Home / Socio-political / مدینہ منورہ ! اے خنک شہرے کہ آں جا دلبر است

مدینہ منورہ ! اے خنک شہرے کہ آں جا دلبر است

مدینہ منورہ ! اے خنک شہرے کہ آں جا دلبر است

زائرین حرمین کو سفر حرمین مبارک

غلام مصطفی رضوی

            سیرت کا ہر ہر باب روشن ہے۔ ایسا کہ جیسے انگوٹھی میں نگینہ اور اس زمیں پہ مدینہ۔ سرکار ختمی مرتبت سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات پاک سے مناسبت رکھنے والی ہر شے، ہر چیز، ہر حال، ہر قال، ہر ادا، ہر بیاں، ہر سخن اور حتیٰ کہ شہر امینہ مدینہ طیبہ کا ذکر بھی سیرت کا ہی حصہ اور لازمہ ہے۔ سیرت نگاروں میں تقریباً سبھی نے جہاں شمائل و خصائص اور فضائل و محاسن نیز اخلاق و اکرام کا ذکر کیا وہیں شہر پاک کا بھی تذکرہ کر کے اپنی تحریر کو مزین کیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں صہیونیت کے زیرِ اثر جو دانش ور اور کلمہ گو سیرت کے حوالے سے سامنے آئے ان کے یہاں فضائل نبوی اور مناسبت رکھنے والی شے کی اہمیت و وقعت نہیں تھی، انھیں سیرت کا یہ پہلو باعثِ عار محسوس ہوا۔ یہ ان کی کم نصیبی تھی، تعصب تھا، یہی کچھ معاملہ مستشرقین یورپ (European Orientalist)   کا رہا۔

            مدینہ منورہ سے ایک مسلمان کا رشتہ ایمان و عقیدے کا ہے، قلب و نظر کا ہے، فکر و شعور کا ہے۔ صہیونی تحریک نے سب سے زیادہ کوشش یہ کی کہ مسلمان جو اپنے نبی سے محبت و لگاؤ کا والہانہ رشتہ رکھتا ہے وہ ٹوٹ جائے، اسی لیے ان کا حملہ گزری صدی میں زیادہ تر سیرت کے ان پہلوؤں پر رہا جن سے محبت و عشق کے جذبات پروان چڑھتے ہوں، مغربی تہذیب  (Western Civelization) کے مشاہدہ کے بعد اقبالؔ نے کہا تھا کہ مجھے مغرب کی چکا چوند اور فریب کاریوں کے سراب اس لیے دھوکا نہ دے سکے کہ میری آنکھ میں مدینہ منورہ کی خاکِ پاک کا سرمہ ہے:

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

            مدینہ ہجرت گاہِ رسول ہے، مدینہ محبت کی زمیں ہے، مدینہ فضل و عرفاں کا ایسا منبع ہے جہاں سے ایمان کو توانائی اور کائنات کو روشنی ملتی ہے۔ اس کا تعلق دماغ سے زیادہ دل سے ہے۔تن سے زیادہ من سے ہے، اس کی عظمت کتابِ مبیں سے ظاہر ہے، کثیر احادیث و فرامین نبوی اس کی شان و عظمت میں موجود ہیں، ہم یہاں صرف چند فرامین نبوی کو پیش کرتے ہیں تا کہ فکر و نظر کا قبلہ درست ہو اور دانش فرنگ کے جلوے نگاہوں کی حیا نہ چھین سکیں، اور ایمان کی کھیتی میں بہار آ جائے:

(۱)  حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ، حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مدینہ کے دونوں پتھروں کے درمیان ہے میری زبان پر حرم بنا دیا ہے۔ (رواہ البخاری)

(۲)  حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی، حضور سیدالرسل صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقینا مدینہ منورہ مثل بھٹی کے ہے کہ خرابی (خباثت) کو دور کرتا ہے اور بھلائی عمدگی کو خالص کرتا ہے۔ (رواہ البخاری و مسلم)

(۳)  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی، حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: مجھے حکم دیا گیا ہے ایک ایسی آبادی کا جو تمام آبادیوں سے افضل و برتر ہے لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالاں کہ وہ مدینہ ہے خبیث لوگوں کو وہ دور کر دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے۔ (رواہ البخاری)

(۴)  حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت، حضور شفیع المذنبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مدینہ مشرفہ اسلام کا قبہ ہے اور ایمان کا گھر ہے، میری ہجرت گاہ ہے اور حلال و حرام کے نازل ہونے یا اس کے نافذ ہونے کی جگہ ہے۔ (رواہ الطبرانی)

(۵)  ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت، حضور افضل الرسل صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو اس بات کی استطاعت ہو کہ وہ مدینہ میں مرے تو اسے چاہیے کہ وہ مدینہ میں مرے کہ میں یقینا اس کی شفاعت کروں گا جو مدینہ میں مرے گا۔ (رواہ الامام احمد والترمذی)

            اس حدیث پاک کی ترجمانی میں مفکر اسلام امام احمد رضا محدث بریلوی نے بڑا عمدہ شعر نظم فرمایا ہے جس میں محبت و عقیدت کی پاکیزگی فکر و نظر کو متاثر کرتی ہے:

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند

سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

            شفاعت طلب کرنے والے صبح آتے ہیں شام آتے ہیں، صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے، اور جاری رہے گا اس وقت تک جب تک کائنات کی نبض میں حرارت رہے گی، خورشید کی تابانی رہے گی، افق کا جمال رہے گا، آرزووں کی دنیا سجی رہے گی، امیدوں کے چراغ دلوں کے طاق پر روشن رہیں گے۔ مرجھائی کلیاں شمیمِ طیبہ سے کھلتی رہیں گی۔ سچ کہاں ہے کسی نے: مدینہ ایسا پاور ہاؤس (Power house) ہے جہاں سے پوری کائنات کو روشنی اور توانائی ملتی ہے۔… اور طیبہ کی خاک زندگی بخش ہے، اس سے محبت کے گلستاں میں بہاریں جلوہ کرتی ہیں، اس سے حریم دل میں لالہ و گل کھلتے ہیں، طیبہ کی خاک اہلِ دل مژگاں پہ سجاتے ہیں اور خاک بوسی طیبہ کی تمنا کرتے ہیں، یاد آیا آقا کے مواجہہ شریف میں کئی صدیاں گزر گئیں یہ شعر لکھا ہے جو واقعی ہے اور ایمان افروز بھی:

وَقَفْنَا عَلٰی أَعْتَابِ فَضْلِکَ سَیِّدِیْ

لِتَقْبِیْلِ تُرْبٍ حَبَّذَا لَکَ مِنْ تُرْبٖ

            ترجمہ: اے ہمارے سرکار! ہم آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی چوکھٹ پر کھڑے ہیں، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں کی خاک چومنے کے لیے۔ کاش ہمیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدموں کی خاک بوسی کا موقع نصیب ہو۔

            مدینہ کی شان ایسی کہ زبان گواہی دیتی ہے:

آرزوے کوچہ جاناں ہماری منزل ہے

جہاں جذبات جِلا پاتے

اور مایوسی دور ہوتی ہے

متاعِ حیات کو شعور

فکر کو منزل کا سراغ ملتا

جیسے چمن کو بہار کا پتا

اور فکر اسفل کو پاکیزگی کا مژدہ

            مدینہ منورہ کو شرف و عزت رسول کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بدولت ملا اور یہ نام پاک بہ قول شخصے: یہ نام (محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) ابر کرم کی طرح گنگا سے ٹیگس تک ہر جگہ برسا ہے۔ قرآن نے ’’سیرو افی الارض‘‘ کی تعلیم دی ہے اس سے ایک طرف تو ’’عاقبۃالمکذبین‘‘ سامنے آجاتی ہے اور دوسری طرف محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے انفاس پاک اور زندگی بخش آثار کے حقایق روشن ہو جاتے ہیں۔ صبح ستاروں کی چھاؤں میں صلوٰۃ و درود کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اور وقت کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر دنیا کے کسی گوشے میں صلوٰۃ و درود کے ھدیے نہ پیش کیے جاتے ہوں… مدینہ منورہ میں ہر خطے کے لوگ اپنی روح کے ساز پر یہ نغمہ فرشتوں کی ہم نوائی میں رسول کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

            ہماری جڑیں یورپ و امریکہ کے ایوانوں میں نہیں بلکہ طیبہ کی گلیوں میں ہے۔ جب تک دل کا تعلق طیبہ کی خاک سے جڑا رہا مسلمان جہاں بانی کرتے رہے۔ صدیوں تک دنیا کے معلم بنے رہے۔ علم و فن کی دنیا میں رنگ و روشنی بکھیرتے رہے۔ جن اقوام کے پاس تاریخ کا گوشہ تاریک ہے وہ تاریخ ایجاد کرتی ہیں اور یوں اپنا راستہ بناتی ہیں۔ George Washington  ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تاریخ کے حوالے ایک استعارہ بن گیا مگر اپنی تاریخ گری کا نقش چھوڑ گیا۔ مگر ہم اپنی ہی تاریخ سے بے گانے ہو بیٹھے اور اپنی جڑیں مغرب کے اندھیروں میں تلاش کر رہے ہیں، اب بھی وقت ہے، جاگ جائیں، یقینا طیبہ سے ہوائیں چلیں گی اور دل کی کلیاں کھلیں گی۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *