Home / Socio-political / لہو پکارے گا آستیں کا

لہو پکارے گا آستیں کا

لہو پکارے گا آستیں کا

سمیع اللہ ملک

ہما ری حالت تو ایسے جاں بلب مریض جیسی ہو گئی ہے جو بڑی مشکل سے رینگتا ہوا اپنے معالج کے پاس تو پہنچ جاتا ہے لیکن اس میں اتنی ہمت با قی نہیں کہ وہ یہ بھی بتا سکے کہ اس کو کیا تکلیف یا کیا بیما ری ہے؟معا لج کے پو چھنے پر اس کی آنکھوں سے آنسو رواں دواں ہوںاور زخموں سے چور جسم کے ہر اعضاء کی طرف اشارہ کرے ۔سا لوں پر ا نی بیما ریوں کا کرب اور سا رے جہاں کا درد سمٹ کر اس کے چہرے سے عیاں ہو لیکن بتانے کیلئے اس کی اپنی زبان اس کا ساتھ چھو ڑ دے۔ما سوا ئے سسکیوں‘آہوں اور کرا ہوں کے درمیان صرف اشارے سے کبھی سر کی طرف ‘کبھی دل پر ہاتھ ر کھ کر اور کبھی دونوں ہا تھوں کو اپنی آنکھوں پر رکھ کر زور سے رونا شروع کر دے۔جب معالج تھوڑا حو صلہ دلائے توپھر اس کی جانب ایک عجیب سی امید اور آس کے ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں ا مید اور رحم کی درخواست کرے۔

 جن کے سینے میں اس مملکت خداداد پاکستان کا دردآبلہ بن کر ایک نا سور کی شکل ا ختیار کر چکا ہے اور درد کی شدت سے ان کو ایک پل چین میسر نہیں اور دکھ کی بنا پر ان کی آنکھوں سے نیند اڑ چکی ہے۔نیم شب جب وہ اپنے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ان کی ہچکی بندھ جا تی ہے۔ اللہ سے رحم اور امید کے ساتھ پاکستان کیلئے شفاء اور سلا متی کی عاجزانہ     دعا ؤں کے سا تھ اپنے ان شہداء کا واسطہ دیتے ہیں جو اس ملک کی خاطر قربان ہو گئے۔میرا وجدان تو اس وقت مجھ کو شدید بے چین کر دیتا ہے اور سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے جب کبھی یہ سوچتا ہوں کہ ان سوا لاکھ بے گناہ بیٹیوں اور بہنوں کو روز قیامت کیا جواب دوں گا جن کو اس مملکت پاکستان کی خاطر مشرقی پنجاب اوربھارت کے دیگر علاقوںمیں ہم چھوڑ آئے تھے ‘ جو آج بھی آسمان کی طرف منہ کرکے اپنا قصور پو چھتی ہوں گی ! صرف مشرقی پنجاب کے ان پانچ ہزار سے زائد کنوؤں کا حال کس قلم سے کیسے لکھوں جن میں مسلمان بچیاں اپنی آبرو بچانے کیلئے کود گئیں۔ان ہزاروں بچوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے جن کو ان کے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے تلواروں اور بھا لوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔آج بھی لا کھوں افراد اپنے پیاروں کو یا دکرکے چپکے چپکے اپنے اللہ کے حضور اشک بار ہو کر اس پاکستان کیلئے ان کی قر با نی کی قبو لیت کی دعائیں کرتے ہیں!

یہ حالت صرف ان لوگوں ہی کی نہیں جنہیں میرے رب نے حالات و واقعات کا ادراک دیا ہے۔وہ کسی بڑی آندھی یا طوفان کے آنے سے پہلے ہی خوفزدہ ہو جا تے ہیںاور فوری طور پر اپنے تیئںان خطرات سے آگاہ کرنا شروع کر دیتے ہیں‘منادی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔دن رات اپنے تمام وسائل بروئے کار لا تے ہوئے دامے درمے اور سخنے اسی کام میں لگ جا تے ہیںکہ کسی طرح ان خطرات کا تریاق کیا جائے۔آجکل ذرا سی سوجھ بوجھ ر کھنے والا شخص بھی حیرت میں گم چہرہ لئے ا یک دوسرے سے یہی سوال کر تا پھر ر ہا ہے ‘کیا ہو نے و الا ہے اور اب کیا بنے گا؟ہما را مستقبل کیا ہے‘ہم کہاں کھڑے ہیں؟ایک دو سرے سے کو ئی اچھی خبر کی تمنا دل میں لئے ہوئے‘ایک ا مید کی شمع آنکھوں میں سجائے جیسے بستر مرگ پر پڑے مر یض کے لواحقین کسی معجزے کی آرزو میں کسی حکیم‘حاذق سے مر ض کے تریاق ملنے کی نو ید کیلئے بے تاب ہو تے ہیںیا کسی صاحب نظر کی دعا کے محتاج جس سے مریض کی جاں بچنے کی آس ہو جائے لیکن شائد اب مریض کو کسی حکیم کے تریاق ‘کسی ڈاکٹر کی دوایا پھر کسی صاحب نظر کی دعا سے زیادہ کسی ماہر سرجن کی ضرورت ہے اور شا ئد آپریشن میں جتنی دیر ہو گی مر یض کی جان بچنے کے ا مکانات اتنے ہی مخدوش ہو جائیں گے‘مریض کی حالت اتنی ہی بگڑتی چلی جائے گی‘مرض اتنا ہی پھیلتا جائے گا‘آپریشن اتنا ہی لمبا اور تکلیف دہ ہو جائے گا۔

 مجھ سے ما یو سی کا گلہ با لکل نہ کریںاور نہ ہی میرا مقصد بلا وجہ آپ کو ڈرانا ہے لیکن آ پ ہی مجھے یہ بتا ئیںکہ آپ کا کوئی عزیز جو آپ کو بہت ہی پیارا ہو وہ کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہو جائے‘آپ اس کے بہتر علاج کیلئے دنیا کے بہترین ڈاکٹر‘بہت ہی سمجھدار طبیب یا بڑا نامور حاذق تلاش کر نے میں دن رات ایک کر دیں گے اور اس کی زند گی بچانے کیلئے ا پنی تو فیق سے بڑھ کر خرچ کر نے میں کو ئی دقیقہ  فرو گذاشت نہیں کریں گے۔یہ تمام و سا ئل مہیا ہو نے کے بعد آپ سجدے میں رو رو کر اپنے عزیز کی شفا یابی کیلئے اپنے معبود کو اس کی تمام جملہ صفات کا واسطہ بھی دیں گے تب جا کر آ پ کے دل کو ا طمینان آئے گا کہ وہی  شفا کا منبع ہے اس سے بہتر کون ہے جو ہما ری د عاؤں کو شرف قبولیت دے گا۔

پچھلے نو دنوں میں گیارہ خود کش حملوں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیاہے ۔حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوںسے کوئی یہ تو پوچھے کہ اپنے ان مجاہدین کوجو اپنے جسم پر شیطان کی تصویر(ٹاٹوز) اورمنہ میں سونے کے چار عدد دانت لگواکراس معرکہ میں کام آگئے ہیںان کوکس بہشت کے دروازہ کا داخلہ عنائت کیا گیا ہے اور غریب گھروں کی بچیاں مدیحہ ، فرزانہ،فہمیدہ ، کنیزاور نسیم جو قوم کے بچوں کوعمر بھر کی معذوری سے بچانے کیلئے گھر گھر پولیو کے قطرے پلانے کا مقدس کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے گھروں کی کفالت کا فریضہ بھی سرانجام دے رہی تھیں ان کے سروں میں گولیاںمار کرکون سی مردانگی کا ثبوت دیاہے؟؟کہاں ہیں وہ سیاستدان جوان کے ہرعمل کو امریکا کا ردعمل قرار دیکر ان کے ایسے غیر انسانی ظالمانہ اور منحوس کرتوتوں پراپنی زبانوں کو بند رکھے ہوئے ہیں؟کیا اب وہ وقت نہیں آگیاکہ ایسے ظالموںکے منہ پر پڑے ہوئے نقاب تار تار کر دیئے جائیںتاکہ قوم کو ان کی اصلیت کا پتہ چل سکے؟

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر     لہو پکارے گا آستیں کا

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *