Home / Socio-political / شامِ مقتل میں کوئی بھی نہ عزادار اٹھا

شامِ مقتل میں کوئی بھی نہ عزادار اٹھا

”جب آپ کسی کواٹھاتے ہیں توبہتریہی ہے کہ ان کے منتظرماں باپ کوبھی قطارمیں کھڑاکرکے گولی ماردیں،تاکہ انتظار کی سولی پرسسک کرمرنے سے بہترہے کہ ایک ہی جھٹکے میں موت واقع ہوجائے ۔نہ ہم لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے دربدراس طرح سرد راتوں میں میڈیاکے سامنے دہائی دیں اورنہ ہی ان اداروں کی بدنامی ہو “۔

”میراشوہرصدرضیاء الحق کے زمانے میں مجلس شوریٰ کے رکن تھے ،بعدازاں جب انتخابات میں ہارگئے توامریکاچلے گئے۔کچھ عرصے کے بعدپاکستان واپس آگئے اور ہمارے ساتھ ایک سال تک رہے ،ایک دن باہرکسی کام سے گئے لیکن ابھی تک واپس نہیں لوٹے۔پولیس والے اب ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔میں اپنے بوڑھے والدین اورچھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ان سے چھپتی پھررہی ہوں،گھرمیں کمانے والابھی کوئی نہیں رہا،بتائیں میں کیاکروں۔کبھی کبھی جی چاہتاہے کہ کھانے میں سب کوزہرملا کرکھلادوں اورخودبھی ان کے ساتھ خودکشی کرلوں لیکن کیاکروں خودکشی حرام ہے“۔

”اس سے پہلے کہ آسمان ٹوٹ پڑے،قیامت کی گھڑی آجائے اورتوبہ کی بھی مہلت نہ ملے،خداراہماری سن لواورہمارے پیاروں کوچھوڑدو“۔

”جنہوں نے میرے شوہرکوپچھلے چھ سالوں سے غائب کیاہے میں ان کوخداکے نام پرمعاف کرتی ہوں لیکن مجھے صرف یہ بتادیاجائے کہ میراشوہرزندہ بھی ہے کہ نہیں“۔

”ہمیں ان سے کوئی امید نہیں لیکن اس کے باوجودمیڈیاپرآہ وزاری اس لئے کررہے ہیں کہ کل کلاں اگرآپ کویہ خبرملے کہ ہم نے اجتماعی خودکشی کرلی ہے توآپ اس بات کے گواہ رہیں کہ ہمیں کہیں سے بھی کوئی انصاف نہیں ملا“۔

”میں ضعیف العمری میں باجوڑ سے اپنے نوجوان بیٹے حافظ عبدالرحمان کوڈھونڈتاہوااسلام آبادکی یخ بستہ سردی میں اس لئے حاضرہواہوں کہ میرے بڑھاپے کاواحدسہاراوہی ہے اورمیں اپنی سفید ریش کاواسطہ دیکرکہتاہوں کہ اسے چھوڑدیں اوراگراسے ماردیاہے توتب بھی مجھے بتادوتاکہ مجھے اوراس کی بوڑھی ماں کوصبرآجائے“۔

”چنددن پہلے ثناء سنگت کی مسخ شدہ لاش ملی ہے جس کے سارے جسم پرتشددکے واضح نشانات موجودتھے۔ڈرل مشین کے ساتھ جسم کی ہڈیوں میں سوراخ کئے گئے جس سے اس کی موت واقع ہوگئی،بتائیں اس کی موت کاکون ذمہ دارہے“۔

دل دہلا دینے والے ایسے سینکڑوں پیغامات اورواقعات ہیں جوآج کل آپ اپنی ٹیلیویژن اسکرین پرسن رہے ہیں۔یہ وہ افرادہیں جن کے پیارے پچھلے کئی سالوں سے اپنے گھروں سے غائب کردیئے گئے ہیں اوران کے لواحقین ان کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں۔ان لوگون کاکہناہے کہ ان کے عزیزواقارب کوپاکستان کے خفیہ اداروں نے غائب کررکھاہے ۔کچھ لوگ توبہیمانہ تشددکی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں اورکچھ زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلاہیں۔چنددن پہلے سپریم کورٹ کے حکم پران دس افرادکوجن کوعدالت عدم ثبوت کی بناء پربری کرچکی تھی لیکن اڈیالہ جیل سے رہائی ملتے ہی انہیں اٹھالیاگیا۔عدالت نے جب نوٹس لیاتوان اداروں نے ان کی موجودگی کااعتراف کرتے ہوئے ان سے مزیدتحقیق کیلئے کچھ وقت مانگاجن میں سے تین کسی پراسراربیماری کی وجہ ہلاک ہوگئے اوران کی لاشے ان کے لواحقین کے حوالے بھی کئے جاچکے ہیں اورباقی سات افرادکی یہ حالت تھی کہ ان کودیکھ کررونگٹے کھڑے ہوگئے۔

لاپتہ افرادکی کوئی حتمی فہرست دستیاب نہیں۔پشاورہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمدخان کے مطابق سات سولوگ ہیں اورانہیں مختلف ایجنسیوں نے فاٹااوردیگرقبائلی علاقوں میں رکھاہواہے۔ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نے اب تک ایک ہزارتیس ناموں کی فہرست جاری کی ہے جس میں سے پانچ سوکاسراغ مل چکاہے جبکہ بلوچ رہنماوٴں کادعویٰ ہے کہ ان کے تین ہزارکے لگ بھگ شہری لاپتہ ہیں۔سپریم کورٹ نے ۲۰۰۶ء میں لاپتہ افراد کے مسئلے کواٹھایاتھالیکن چھ سال گزرجانے کے باوجودعدالت بھی کسی حتمی فیصلے تک پہنچنے سے قاصرہے۔ریٹائرڈجسٹس جاویداقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن بھی بنالیکن یہ کمیشن بھی ابھی تک ان تمام افرادکوبازیاب کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکایاپھرابھی تک ان لاپتہ افرادکے بارے میں صحیح رپورٹ قوم کے سامنے نہیں لاسکا۔اس تاخیرکے دوران ایسی ایسی خوفناک کہانیاں سامنے آئیں کہ سن کردل دہل جاتاہے۔

مثلاًان لاپتہ افرادمیں تین سگے بھائی عبدالصبور،عبدالماجداورعبدالباسط بھی شامل تھے جوقراآن کی اشاعت کاکام کرتے تھے۔ان کی والدہ مسلسل اپنے بیٹوں کوتلاش کرتی رہی ۔ ماں کو۲۶جنوری کوعبدالصبورکی لاش ملی اور۱۳فروری ۲۰۱۰ء کوسپریم کورٹ کے حکم پرجن سات افرادکوعدالت میں پیش کیاگیاان میں اس کے دوبیٹے عبدالماجداورعبدالباسط بھی عدالت میں حاضرہوئے۔بیٹوں کی حالت اس قدرخراب تھی کہ ماں یہ صدمہ برداشت نہ کرسکی اور۱۵فروری کواپنے بیٹے عبدالصبورسے جاملی جس کی موت کوگھروالوں نے اس سے پوشیدہ رکھاہواتھا۔یہ لاپتہ افرادکی بہت سی داستانوں میں سے ایک کہانی کی وہ یکطرفہ تصویرہے جس کوسن کرہرپاکستانی کادل فرطِ غم سے بوجھل ہے لیکن اس تصویرکے کچھ ایسے دوسرے پہلوبھی ہیں جن کودیکھے یا سنے بغیر کسی فیصلے تک پہنچنا ازحدمشکل ہے۔

اس تصویرکادوسراپہلو،وہ۳۶ہزارسے زائد افرادجن کوخودکش حملوں میں ماردیاگیااوریقینااس سے کہیں زیادہ ان کے غمزدہ خاندانوں کے شکستہ دلوں،اشکبارآنکھوں اوراجڑی مانگ کے ساتھ بیواوٴں،یتیم بچوں اوربوڑھے ماں باپ کے دلوں کوٹٹولنے کے بعدایسادردناک نظرآتاہے کہ دل کٹ کررہ جاتاہے،جگرپاش پاش ہوجاتاہے اوریہ فیصلہ کرنابہت مشکل ہے کہ ان دونوں میں کون ظالم ہے اورکون مظلوم ۔بالآخرسننے اوردیکھنے والایہ کہنے پرمجبورہوجاتاہے کہ میرے ہی جسم کے دونوں حصوں کوجس ناہنجارنے زخمی کیاہے اگروہ سامنے آ جائے تواس کامنہ نوچ لیاجائے۔ایک انتہائی نیک اورشفیق ڈاکٹرجنر ل حافظ مشتاق بیگ ،صوم وصلاة کاپابند،متقی وپرہیزگار،جن کادل نہ صرف قرآن سے معمورتھابلکہ وہ تو پاکستان کے شہریوں کوبینائی تقسیم کیاکرتے تھے ، ان کو ۲۵فروری ۲۰۰۸ء کوانتہائی سنگدلی کے ساتھ ایک خودکش حملہ آورنے شہیدکردیا۔وہ کسی جنگ میں شریک نہیں تھے بلکہ کوئی ملک دشمن بھی ان کے سامنے علاج کیلئے لایاجاتاتواس کے علاج پربھی پوری توجہ دیتے تھے۔ ان کی بیٹی مریم مشتاق پوچھتی ہے کہ آخرکس کے ہاتھ پراپنے بے گناہ باپ کالہوتلاش کروں، کوئی تواس حادثے کاذمہ دارہے؟؟

نائن الیون کے بعدجب فاسق کمانڈونے اس پرائی جنگ میں دہشتگردی کے نام پرشمولیت اختیارکی،اس دن سے لیکرآج تک دہشتگردوں کے ہاتھوں ایک لاکھ سے زائدہمارے فوجی،سویلین شہیداورزخمی ہوچکے ہیں اور۷۸بلین ڈالرسے زائدپاکستان کامالی نقصان ہوچکاہے اوریہ خسارہ ابھی تک جاری ہے۔گویاپاکستان ابھی تک حالت جنگ میں ہے۔ اب تک پاکستان کے ہربڑے شہراورقبائلی علاقوں میں ایک ہزارسے زائدخودکش حملے ہوچکے ہیں ۔پاکستان کی افواج ان عناصرکے خلاف ملک بھرمیں موجودہ سول حکومت کے حکم پران کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہے۔میڈیامیں ان لاپتہ افرادکی کئی ویڈیودکھائی جارہی ہیں لیکن ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ان ویڈیوکوبھی سامنے لایاجائے جہاں یہ دہشتگردہمارے سیکورٹی فورسزکے اہلکاروں کولٹاکرجانوروں کی طرح ذبح کررہے ہیں اوران کے سرتن سے جداکرتے ہوئے نعرے لگارہے ہیں۔فرشتہ صفت کرنل امام کوبیدردی کے ساتھ شہیدکرنے کی ویڈیوکامنظرابھی تک قوم کی آنکھوں کے سامنے ہے۔

حضرت علی  کافرمان ہے کہ حکومتیں اورادارے کفرکے نظام کے تحت توچل سکتے ہیں لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔گزشتہ گیارہ سالوں میں ان دہشتگردوں کوکیفرکردارتک پہنچانے میں کون سے عوامل مانع ہیں اورعدالتوں کوکس نے روکاہے ۔المیہ یہ ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہے۔فوج ملک کی سلامتی کیلئے ان دہشگردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے، فوجیوں کی ایک کثیرتعداداورہزاروں شہری اس پرائی جنگ میں ان دہشتگردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرچکے ہیں اورہم ماننے کوتیارنہیں کہ ملک حالت جنگ میں ہے اور ابھی تک ۱۸۶۰ء کا کریمنل پروسیجر کورٹ عدالتوں میں رائج ہے جوانگریزنے اس خطے کے عوام کوغلام بنانے کیلئے لاگوکیاتھا۔اس کے نتیجے میں نہ توجج خوف کے مارے کوئی فیصلہ دینے کی پوزیشن میں ہیں،نہ کوئی گواہ یاعینی شاہدعدم تحفظ کی بناء پرعدالتوں میں ان ظالم دہشتگردوں کے خلاف گواہی دینے کوتیار ہیں۔

وزیرداخلہ رحمان ملک میڈیاکے سامنے کئی دفعہ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ سینکڑوں خودکش حملہ آورجن کوان کے ساتھیوں سمیت زندہ گرفتارکیاگیا،عدالتیں ان کوبری کرچکی ہیں اورآج وہی دہشتگردملک میں دندناتے پھررہے ہیں۔اس طرح یہ واضح ہوگیاہے کہ قانون اورانصاف میں کہیں ایساسقم موجودہے جس کوختم کرنے کی اشدضرورت ہے اوراس کیلئے ہمیں جلدازجلداپنے مروجہ قانون کوتبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔یہاں یہ بات ذہن نشین رکھناضروری ہے کہ پاکستان سے ہزاروں نوجوان اپنے والدین کوبتائے بغیر افغان جہادمیں شرکت کیلئے چلے گئے جہاں وہ شہادت کے رتبے سے سرفرازتوہوئے لیکن ماں باپ آج تک ان کاانتظارکررہے ہیں۔اسی طرح آج بھی کئی نوجوان ایسے ہیں جو اپنے گھروالوں کوبتائے بغیریاتوطالبان تحریک میں یاپھربی ایل اے میں شامل ہوگئے ہیں اوران کے والدین ملک کے اداروں پرمحض شک کررہے ہیں۔

یک ہزارسے زائدجوخودکش حملے ہوئے ہیں ،ان خودکش حملوں میں کام آنے والے ہزارسے زائدافرادبھی تولاپتہ ہیں اوراب ان لاپتہ افرادکے لواحقین نے پچھلے دوہفتوں سے اسلام آبادمیں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنادے رکھاہے۔یہ پچھلے چھ سال سے مختلف اوقات میں اپنے احتجاج دھرنوں کے ذریعے قوم کے ضمیرکوکچوکے لگاتے رہتے ہیں لیکن لگتایہ ہے کہ ان کی فریاداورنالے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بننے جارہے ہیں کیونکہ اب ان کے لواحقین نے مرتے دم تک بھوک ہڑتال اور دھرنے کوجاری رکھنے کاعزم کرلیاہے۔

خوفِ تادیب سے مظلوموں پہ رویا نہ گیا شامِ مقتل میں کوئی بھی نہ عزادار اٹھا

سامنے تیرے زر افشاں ہے نئی صبحِ امید اپنی پلکوں کو ذرا دیدہ ٴخوں بار اٹھا

اگرآپ کویادہوجب امریکانے افغانستان پرحملہ کیاتھاتوصوفی محمدسوات،فرنٹیر اورپاکستان کے مختلف شہروں کے پندرہ ہزاربچوں کولیکرافغان جہادمیں شرکت کیلئے روانہ ہوئے تھے ان میں سے مٹھی بھرواپس نہیںآ ئے تھے اوراسی طرح بی ایل اے کے سینکڑوں افراداس وقت افغانستان میں بھارتی اورسی آئی اے کے کیمپوں میں زیرتربیت ہیں جن کے لواحقین ان کے غائب ہونے پرپریشان ہیں۔جب سے پاکستان نے نیٹوسپلائی پرسختی سے پابندی لگائی گئی ہے اسی دن سے امریکااپنے حواریوں کے ساتھ مل کرپاکستانی افواج کے خلاف مختلف سازشوں میں مصروف ہے۔ایک طرف وہ جہاں بلوچستان کے لاپتہ افرادکے حوالے سے کانگرس میں قراردادپیش کرکے پاکستان پردباوٴبڑھارہاہے وہاں وہ پاکستانی فوج کے خلاف یہ کہہ کرپروپیگنڈہ کررہاہے کہ پاکستانی فوج جو پنجابیوں پرمشتمل ہے وہ ملک کے دوسرے صوبوں کے شہریوں پرانسانیت سوزمظالم ڈھارہی ہے۔

بھارت نے سانحہ مشرقی پاکستان سے پہلے وہاں پاکستانی فوج کے خلاف یہ پروپیگنڈہ کرناشروع کردیاتھاکہ یہ پنجابیوں کی فوج ہے جوبنگالیوں کے حقوق غصب کررہی ہے، پٹ سن اورچائے سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ سے مغربی پاکستان مستفیذہورہاہے اورمشرقی پاکستان کوان کے جائزحقوق سے بھی محروم رکھاجارہاہے اورانہی دنوں پاکستانی افواج سے منسلک ساری دنیامیں من گھڑت انسانی زیادتیوں کے افسانے پھیلائے گئے جس کے بعدمکتی باہنی کوتربیت دینے کے بعدملک میں داخل کردیاگیااوران کی پشت پناہی پربھارتی فوج موجودرہی۔ان تمام باتوں اورسازشوں کااعتراف خودبھارتی فوجی جرنیل کئی مرتبہ کرچکے ہیں۔

بھارت ، اسرائیل اورامریکااس بات سے واقف ہیں کہ جب تک پاکستانی فوج کاعوام کے ساتھ جذباتی رشتہ قائم رہے گااس وقت تک وہ اپنے شیطانی منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔یہی وجہ ہے کہ بھارت نے جب بنگلہ دیش کواپنے ہاتھوں سے نکلتاہوادیکھاتوانہوں نے اپنے قدم مضبوط کرنے کیلئے بنگلہ دیش رائفلزجیسی بغاوت کے نتیجے میں ہولناک قتل وغارت کاایسامیدان گرم کیاکہ آج تک وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بنگلہ دیش پرقابض ہے اوراب وہ ایسی ہی ہولناک سازش بلوچستان کیلئے بھی کررہے ہیں۔بلوچستان کے سلسلے میں بھی یہ ٹرائیکااسی شیطانی کھیل میں مصروف ہے۔نائن الیون کے بعدفاسق کمانڈونے اس پرائی جنگ میں شرکت کرکے ملک کوایسی دلدل میں دھکیل دیاہے جس سے ملک ایک ایسی انارکی میں مبتلاہے جس کوقابوکرنے کیلئے ملک کے مختلف ادارے بشمول عدلیہ کوئی واضح لائحہ عمل اختیارکرتی نظرنہیںآ رہی۔آخراس پرائی جنگ میں ہمارے ایک لاکھ سے زائدفوجی اورشہری شہیداورزخمی ہوچکے ہیں ان کالہوکس کے ہاتھوں پرتلاش کریں؟

یہاں اس بات کوبھی مدنظررکھناہوگاکہ ریمنڈڈیوس کی گرفتاری کے بعدبہت سے چشم کشاانکشافات ہوئے کہ کس طرح ٹرائیکانے سینکڑوں افرادپرمبنی نیٹ ورکس کوپاکستان کے کونے کونے میں پھیلایاہواتھااورکس طرح بلیک واٹرکے ایجنٹ کھلم کھلاملک کے اندران دہشتگردکاروائیوں میں ملوث رہے ہیں اورآج ان غیرملکی عناصرکوملک سے تونکال دیا گیا ہے لیکن ریمنڈڈیوس بلیک واٹرکے تین سوایجنٹوں کی معیت میںآ ج بھی افغانستان میں ہمارے قبائلی علاقوں کی پٹی کے ساتھ اپنے شیطانی منصوبوں میں مصروف عمل ہے۔اس سلسلے میں کئی ملک دشمن گروہ اب بھی ملک میں بدامنی اورانتشارپھیلانے میں مصروف ہیں۔کئی گروہ اغواء برائے تاوان،دن دیہاڑے بینکوں سے کروڑوں روپے لوٹنے اور دیگر کاروائیوں میں مصروف ہیں۔میڈیاکے بعض ناتجربہ کاراہلکاران کاروائیوں میں اغواء اورہلاک ہوجانے والے افرادکوبھی بغیرکسی تحقیق کے خفیہ اداروں کے کھاتے میں ڈال کر اپنے ادارے کیلئے یک سنسنی خیزخبرتومہیاکردیتے ہیں لیکن دراصل اس سے ملک کے اداروں کوناقابل تلافی نقصان پہنچ رہاہے جس سے دشمن ضرورفائدہ اٹھاتے ہیں۔

بلوچستان کاایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہاں ایف سی کی گاڑیوں پربی ایل اے کے دہشتگردجب حملہ آورہوتے ہیں تویقینا وہاں فائرنگ کے تبادلے میں بعض اوقات دونوں اطراف سے کچھ لوگ مارے جاتے ہیں اورکچھ زخمی بھی ہوجاتے ہیں۔بی ایل اے ان کاروائیوں میں مارے اورزخمی ہونے والے افرادکواپنے ساتھ لیجاتے ہیں جوبعدازاں لاپتہ افرادکی فہرست میں ان کانام ڈال دیاجاتاہے اورمرنے والوں کوبلوچستان کی سڑکوں یاکھلے میدانوں میں پھینک کران کے لواحقین کے توسط سے ان کاالزام ایف سی پردھردیاجاتاہے ۔اسی طرح قبائلی علاقوں میں بھی روزانہ ان دہشتگردوں سے کہیں نہ کہیں مقابلہ جاری رہتاہے اوران واقعات میں مارے جانے یازخمی ہونے والوں کے عزیزواقارب بھی اپنی لاعلمی کی بناء پر اپنے بچوں کے غائب ہونے کی شکائت کررہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ فاسق کمانڈومشرف کے دورمیں بہت مظالم ہوئے،غیرملکی ایجنسیوں سی آئی اے اوربلیک واٹرکوکھلی چھٹی تھی اورقصرسفیدنے ڈومورکے مطالبے کے ساتھ ایک ناجائزحکمران کو پاکستان پراسی لئے مسلط رکھا۔آئی ایس آئی اورملک کے دوسرے خفیہ اداروں کی مرضی کے خلاف ان کی کاروائیاں جاری تھیں جنہیں فاسق کمانڈوکی حمائت حاصل تھی۔کیونکہ مشرف فوجی وردی میں ملک کے اقتدارپرقابض تھااس لئے اغیارکے تمام مظالم میں افواج پاکستان کوبھی موردِالزام ٹھہرایاجاتا رہا لیکن مشرف کی رخصتی پرجنرل پرویزکیانی نے فوری طورپرغیرملکی مداخلت پرقابوپانے کیلئے اپنے اداروں کوازسرنومضبوط کرناشروع کردیااورسویلین حکومت کے مختلف محکموں میں تعینات تمام فوجی افسروں کو فی لفورواپس بلاکرملکی سلامتی کی پالیسیوں کوازسرنوترتیب دیناشروع کردیالیکن فاسق کمانڈوکے دوراقتدارکی خرابیوں کوٹھیک کرنے کیلئے نجانے ابھی اورکتنے برس درکارہونگے۔

اب موجودہ حکومت یہ واویلاکرتی ہے کہ عدالتیں ان مجرموں کوسزائیں نہیں دیتی اوریہ مجرم رہاہوکردوبارہ ملکی سلامتی کے اداروں پرحملے کرکے دشمن کے منصوبوں پرعمل کررہے ہیں جبکہ عدالتوں کوشکائت ہے کہ تفتیش اتنی کمزورہے کہ عدم ثبوت کی بنیادپران مجرموں کوسزانہیں سنائی جاسکتی۔ان کے خلاف تفتیش اورثبوت اکھٹے کرنااورسول عدالتوں میں جاکران کے خلاف مقدمات میں الجھنافوج کاکام نہیں بلکہ فوج انہیں رنگے ہاتھوں گرفتارکرکے ملک کے دوسرے اداروں کے حوالے کردیتی ہے۔اب دیکھنایہ ہے کہ اس گھمبیرمسئلے کاحل کیاہے جبکہ پاکستان اس وقت دشمنوں کی سازشوں کے نرغے میں بری طرح الجھاہواہے۔پچھلے گیارہ سالوں سے سویلین ادارے،ہماری عدالتیں،انسداددہشتگردی کے ادارے اس معاملے کوسلجھانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

ملک کے کئی قانونی ماہرین اوردانشوروں کی یہ رائے ہے کہ انسداد دہشتگردی عدالتوں کی بجائے فوجی عدالتوں کاقیام بہت ضروری ہوگیاہے۔آرمی ایکٹ ہمارے آئین کا ایک اہم حصہ ہے اوراسی ایکٹ کے تحت فوجیوں پرکور ٹ مارشل کے مختلف مقدمات کافیصلہ ہوتاہے جس کوملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی تسلیم کرتی ہیں۔اب ہویہ رہاہے کہ فوج ان دہشتگردوں کو گرفتار کرکے پولیس کے ایک ایس ایچ اوکے حوالے کردیتی ہے اورہمارے اس ادارے کے پاس نہ تواتنے وسائل ہیں اورنہ ہی پولیس کی اتنی نفری ہے کہ ان مقدمات کی بھرمار کی بروقت تحقیق کرکے ثبوت اکٹھے کرے بلکہ موجودہ جمہوری حکومت نے پولیس کی اکثریت کواپنی حفاطت اورپروٹوکول کی تھکادینے والی غیرضروری ڈیوٹی میں جھونک رکھاہے۔اگر دہشتگردی کامقدمات کلی طورفوجی عدالتوں کے سپردکردیئے جائیں توپھر ان دہشتگردوں کوقرارواقعی سزادلوانے کیلئے ثبوت وشواہد اکٹھے کرنابھی ان کے فرائض میں شامل ہوجائے گا کیونکہ آرمی ایکٹ میں یہ واضح طورپردرج ہے کہ ملکی افواج کے خلاف جوسویلین افرادیاگروہ دہشتگردی میں ملوث ہونگے توفوجی عدالتیں ان کے خلاف مقدمات چلاکران کوقرارواقعی سزاسناسکتی ہیں۔

البتہ پاکستان کاآئین قطعاً اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ کسی بھی پاکستانی شہری کوبغیرکوئی وجہ بتائے اس کے گھرسے اٹھاکرغائب کردیاجائے۔اگرفوجی عدالتوں کاقیام عمل میں نہیں لایاجاتاتوپھربھی یہ بہت ضروری ہے کہ ان تمام افرادکی فہرست فوری طورپرعدالت عالیہ کے حوالے کی جائے تاکہ لاپتہ افرادکے لواحقین انتظارکی سولی سے نجات حاصل کرسکیں۔ویسے بھی اب اس بات کافیصلہ توعزت مآب چیف جسٹس جناب افتخارچوہدری صاحب نے کرناہے جنہوں نے آمنہ جنجوعہ کے سرپرہاتھ رکھ کراسے دلاسہ دیتے ہوئے یہ کہاتھاکہ آج کے بعدمیں نہ صرف تمہاراباپ ہوں بلکہ تمہاراوکیل بھی ہوں،میں یقیناً تمہیں انصاف دلاوٴں گا۔آمنہ مسعودجنجوعہ کادعویٰ ہے کہ میں اپنی سولہ سال کی ازدواجی زندگی کی گواہی دیتی ہوں کہ میں نے کبھی اپنے شوہرکوایسے کام یاایسی کسی سوچ میں ملوث نہیں پایا جس کی پاداش میں انہیں بغیربتائے غائب کردیاجائے۔وہ تواپنی زندگی میں کسی بھی شخص کوکوئی دکھ توکیا،پریشان بھی نہیں دیکھ سکتاتھالیکن آج اس کے بچوں اورلواحقین کونجانے کیوں عذاب میں مبتلاکیاگیاہے۔

دیکھتی ہے جوں ہی پسپائی پہ آمادہ مجھے روح کہتی ہے بدن سے، بے ہنر میں بھی تو ہوں

دشتِ حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا اے جنوں میں بھی تو ہوں، اے ہم سفر میں بھی تو ہوں

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *