Home / Socio-political / حالیہ اسمبلی نتائج :کیاکانگریس شکست فاش سے کوئی سبق لے گی؟

حالیہ اسمبلی نتائج :کیاکانگریس شکست فاش سے کوئی سبق لے گی؟

عابد انور

اترپردیش میں سماج وادی پارٹی کی کامیابی نے جہاں سیاست کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیاہے وہیں قومی سیاسی پارٹیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ مستقبل میں ان کا کردار اب یوپی میں کیا ہوگا۔اگریہی طریقہ دیگر ریاستوں کی علاقائی پارٹیوں اور عوام نے اپنا لیا ہے تو ان کیا ہوگا۔یہ حقیقت سے بعید بھی نہیں ہے۔یہ صورت حال آج نہیں تو کل ضرور پیش آئے گی۔اس لئے دونوں قومی پارٹیاں کانگریس اور بھارتیہ جنتاپارٹی سے ہندوستانی عوام کا اعتماداٹھ چکا ہے۔ یہ پارٹیاں عوام کی پریشانیاں دور کرنے کے بجائے بنیوں اور سرمایہ کاروں کی فلاح وبہبود پر زیادہ یقین رکھتی ہیں۔ عوام یہاں نان شبیہ کے محتاج ہورہے ہیں لیکن چند افرادکی ترقی مرکز کو پورے ملک کی ترقی نظر آرہی ہے۔ کانگریس کی اترپردیش میں شرمناک شکست کی جہاں مندرجہ بالاوجہیں ہیں وہیں مسلمانوں کے تئیں دہرے معیار،سنگھ پریوار کی پالیسی کو آگے بڑھانے اور دہشت گردی سرگرمی کے نام پر مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے جیسے وجوہات بھی ذمہ دار ہیں۔ لوک سبھاالیکشن اور ریاستی الیکشن کے پیمانے کبھی ایک نہیں ہوسکتے ریاستی الیکشن کامعاملہ قومی مفادات سے وابستہ ہوتا ہے جب کہ ریاستی الیکشن کا علاقائی مفادسے۔ 2009کے پارلیمانی انتخابات میں یوپی کے مسلمانوں نے کانگریس کوووٹ دیا تھا جس کی وجہ سے وہ چند سیٹوں سے بڑھ کر 22نشست تک پہنچ گئی تھی لیکن انتخابات میں فتح کے بعد کانگریس نے مسلمانوں کو دہشت گردی کے دلدل نکالنے میں کوئی کام نہیں کیا بلکہ اس میں اضافہ ہوتاگیا۔ مسلم نوجوانوں کو تنگ کرنے کے کاسلسلہ دوردراز اوردیہی علاقوں تک پہنچ گیا۔ خفیہ ایجنسیوں نے ان علاقوں کے نوجوانوں کو بھی دبوچ لیا جنہوں نے کبھی دہلی کامنہ تک نہیں دیکھاتھا۔

کانگریس کی شکست فاش پر ہر جگہ اورہر پلیٹ فارم پر تذکرہ اور مباحثہ ہورہا ہے اورآئندہ بھی ہوگا لیکن زمینی حقیقت کا ادراک کرنے میں عام طور پر ناکام رہتے ہیں یا عمداًکرنا ہی نہیں چاہتے۔ یوپی کاالیکشن جب وقت شباب پرتھااسی وقت مرکز کی خفیہ مشنری بہار کو دہشت گردوں کااڈہ ثابت کرنے میں لگی ہوئی تھی اوردرجنوں کی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو اٹھایاگیا۔ دوسری طرف کانگریس کے بعض لیڈر بٹلہ ہاؤس انکاوئنٹر جیسے حساس معاملوں پربیان بازی کرکے گھڑیالی آنسوبہانے کی کوشش کی۔خاص طور پر وہ لیڈر اس طرح کی بیان بازی میں شامل تھے جن پر سیمی کے نام پر مدھیہ پردیش کے مسلمانوں کی زندگی تباہ وبرباد اور اجیرن کرنے کی راست ذمہ داری ہے۔ ان کی دور حکومت وہاں بھگوادہشت گردی پنپتی رہی اور انہوں نے اسے پوری طرح پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا۔مسلمانوں کو اب زیادہ دن تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ایک طرف ساڑھے چار فیصد ریزرویشن کا لالی پاپ دیا گیا تو دوسری جانب مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کے لئے دہشت گردی کا جال پھینکا گیا،بے دریغ گرفتاریاں کی گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی نے اترپردیش کے انتخابات میں بہت محنت کی اور عوام سے سیدھے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے کوچ نے انہیں نوجوانوں سے ہمیشہ دور رکھا۔ملک کے دوردراز علاقوں سے نوجوانوں کی ٹولی دہلی میں ان سے ملاقات کرنے لئے آتی لیکن ان کی راہل سے ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ وہ مایوسی کی حالت واپس چلے جاتے تھے اگر کسی کی خوش قسمتی سے ملاقات ہوبھی جاتی توان نوجوانوں کویہی شکایت رہتی ہے کہ ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا جاتاہے اوریہ کہہ دیا جاتاہے کہ دیکھیں گے لیکن اس کے بعدزمینی حقیقت کے بارے میں دئے گئے مشورے کبھی بھی حقیقت کا جامہ نہیں پہن پاتے۔نوجوان جتنی بڑی تعدا دمیں راہل گاندھی اور کانگریس سے وابستہ ہورہے ہیں اسی حساب سے کانگریس میں بوڑھوں کی تعداد ان کی راہ میں دشواریاں کھڑی کرتی ہے اس لئے وہ نوجوان عوام کو کانگریس کے ووٹ میں تبدیل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ نوجوانوں اور خصوصاً مسلم نوجوانوں کو عام شکایت یہ ہے کہ کانگریس کے اعلی لیڈر نہیں چاہتے وہ آگے بڑھیں اور کانگریس کے لئے کوئی خدمت انجام دیں۔ بھیڑ کو ووٹ میں نہ بدلنے کی اہم وجہ یہ بھی ہے۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ یوپی کے مسلمانوں نے نہایت ہوشیاری اور سمجھداری ثبوت پیش کرتے ہوئے نہ صرف فرقہ پرست قوتوں کو اقتدارکے گلیارے سے دوررکھابلکہ اپنی نمائندگی میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا۔ گزشتہ اسمبلی میں ۴۹ کے مقابلہ اس بار۶۹ مسلم امیدوارمنتخب ہوئے ہیں جو نہایت خوشن کن ہے۔مغربی یوپی میں مسلمان مزید سمجھداری کا مظاہرہ کرتے تو اس تعداد میں کم از کم پندرہ ۔بیس نشستوں کا اضافہ ہوسکتا تھا۔ مسلمانوں نے اس باراپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچایا لیکن سہارنپور کا خطہ جہاں مسلمانوں کی تعداد ۴۰ فیصد ہے وہاں کے سات حلقوں میں سے ایک بھی حلقہ میں مسلم امیدوار کا کامیاب نہ ہونا مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کو ظاہر کرتاہے۔افسوس اورحیرت کی بات یہ ہے کہ شاہی امام سیداحمدبخاری کے داماد عمرخاں جو بیہٹ حلقہ سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار تھے وہ بھی بری طرح ہارگئے۔اس سے۔ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں امام بخاری موئد کتنے ہیں اورکیا امام بخاری اس سے کوئی سبق لیں گے؟۔ایسا نہیں ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے مسلم ووٹ تقسیم کرنے کیلئے جال نہیں بچھائے تھے۔ ان طاقتوں نے اپنی پوری قوت مسلم ووٹوں کی تقسیم میں جھونک دی تھی۔ ابتدائی رجحان دیکھ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ پرانا فارمولا کہیں کام تو نہیں کرگیا لیکن جیسے جیسے ووٹوں کی گنتی آگے بڑھی خوف کم ہوتا گیا۔ اس الیکشن میں تین نوجوان چہرے کاوقار داؤ پرتھا۔ کانگریس کے راہل گاندھی، راشٹریہ لوک دل کے جینت چودھری اورسماج وادی پارٹی کے اکھلیش سنگھ یادو۔ جس میں اکھلیش سنگھ کامران رہے اور ان کی سائکل نے ریس میں سب سے آگے نکل کر سب کو دھول چٹادی۔ اکھلیش یادو کو کامیابی یونہی نہیں ملی بلکہ انہوں نے پولیس لاٹھیاں کھائیں، سڑکوں پراترے، یوپی کے نوجوانوں کو ساتھ لیا۔ وہ مایاوتی حکومت کی بدعنوانی کے خلاف جم کر لوہا لیا۔ انہوں نے فتحیابی کے بعد بہت صاف گوئی اور کسی پر نہ حملہ کرتے ہوئے اس جیت کاسہرا ، پارٹی کارکنوں اور عوام کو دیا۔مایاوتی کیوں ہارگئیں؟ اس سوال پر ان کا مختصر سا جواب تھا، “ہارے ہوئے کے بارے میں کیا بولوں؟” راہل گاندھی اور کانگریس نے انتخابی مہم کے دوران بڑھ چڑھ کر دعوے کئے تھے، اس پر بھی وہ متوازن بولے۔ انہوں نے کہا، “اچھا ہے، اپنی پارٹی کے لئے بہت محنت کی۔محنت کا نتیجہ نہیں آیا یہ الگ بات ہے۔ وہیں راہل گاندھی نے شکست کی ذمہ داری قبو ل کرتے ہوئے کہاکہ میرا جو وعدہ تھا کہ میں یو پی کے گاوٴں اور شہروں میں نظر آتا رہوں گا تو وہ میں کرتا رہوں گا۔ میری پوری کوشش رہی گی کہ میں پارٹی کو اور مضبوط کروں اور جیت حاصل کر سکیں۔ اتر پردیش میں 403 رکنی اسمبلی میں سماج وادی پارٹی کو واضح اکثریت کے ساتھ 224 نشستوں پر فتح حاصل ہوئی ہے جبکہ اکثریت کے لئے اسے 202 سیٹوں کی ضرورت تھی بہوجن سماج پارٹی نے 80 نشستیں جیتی ہیں جب کہ اس نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں 206 نشستیں حاصل کی تھیں۔ 47 سیٹوں پر بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ہے 2007میں اس کی 51 سیٹیں تھیں۔ کانگریس اور راشٹریہ لوک دل کو مجموعی طور پر 38 سیٹیں ملی ہیں۔ریاست پنجاب میں عام طور پر انتخابات کے بعد حکومت بدلتی رہی ہے لیکن اس بار اکالی دل نے پھر سے واضح اکثریت حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ تقریبا پینتالیس برس میں حکمراں جماعت نے دوبارہ اقتدار حاصل کیا ہے۔ اترا کھنڈ میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان تقریبا برار کا مقابلہ ہے جب کہ گوا کانگریس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

پانچ ریاستوں کے نتائج کا اثر یو پی اے پر پڑنا لازمی ہے۔ اسی سال جولائی میں صدر جمہوریہ کاانتخاب بھی ہونا ہے جس میں یوپی اے کو تقریباً ڈیڑھ لاکھ ووٹوں کی ضرورت پڑے گی۔یہ ووٹ ملائم ۔مایاوتی اوردیگر اتحادی کے مرضی پرمنحصر کرے گا۔ کانگریس آج خود احتسابی کی قوت سے محروم ہے ۔ہمیشہ اس فکر میں رہتی ہے کہ اس کے کردہ گناہوں کا بوجھ کوئی اور اٹھائے اسی لئے وہ بحران کو دعوت دیتی رہتی ہے۔ کانگریس کو اپنے طویل ترین دور اقتدار میں شاید ہی اتنی مشکلات کا کبھی سامنا کرناپڑاہو، جس سے آج کل وہ دوچار ہے۔ پریشانیاں اس وقت پیش آئیں تھیں جب جے پی تحریک نے اسے اقتدار سے بے دخل کردیا تھا اور اس کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو حوالات میں بند کردیا تھا،مایوسی کا شکار اس وقت بھی ہوئی تھی جب وی پی سنگھ کی منڈل اوربدعنوانی کے خلاف بوفورس تحریک نے آسمان سے زمین پر لاکر اسے پٹخ دیا تھا، نہایت ہی دشوار گزار مرحلہ اس وقت بھی طے کرنا پڑا تھا جب مسٹر لال کرشن اڈوانی نے درخشاں ہندوستان کے زعم میں کانگریس کی ٹوٹ پھوٹ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کا وجود ختم ہوجائے گا اور کانگریس تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ جائے گی ۔ اس وقت جتنے بھی عوامل تھے سب بیرونی تھے اور اس میں کانگریس کی غلطی کم اور بیرونی دسیسہ کاریاں زیادہ تھیں لیکن اس وقت کانگریس بحران کے جس دور سے گزر رہی ہے ، الزامات کی بوجھار ہورہی ہے، بدعنوانی کے بدنما داغ اورکمزور ترین حکومت چلانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں ، اس کی ساری ذمہ داری کانگریس کی بے عملی، آرام پسندی، ڈرائنگ روم پولٹکس، اندرونی سازش اور وزراء کا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش کی ہے۔ کانگریس آج بھارتیہ جنتا پارٹی کو کمیونسٹ کے زوال کے بعد ٹوکری بھر بھرکر موضوع فراہم کرر ہی ہے۔ 2004 سے 2009 کا وقت تھا اور وہی بی جے پی تھی جو موضوع کے لئے ترس رہی تھی لیکن 2009 میں کمیونسٹ کی نشست کیا کم ہوئی بی جے پی کانگریس کی گردن پر سوار ہوگئی اور اس کے بعد مسلسل بی جے پی کا کانگریس پر حملہ جاری ہے اور کانگریس کی آرام طلبی کا یہ عالم ہے کہ کوئی اس کا منہ توڑ جواب دینے والا نہیں ہے۔ کانگریس اگر ضمنی انتخابات میں ناکام رہی ہے یا 2014کے عام انتخابات میں اقتدار گنوا دے گی تو یہ اس کی نا اہلی ہوگی نہ بی جے پی کی اپنی کامیابی۔ کانگریس کے ایک ایک قدم سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومت کرتے کرتے تھک گئی ہے اور انہیں نہ تو یہاں کے عوام کی پرواہ ہے نہ اپنے رائے دہندگان کی کوئی فکر جو ہمیشہ سے اس کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔ دنیا میں ایسی بہت ہی کم پارٹیاں ہوں گی جو نوشتہ دار کو نہ پڑھ سکیں اور اس پر لکھی عبارت کو نہ سمجھ سکیں۔ کانگریس آج اسی دور سے گزر رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی حکومت نہیں ہے سب اپنی اپنی مرضی سے کام کررہے ہیں۔ خصوصاً رسدات اور عوامی تقسیم کا نظام مکمل ناکارہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہر طرف انارکی پھیلی ہے۔ ملاوٹ، جمع خوری، کالابازاری عام ہے، حکومت بنیوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ کھربوں روپے خرچ کرکے ان کے مفادات کی نگہبانی کی جارہی ہے اور عام آدمی دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔

2014 میں پارلیمنٹ کے عام انتخابات بھی ہونے ہیں ۔ کانگریس کے لئے اب بھی دو سال کا وقت ہے ۔ وہ خواب کی دنیا سے باہرنکلے اور عوام کی تکلیف اور ان کے دکھ درد کا احساس کرے اور مہنگائی پر لگائے تو عوام کی توجہ دوبارہ کانگریس کی مبذول ہوسکتی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکس ہندوستان میں ہے اور حکومت کا خزانہ بھرا ہوا ہے اگر حکومت پیٹرولیم اشیاء پر ٹیکس کم کردے تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم ہوجائے گی اور عوام کو بہت حد تک مہنگائی سے نجات ملے گی کیوں کہ پیٹرولیم مصنوعات اور مہنگائی کا چولی دامن کا واسطہ ہے ۔ اس کے ذریعہ کنٹرول کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ غذائی اجناس مناسب تقسیم ، جمع خوروں پر سخت کارروائی کرکے بھی مہنگائی پر لگام لگاسکتی ہے ۔ آج تک جمع خور بنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور وہ دونوں ہاتھ ہندوستانی عوام کو لوٹ رہے ہیں اور ان کا خون چوس رہے ہیں۔سرکاری ریکارڈ میں یہ لوگ امیربھی نہیں ہوتے اس لئے غریبی کے نام پر سرکاری مراعات سے بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بنئے جس طرح عوام کو لوٹ رہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حکومت کی کارکردگی صرف مسلم نوجوانوں اور مسلمانوں کی زندگی اجیرن کرنے محدود ہوگئی ہے۔

کانگریس اگر چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں رہے تو سب سے پہلے پارٹی میں موجود آر ایس ایس ذہنیت کے حامل افراد سے پارٹی کو صاف کرنا ہوگا اور ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی جو کانگریس میں رہ کر بی جے پی کا کا م کرتے ہیں۔ کانگریس اس وقت راہل گاندھی کو2014 کے لئے تیار کررہی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کاصرف دلتوں کے گھرکھانا کھانے کے علاوہ کوئی اور کارنامہ نظر نہیں آرہا ہے۔ راہل گاندھی نے نہ تو دلتوں کے مسائل حل کئے اور نہ ہی ان کے دکھوں کا مداوا کیا۔ سب سے اہم بات جو تمام ودروں میں نوٹ کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ انہوں نے فی البدیہہ کسی رائے کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ردعمل کا ظاہر کیا۔ خواہ وہ فاربس کے بھجن پور کا دورہ کیا ہو یا بھرت پور کے گوپال گڑھ کا یا کہیں اور ،کہیں بھی انہوں نے کوئی بیان دیا نہ ہی میڈیا سے کوئی بات کی اور متاثرین دلاسہ دے کر چلے آئے ہم آپ کے لئے لڑیں گے لیکن وعدہ صرف قول تک محدود ہوکر رہ گئی فعل کا جامہ کبھی نہیں پہن سکا ۔ نوجوانوں میں مایوسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ تصور کرنے لگے ہیں کہ راہل گاندھی میں فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں ہے۔ بہر حال یہ تو وقت بتادے گا کہ راہل گاندھی میں کتنی صلاحیت ہے یا کس قدر فیصلہ لینے کی قوت ہے لیکن سردست کانگریس اس وقت بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ اس کے لئے کوئی اور ذمہ دار نہیں بلکہ اس کے کردہ گناہ ہیں۔ اس کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی اپنے کام کے تئیں بہت پرخلوص ہیں اور وہ کانگریس کی نئی زندگی عطا کرنے کی جی توڑ کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن مرکزی حکومت میں اعلی عہدوں پر بیٹھے پالیسی سازوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ کانگریس کی کیا حالت ہونے والی ہے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ جو باتیں عام لوگ سمجھ رہے ہیں وہ باتیں پالیسی سازوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ یہ لوگ کانگریس کی لٹیا ڈبونے کے لئے پوری طرح کمر کس لی ہے۔ پنجاب اسمبلی انتخابات کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہاں کانگریس کی شکست نہیں بلکہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن کی شکست ہوئی ہے۔ ملک میں پہلی بار اقلیتی طبقہ کے کسی فرد کو اس عہدہ پر براجمان ہونے کا موقع ملاہے لیکن پنجاب کے عوام کے اس کی قدر نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے اپنے علاقائی مفادات اور مسائل کو زیاد ہ اہمیت دی۔آپ یہ تصور کریں اگر اس وقت کوئی مسلمان وزیر اعظم ہوتا اور پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی تو میڈیا، کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں کا رویہ اور خیال مسلمانوں کے بارے میں کیا ہوتا۔

ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵

9810372335

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *