Home / Socio-political / عجب واعظ کی دیں داری ہے یا رب!

عجب واعظ کی دیں داری ہے یا رب!

عجب واعظ کی دیں داری ہے یا رب!

سمیع اللہ ملک

بہت عجیب ہیں ہم۔میں تو بد نصیب کہنے وا لا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہی کہنا چا ہتا ہوں۔اندر مجھے روکتا ہے کہ نہیںاتنا آگے نہ جا ؤ۔ہما رے رویے،ہما را بر تاؤ،ہما ری بو دو باش،    ہما ری خواہشات سب کچھ عجیب ہے۔ خواب بھی،ہم تضادات کا مجموعہ ہیں ۔جو اہم ہے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں،جو ثانوی ہے اسے اوّلیت دیتے ہیں ۔میں بندہ نفس ہوں ، مجھے بندہ رب بننا تھا اور بندہ رب وہ ہے جو اس کی چلتی پھرتی ،جیتی جا گتی،ہنستی گا تی تصویروں سے محبت کرے۔لیکن ٹھہرئیے !مشروط محبت نہیں۔۔۔۔بس محبت،جس میں اخلاص ہو، طلب نہ ہو۔بس دینا ہی دینا،لینا کچھ نہیں ،کھلے با زو اور کھلا دل ،تنگ دلی کا گزر بھی نہ ہو۔طمع اور لا لچ چھو بھی نہ سکیں۔۔۔۔۔بس خالص محبت۔میرا رب تو اس سے محبت کرتا ہے جو اس کی مخلوق سے محبت کرے۔کتنا عجیب ہے یہ رویہ کہ میں کسی سے محبت کرتا ہوں اور اس کی تخلیق سے صرف نظر!

وہ وقت آج بھی مجھے یاد ہے ۔۔۔۔۔ جنا ب حسن مطہر کے ہاں مکہ مکر مہ میں ،عمرہ سے ابھی لوٹے تھے اور مدینہ منورہ کی تیاری تھی،بڑا سا ڈرائنگ روم اور سفید با لوں والے با با جی۔۔۔۔اور کچھ دوستوں کی بحث پر ان کی مسکراہٹ۔میں نے انسا نی شکل میں بہت فرشتے دیکھے ہیں،وہ بھی ایسے ہیں،بہت تحمل اور بہت صبر وا لے۔۔۔۔اور مجھے تو دونوں چھو کر بھی نہیں گزرے۔جب بہت دیر ہو گئی تو انہوں نے مجھ سے کہا’’تو سمجھ گیا ہے ناں،ویسے ہی یہ بحث کر رہے ہیں !‘‘ تو میں بہت ہنسا اور کہا ’’نہیں با با جی مجھے کچھ کچھ تو سمجھ آگیا ،پوری طرح نہیں‘‘۔’’او پگلے جب تجھے کسی کی بری عا دتیں بھی اچھی لگیں ،اس کے غصے پر بھی پیار آئے ،تو اس کی جھڑکی سن کر بھی سر شار ہو،اس کی ڈانٹ سننا چاہے بلکہ خود ایسی حرکت کرے کہ وہ تجھے ڈانٹ دے،تجھ میں سے ’’تو‘‘ نکل جا ئے اور ’’وہ‘‘ بس جائے‘انا صرف دم نہیں توڑے بلکہ فنا ہو جائے،جب وہ دھتکار دے اور تواور قریب آئے۔۔۔۔جب تجھ

میں ، تیر ی رگ و پے میں، تیری نس نس میں، لہو کی ہر بو ند میں وہ سما جا ئے تو سمجھ لینا ہاں ! اب ہے محبت،اگر ایسا نہیں تو عبث ہے،‘سب عبث، سب کا ر عبث ہے ۔

ہاں مجھے سمجھ آگیاتھا،تجربہ تو کو ئی بھی نہیںجھٹلاسکتا۔با لکل ایسا ہی ہے۔مجھے عجیب لگتا ہے ۔ہم سب اللہ کی محبت کے طلبگار ہیں اور مخلوق سے بیزار۔نجا نے کیا ہے یہ۔میں اسے قید کر نا چا ہتا ہوں جب کہ محبت آزادی ہے۔وہ سارے عالم کا رب ہے ،ساری کا ئنات کا رب ہے اور میں اسے صرف رب المسلمین سمجھ بیٹھا ہوں۔وہ لا محدود ہے اور میں اسے محدود کر کے اپنی بوتل میں بند کر نا چا ہتا ہوں۔میں اس کے بندوں کو تقسیم کر تا ہوں خا نوں میں،وہ سب کو دیتا ہو اور میں سب سے روکتا ہوں ۔وہ وسیع ہے اور میں تنگ دل۔میں بندوں کا حساب کتاب اس پر نہیں چھوڑتا،خود کو توال بن گیا ہوں۔میں محبت تو کیا کروں نفرت کا بیج بوتا رہتا ہوں۔میں کون ہو تا ہوں اس کے اور اس کی مخلوق کے درمیان آنے والا!میں ڈنڈے اور بندو قیں لیکر انسان پر ٹوٹ پڑا ہوں ۔وہ جبر سے منع کرتا ہے اور میں اپنی بات طاقت سے منوانا چا ہتا ہوں۔میں اس کی کوئی بات نہیں سنتا اور اس کا خلیفہ بنا پھرتا ہوں۔مجھے میرے نفس نے بر با د کر دیا ہے،میں اس کی مخلوق کیلئے آزار بن چکا ہوں اور رب سے تقاضہ کر تا ہوں کہ مجھے محبت سے دیکھے!میں خود ظالم ہوں اور رب سے طلب کر تا ہوں اس کا رحم!میں کسی کو بھی معاف کر نے کیلئے تیا ر نہیں ہوں اور ہر دم اس کو کہتا ہوں کہ مجھے معاف کر دے!میں خود پیٹ بھر کر کھا تا ہوںاور ا پنے آس پاس خاک بسر لوگوں سے بے خبر ہوں!میں عجیب ہوں ،میر ے رب نے جو حقوق دئیے ہیں سب کو،میں وہ سلب کر کے بیٹھ گیا ہوں،میں اپنی بات محبت سے نہیں بلکہ دھونس دھاندلی اور دھمکی سے منواتا ہوں ۔میں اتنا ظالم ہوں کہ میرے گھر وا لے جنہیں میں نے اتنی محنت کر کے ،سچ جھوٹ بول ک،ہلکان ہو کرہر جائز و نا جائزکی پرواہ کئے بغیر ا نہیں پا لا ہے،جب وہ ا پنے حقوق جو میرے رب نے ا نہیں دئیے ہیں، طلب کر بیٹھیں تو میں ڈنڈا لیکر کود پڑتا ہوں۔اس وقت تو مجھے رب یاد نہیں آتا ۔میں بہت ظالم ہوں،جو رب نے حقوق دئیے ہیں میں نے وہ بھی چھین لئے ہیں اور دعویٰ کر تا ہوں محبت کااپنے رب سے!

ہر بندے کا رب سے ایک خاص تعلق ہے اور ایسا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوا جو مجھے بتا ئے کہ کون رب کے کتنا قریب ہے۔۔۔۔۔وہ جو تسبیح لئے گھوم رہا ہے یا وہ جو سڑک پر تارکول بچھا رہا ہے ، وہ جو موٹر میں گھوم رہا ہے یا وہ جو برہنہ پا ہے ،ہاں موٹر تو کیا ہے جہاز میں بیٹھنے وا لا بھی اس کے قریب ہو سکتا ہے۔مجھے کیا پڑی ہے کہ میں رب اور مخلوق کے درمیان آؤں!میںخود کو کیوں نہیں دیکھتا کہ میرا کیا تعلق ہے رب سے !میں اگر نماز پڑھتا ہوں تو بے نما زیوں کو حقارت سے دیکھتا ہوں۔میں اگر روزہ رکھتا ہوں تو دوسروں سے خود کو اعلیٰ سمجھ بیٹھتا ہوں۔مجھے کیا معلوم ہے کیا مجبوری ہے کسی کی۔وہ جا نے اور اس کا رب۔۔۔۔۔۔۔مجھے تو اپنا کام کر نا ہے ۔جو مجھے کر نا چا ہئے وہ نہیں کر تا اور جو نہیں کر نا چا ہئے وہ کر تا چلا جا ر ہا ہوں۔

میں اپنے رب سے محبت کے جھوٹے وعدے سے کب باز آؤں گا !مخلوق سے نفرت اور رب سے محبت۔مجھے تو کچھ پلے نہیں پڑتا،آپ کو سمجھ آگیا ہو تو براہ مہر بانی مجھے بھی سمجھائیے ۔

آپ سب آباد رہیں ‘خوشحال رہیں‘دلشاد رہیں۔۔۔۔سب کو چلے جا نا ہے یہاں سے‘کسی کو بھی نہیں رہنا‘بس نام رہے گا میرے رب کا ۔

یہ میں تو نہیں کہہ رہا  ناں‘با با اقبال کہہ رہے ہیں!

عجب واعظ کی دیں داری ہے یا رب            عداوت ہے اسے سارے جہاں سے

کوئی اب  تک نہ یہ سمجھاکہ انساں            کہاں جاتا  ہے ،  آتا  ہے کہاں سے

وہیں سے  رات کو  ظلمت ملی ہے            چمک تارے نے پائی  ہے جہاں سے

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *