Home / Socio-political / سچے آدمیوں کا جھو ٹاامیر

سچے آدمیوں کا جھو ٹاامیر

سچے آدمیوں کا جھو ٹاامیر

سمیع اللہ ملک

ہم سمجھتے ہیں جس کا چرمی بٹوا نو ٹوں سے بھرا ہوا ہو اور اس میں ترتیب سے مختلف رنگوں کے کر یڈ ٹ کا رڈ سجے ہوں ، وہ ہو تا ہے خوش قسمت ۔ شاندار لشکارے مارتی نئی نکورگاڑی اور وردی پہنا ہوا شوفر گاڑی کے آگے اور پیچھے ‘کھلی گاڑیوں میں شعلہ اگلنے کو تیار چمک دار بند وقیں تھا مے مستعد گارڈ ز ، ہٹو بچو کا شور ، اور پھر جب صاحب اتریں تو کھٹ سے دروازہ کھولنے والا اور فرمانبردار سر جھکا ئے ملازم‘ بہت بڑا مکان جس کے آہنی پھا ٹک پر مسلح چو کیدار اور مکان کے ہرکونے کی خبر لیتے متحرک کیمرے ، قیمتی سیل فونز ،ہر دم مختلف سُروں سے اپنی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے ، ڈیل اور کا روباری ڈیل پلا ٹوں کے سودے ، ڈھیر ساری چیک بکس اور مو ٹے موٹے رجسٹر جن کے صفحات لین دین کے ہندسوں سے سیاہ ہوں پھر بہت بڑی سی لمبی میز جس پر ہر طرح کی نعمتیں سجی ہوں، معدنی پانی کی سر بمہر بو تلوں کی قطار‘ اشتہاانگیز خوشبوؤں سے مہکتاخواب ناک ما حول‘ نازک سے قیمتی برتنوں سے سجا دسترخوان ،سفید نیپکنز اور پھر لین دین کی باتیں کرتے ہوئے لذتِ کام ودہن کی آزمائش ‘ ایسے ہوتے ہیں خوش قسمت ۔ خاک بسر لوگ ایسوں کو دیکھ کر خوش قسمت سمجھتے ہیں ۔ ان جیسا بننے کی تگ ودو میں ہلکان اور آزردہ رہتے ہیں ۔ وہ خود کو بد قسمت سمجھتے ہیں اور آہیں بھرتے ہیں،امیری ، غریبی ہم نے معیار بنا لیا ہے خوش قسمتی کا ، خوش نصیبی کا۔

’’انسان کا خیال امیر ہوتو وہ خوش نصیب ہو تا ہے اور اگر خیال غریب ہو تو دولت کی ریل پیل میں بھی بد نصیب ‘‘۔ انسان کے لیے سامانِ تعیش وآسائش ضرورت بن کے رہ جاتے ہیں اور دوسرے کے لیے رشتہ جاں اور تارِ نفس کی بقا ء سے زیادہ کوئی اہم ضروت نہیں ہوتی ۔ انسان حریص ہے ، نا شکرا ہے ، ظالم ہے ، مسافر خانے میں ہمیشہ آباررہنا چا ہتا ہے ،   قبر ستان میں کھڑے ہو کر اپنے ہمیشہ رہنے کا بے بنیاد دعویٰ کر تا ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ اس دنیا میں جو آیا اسے واپس جانا پڑتا ہے، پھر دعویٰ کیا؟ قیام کیا پھرجبری رخصت، اگر ٹھہرنا مقدم ہو تو رخصت کی کیا ضروت ! اور اگر جانا ضرورت ہو تو ٹھہرنے کے منصوبے بے معنی ہیں ۔ اگر ظاہری مرتبے قائم رہ جائیں تو انسان اندر سے قائم نہیں رہتا ۔ باہر سے خطرہ نہ ہو تو بدن کی چہار دیواری اندر سے گلنا شروع ہو جاتی ہے انسان اپنے بوجھ تلے آ پ ہی دب کر رہ جا تا ہے۔ وہ اپنے آپ کو خواہشات کی دیواروں میں چنوا تا رہتا ہے اور جب آخری پتھر اس کی سانس روکنے لگتا ہے تو پھر وہ شور مچا تا ہے کہ اے دنیا والو! کثرت، خواہشات سے بچو، کثرت سہولت سے گریز کر و، مال کی محبت سے پر ہیز کرو، کثرتِ مال تمہیں غافل کردے گی۔

مال ودولت کے سہارے حکومتیں کرنے والے بالآخر کار ندامتوں اور رسوائیوں کے حوالے کر دیئے گئے ۔ دولت عز ت پیدا نہیں کرتی ، وہ خوف پیدا کرتی ہے ، اور خوفز دہ انسان معزز نہیں ہو سکتا ۔ غریبی محتاج رہنے کی وجہ سے خالق کے در پر سر نگوں رہتی ہے اور یوں غریبی قربِ حق کا ایک قوی ذریعہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان غریب ہو جائے یا اسے غریب ہی رہنے دیا جائے ۔ ایک سماج میں امیرا ور غریب کے درمیان جتنا فاصلہ بڑھتا جائے گا، اتنی ہی سماج میں کر پشن بڑھے گی۔ وہ معاشرہ تباہ ہوجائے گاجہاں غریب کو نظر انداز کر دیا گیا۔ غریب ہی امیر کی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ غریب سائل ہے اور امیر سخی نہ ہو تو اسے بخیل ہونے کی سزادی جائے گی۔ غریب حقدار ہے اور اگر اس کو اس کا حق نہ دیا جائے تو حق غصب کرنے والے کو عذاب میں گرفتار کر دیا جائے گا اور عذاب کی انتہائی شکل یہ ہے کہ ان لوگوں کے دل سے دولتِ تسکین نکال لی جائے گی اور یوں ایک امیر انسان پیسے کی فراوانی کے باو جود پیسے کی شدت میں مبتلا ہوکر ایک اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہو گا ۔ امیر آدمی کا خوف غریب کے خوف سے زیادہ ہو تا ہے ۔ غریب کے پاس تو پھر بھی اچھا زمانہ آنے کی امید ہو سکتی ہے لیکن امیر کے لیے برے زمانے کے آجانے کا خوف ہمیشہ سر پر تلوار بن کر لٹکتا رہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں پیسہ نہیں بچا سکتا بدنامیوں سے، بے عزتیوں سے ، دشمنوں سے ، موت سے ‘ پھر پیسہ کیا کر تا ہے ؟صرف نگاہ کو آسودہ کر تا ہے اور یہ آسودگی دل کو مردہ کر دیتی ہے ،بے حس بنا دیتی ہے اور آدمی کثرتِ مال کے باو جو دتنگی خیال میں مبتلا ہو کر اذیت ناک انجام سے دو چار ہو جا تا ہے۔

 خدا اُس وقت سے بچائے جب مظلوم اور بے زبان خطرہ گویائی کے طلسمات شروع کردے ۔ یہ خطرہ ایوانوں میں زلزلہ پیدا کر سکتا ہے، اس سے پہلے کہ غریب آپے سے باہر ہو اُس کی غریبی کو ٹالنے کی کو شش کی جائے اُس کا خیال رکھاجائے بڑے بڑوں کی بڑی بڑی خدمت کرنے کے بجائے غریبوں کی چھوٹی چھوٹی ضرورت پوری کردی جائے ۔ ان کے کچن سے بھی دھویں اورخوشبوئیں اٹھیں ۔ ان کے دستر خوانوں پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنے کا مو قع موجود ہو نا چاہئے ۔غریب کو خدا کے لیے صرف نصیحت اور دو اسے کلمے نہ پڑھاؤ، اس کا دکھ بانٹو ، اُس کا غم بانٹو۔ اگر غریب کو مفت دوائی نہ ملی تو تمہارے بڑے بڑے ہسپتال بیمار ہو جائیں گے ، تمہارے خزانوں میں کیڑے پڑجائیں گے ‘دیمک لگ جائے گی ۔ ابھی وقت ہے کہ سو چا جائے ،سمجھا جائے، ہوش کیا جائے۔ غریب قیمتی سرمایہ ہے بشر طیکہ اسے غریب نہ رہنے دیا جائے۔ کیا ہو رہا ہے ہمارے آس پاس ! آپ اور میں روز دیکھتے ہیں کسی غریب کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں اور اس کی معصوم بچی مر جا تی ہے اور پھر وہ اس کے کفن کے لیے بھیک ما نگتا ہے ہم سب مر گئے ہیں کیا ؟ ہاں ہم زندہ ہی کب تھے۔

موجودہ حکومت کی عقل پر ما تم کیا جا نا چاہئے جن کا ارشادِ عالی ہے’’ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے آئی ایم ایف سے قرضہ طلب کیا  اور سب سے پہلے کا میابی حاصل کی۔‘‘ یہودی مہاجنوں کے پاس پاکستان کو گروی رکھ کر قرضہ حاصل کرنے کو وہ خوش قسمتی کہتے ہیں ۔ وہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ سود کی لعنت نے ہمیں برباد کر دیا ۔ وہ رب سے جنگ کرنے نکلے ہیں ۔ میرے رب سے تو کوئی بھی نہیں جیت سکتا ۔ یہ جناب علی عثمان ہجویری کس وقت یا د آگئے ! آپ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حج کے سفرمیںتھے ۔ ایک آدمی کو قافلے کا امیربنا دیا گیا ۔ راستے میں لٹیروں نے قافلے کو روک لیا اور اپنے سردار کے روبرو پیش کر دیا ۔ سردار نے کہا : جو کچھ ہے نکا لو ۔ سب نے جو کچھ تھا وہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ سردار نے پوچھا : تم نے سب کچھ پیش کر دیا ہے ؟ سب نے کہا: ہاں اب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے ۔ سردار نے کہا: ان سب کی تلا شی لو ۔ تلا شی لینے پر امیر قافلہ کے پاس خفیہ جیب سے کچھ اشرفیاں بر آمد ہوئیں ۔ ڈاکوؤں کے سردار نے کہا : اسے قتل کر دیا جائے ۔جناب ہجویری نے مد اخلت کی اور کہا : یہ نہیں ہو سکتا ، وہ ہمارے امیر قافلہ ہیں، ہم یہ برداشت نہیں کریں گے ۔ جاہل ، اجڈ ، وحشی ڈاکوؤں کے سردار نے کیسی عجیب بات کہی ،بولا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سچے آدمیوں کا امیر جھو ٹا ہو !‘‘سالارِ کارواں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صادق ہو ، امین ہو، جھوٹے سالا روں نے ہی تو ملت کا بیڑہ غرق کر رکھا ہے۔سارہ پالن کے پر ستارصدرزرداری خوش قسمت ہیںکہ این آراوکی بناء پرملک کے سب سے بڑے منصب پر براجمان ہیں۔ملک کی لوٹی ہوئی دولت کوبچانے کیلئے دن رات منصوبہ بندی کاعمل جاری ہے ۔ ملک کے وزیرقانون فاروق نائیک نے جینیواکاخفیہ دورہ کرکے یہ یقین دہانی حاصل کرلی ہے کہ ۱۵سال کے بعدواقعی یہ مقدمات ختم کردیئے جائیںگے اوراس طرح زرداری صاحب پرکسی بھی مقدمے کااندیشہ باقی نہیںرہے گا۔سناہے کہ عدلیہ کوخاموش کرنے کیلئے ستمبرکے تیسرے ہفتے میں سوئٹزرلینڈکی عدالت کوخط لکھ دیاجائے گا۔ خالقِ کائنات کی بھی ایک عدالت ہے جہاںسب کوحاضرہوناہے اورایسامال تودہکتے انگاروںمیںتبدیل کردیاجائے گا۔بہتریہی ہے کہ آپ ذرا اپنی خفیہ جیب کوابھی سے ٹٹو لئے ،اگر اپنی خفیہ جیب سے پو شیدہ خزانہ نہیں نکالیں گے تو بہت جلدضرورکوئی ان کی جیب سے خود نکال لے گا۔کچھ بھی تو نہیں رہے گا جناب ،ہاں کچھ بھی نہیں، بس نام رہے گا اللہ کا۔

میںفقیروںسے ہی کرتاہوںتجارت اکثر        جوایک پیسے میںلاکھوںکی دعائیںدیتے ہیں

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *