Home / Socio-political / میں اور تو

میں اور تو

                        

میں اور تو

عباس ملک

یہ معاشرے کی ایک اہم ترین صفت ہے کہ میں تو میں ہوں اور باقی سب تو ہیں۔ وضاحت کیلئے کسی سائنسی فارمولے کی ضرورت نہیں ۔ ہم ہر اس چیز سے مکر جاتے ہیں جس سے ہمارے ظاہری ایمان کو خطرہ ہو۔اندر سے کیونکہ ہم فرعونیت کے پیروکار ہیں لیکن اندر تو کوئی جھانک نہیں سکتا ۔ دل میں کیا ہے دماغ میں کیا سمایا ہوا ہے ۔ انسان کی پہچان تو اس کی زبان سے ادا کی گئی تقریر اس کے ہاتھ سے لکھی تحریر یا پھر اس کے ادا کیے عمل سے ہوتی ہے ۔ ایک عام وصف جو ہم میں پایا جاتا ہے کہ ہم کسی بھی دوسرے کی بڑائی کو بڑائی نہیں سمجھتے لیکن اپنی چھوٹی بات کو بھی عمل گراں قرار دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے ۔ دوسرا سر کٹا لے اور ہم صرف بال کٹا کر اس کے مدمقابل آ جاتے ہیں ۔ہمارا ہر عمل صالح اور مبنی بر حقیقت ہوتا ہے جبکہ دوسرا گناہگاراور اس کا ہر کام دکھاوے و غلط طریقے پر ہوتا ہے ۔ آج سوشل میڈیا کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک صاحب جو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے کے ساتھ ہم کلام ہونے کی سعادت ہوئی۔ سلام و دعا کے بعد پوچھا کیا کرے ہیں تو فرمایا کہ میں فارغ ہوں ۔ جواباًعرض کی میرے پاس فارغ لوگوں کیلئے وقت نہیں ۔ اس کے بعد ان کے علم کا دریا مغلیات اور طعنہ وتشنہیہ کی اس روانی سے جاری ہو ا کہ میں خود حیران ہو گیا کہ یہ صاحب تعلیم کے زیور سے آشنا ہو کر اگر اس طرز عمل اور فکر کے حامل ہیں تو اگر نہ ہوتے تو کیا ہوتا ۔ میں ان کی سنتا رہا اور ان کو تحمل سے جواب دیتا رہا مبدا کہ ان کی عقل سلیم حرکت میں آکر انہیں نالاں کر ے ۔ معلوم نہیں وہ کس خاندان کے چشم و چراغ تھے اور ان کے استاتذہ اور والدین نے ان کی کیا تربیت کی تھی کہ وہ ہوش میں آنے کی تمنا ہی نہیں رکھتے تھے۔بتا نا یہ مقصود ہے کہ انہیں میں کا مرض لا حق تھا اور وہ اس میں تو اور بس تو کا ہی ورد کیے جا رہے تھے۔ میں عالم اور تو جاہل کی تسبیح میں انہیں نہ ان کیلئے اخلاقیات کی کوئی تمنا پائی دیکھی اور نہ ہی ان میں رواداری اور اسلام کے حسن اخلاق سے کوئی تعلق وحرص دیکھی ۔ ان کے نزدیک میں جاہل اور وہ عالم تھے ۔ میں نے کہا بھی کہ حضور میں بہت کم علم آدمی ہوں لیکن کم ظرف نہیں ہوں ۔ ہر حربہ جو بپھرے جانور کو بھی رام کرنے کیلئے کافی تھا لیکن حیوان ناطق اگر بپھر جائے تو اس کو کنڑول کرنا مشکل ہوتا ہے اس کا تجربہ آج ہو ا۔ سوشل میڈیا سے تعلق کا سبب عوام الناس سے براہ راست ہم کلامی اور ان کے مسائل سے اگاہی ہوتا ہے ۔ لکھنے اور پڑھنے کی مشق میں عام طور پر گفتگو کا وقت میسر کرنا اور وہ بھی بے مقصد گفتگو تو ایسا کرنا شاید امانت میں خیانت ہی ہوگی۔ اس نظریے کے بارے میں شاید عوام الناس کی رائے کچھ بہتر نہ ہو ۔ خاموشی سے بہتر جب کوئی عبادت دستیاب ہو تو وہ کرنے کیلئے خاموشی کا روزہ توڑنا چاہیے ۔کوشش یہی ہوتی ہے کہ منہ سے اچھی بات ہی کہی جائے ورنہ خاموش رہا جائے۔ جس حد تک کسی کی راہنمائی ممکن ہوتی ہے وہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اگرچہ اس سے کسی تمغہ کا حصول ہر گز یہ مقصود نہیں ہوتا ۔ اپنے دل میں تو صرف خلق خدا کی راہنمائی امر باالمعروف و نہی المنکر ہی کا تخیل موجزن ہے سامع اپنے دل و دماغ میں کیا خاکہ بناتا ہے ۔ اس سے بھی اگاہی ہو جاتی ہے ۔ اس کے عمل سے پہلے ردعمل کا اظہار بتاتا دیتا ہے کہ اس نے بات کو اس نے کس زاویے سے دیکھا ہے ۔اگر اس کا ردعمل مدافعانہ ہے تو پھر اس نے وہی میں اور تو کا نظریہ اپلائی کیا ہے ۔ اگر اس نے طالب علم کے طور پر سنا یا پڑھا ہے تو پھر اس کے چہرے پر ممنوعیت کے آثار نمایاں ہونگے ۔پیاسے کو جب پانی ملتا ہے تو اس کا چہرہ پیاس کی طلب دور ہونے کے بعد اس کی نشاندہی کرتا ہے ۔اگر کوئی پیاسہ ہونے کی اداکاری کر رہا ہو تو اس کے چہرے کے تاثرات پانی پینے کے بعد کچھ اور ہوتے ہیں ۔ سیاسی گیم میں بھی یہی تو تو میں ہی نے معاشرتی کٹاؤ میں اور ملی یکجہتی میں خلیج پیدا کی ہے ۔اگر یہی تو تو اور میں نہ ہوتی تو آج ہمیں کاسہ گدائی لے کر نہ گھومنا پڑتا ۔یہاں جن کو زندہ رہنا تھا وہ مر دئیے گئے اور جن کو مرنا تھا وہ زندہ کر دئیے گئے۔ زندہ مردوں سے بدتر ہیں اور مقبرے تزک و احتشام کے مناظر پیش کر رہے ہیں۔ مردوں کی برتھ ڈے منائی جاتی ہے اور زندوں کو زندگی کیلئے ترسایا جاتا ہے ۔ اپنوں کو جلایا جاتا ہے اور غیروں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ۔ہمارے لیے سرکار دوعالم کے اقوال قابل پیروی نہیں ، ان کی ذات گرامی قدر آئیڈیل نہیں ہے ۔ہم مستعار لیے آئیڈیل کو سرکار پر ترجیح دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں کامیابی سمیٹ سکتے ہیں۔ ہمارے اپنے قائد اعظم اور علامہ اقبال ہمارے لیے آئیڈیل نہیں بلکہ ان سے کہیں کم تر اور نااہل ہمارے لیے قابل تقلید و قابل عقیدت ہیں ۔ جن کی زندگی خود ادھارلیے نظریات پر گذری ہم ان کو مفکر اور ان کو مدبر جان کر ان پر عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ ضرور ہے کہ جس نے ملک اور قوم کیلئے خدمات سر انجام دی ہیں اور اپنی توانائی صرف کی ہے اس کو یاد رکھا جائے اور اس سے عقیدت کا اظہار کیا جائے۔ یہاں پر گنگا الٹی بہتی ہے جو لوگ ذاتی مفادات اور خواہشات کا پرچم ملک اورقوم کے نام پر بلند کر کے عوام کو دھوکے اورفریب سے اپنے پیچھے لگا تے ہیں وہی قومی راہنما کہلاتے ہیں۔ یہی میں ہے ، میں نے ملک اورقوم کیلئے یہ کیا ۔ کیا کیا محترم آپ نے جیل کاٹی ۔ جب دیکھا تو صاحب نے دھوکہ دہی، قبضہ مافیا کی پشت پناہی ، قتل ، اغوابرائے تاوان ، کمیشن ،کک بیکس کے جرائم میں جیل کاٹی۔ جب دیکھا تو صاحب کو اقرباپروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر جیل ہوئی۔ جب دیکھاتو صاحب کو خلاف قانون سر

گرمیوں میں حصہ لینے اور قانون کی خلاف ورزی پر جیل ہوئی۔ اس پر بھی قوم اور ملک پر احسان ہے ۔ اس طرز عمل سے میں میں اور تو تو اکثر تھو تھو میں بدل جاتی ہے ۔ جس سے ماحول کی آلودگی میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اس آلودگی سے جراثیم پیدا ہوتے ہیں جس سے ملک میں کرپشن سے متعلقہ بیماریاں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ اس وقت تو ڈاکٹرز بھی ہڑتال پر ہیں کیوں کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نہ ہو ا تو پھر تو کیسے زندہ رہے گا۔ مسیحا اب میں سے باہر آنے کیلئے تیار نہیں ۔ انہیں ہڑتالی استاتذہ نے تعلیم دی ہے کہ اگر تن میں جان ہے تو پھر ہی خدمت کی جا سکتی ہے ۔ اس لیے پہلے اپنے تن کی فکر کرو اس کے بعد مریض کی فکر کرنا اگر وہ زندہ بچ گیا ۔ میں یہ سوچتی ہے کہ اگر میں نہ ہوتی تو پھر تو کیا کرتا۔ حالانکہ اس میں سے پہلے بھی میں میں کرنے والے کئی شہید اور کئی غازی نمونہ عبرت پھرتے ہیں۔ آج ان کے مزار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ کوئی ناگزیر نہیں اس ذات کے سوا جس نے یہ سب کچھ بنایا ہے ۔ اس کے باوجود بھی میں نہیں مرتی ۔ یہ ہمارے خمیر کا حصہ نہیں لیکن ہم نے اس کو ضرورت بنا لیا ہے ۔  کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ۔ اپنا فرض ادا کرو اپنا قرض چکاؤ اور اپنی راہ لو ۔ اتنا سا کام نہیں ہوتااور سر پر بوجھ پر بوجھ لادنے کی تمنا لیے پھرتے ہیں ۔ ہم پاکستان کو سر پر اٹھا کر پھرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حالانکہ نہ ہم کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی اہلیت ہے۔ پاکستان کا بیڑا جس کے سپرد ہے وہی اس کو چلا بھی رہا ہے اور وہی اس کو قائم بھی رکھے گا۔ جان لے کہ میں اور تو دونوں مل کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ احتمال اس بات کا ہے اور ڈر لگتا ہے اس بات سے کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے اور حکم ہو جائے کہ اگر میں نہیں کر سکتا اور مجھ پر بھروسہ نہیں تمھارا تو پھر لے تو سنبھال ۔ جس کا کام اسی کو ساجھے کے مصدق کیا ضرورت ہے پنگا کرنے کی اور خالق سے ٹکرانے کی ۔ جس نے پیدا کیا وہ جب اس کا ذمہ لیتا ہے تو پھر تو کیوں اسے اپنے سر لیتا ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *