مغرب میں صرف اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس پر کھلی تنقید کی جاتی ہے اور اس کے خلاف بیان بازی کے طومار کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ ہلیری کلنٹن اور اس کی اسسٹنٹ گستاخانہ فلم کے بارے میں’’ہجوم‘‘ کے مظاہروں پر تنقید کرتی ہیں، وہ مسلمانوں کو بطور ہجوم ناشائستہ انداز میں مخاطب کرتی ہیں۔میں ’’پدرم مسلمان بود‘‘ کا قائل نہیں لہندا ماضی کی شان و شوکت کا تذکرہ نہیں کروں گا  گر نبی اکرم  ایسی ہستی نہیں ہے جو’’گزر چکی‘‘ ہے۔آپ آج بھی ہم میں اپنی تعلیمات و فرمودات کے ساتھ موجود ہیں۔آنحضرت  آج بھی مسلمانوں ہی کی نہیں پوری انسانیت کی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فرما رہے ہیں۔حضور رسول اکرم  ہماری زندگی اور ہماری روح کاجزو لاینفک ہیں۔ میراہی نہیں ہر مسلمان کا اور ان کی توہین فی الحقیقت اس راہِ ہدائت کی توہین ہے جس پر چل کر ہم دینوی و اخروی فلاح کی سعادت سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ نسلی عصبیت ’’دوسروں‘‘ کے طرزِ زندگی کا مذاق اڑانے سے شروع ہوتی ہے۔

’’نائن الیون کے حوالے سے ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ مغرب اپنے معاشرے میں کامیاب مسلمانوں کو برداشت اورمقبولیت کے ثبوت کے طور پر استعمال کررہاہے ۔اصلاً وہ ہمارا ذکر ایسی جنس کے طور پرکرتے ہیں جو خریدی جا سکتی ہے ۔ہم صرف اظہارِ آزادیٔ رائے اور جمہوریت کی نمائش کا حصہ ہیں، ہمیں مہینے میں ایک باراخبارات کے صفحات پرظاہر ہونے کی اجازت ہے۔ ٹیلی ویژن پرہفتے میں ایک دن کسی آواز کے بغیرہمیں دکھادیاجاتا ہے کیونکہ ہم صرف ایک شعر کاحصہ ہیں‘‘۔

’’مغرب اسلام کے خبط سے نجات حاصل کر لے گا جب وہ مسلمانوں کو بطور انسان قبول کر لے گا۔ہم ایک ہجوم نہیں ہیں ،ہم مکمل اور منفرد و ممتاز تہذیب رکھتے ہیں۔ ہمارامذہب قدر وقیمت کا حامل ایسا گرانقدر بلکہ انمول دین ہے جو پوری انسانیت کوراہِ نجات کی ہدائت کرتا ہے ۔ہمارا مذہب کئی حوالوں سے ریاضی کے علم پر مبنی ہے ۔دواوردوچار کی طرح بات کرتا ہے ۔کئی متشرقین اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ چونکہ تھوڑی بہت عربی زبان جانتے ہیںمگروہ یہ نہیں جانتے اس زبان کے حقیقی معانی جاننے والے ہی اسلام کی حقیقت سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔ میں ہمیشہ اہل مغرب سے کہتا ہوںکہ تم اس سرزمین پر ہمارے شراکت دارہو،بس اسلام کے بارے میں اپنے مفروضوں اور خبطوں سے نجات حاصل کرلو،اسی میں سب کا بھلا ہے۔

    بروزجمعرات ۵۲ذوالقعد۳۳۴۱ھ۱۱/اکتوبر۲۱۰۲ئ

لندن

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *