ہندستان کی علاقائی زبانوں کو یو پی ایس سی کے امتحانات سے ہٹانے کا حالیہ فیصلہ
مقامی زبانوں کے پردے میں اردوزبان اور مسلم طلبہ نشانے پر
تغیر اور تبدیلی انسانی زندگی کا خاصہ ہے۔ شاعر نے صحیح کہا ہے ثبات صرف تغیر کو ہے زمانے میں۔زمانے کی تیز رفتار ترقی کے پہلو بہ پہلو نہ چلنے والا شخص زندگی کے لق ودق صحراء میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ روئے زمین پر سانس لینے والے ہر شخص کو زمانے کی قیامت والی چال کے پیچھے دوڑنا اور بھاگنا پڑتا ہے۔مگر وہی تبدیلی محبوب اور مستحسن قرار دی جاسکتی ہے جس سے انسانی زندگی کے دوسرے لازمی شعبے متأثر نہ ہوں۔ اگر تبدیلی محض تبدیلی کے نقطۂ نظر سے دوسروں کو نقصان پہنچانے کی مذموم پالیسی سے مغلوب ہو کر برپا کی جائے اور اس کا منفی اثر دوسرے سماجی شعبوں پر پڑے، تو یہ نہ صرف متعلقہ قوم اور ملک کے لیے بلکہ پورے انسانی معاشرے کے لیے ناسور اور وبال جان بن جاتی ہے۔ اور اس کا یہ نتیجہ بر آمد ہوتا ہے کہ ان تبدیلیوں کے گرداب میں الجھ کر انسانی معاشرے کا عام فرد ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔
یونین پبلک سروس کمیشن ملک کا اعلی اور معیاری ادارہ ہے، جو سال بھر میں سول سروسز کے لیے ایک بار ملکی پیمانے پر امتحانات منعقد کراتا ہے۔ اس امتحان کے تین مرحلوں(Pre/Mains/Interview) میں کامیاب ہونے والے طلبہ اور طالبات ہی ملک کے اعلی ترین عہدوں پر فائز کیے جاتے ہیں۔یہ کامیاب طلبہ اور طالبات آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس اور آئی آر ایس وغیر ہ بن کر ملک کا نظم و نسق سنبھالتے ہیں۔ ان افسران کی متنوع اور غیر معمولی ذمے داریوں کو پیش نظر رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ لوگ ملک کی ہمہ جہت تعمیر اور ترقی کے لیے شہ رگ کی حیث رکھتے ہیں۔ سیاست اور اقتصادیات سے لے کر، خارجہ اور داخلہ پالیسی تک ملک کی تصویر اور تقدیر انھی کامیاب امیدوارں کی سوچ اور سمجھ بوجھ پر منحصر ہوتی ہے۔ ان امتحانات میں کامیابی ملک کے ہر طالب علم کا دیرینہ خواب ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اپنے تابناک مستقبل کے حوالے سے متفکر اور اعلی عہدوں پر متمکن ہوکر ملک و قوم کی خدمت کے جدبے سے شرسار طلبہ میٹرک اور انٹر کے بعد ہی اس امتحان کے مبادیات کی تیاری اور بھاگ دوڑ شروع کردیتے ہیں۔ یو پی ایس سی کے امتحانات اتنے سخت اور مشکل اور صاف و شفاف ہوتے ہیں کہ اس کے پہلے مرحلے(پری) کو ہی عبور کرناامیدواروں کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس میں کامیابی کے بعدہی (Mains)اور انٹرویو کا مرحلہ آتا ہے۔
یو پی ایس سی وقفے وقفے سے امتحان کے طریقۂ کار، موضوع اور سوالات کے پرچوں کی نوعیت میں تبدیلی کرتا رہتا ہے۔دو سال پہلے Pre کے امتحان سے اختیاری مضامین ہٹاکر CSAT متعارف کریا گیا اور اس باراس نے اپنے(Mains) امتحان کے فارمیٹ میں زبردست تبدیلی کی ہے۔ لیکن اس بار کی تبدیلی کا عمل ماقبل کی اصلاحات سے مختلف بھی ہیں اور سنگین بھی، یہ تبدیلیاں ہمہ گیر بھی اور دور رس اثرات کی حامل بھی۔یہ ساری تبدیلیاں یو جی سی کے سابق سربراہ پرووفیسر ارون ایس نگویکر کی قیادت میں تشکیل شدہ کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر کی گئی ہیں، جس کو ہمارے وزیر اعظم نے حال ہی میں منظوری بھی دے دی ہے۔ امتحان کے طریقۂ کار میں اس تبدیلی کا نوٹی فیکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے، جس کا نفاذ ۲۰۱۳ء کے امتحان سے ہوجائے گا۔
منظور شدہ سفارشات کے مطابق اب انگریزی زبان کا امتحان دینا لازمی ہوگا اور اس کے نمبرات بھی میرٹ میں جوڑے جائیں گے۔ماقبل میں انگریزی کا پرچہ صرف کوالیفائنگ کی حد تک اور پاسنگ نمبرات تک محدود تھا۔دوسرے یہ کہ اب ہندستان کی مقامی زبانیں اختیاری مضمون کے طور پر نہیں رکھی جاسکتیں، حالاں کہ پہلے انگریزی زبان کے ساتھ کسی ایک ہندستانی زبان میں میں بھی کم از کم نمبر حاصل کرنا ضروری تھا لیکن اس کا نمبر میرٹ میں نہیں شامل کیاجا تھا۔ یو پی ایس سی کے تبدیل شدہ فارمیٹ میں ایک شرط کا اور اضافہ کیا گیا ہے، وہ یہ کہ دستور ہند کے آٹھویں شیڈول میں شامل کسی بھی علاقائی زبان کے ادب کو اب وہی امیدوار طلبہ منتخب کرسکیں گے جنھوں نے بی اے میں اس موضوع کو مین سبجیکٹ کے طور پر پڑھا ہوگا۔یہ شرط صرف لٹریچر کے ساتھ لگائی گئی ہے، جب کہ سائنس اور سماجی علوم کے مضامین کے لیے ایسی کوئی شرط نافذ نہیں کی گئی ہے۔صرف اسی پر بس نہیں ، بلکہ یو پی ایس سی نے امتحانات کے میڈیم میں بھی ہنگامہ خیز تبدیلی کردی ہے۔ اب ہندی اور انگریزی کے علاوہ امتحان کا میڈیم وہی زبان ہوسکتی ہے، جو بی اے میں بھی اس طالب علم کا میڈیم رہی ہو۔مزید یہ کہ اس میڈیم میں پرچۂ امتحانات لکھنے کے لیے یہ بھی لازمی کردیا گیا ہے کہ اس میڈیم میں امیدوار اسی وقت پرچۂ سوالات حل کرسکتے ہیں جب امتحان میں شریک اس میڈیم کے مجموعی طلبہ کی تعداد ۲۵؍ سے کم نہ ہو۔بصورت دیگر انھیں ہندی اور انگریزی میں ہی لازمی طور پرپرچۂ سوالات حل کرنا ہوگا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوںیو پی ایس سی جیسا ملک کا باوقار اور معتبر ادارے اتنی بڑی تبدیلی کا خواہاں ہے اور کیوں مذکورہ تبدیلی پر مبنی سفارشات پر پارلیمنٹ میں مہر تصدیق ثبت کردی گئی، اور اس کو وزیر اعظم سے منظو ری ملنے کے بعد آئندہ امتحانات سے نافذ العمل کردیا گیا۔ کیا یہ پہلے ہی سے کس مپرسی کا شکار ہندستان کی علاقائی زبانوں کے ساتھ نا انصافی نہیں؟ انگریزی زبان کی لازمی شمولیت کیا یہ مغربی تہذیب کی چکاچوند سے ہماری مرعوبیت کی دلیل نہیں؟ کیا یہ ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی اور اپنی دھرتی پر جنم لینے والی شیریں زبانوں کو چھوڑ کر غیر ملکی زبانوں پر انحصار کا منہ بولتا ثبوت نہیں؟یہ فیصلہ نہ صرف یہ کہ ہمارے قومی اور علاقائی تہدیب و ثقافت کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ ہے، بلکہ ہمارے قائدین ملک اور مجاہدین آزادی نے مادری زبان میں تعلیم کا جو خواب دیکھا تھا، اس کی تکمیل کی راہ میں بھی ایک بڑا روڑا ثابت ہوگا۔
حکومت کے اس فیصلے پر سارے سیکولرہندستانی اور ماہرین تعلیم حیران اور استعجاب کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندستان میں سرکاری اسکولوں کے معیار تعلیم کا جو حال ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ ہماری حکومت سند یافتہ ناخواندہ افراد کی ایک ایسی بھیڑ تیار کرنا چاہتی ہے، جو نہ کسی تعلیمی ادارے میں درس وتدریس کے قابل رہیں اور نہ ہی محنت و مشقت کرکے روزی روٹی کمانے کے لائق۔حکومت نے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ(RTE Act) کے تحت یہ شرط بھی لگادی ہے کہ پرائمری اور مڈل اسکول کی سطح پر یعنی آٹھویں تک کسی بھی بچے کو امتحان میں فیل نہیں کیا جائے گا۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں رہا، بلکہ میٹرک میں بھی کچھ ایسا کمزور اور ڈھیلا نظام تعلیم اور طریقۂ امتحان حکومت نے تشکیل دے رکھا ہے کہ اس اہم امتحان میں بھی ہر بچے کو کامیابی کا سرٹیفکٹ مل جاتا ہے۔ حکومت نے اس امتحان میں یہ سہولت دے رکھی ہے کہ اگر طالب علم کسی بھی زبان والے مضمون (خواہ وہ انگریزی ہو، فارسی ہویا اردو)میں ۲۵؍ نمبر حاصل کرلے تو اس کو کامیاب قرار دیا جائے گا۔ طرفہ تماشا یہ کہ یہ ۲۵؍ نمبرات بھی طالب علم اپنی محنت اور صلاحیت کے بل پر حاصل نہیں کرتا، بلکہ ہمارے لنگڑے لولے تعلیمی سسٹم کی بدولت آسانی سے بغیر پڑھے لکھے گھر بیٹھے حاصل کرلیتا ہے۔نہ مہندی لگتی ہے، نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔وہ اس طرح کہ اساتذہ کے پاس زبانی امتحان کے نام پر جو ۲۰؍ نمبر ایکسٹرا ہوتے ہیں،وہ سارے نمبر طالب علم کو بڑی آسانی سے یا اساتذہ کی جیب گرم کردینے سے مل جاتے ہیں، باقی ۸۰؍ نمبرات میں سے اس کو اگر ۵؍ نمبر بھی مل جائے تو اس کو کامیابی کا تمغہ تھمادیا جاتا ہے، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ۸۰؍ میں سے یہ ۵ یا ۱۰؍ نمبر بھی اکثر طلبہ حاصل نہیں کرپاتے۔
انگریزی زبان کی تعلیم کا توہمارا یہ حال ہے اور کہاں مسند اقتدار پر براجمان ہمارے ارباب حل و عقد، جنھیں زمینی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں، انگریزی کو لازمی زبان قرار دینے کی حماقت کرنے جارہے ہیں۔کیا انھوں نے اپنے ملک کے بنیادی تعلیمی سسٹم کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ جو بچہ ۱۰۰؍ میں سے ۱۰؍ نمبر بھی جس زبان میں حاصل کرنے کا اہل نہ ہو، وہ کس طرح یو پی ایس سی کے امتحان میں لازمی زبان انگریزی کے سوالات کو کما حقہ حل کرپائے گا۔ کیا وہ اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ ہمارے تعلیمی نظام میں اتنی اصلاح ہوچکی ہے کہ ہر بچہ اس زبان میں فر فر لکھ،پڑھ اور بول سکتا ہے۔انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ سارے بچوں کے گارجین کے پاس اتنی استطاعت نہیں کہ وہ بھاری ڈونیشن اور خطیر فیس کا بوجھ اٹھاکر اپنے بچوں کو اعلی معیار کے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھا سکیں۔ آخر انھوں نے کیسے یہ فیصلہ کرلیا کہ ہندستان کی مقامی زبانوں میں پرچہ حل کرنا قابل قبول نہیں ہوگا۔ کیا مقامی زبانوں میں پرچہ حل کرنے اور لکھنے پڑھنے سے بچوں کی تعلیمی نشوونما متأثر ہوتی ہے؟کیاہندستان کے دستور میں شامل ۲۲؍ زبانوں کو اختیاری مضمون کی صف سے نکالنے کا یہ احمقانہ فیصلہ ،بابائے قوم مہاتما گاندھی، ڈاکٹر داکر حسین اور سر سید کے اس تصورتعلیم کے صریح منافی نہیں کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جائے۔ کیایہ ہمارے ارباب حل و عقد کے قول و عمل کا تضاد نہیں کہ کہاں وہ ہندستان کی علاقائی زبانوں کے تحفظ اور اس کے فروغ کا دستوری دفعات کی روشنی میں عہد کرتے ہیں اور کہاں پارلیمنٹ کی آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر یہ فیصلہ کہ مقامی زبان میں یو پی ایس سی کا پرچۂ سوالات حل نہیں کیا جاسکتا۔ ہندی اس ملک کی قومی زبان ضرور ہے، مگر اس ملک کی آزادی اور اس کو ترقی کے ہم دوش ثریا کرنے میں دوسرے مقامی زبانوں خاص طور سے ارود زبان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں، بلکہ اس عظیم جمہوری ملک کی پہچان اور شناخت بھی ہے۔ کیا ہمارے موجودہ وزیر اعظم کو یہ علم نہیں رہا کہ مقامی زبانوں میں وہی اردو بھی شامل ہے جس کے اشعار کو اکثر اپنی تقریر میں وہ خود اور دوسرے ارباب سیاست بھی دہرایا کرتے ہیں۔یہ وہی زبان ہے جس کو ہمارے پہلے وزیر اعظم پنڈت جوالہر لعل نہرو اپنی مادری زبان کہا کرتے تھے۔جس آئین ہند کی پاس داری کا ہمارے رہ نما حلف براداری کے وقت عہد کرتے ہیں ، اس کی دفعہ ۲۹(۱) میں یہ صراحت موجود ہے کہ ہندستانی شہریوں کو اپنی الگ زبان، طرز تحریر اور ثقافت کے تحفظ کا حق حاصل ہوگا۔ان کے قول و عمل کے تضاد پر چودھری محمد نعیم کا یہ شعر مکمل صادق آتا ہے
سب مرے چاہنے والے ہیں، مرا کوئی نہیں
میں بھی اس ملک میں ارد کی طرح رہتا ہوں
اس پابندی کا سب سے زیادہ اثران زبانوں پر پڑے گا جو حکومت کی ستم ظریفی اور اپنوں کی بے اعتنائی کا شکار ہیں۔ خاص طور سے بیچاری یتیم اردو زبان سے کچھ کرنے کا جذبہ اور ولولہ رکھنے والے طلبہ ان پابندیوں کی وجہ سے حوصلہ ہار کر بیٹھ جائیں گے۔ چند سال قبل تک اردو میڈیم سے یو پی ایس سی کا امتحان دینے والے طالب علم امتحانات میں نمایاں مقام حاصل کرتے تھے، سید محمد افضل اور موجودہ عہد کے معروف فکشن رائٹر سید محمد اشرف سے ہندستان کا کون پڑھا لکھا شخص واقف نہیں جنھوں نے اردو میڈیم کے ذریعے یو پی ایس سی جیسا اعلی ترین امتحان پاس کیا، بہار کے داخلہ سکریٹری عامر سبحانی اورکشمیر کے شاہ فیصل کا نام اب بھی ہمارے دہنوں میںتازہ ہوگا، جنھوں نے ارود کو اختیاری مضمون رکھ کر یو پی ایس سی کا امتحان ٹاپ کیا۔ کیا حکومت یہ چاہتی ہے کہ مسلمانوں کی صف سے اب کوئی اورسید محمد افضل، سید محمد اشرف ،عامر سبحانی اور شاہ فیصل جنم نہ لے۔ اردو جو پہلے سے ہی مرکزی اور ریاستی سطح پرحاشیے پر ڈال دی گئی ہے، اس کو میڈیم کے طور پر رکھنے کے لیے مجموعی طلبہ کی ۲۵؍ کی شرط والی شق کا بھی سب سے زیادہ عتاب اسی زبان پر نازل ہوگا۔ آخر کتنے ایسے طلبہ ہوتے ہیں جو یو پی ایس سی میں اردو کو میڈیم کے طور پر منتخب کرتے ہیں، ۲۵؍ کی شرط لگانا کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہوسکتی، اس طرح سارے مسلم طلبہ جو اردو میں ہی یو پی ایس سی کا امتحان دینا چاہتے ہیں، ان پر اعلی عہدوں تک پہنچنے کے راستے ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں گے۔ اس شرط کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔اگر سارے ہندستانی نہیں، تو کم از کم ملک کے۳۰؍ کروڑ مسلمانوں کے بچوں کے مستقبل کو پیش نظرر کھتے ہوئے حکومت کو اپنے اس مسلم اور اردو مخالف فیصلے پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ ورنہ اس ملک کا مسلمان اور ارود جو پہلے سے ہی ملک کے معاشی اور تعلیمی نقشے میں پسماندگی اور زبوں حالی کا شکار ہیں، مزید پستی اور ابتری میں چلے جائیں گے۔
اس موقع پر اردو کے نام پر قائم اکادمیوں اور فروغ اردو کے عنوان سے قائم تنظیموں کی خاموشی بھی بڑی افسوس ناک ہے۔ جو لوگ اردو کی روٹی کھاتے ہیں اور صبح و شام اردو کی ترقی کا مالا جپ کر سیاست کے میدان میں اپنا قد اونچا کرنے کی فکر میں منہمک ہیں،ان کی مجرمانہ خاموشی اور قابل تأسف لاپروائی پر پورا اردو داں حلقہ انگشت بدنداں ہے۔ ان سے اچھے تو ملک کے ایک صوبے مہاراشٹر میں بولی جانے والی زبان مراٹھی کے پرستاران ہیں، جنھوں نے شیو سینا کے علاوہ اپنی مختلف تنظیموں کے پلیٹ فارم سے حکومت کو یہ انتباہ دیا ہے کہ اگر حکومت نے مقامی زبانوں کے تعلق سے اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا تو ہم سڑک سے لے کر پارلیمنٹ اور اسمبلی تک احتجاج اور مظاہرہ کریں گے۔ اور اگر مراٹھی زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر رکھنے کے تعلق سے یہی صورت حال برقرا رہی تو ہم مہاراشٹر میں یوپی ایس سی کے امتحانات منعقد نہیں ہونے دیں گے۔
ہم کروڑوں اردو والوں کو بھی ان مٹھی بھر مراٹھیوں سے سبق لیتے ہوئے حکومت کے سامنے سڑک سے لے کرا سمبلی اور پارلیمنٹ تک اپنا احتجاج درج کرانا چاہیے، ہو سکے تو آئین و دستور کی روشنی میں ملنے والے حقوق وتحفظات کی روشنی میںعدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے۔ ہم اردو والے مراٹھیوں کی طرح کسی ایک خطے یا صوبے میں بھی محدود نہیں،ہماری تعداد تو ملک کے شمال و جنوب اور مشرق و مغرب میں ہی نہیں، سات سمندر پارامریکہ اور یورپ میں بھی پھیلی ہوئی ہے۔ہمیں خود آگے بڑھ کر جام و مینا اٹھانے کا ہنر بھی سیکھنا چاہیے،صرف حکومت کے میٹھے وعدوں کے سہارے بیٹھنے سے اردو زبان و ادب کا کوئی بھلا نہیں ہوگا۔گاؤں سے لے کر ضلع اور ریاستی اسمبلیوں تک زبانی او ر تحریری طور پر احتجاج درج کرائیے، ورنہ اگر اسی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے،اور صرف یہ نعرہ دہراتے رہے کہ سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے تو اس ملک کے لسانی منظر نامے سے ہماری شیریں اردو زبان عائب کردی جائے گی اور پھر تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔کیوں کہ
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
*ABRAR AHMAD
ROOM NO 21, LOHIT HOSTEL
JNU, NEW DELHI 110067
MOB:9910509702