Home / Socio-political / پاکستان اور مذہبی عدم برداشت

پاکستان اور مذہبی عدم برداشت

پاکستان اور مذہبی عدم برداشت

باالآخر رمشا مسیح مقامی عدالت کے حکم سے  رہا کر دی گئی تاہم اسے پانچ لاکھ کے مچلکے پر رہا کیا گیا ہے یہ بجائے خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس کیس کا بغور جائزہ لیں تو اس سے پاکستان میں مذہبی عدم برداشت کا ایک ایک ایسا  چہرہ سامنے آتا ہے جو پاکستان کے حق میں کسی بھی طرح بہتر نہیں ہے۔ اولاً ان لوگوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے جو ہر بات پر توہین مذہب کا علم بلند کرتے رہتے ہیں  تاکہ ہم یہ اندازہ لگا سکیں کہ جو الزام ایک مسیحی لڑکی پر لگایا  گیاہے کیا اسی جرم کے مرتکب ہمارے بچے نہیں ہوتے ہیں؟ یہ بات ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ قرآنی قاعدہ جس عمر میں بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اس عمر میں بچے اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ قرآن کی عظمت اور اس کی حرمت کو سمجھ سکیں اور ان کی بہت سی حرکتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں اگر ہم اسی آنکھ سے دیکھیں جس آنکھ سے رمشا مسیح کے کیس کو دیکھا گیا ہے تو ہمارے گھر کے زیادہ تر بچے تختہ دار پر ہونگے۔ لیکن چونکہ وہ بچے ہمارے گھروں کے ہیں کسی مسیحی یا ہندو خاندان کے نہیں ہیں اس لئے ان کی یا تو کبھی معمولی سر زنش کی جاتی ہے یا اکثر ان کو قابل گرفت فعل بھی نہیں سمجھتے۔  اس کے علاوہ جس کتاب کی بے حرمتی کو اتنا بڑا ایشو بنایا گیا وہ کتاب “نورانی قاعدہ ” تھی جو قرآن کا حصہ نہیں ہے۔

                عجیب بات یہ ہے کہ یہ جدون چشتی جیسے ہی لوگ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہی لوگ خود پر ظلم ہونے کا رونا بھی روتے ہیں۔ اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا منصف ہے تو وہ مسلمانوں کے ساتھ وہی کرے گا جو مسلمان دوسروں کے ساتھ کریں گے۔ اگر پاکستان میں مسلمان اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو برما میں بدھ مذہب کے ماننے والے کیوں نہیں؟  یہ بات غور کرنے کی ہے کہ وہی سب کچھ جو ہم کر رہے ہیں جب ہم پر بیتتی ہے تو ہم چیخ اٹھتے ہیں۔ سرکاریں اگر دوسری طرف ظالموں کا ساتھ دے رہی ہیں تو یہاں بھی بقول ڈسٹرکٹ اٹارنی پولس نے قرآن کے جلے ہوئے صفحات شواہد میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے باوجود ایک مظلوم لڑکی جس نے قصداً کوئی جرم نہیں کیا اسے اس قدر خطرہ لاحق ہے کہ  اسے نامعلوم مقام پر لے جانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔

                پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک کی مثال صرف یہی نہیں ہے بلکہ بھارت میں آئے ہندو خاندان بھی چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ چاہے ہمیں قتل کر دو لیکن ہم پاکستان واپس نہیں جائنگے۔  جواب یقیناً یہی آئےگا کہ یہ کچھ لوگوں کی سازش ہے جو پاکستان کی غلط تصویر پیش کرنا چاہتے ہیں۔  گویا پاکستان میں یہ لوگ بالکل آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے اور کچھ لوگوں کے ورغلانے پر انہوں نے یہ بیان دے ڈالا۔  یہ جواب  سیاسی طور پر بہت بہتر ہے لیکن وہ حضرات ان ہندو خاندانوں کی دشواریوں کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے جو انہیں بھارت میں پیش آئیں گی۔  اول تو بھارت کی حکومت انہیں  اپنے یہاں پناہ نہیں دے سکتی کیوں کہ یہ پاکستان کے ساتھ اس کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی دوم انہیں اتنی آسانی سے شہریت بھی نہیں ملنے والی ہے کیونکہ وہ پاکستان کے باضابطہ شہری ہیں اور اگر صرف اس بنیاد پر انہیں بھارت کی شہریت دی جاتی ہے تو بشمول بنگلہ دیش مختلف ممالک سے لوگوں کا ایک جم غفیر بھارت سے ان ہی مراعات کا مطالبہ کرے گا۔  ان دشواریوں کو دیکھتے ہوئے بھی یہ ہندو خاندان اگر لب کشائی کر رہے ہیں تو ضرور ان کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ہوا ہے ورنہ کون اپنی مرضی سے اپنی مٹی اور اپنے لوگوں کو چھوڑنا چاہے گا۔ ساٹھ سال گزر جانے کے بعد بھی اگر یہ ہندو خاندان پاکستان میں غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں تو اس میں غلطی کس کی ہے؟ کیا ان ہندوخاندانوں کی جنھوں نے اسی سرزمین پر رہنے کا فیصلہ کیا یا ان کے صبر کا جس نے آج تک ان کو ظلم و جبر کے اس کھیل کے خلاف لب کشائی سے بعض رکھا ۔ مورد الزام بہر حال ان ہی خاندانوں کو ٹھہرایا جائےگا کیوں کہ پاکستان میں حکومت خواہ وہ کسی کی ہو  ان قوتوں کے خلاف  خاموش ہی رہے گی جو پاکستان میں مذہبی عدم برداشت کے اس کھیل میں ملوث ہیں۔

                پاکستان نے اگر وقت رہتے اپنے ملک میں مذہبی عدم برداشت کے اس ماحول پر قابو نہ پایا تو وہ دن دور نہیں جب بلوچستان کی طرح ہی یہ مسئلہ امریکی کانگریس میں اٹھایا جائیگا اور اقوام متحدہ  کوبھی اس حوالے سے    کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا اور آج دنیا کا کوئی بھی ملک الگ تھلگ رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا خواہ وہ امریکہ ہی کیوں نہ ہو اور پاکستان تو خیر سوچ بھی نہیں سکتا۔  شاید یہی وہ وجوہات ہیں جو اشفاق پرویز کیانی کو بھی بولنے پر مجبور کرتے ہیں کہ پاکستان کا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ اسی ملک میں جنم لینے والی انتہا پسندی  دہشت گردی  اورمذہبی عدم برداشت ہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *