Home / Socio-political / اک گمنام تحریر سے اقتباس

اک گمنام تحریر سے اقتباس

 

 عباس ملک

 اک گمنام تحریر جس میں مچلتا سوال اس کے نام سے شاید زیادہ اہم ہونے کی بنا پر باعث توجہ ہے۔تحریر ڈیفالٹ کے عنوان سے لکھی گئی لیکن شروع اس سوال سے ہوتی ہے ،، ہمیں امریکہ کو راضی کیوں رکھنا چاہیے،،؟اک مکالمہ جو دو اشخاص کے درمیان ہوتا ہے وہ اگے تحریر ہے ۔ اس سوال پر میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا ۔میں نے عرض کیا وہ سپر پاور ہے اور ہم سپر پاور کی گلی کے بھکاری اور بھکاریوں کے پاس خوشنودی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔اس نے پریشانی کے عالم میں اپنے گنجے سرپر ہاتھ پھیرا اور آہستہ سے بولا اور اگر ہم اس کو راضی نہیں رکھتے تو کیا ہوگا ؟میں نے کہا کہ پھر بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔امریکہ ہمیں امداد نہیں دے گا۔امریکہ کی ناراضگی کے بعد ورلڈبینک ،ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دوسرے ڈونر ہماری امداد روک لیں گے ہماری ایکسپورٹ رک جائے گی اور باہر سے سرمائے کی ترسیل بند ہو جائے گی ، اس نے اپنے سر ناخنوں سے کریدنا شروع کردیا اور عاجزانہ لہجے میں بولا پھر کیا ہو گا ؟میں نے جواب دیا ،تمام ترقیاتی منصوبے رک جائیں گے ۔سرکیں پل ،انڈر پاس نہیں بن پائیں گے ۔نئے ڈیمز کا سلسلہ رک جائے گا۔صنعتیں بند ہو نے لگیں گی۔نئی پٹڑیاں نہیں بچھیں گی۔ صاف پانی کی نئی سکیمیں نہیں لگیں گی ۔غربت کے خاتمے کیلئے اور خواتین کو خود مختار بنانے کے منصوبے ختم ہو جائیں گے۔اس نے اثبات میں سر ہلا یا اور بولا ،پھر کیا ہوگا۔میں نے عرض کی پھر ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب آجائے گا ۔اشیائے صرف کی قیمتیں شہریوں کی قوت خرید سے باہر ہو جائیں گی ۔آٹا ،دالیں ،گھی ،چاول اور سبزیاں مہنگی ہو جائیں گی۔ملک میں بھوک کا بحران آجائے گا۔بجلی گیس اور پانی کی لوڈ شیڈنگ ہوگی ۔شہروں میں فسادات شروع ہو جائیں گے ۔ہم پیڑول درآمد نہیں کر سکیں گے اور گاڑیاں اور ریل گاڑیاں رک جائیں گی ۔دوائیں ہماری استطاعت سے باہر ہو جائیں گی۔ہمارے بچے سکول کی فیسیں ور کتابوں کی قیمتیں ادا نہیں کر سکیں گے ۔وہ مسلسل سر کجھا رہا تھا اور آہستہ آہستہ اثبات میں سر ہلا رہا تھا ۔اس نے پوچھا پھر کیا ہوگا؟میں عرض کیا پھر پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا اس نے سر اٹھایا اور پوچھا اس سے کیا ہو گا ؟میں نے فوراََ جواب دیا ہم دنیا سے کٹ جائیں گے ۔ہمارے جہاز دوسرے ممالک میں لینڈ نہیں کر سکیں گے ۔دنیا کا کوئی ملک ہمیں ادھار نہیں دیگا۔دورے ممالک میں ہمارے اثاثے ،ہمارے بینک اکاؤنٹ منجمد ہو جائیں گے ۔ ہم پوری دنیا میں تنہائی کا شکار ہو جائیں گے اور ۔۔ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس نے درمیان میں سر اٹھایا اور قہقہہ لگایا ۔ میں رکا اور حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا اور وہ بولا لیکن اس سے مجھے کیا فرق پڑے گا ۔میرا پاکستا ن تو پہلے ہی ڈیفالٹ کر چکا ہے ۔میں تین نسلوں سے دیوالیہ ہو ں ۔میں پانے ملک ،اپنے شہر ،اپنے محلے حتیٰ کہ اپنے خاندان تک میں تنہائی کا شکار ہوں ۔مجھ سے کوئی نہیں ملتا ،میری طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔دوسرے ممالک تو دور کی بات میرا اپنے ملک میں کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں ۔میرا اپنے شہر میں کوئی اثاثہ نہیں ،مجھے اپنے رشتہ دار ادھار نہیں دیتے ۔رہ گیا جہاز کا سفر تو میری پچھلی تین نسلوں میں سے کسی نے آج تک جہاز کی سیڑھی پر پاؤں نہیں رکھا ۔میری بلا سے پورا ملک ڈیفالٹ کر جائے !مجھے تو خوشی ہو گی کہ آپ بھی میری طرح تنہائی کا شکار ہوں آپ بھی ملک سے باہر نہ جا سکیں ۔ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہااور وہ بولتا گیا۔آپ کہتے ہیں امریکا کی ناراضگی سے ملک دیوالیہ ہو کر ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کا سیلاب آجائے گا ،آجائے ۔مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔میں تو پہلے سے ہی مہنگائی اور بے روزگاری کا عذاب جھیل رہا ہوں ۔مجھے ایم اے کرنے کے باوجود نوکری نہیں ملی ۔میں نے کاروبار کرنے کی کوشش کی سرمائے کی کمی کے باعث اس میں کامیاب نہیں ہو پایا ۔آٹا ،دالیں ، چاول ،گھی ،سبزیاں ،گوشت ،مرغی اور دوائیں عرصہ ہوا میری قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں ۔میں موٹر سائیکل قرضہ ادا کرنے کیلئے بیچ دیا تھا ۔چنانچہ پیٹرول اب میرا مسلہ نہیں رہا ۔میں بجلی اور گیس ایفورڈ نہیں کر سکتا ۔میں جب ان کے بل بھرنے کے قابل تھا اس وقت گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی چنانچہ مجھے اب اس کا بھی کوئی خطرہ نہیں ۔میری بلا سے گھی ہزار روپے کلو ہو جائے ،یا ٓٹا دو سور وپے کلو بکے یا گوشت ار مرغی کے نرخ پانچ چھ سو روپے ہو جائیں میں تو پہلے ہی یہ عیاشی ایفورڈ نہیں کر سکتا ۔لہذا مہنگائی کا اور بے روزگاری کا طوفان اور سیلاب بھی مجھے ہٹ نہیں کر سکتا۔اس نے لمبی سانس بھری۔میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور وہ بولتا چلا گیا ۔رہ گئے ترقیاتی کام تو میں ان سے بالا تر ہو ں ۔امریکا جب پاکستان کا دوست تھا تو اس وقت بھی میری گلی کچی تھی ۔کسی کو میری گلی کی نالی پکی کرنے کی توفیق نہیں ہوئی ۔میں سکول دو کلو میٹر کا سفر کر کے جاتا تھا ۔میرے بچے بھی ننگے پاؤں چل کر دو کلو میٹر سفر کے کے سکول جاتے ہیں ۔میں بھی ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا تھا میرے بچے بھی ننگی زمین پر علم حاصل کر تے ہیں ۔میرے دور میں بھی ہیٹر ،سکول میں لیبارٹری ،کھیل کا میدان اور سکول لائیبریری نہیں تھی ۔میرے دور میں بھی سکول میں واش روم ،پنکھے نہیں تھے اور میرے بچوں کے زمانے میں بھی سکول میں یہ سہولیات نہیں ہیں ۔میرے دادا کے دور سے ہماری سڑک ٹوٹی ہوئی ہے ،ہمارے راستے میں کوئی پل نہیں،میرے کوئی فیکٹری نہیں لگی ،کوئی ڈیم نہیں بنا،میرے لئے کوئی ڈاکٹر ،کوئی نرس ،اور کوئی ہسپتال نہیں ۔میں سر درد کی گولی بھی بازار سے خرید کر ا

