Home / Socio-political / کڑکتے کوڑے یا ڈالروں کے توڑے

کڑکتے کوڑے یا ڈالروں کے توڑے

سمیع اللہ ملک ، لندن

تحریر، ہاں کیا ہر واقعہ تحریر کیا جاسکتا ہے؟ شاید۔ ہو سکتا ہے خود پر تھوڑا سا جبر کریں، خود کو جمع کریں تو آپ لکھ لیں گے۔

لیکن کیا ہر بات لکھی جا سکتی ہے؟ خوشی کو تو لکھا جا سکتا ہے۔ اور غم کو….!

دکھ تو تحریر ہو سکتا ہے اور درد….!

آنسوﺅں کو کیسے لکھا جا سکتا ہے۔ کرب کو کیسے لکھیں…. اضطراب کو، بے کلی کو، بے حسی کو، انا کو تحریر میں کیسے سموئیں!

لفظ وہی ہوتے ہیں، قلم وہی ہوتا ہے ، صفحات وہی ہوتے ہیں…. سب کچھ وہی ہوتا ہے ۔ لیکن آپ بے دست و پا ہوتے ہیں۔ رحمت کو تو بیان کیا جا سکتا ہے، تحریر کیا جا سکتا ہے، نحوست کو کیسے پابند تحریر کیا جا سکتا ہے ! اداسی کو تحریر کر سکتے ہیں آپ؟ کچھ نہیں کر سکتے ہم۔ فیض صاحب نے تو کہا ہے ” جو دل پہ گزرتی ہے سو گزرتی ہے، اسے بیان کیسے کریں! میرے لیے یہ ممکن نہیں۔ نہیں مجھے یہ ہنر نہیںآتا۔ اور مجھے یہ سیکھنا بھی نہیں ہے ۔ ضروری تو نہیں ہے مجھے سب کچھ آتا ہو۔ نہیں میں نہیں لکھ سکتا دل کو، اداسی کو، بے کلی کو، اضطراب کو…. بالکل نہیں لکھ سکتا۔ آنسوﺅںکو کیسے تحریر کروں؟ بتائیے آپ۔ اگر آپ تحریر کر سکتے ہیں تو ضرور کیجئے۔

لیکن یہ ہوتا رہا ہے، ہوتا رہے گا، یہی ہے ریت۔ کوئی نئی بات نہیں، کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ خلق خدا کے حق میں نغمہ سرائی جرم تھی، جرم ہے، جرم رہے گی۔ خلقِ خدا کی گردنوں پر سوار اس وقت بھی یہی کرتے تھے اب بھی یہی کرتے ہیں اور آئندہ بھی یہی کرتے رہیں گے ۔ کوئی نئی بات نہیں، یہ ہوتا رہا ہے، ہوتا رہے گا۔ آپ زمینی خداﺅں کو للکاریں گے تو وہ آپ کو ہار پھول پیش نہیں کریں گے۔ یہی ہو گا۔آپ آئینہ دکھائیں گے اور وہ اپنی مکروہ صورتوں کو دیکھ کر آپ کو پتھر ماریں گے ۔ گولیاں داغیں گے۔ لاٹھیاں برسائیں گے۔ آنسو گیس کے شیلوں کی برسات کریں گے۔ لیکن اپنے قلم کو خلقِ خدا کی امانت سمجھنے والے کبھی باز آئے ہیں نہ آئندہ آئیںگے۔ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں:

ہوں جب سے آدمِ خاکی کے حق میں نغمہ سرا  میں دیوتاﺅں کے بپھرے ہوئے عتاب میں ہوں

زمینی خداﺅں کے زر خرید غلام خلقِ خدا کی آواز کو خاموش کرنے کا سپنا دیکھتے ہیں اور وہ کبھی شرمندہٴ تعبیر نہیں ہو پا تا، نہ ہو گا۔ تو بس پھر یہی منظر ہو گا آئندہ آنے والے چند دنوں میں۔ ہر طرف بپھرا ہوا عتاب اور اہل جنوں کا نعرہٴ مستانہ۔ سر بلند رہے گا یہ نعرہٴ،” فرعون پہلے بھی غرقاب ہوا تھا، آئندہ بھی اس کا نصیبا یہی ہے“۔ مبارک ہوا نہیں جو خلق خدا کے لئے سر عام پٹتے رہے۔ جن کے خون سے سڑکیں رنگین ہوئیں۔ آج کچھ نہیں ہے کہنے کو، بس جو کچھ سن رہا ہوں وہ لکھ رہا ہوں۔ ٹی وی چینلز پر لوگوں کے پیغام دیکھ رہے ہیں آپ ! میں نے بھی دیکھے ہیں، سنے ہیں…. وہی تحریر کر رہا ہوں، اس لئے کہ میں زبانِ خلق کو نقارہٴ خدا سمجھتا ہوں۔ اندھے، بہرے نوشتہٴ دیوار نہیں پڑھ سکتے تو ہم کیا کریں!

ہاںفرعون مرتا ہے، فرعونیت نہیں مرتی۔ اس کے پیروکار آتے ہیں، آتے رہیں گے۔ پھر وہ پکارنے لگتے ہیں، ہمارا منصوبہ کامیاب رہا۔ ہم ہیں اعلیٰ وارفع۔ ہمارے پاس ہیں وہ دانش و بینش جو بچالے جائیں گے سب کو۔ بس ہمارے پیچھے چلو۔ ہماری پیروکاری کرو کہ نجات اسی میں ہے۔یہاںہر فرعون یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ بس وہی ہے عقل و فکر کا علمبردار…. بہت ضروری ہے وہ ۔ اس کی ہدایت و رہنمائی ہی نجات کا سبب ہے ۔ بس وہی ”میں“ کا چکر۔ نحوست کا چکر۔ اسی لیے وہ پکارتا رہتا ہے۔ وہی ہے اعلیٰ و ارفع، وہی ہے رب اور رب اعلیٰ بھی۔ خودفریبی کی چادر میں لپٹا ہوا۔ موت …. موت تو اسے چھو بھی نہیں سکتی ۔ سامان حرب سے لیس۔ خدا م اس کی حفاظت پر مامور ہیں۔ چیڑیا بھی پر نہیں مار سکی۔ دور دور تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ اسے گزند پہنچا سکے۔ مصاحبین کے نعرہ ہائے تحسین اسے اس زعم میں مبتلا رکھتے ہیں۔ کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اس کی مرضی سے چلتا ہے کاروبار حیات….جیسے وہ موت کوبھول بیٹھتا ہے، خود فریب تو سمجھتا ہے کہ موت بھی اسے بھول جائے گی۔ سمجھ بیٹھے ہیں یہ محفل سدا سجائیں رہیں گے ۔ واہ، واہ، آفرین آفرین کرنے والے درباری یونہی داد دیتے رہیں گے ۔ نہیں جناب بالکل بھی نہیں۔ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔

 لیکن پھر ایک اور دریا ہوتا ہے اور انجام وہی۔بالکل یہی سمجھتا ہے کہ جس طرح وہ موت کو بھولا ہوا ہے، موت بھی اسے بھول چکی ہو گی۔ لیکن آتی ہے وہ۔ ہزار پہرے بیٹھا دیجئے، دیواریں چنوا لیجئے، کیمرے لگا لیجئے۔ وہ نہیں رکتی۔ آتی ہے او رسر عام آتی ہے۔ کوئی نہیں بچ سکا اس سے ۔ لیکن ہوتا کچھ اور ہے۔ سب کچھ ہوتا ہے …. محافظ بھی، سامان حرب بھی، محلات بھی، سازو سامان بھی، آفرین بھی، و اہ واہ بھی…. سب کچھ ہوتا ہے۔ اور پھر نیل ہوتا ہے، لہریں ہوتی ہیں، منہ زور لہریں…. رب حقیقی کے حکم کی پابند۔ اور جب وہ گھِر جاتا ہے پھر دور دور تک کوئی نہیں ہوتا مدد گار۔ تب وہ آنکھ کھولتا ہے اور پکارنے لگتا ہے ” نہیں نہیں، میں ایمان لاتا ہوں، ہاں میں موسیٰ وہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ “ لیکن بند ہو جاتا ہے در۔ کسی آہ و بکا سے نہیں کھلتا۔ اور پھر وہ غرق ہو جاتا ہے۔ موت اس کی شہ رگ پر دانت گاڑ دیتی ہے۔ ختم شد۔ نشانِ عبرت۔ داستان در داستان۔

ہاںایک امتحان تھا گزر گیا۔ نتیجہ تو بعد میں نکلے گا۔ کیا ؟ میں نہیں جانتا۔ بس میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ میں نے کیا کیا اور ان کا نتیجہ کیانکلے گا؟ ہاں دعا کروں میں …. لیکن کس منہ سے دعا کروں؟ کیسے اپنے رب کا سامنا کروں؟

اک نئی کربلا میرے سامنے بپا ہوئی۔ ہمارے بچے اور بچیاں تہہ تیغ کئے جا رہے ہیں اورمعاملہ خون بہاکی ادائیگی پر ختم کرنے کا حکم جاری ہوجاتاہے۔اس قدرعجلت میں معاملہ طے پاتاہے کہ جہازپہلے سے اپنے مسافرکےلئے تیار،بس ڈالروں کی کھنک سے قومی غیرت کودفن کرکے آقااپنی منزل کی طرف پروازکرجاتاہے کس کو بے وقوف بنارہے آپ؟

 آپ کہاں ہیں اور کیا کہتے ہیں ؟معصوموںکی چیخیں مجھے جینے نہیں دیں گی۔ میرا سینہ شق ہو جائے گا۔ میں کچھ نہیں کر سکا۔ ہاں مجھے زندگی پیاری ہے…. ہاں میں سانس کی آمدورفت کو زندگی سمجھتا ہوں…. ہاں میں نے ذلت و رسوائی کی زندگی قبول کرلی ہے …. ہاں میں موت سے بہت ڈرتا ہوں…. ہاں میں نے اپنا رب بدل لیا ہے…. ہاں میں عزت و ذلت کا مالک انہیں سمجھتا ہوں جن کے ہاتھ میں ہمارے اقتدارکی ڈوری ہے،جن کے ایک ہاتھ میں خوفزدہ کرنے کےلئے کڑکتے کوڑے ہیں اوردوسرے ہاتھ میں ہمارے چیچک زدہ چہروں پر سجے طمع وحرص کے مارے منہ بھرنے کےلئے ڈالروں سے بھرے توڑے۔ان کے پاس بے حس بندوقیں ہیں۔ شعلہ اگلتی ہوئی بندوقیں۔ میں انہیں زندگی اور موت کا مالک سمجھتا ہوں جن کے میزائلوں کی گڑگڑاہٹ سے دل دہل جاتا ہے اورمجھے خدشہ ہے کہ کہیں وہ میراتورابورانہ بنادیں۔ہاں وہی ہیں میرے مالک…. آپ کے متعلق کیسے کہہ سکتا ہوں! آپ جانیں اور آپ کا کام۔

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *