Khwaja Ekram
کیا پاکستان ایک بار پھر غیر مستحکم ہونے جارہا ہے؟یہ سوال نہ صرف پاکستان کے اندر گردش کر رہا ہے بلکہ یہ سوال کئی ممالک کے سربراہوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر رہا ہے ۔ کہنے کو پاکستان کے وزیر اعظم کو پاکستان کی عدلیہ نے سز ا سنا یا اور انھیں اپیل کرنے کا حق بھی دے دیا۔ پاکستان کی عدلیہ کا اور پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا واحد ایسا فیصلہ ہے جس نے لوگوں کو حیرت میں بھی مبتلا کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ ایک جانب اپنا صاف ستھرا چہرہ بھی برقرار رکھنا چاہتی ہے اور وزیر اعظم سمیت حکومت کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی اسی لیے ایسے وقت میں ان کی پیشی ہوئی کہ کہ صرف ایک منٹ میں یوسف رضا گیلانی کو کو دی گئی سزا مکمل ہوگئی۔خیر یہ بات بھی اپنی جگہ پر لیکن اب اس سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے آگے پاکستان کی عدالت عالیہ نے کچھ نہیں کہا اور ملک کی سیاسی پارٹیاں ایک سزا یافتی وزیر اعظم کو قبول کرنے کو تیار نہیں ، لیکن دوسری جانب خود وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کے اندر ہمت ہے تو میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر دیکھائے اور نواز شریف یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزارت عظمیٰ اور کابینہ کے عہدے ختم ہو چکے ہیں اور اس وقت ملک کسی بھی حکومت کے بغیر چل رہا ہے اورملک بغیر وزیر اعظم کے چل رہا ہے ایک بہت بڑے سیاسی بحران کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ابھی پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں قانونی صلاح ومشورہ میں منہمک ہیں اور عنقریب کوئی بڑا قدم اٹھانے کے موڈ میں ہیں ۔ ایسے میں یہ پاکستان کے لیے پھر ایک بار نئے طوفان کو پیش خیمہ ہے جو ملک کی سلامتی اور ملک میں امن و امان کے حوالے سے ہے۔
اس کا پس منظر یہ ہے 26اپریل پاکستان کی تاریخ میں ایک تاریخی دن تھا جس میں پاکستان کے وزیر اعظم کو اسی ملک کی عدالت عظمی نے سزا سنا ئی۔ سزا بھی جس مقدمے میں سنائی گئی وہ عدالت کی حکم عدولی اور توہین عدالت کا تھا۔ سزا بھی عجیب دی گئی یعنی صرف 30 سکنڈ کی جو عدالت میں دوران سماعت ہی پوری ہو گئی۔ لیکن اس چھوٹی سی سزا نے پاکستان کی سیاست میں بہت بڑا سوال پیدا کر دیا اور سوال یہ ہے کہ کیا سزا ملنے کے بعد بھی یوسف رضا گیلانی پاکستان کے وزیر اعظم ہیں ؟ ما سوائے اعتزاز احسن پاکستان کے تمام قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایک سزا یافتہ نہ صرف یہ کہ وہ وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتا بلکہ اس کی قومی اسمبلی کی رکنیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ ایک سابق سربراہ الیکشن کمیشن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ نہ صرف وزیر اعظم بلکہ اس کی نا اہلی کی وجہ سے کابینہ بھی خود بہ خود تحلیل ہو جاتی ہے اور اس طرح ا س حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ دوسری طرف حکومتی خیمے نے عدالت کا حکم نہ ماننے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم نے فیصلے کے فوراً بعد کابینہ کا اجلاس طلب کیا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ عدالت کا فیصلہ نہیں مانا جائے گا۔ آناً فاناً قمر زمان کائرہ اور اعتزاز احسن نے پریس کانفرنس کے ذریعے اس کا اظہار بھی کر دیا۔ اگلے دن 27 اپریل کو وزیر اعظم نے سوالات کے وقفے میں ایوان میں قدم رکھااور ایک پر جوش تقریر کر ڈالی جس میں حزب اختلاف اور عدالت عظمی دونوں کو ان کی اوقات بتائی گئی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ جواب یہ ہے کہ یہ حکومت کی یہ ایک سوچی سمجھی ہوئی چال ہے۔ بات در اصل یہ ہے کہ پرویز مشرف کے جانے کے بعد پاکستان کی عوام نے جمہوری حکومت سے اس قدر امیدیں وابستہ کر لی تھیں کہ شاید الہ دین کا چراغ بھی ان کو پورا کرنے سے قاصر ہوتا۔ اوپر سے اس حکومت کی ترجیحات بھی عوامی مسائل نہیں تھیں۔ پیپلز پارٹی نے حکومت میں آتے ہی اپنے خانے محفوظ کرنے شروع کر دیئے اور اس کی پہلی کڑی جسٹس کھوکھر کو اپنی طرف کرنا تھا تا کہ ان سے آصف علی زرداری کے کیس کا فیصلہ کرایا جا سکے۔ جسٹس کھوکھر کی بھی کمزوری یہ تھی کہ وہ پرویز مشرف کے بنائے ہوئے چیف جسٹس تھے اور اگر انہیں سیاسی تحفظ کچھ لے دے کی بنیاد پر مل رہا تھا تو وہ کیوں نا کرتے۔ حکومت کو یہ بات معلوم تھی کہ وہ یہ کام افتخار چودھری سے نہیں لے پائے گی اس لئے اس نے چیف جسٹس کی بحالی کے اپنے بیانات کو فراموش کرنے میں ہی بھلائی جانی۔ لیکن حکومت کی امیدوں کے بر عکس آزاد عدلیہ کی بحالی کی تحریک پورے ملک میں طاعون کی طرح پھیل گئی اور بالآخر فوج کی پس پردہ مداخلت کے بعد چیف جسٹس بحال ہو گئے۔ حکومت کی توقعات کے عین مطابق سپریم کورٹ نے کرپشن کے مقدمات پر کارروائی شروع کی اور اسٹیل مل اور ریکوڈیک جیسے تمام مقدمات پر کار ترجیحی بنیاد پر شروع ہوا۔ این ۔ آر۔ او کو بھی کالعدم قرار دیا گیا اور اس کے تحت بند کئے مقدمات بھی کھلنے شروع ہو گئے۔ ان ہی مقدمات میں آصف علی زرداری کے کرپشن کا ایک کیس بھی تھا جو سوئٹزر لینڈ کی عدالت میں تھا اور جسے اس وقت کے اٹارنی جنرل ملک قیوم نے سوئٹزر لینڈ کی عدالت کو خط لکھ کر بند کرایا تھا۔ عدالت نے حکومت سے کہا کہ وہ سوئٹزر لینڈ کی عدالت کو خط لکھے کہ وہ مقدمات دوبارہ کھولے جائیں لیکن حکومتی موقف یہ تھا کہ چونکہ صدر کو آئین پاکستان کے تحت ملک میں اور جنیوا کنونشن کے تحت بیرون ملک میں اسثنی حاصل ہے اس لئے حکومت کو ئی خط نہیں لکھے گی۔ اس طرح حکومت اور عدالت میں ایک تصادم کی صورت حال پیدا ہو گئی۔ یا پھر جان بوجھ کر کی گئی تاکہ اس عدالت کو بھی ان عدالتوں کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے جنہوں نے ذولفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دی تھی۔ اور جنہوں نے پاکستان میں جمہوریت کو بار بار پامال کیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ عدالت جسے بھی کرپشن کے مقدمے میں سخت و سست سناتی حکومت اسے کسی کلیدی عہدے کو بٹھا دیتی۔ اس سے پیپلس پارٹی کو ایک فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کو پی۔پی۔پی مخالف ثابت کرنے کا موقع مل گیا اور اس طرح آصف علی زرداری کے خلاف کارروائی ایک خاص سیاسی جماعت کے خلاف سمجھی اور سمجھائی جانے لگی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ چار سال جن مین عوامی بہبود کی جگہ اپنا سر بچانے میں لگائے گئے اس کا ٹھیکرہ بھی عدالت کے سر پھوڑنے کا موقع مل گیا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک طرف تو معصوم بن کر خود ہی گاڑی چلاتے ہوئے عدالت جانے کا ڈرامہ ہوا دوسری طرف کھلے عام عدالت کو کہا جانے لگا کہ جہاں پہلے اتنے سال جیلوں میں بتائے ہیں وہیں توہین عدالت کے مقدمے میں چھ ماہ اور سہی۔ اور ساتھ ہی ساتھ عدلیہ کے ساتھ تصادم کی تیاریاں جاری رہیں۔ یہاں تک کہ عدالتی فیصلے کے خلاف جو ریلیاں نکلیں وہ بھی ایک منظم لائحہ عمل کا حصہ تھیں کیونکہ جیسے پرنٹڈ بینر اور پلےکارڈ لوگوں نے اٹھا رکھے تھے وہ کوئی دوسری ہی کہانی کہہ رہے تھے۔
اب پیپلس پارٹی پھر خود کو مظلوم کہنے کے لئے تیار ہوگئی ہے اور اس ضمن میں ان کی پور ی پروپیگنڈہ مشینری کام پر لگ گئی ہے۔ کسی کو یہ سوچنے کا وقت نہیں ہے کہ پاکستان جو پہلے ہی ہزاروں مسائل بے حال ہے وہ مزید محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لئے عرصہ دراز سے کوشاں ہے اور اس کے لئے اسے دیگر ممالک کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں کوئی کیوں سرمایہ کاری کرے گا جس میں آئین اور قانون کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے ۔ آج جس طرح آئین کی اپنی تشریح کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے کو انگوٹھا دکھایا جا رہا ہے اسی طرح کل آئین اور قانون کی خود ساختہ تشریح کے ذریعہ سرمایہ کاروں کا مال بھی ہضم کیا جا سکتا ہے اور اس کا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا۔
کسی جمہوری ملک کی کامیابی کا پیمانہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے تینوںستون استحکام کے ساتھ اپنی جگہوں پر کھڑے رہیں تاکہ عوام کے مفادات کی جو چھت ان کے اوپر رکھی ہوئی ہے اسے گزند نہ پہونچے۔ پاکستان ابھی جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں آئین اور قانون کی بالاد ستی کا قیام بے حد ضروری ہے اور ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خود سے اپنا استعفی پیش کر کے ایک مثال قائم کرتے تاکہ ملک کے عوام کا اعتمادحاصل ہوتا۔ اس کے برعکس انہوں نے عوام کو یہ سکھا دیا ہے کہ عدالت کا حکم اسی حالت میں مانا جا سکتا ہے جب وہ اپنی پسند کا ہو۔ لیکن اس کے آثار نہیں نظر آرہے ہیں اوریہی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔
Dr. Khwaja Ekram Prof. Dr. Khwaja Mohd Ekramuddin