ستعمال کرتا ہو ں جبکہ ہمارے سیاستدان ،ہمارے بیوروکریٹ اور ہمارے جرنل سر درد تک کا علاج سرکاری خزانے سے کراتے ہیں ۔لہذا مجھے ان ترقیاتی کاموں سے بھی کوئی سروکار نہیں ۔میری بلا سے یہ بند ہو جائیں ۔وہ خاموش ہو ا اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور خاموشی سے مجھے دیکھنے لگا ۔ میں غصے سے اس کی طرف دیکھا اور چلا کر کہاگویا تم اس ملک کو دوالیہ ڈکلیئر کرنا چاہتے ہو ۔تم چاہتے ہو یہ ملک تباہ ہو جائے ۔اس نے قہقہہ لگایا ور بولا ہاں میں یہی چاہتا ہوں۔میں نے غصے سے پوچھا کیوں ؟اس نے جواب دیا کیونکہ یہ ملک میرا نہیں رہا ۔یہ ایلیٹ کلاس کا ملک ہو چکا ہے۔کالے انگریز اس ملک اور اس ملک کی نعمتوں کو انجوائے کر رہے ہیں ۔اس ملک کی تمام سہولتیں ان کیلئے وقف ہیں ۔چنانچہ وہ اس ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔کیونکہ انہیں کسی دوسرے ملک میں اتنی سستی قیمت میں یہ ساری سہولتیں میسر نہیں آسکتیں ۔ یہ کسی دوسرے ملک میں جنرل ،جج،جرنلسٹ، سیکرٹری،وزیر ،وزیر اعظم ،صدر ،نہیں بن سکتے ۔یہ کسی دوسرے ملک میں کامیاب بزنس مین، اور زمیندار اور جاگیردار نہیں ہو سکتے ۔دوسرے ممالک میں انہیں ہم جیسے لوگ جھک جھک کر سلام نہیں کرتے ۔یہ لوگ اپنی انا ،اپنے مظالم اور اپنی تسکین قلب کیلئے اس ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانا چاہتے ہیں ۔اس کیلئے انہیں خواہ یورپ کے جوتے سیدھے کرنے پڑیں یا امریکہ کے سامنے جھکنا پڑے یہ سیکنڈ نہیں لگاتے ۔یہ صرف اور صرف ان کا ذاتی مفاد ہے اور یہ اس کیلئے ہر قسم کا کمپرومائز کرنے کیلئے تیار ہیں ۔رہ گئے ساڑھے سترہ کروڑ لوگ ۔۔ہمارا پاکستان تو تیس چالیس سال پہلے ہی ڈیفالٹ کر گیا تھا ۔ہم انگریز کی غلامی سے نکل کر ان لوگوں کی غلامی میں آگئے تھے ۔کل وہ ہمارا آقا تھا آج یہ ہمارے باس ہیں ۔ہم کل ان کی آسائشوں کی ڈھال تھے اور آج ان کی عیاشیوں کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا رہے ہیں ۔ہم تو کب کے ڈیفالٹ کر چکے اب ان کی باری ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *