عدل نہیں بس ترا فضل

سمیع اللہ ملک

لندن

جس صاحب نظر سے ملو، اس کے چہرے کو غور سے دیکھو، اس کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کرو تو یوں لگتا ہے جیسے ایک پریشانی اور اضطراب ہے جو جھلکتا نظر آتا ہے۔ایسا اضطراب جو کشتیوں کے ملاحوں کے چہرے پر سمندروں پربادل امڈتے، طوفانی ہواﺅں کو اپنی سمت بڑھتے ہوئے دیکھ کر نظر آنے لگتا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے یہی درخواست کرتا پھررہا ہے، دعا کریں ہم پر بہت کڑا وقت آگیا ہے۔ ہمارے اعمال کی سزاملنا شروع ہوگئی ہے۔ یوں لگتا ہے تریسٹھ سال سے جو ڈھیل ہمیں دی گئی تھی اب اس کا خاتمہ ہوگیا۔ اب کارکنان قضا و قدر نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر اس صفائی کا آغاز کردیا ہے جو کسی تعفن زدہ معاشرے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ہر صاحب نظر کی آنکھ نم ہے، دل پریشان ہے اور دعاﺅں میں ہچکیوں کی صورت بندھی ہوئی ہے اور سسکیاں ہیں۔

ہر کوئی اس مملکت خدا داد پاکستان کی بقا و سلامتی کی دعاﺅں میں مصروف ہے اور ہر کسی سے صرف ایک ہی التجا کرتا ہے۔اس سے پہلے کہ آندھیاں اور طوفان اور عذابوں اورسیلابوں کے قافلے ہمیں گھیر لیں اللہ کے سامنے گڑگڑا کر استغفار کرلو۔اپنے اعمال کی،اپنے کوتاہیوں کی، ظلم پر اپنی خاموشی کی تاکہ میرا رحیم رب ان ناگہانی مصائب کا رخ پھیر دے جس نے میرے وطن کو گھیر رکھا ہے کہ میں جو ایک کوتاہ نظر ،گناہ گار اورکم مایہ شخص ہوں وہ جب ا ن صاحبان نظر کو دیکھتا ہوں جنہیں اللہ نے بصیرت اور بصارت عطا کی ہے تو خوف سے کانپ اٹھتا ہوں۔ مڑ کر اپنے گزرے ہوئے سالوں پر نگاہ پڑتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میرے جیسے لوگوں کے گناہ ، بداعمالیاں اور مصلحتیں اتنی شدید ہیں کہ شاید آنسوﺅں کے سمندر اور ہچکیوں سے مانگی ہوئی معافی کی درخواستیں بھی قبولیت کا مقام حاصل نہ کرسکیں۔ وہ خوف جس سے آج اس ملک کا ہر مومن صفت برگزیدہ شخص کانپ رہا ہے وہ کس قدر شدید ہوگا اگر میری قوم کواس کا احساس ہوجائے تو حضرت یونس ؑ کی قوم کی طرح سجدے میں گر جائے، اللہ سے پناہ کی طالب ہو جائے، امان مانگے۔

سید الانبیاءﷺکی حدیث پڑھتا ہوں تو خوف اورغالب آجاتا ہے۔آپ نے فرمایا ”جس وقت غنیمت کو ذاتی دولت ٹھہرایا جائے،امانت کو غنیمت سمجھا جائے،زکوٰة کو تاوان سمجھا جائے، آدمی اپنی بیوی کی اطاعت کرے،اپنی ماں سے نافرمانی کرے،اپنے دوست کو نزدیک اوراپنے باپ کو دور رکھے،فاسق و فاجر شخص اپنے قبیلے کا سردار ہو،قوم کا سربراہ ذلیل اور کمینہ شخص ہو۔آدمی کی عزت اس کے شر کے ڈر سے کی جائے ،گانے بجانے والیاں اور باجے ظاہر ہوں،شراب پی جائے اور امت کے لوگ اپنے سے پہلے گزر جانے والوں پر لعنت بھیجیں تو پھر انتظار کرو سرخ ہواﺅں کا،زلزلوں،زمین کے دھنس جانے ،پتھروں کے برسنے کا، اور پے درپے نشانیوں کا جیسے موتیوں کی لڑی ٹوٹ جائے اور دانے پیہم گرنے لگیں “۔

 سید الانبیاءﷺکی مسند احمد میں موجود ایک اور حدیث میرے خوف میںاضافہ کرتی ہے۔آپ نے فرمایا ”اللہ عام لوگوں پر خاص لوگوں کے عمل کے باعث اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک ان میں یہ عیب پیدا نہ ہو جائے کہ اپنے سامنے برے اعمال ہوتے دیکھیں اور انہیں روکنے کی قدرت رکھتے ہوں مگر نہ روکیں ۔ جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو اللہ عام اور خاص سب پر عذاب نازل کرتا ہے“۔

گزرے سالوں پر غور کرتا ہوں تو نگاہیںتریسٹھ سال قبل اس سرزمین پر داخل ہونے والے لٹے پٹے قافلوںکی جانب لوٹ جاتی ہیں۔بے سرو سامان لوگ، جن کے پیارے راستوں میں مار دئیے گئے،جن کا کل اثاثہ لوٹ لیا گیا۔جن کی عفت ماب بیٹیوں بہنوں نے عصمتوں کی قربانی دی لیکن بلکتے، زخموں سے چور یہ لوگ جب اس سرزمین پر پہنچے تو سجدہ ریز ہوگئے،آنکھوں سے تشکر کے آنسو امڈ پڑے۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کے رب نے انہیں ویسے ہی بدترین غلامی سے نجات دی ہو جیسے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے چھڑایا تھا۔

میرے ایک انتہائی قریبی صحافی دوست نے بھارت کے اٹھارہ شہروں میں گھومنے کے بعد خودوہاں کے لوگوں سے جوویڈیو انٹرویوریکارڈ کئے تھے، مجھے اپنے گھر دعوت دیکران کودکھانے کااہتمام کیا ہواتھا۔دراصل اس بھارتی یاترا کےلئے برطانوی پاسپورٹ پربھی مجھے ویزہ دینے سے انکار کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے میں اپنے اس دوست کا ساتھ نہ دے سکا۔میری اپنی خواہش تھی میں اس بدترین غلامی کا نظارہ اورمشاہدہ خود اپنی آنکھوں سے کروں ۔ بنارس، اورنگ آباد اور ممبئی جیسے شہر جہاں مسلمان کسی طور بھی چالیس فیصد سے کم نہیں وہاں وہ اس قدر خوفزدہ،بے اطمینان اور مضطرب ہیں جیسے ان کی ذرا سی خطا ان کے گھر جلا کر رکھ کروادے، عصمتیں تار تار ہو جائیں گی اور اولاد آنکھوں کے سامنے تڑپتی جان دے دی گی۔

ان تمام ویڈیوز انٹرویو دیکھ کرمیں یہ سوچ رہا تھا کہ ہم نے ان تریسٹھ سالوں میں ملنے والی اس جائے امان کے ساتھ کیا کیا۔ وہ سرزمین جسے نہ ہم نے اپنے خون سے سینچا تھا اور نہ ہی اپنی جدوجہد سے حاصل کیا تھا بلکہ عطائے خداوند قدوس تھی۔ہم نے اس کے کونے کونے کو ظلم زیادتی، بے انصافی، جبر اور استحصال سے بھردیا۔ ہم نے سوچا تک نہیں کہ یہ سرزمین تو ہمارے پاس ایک امانت ہے۔کیا ہم نے اپنے بدمعاشوں، اپنے تھانیداروں،اپنے حکمرانوں کی عزت ان کے شر کی وجہ سے نہیں کی۔کیا ہم نے فاسق و فاجر لوگوں کو اپنے قبیلوں کا سربراہ نہیں بنایا۔کیا ہم نے قوم کا سربراہ چنتے ہوئے کبھی سوچا کہ اسے کن خصلتوں کا امین ہونا چاہیے۔ ہم پر جو مسلط ہوگیا ہم نے اسے تسلیم کرلیا۔سید الانبیاءﷺنے فرمایا کہ اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انبیاءکی لعنت اس شخص پر جوطاقت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرے اور شریف لوگوں کو ذلیل ورسواکرے اور کمینوں کو عزت دے ،ہم اس عمل کو دیکھ کر خاموش رہے بلکہ ہم توبے حس ہوگئے ہیں۔

ہمارے سامنے ہر روز۵۱کے قریب لوگ بھوک اور افلاس سے تنگ آکر خود کشی کرتے اور ہمارے بڑے بڑے ہوٹل مرغن کھانا کھانے والوں سے آباد رہے، ہمارے سامنے گھروں کے گھر بارود کے دھوﺅں اور بموں کی کرچیوں سے اڑتے رہے، معصوم بچوں کی قطار درقطار لاشیں دفن ہوتی رہیں اور ہم اپنے گھروں کے آرام دہ صوفوں پر بیٹھے ٹیلی ویژن سکرین پر منظر دیکھتے رہے، تنگ آکر چینل بدلتے رہے، معصوم بچیاں بموں کی گھن گھرج میں اپنے پیاروں کی خون آلود لاشیں گود میں رکھ کر آسمان کی سمت دیکھتیں رہیں اور اپنے اللہ کے حضور پیش ہونے تک سوچتی رہیں کہ اس مملکت خداد اد پاکستان میں کتنے ہوں گے جو اپنی بیٹیوں کو گلے سے لگائے پیار سے میٹھی نیند سو رہے ہوں گے۔

ساری دنیا کا الیکٹرانک میڈیاسیلاب کی تباہ کاریاں دن رات دکھارہاہے۔ پچھلے ایک ماہ سے ہرروزکسی نہ کسی شہراورگاو

¿ں کے ڈوبنے کی تصاویر دیکھنے کو مل رہی ہیں،سیلاب زدگان سے متاثرہ ساٹھ لاکھ بچے ،پچاس لاکھ سے زائد خواتین کے علاوہ نقصانات کی دل دہلا دینے والی ایک طویل فہرست عبرت کےلئے کیا کم تھی کہ سیالکوٹ میں دونوجوانوں کوپولیس کی موجودگی میں بلکہ قانون کی حفاظت کرنے والوں کی شہہ پر ایسی سفاکی اوربربریت کے ساتھ قتل کردیا گیا کہ انسانیت منہ چھپائے سسک رہی ہے۔سنا ہے کہ ایک بچہ حافظِ قرآن بھی تھا ۔

میرے گناہوں اور میری خاموشیوں کی تفصیل طویل ہے۔ اس ملک کے سولہ کروڑ لوگ طاقت رکھتے تھے اس ظلم اور زیادتی کے خلاف کھڑے ہونے کی لیکن ان کی مصلحتیں ان کے سامنے آکر کھڑی ہوگئیں، کسی کا کاروبار تھا،کسی کی نوکری اور کسی کامستقبل۔یوں لگتا ہے کوئی سمجھنے کےلئے تیارنہیں۔ ہمیں پانچ سال پہلے ایک خوفناک زلزلے سے سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی:

 ”جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلاڈالی جائے گی،اورزمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی،اورانسان کہے گاکہ یہ اس کو کیا ہورہا ہے۔اس روزاپنے (اوپرگزرے ہوئے)حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے رب نے اسے (ایساکرنے کا)حکم دیا ہوگا“(سورة الزلزا ل۵۔۱)

لیکن حکومت کے روشن خیال ان نشانیوں کو اپنے بودے دلائل سے جھٹلاتے رہے۔ہم اپنے شب وروزمیں اسی طرح مگن ہوگئے جس طرح پہلے نافرمانیوں میں مبتلا تھے۔ کئی صاحبِ بصیرت افرادنے اجتماعی استغفار کی طرف توجہ دلائی لیکن ان کے پندونصائح کو استہزا کی نذر کردیا گیا۔ملک میں مسلسل خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،زلزلے کے بعد پانچ ماہِ رمضا ن بھی آئے ،نہ توخود کش حملوں میں کوئی کمی آئی اورنہ ہی ہم نے ”وار آن ٹیرر“کی اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی کی۔ ماہِ رمضان کی رحمتوں اوربرکتوں کو سمیٹنے کی بجائے ہم پرائی جنگ میں ٓج بھی اسی طرح مصروف ہیں بالآخرہمیں اس خوفناک سیلاب نے آن گھیرا ہے لیکن میرا خوف میرا ساتھ نہیں چھوڑ رہا۔

میں صاحبان نظر کی آنکھوں میں آنسو اور چہروں پر خوف دیکھ رہا ہوں،اے میرے اللہ ہم پر رحم فرما،ہم کمزور ہیں ہم گناہ گار ہیں، ہماری خطائیں معاف فرما اگر تو نے فیصلہ کرلیا کہ تو ہر خاص و عام پر عذاب مسلط کردے،پھر تو خواص کی دعائیں بھی نامراد لوٹ آئیں گی۔ ناکام و نامراد۔ایسے میں ہم کہاں جائیں گے، ہم برباد ہو جائیں گے۔ اے میرے کریم ورحیم رب! ہم تیرے غضب کے مقابلے میںتیری رحمت سے پناہ مانگتے ہیں۔ تیرے عدل کے مقابلے میں تیرا فضل مانگتے ہیں،بے شک تیری رحمت تیرے غضب سے بالاتر ہے،ہم پر رحم فرما۔

سیدنا زین العابدین ؓکی دعا زبان پر ہے۔اللہ میں تیرے غضب سے تیری رحمت کی پناہ چاہتا ہوں۔

کب تری رحمت کو جوش آئے گا رب مصطفیٰ؟    آج پھر آل محمد ﷺغم سے گھائل ہو گئی

 

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *