Home / Socio-political / آئی ایس آئی نرغے میں؟

آئی ایس آئی نرغے میں؟

  سمیع اللہ ملک

پاکستانی فضائیہ کے سابق سربراہ اصغر خان نے آئی ایس آئی کی طرف سے مہران بینک اور حبیب بینک کے ذریعے سیاست دانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کی کچھ سماعتوں کے بعد اس درخواست کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا اور دس سال کے بعد اس درخواست کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔ سپریم کورٹ نے خفیہ ادارے آئی ایس آئی یعنی انٹر سروسز انٹیلی جنس کی طرف سے۹۰ ء کی دہائی میں سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی درخواست کی حالیہ سماعت کے دوران موقف اختیار کیا کہ آئی ایس آئی چونکہ وزیر اعظم کے ماتحت ہے، اس لیے ان کے نوٹس میں بھی لائیں کہ اب اس ادارے میں کوئی بھی سیاسی سیل کام نہیں کر سکتا۔عدالت کا کہنا تھا کہ۳ نومبر۲۰۰۷ء کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدامات کے خلاف۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کا فیصلہ بہت واضح ہے کہ اس خفیہ ادارے میں اگر کوئی سیاسی سیل ہے بھی تو وہ اب کام نہیں کر سکتااور کسی کو قومی خزانے سے کسی کی بھی حکومت کو خراب کرنے یا اس کے خلاف سازش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ اس اہم مقدمے میں ابھی تک وزارتِ دفاع کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا۔ اس کی وضاحت دیتے ہوئے سیکرٹری دفاع نرگس سیٹھی کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی یعنی ملٹری انٹیلی جنس اپنا مؤقف خود عدالت میں پیش کرنا چاہتے ہیںجس کیلئے اس کی سماعت دوہفتوںکیلئے ملتوی کردی گئی۔

اس درخواست کی سماعت کرنے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اٹارنی جنرل عرفان قادر کو حکم دیا کہ آئی ایس آئی میں سیاسی سیل سے متعلق اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی نے جو سمری وزارتِ قانون کو بھیجی تھی اس کا جائزہ لیا جائے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ سمری سربمہر کر کے عدالت میں پیش کی جائے۔بینچ میں موجود جسٹس خلجی عارف حسین خلجی کا کہنا تھا کہ اس سیل سے متعلق کچھ دستاویزات اٹارنی جنرل کے آفس میں بھی بھیجی گئی تھیں، اس لیے انہیں وہاں پر بھی تلاش کیا جانا چاہیے۔اس درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ وزارتِ قانون اور کیبنٹ ڈویژن سے بھی سارا ریکارڈ تلاش کیا گیا لیکن اس سیل کا نوٹیفکیشن نہیں مل رہا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بری فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کی طرف سے عدالت میں جمع کروائے گئے بیانِ حلفی سے یہ بات طے ہوگئی ہے کہ سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس بات کا پتہ نہیں چل رہا کہ رقوم کس نے تقسیم کیں اور کس کس سیاست دان کو کتنی رقم دی گئی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ نے کہا ہے کہ نہ تو انہوں نے سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کیں اور نہ ہی انہوں نے ایسا کرنے پر سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر کوئی دباؤ ڈالا۔ سیاست دانوں میں تقسیم کی گئی رقوم فوج کے نہیں بلکہ آئی ایس آئی کے اکاونٹ میں آئی اور انہوں نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مختلف بینکوں میں سیاست دانوں کے اکاونٹ کھلوائے اور ان میں رقوم منتقل کیںاور سیاست دانوں میں مبینہ طور پر رقوم کی تقسیم کی تمام تر ذمہ داری اس وقت کے آئی ایس آئی یعنی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی پر ڈال دی ۔اس سے پہلے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی بھی اپنا بیان حلفی عدالت میں جمع کروا چکے ہیں کہ اس وقت کے آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کی ہدایت پر سیاست دانوں میں چودہ کروڑ روپے تقسیم کئے تھے ۔پاکستانی سیاست، انتخابات اور حکومتوں کی تشکیل میں پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے مشکوک کردار کو چیلنج کئے جانے کے مقدمے کی سماعت کے دوران سابق بینکار یونس حبیب نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے دبا ؤپر۱۹۹۰ء کے انتخابات سے قبل سیاستدانوں میں تقریبا ۳۵ کروڑ روپے تقسیم کئے تھے۔ سماعت کے دوران عدالت میں اپنا تحریری بیان جمع کرواتے ہوئے اس سکینڈل کا حصہ بننے پر معافی بھی مانگی کہ اس وقت ان پر شدیددباؤ تھا کہ ان کے پاس اورکوئی راستہ ہی نہیںتھا۔

 دوسری طرف انہی حالات کافائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ حکومت نے آئی ایس آئی کوسول کنٹرول میںدینے کی امریکی پالیسی پرعمل درآمد کی کوششیں ایک بارپھرشروع کردی ہیںاوراس حوالے سے بڑی خاموشی کے ساتھ سینیٹ میں حکومتی سینیٹر فرحت اللہ بابر کی طرف سے آئی ایس آئی کے اختیارات سے متعلق ایک بل پیش کیا گیا جسے بعد ازاں مؤخر کردیا گیاہے۔اس بل میںتجویزکیاگیاہے کہ کوئی واضح قانون نہ ہونے کے سبب یہ ادارہ کسی کوجوابدہ نہیں،اس لئے اب ضروری ہوگیاہے کہ قانون سازی کرکے اس ادارے کاسربراہ گریڈ۲۲کاحاضرسروس یاریٹائرڈسول سرونٹ یااس کے متبادل فوجی افسرمقررکیاجائے اوریہ اختیارصدرمملکت کوحاصل ہوناچاہئے ۔پارلیمنٹ کی چار رکنی کمیٹی آئی ایس آئی کے معاملات کی مکمل نگرانی کرے ،علاوہ ازیںصدرکی ذاتی صوابدیدپرمقررکردہ محتسب بھی آئی ایس آئی کااحتساب مستقل جاری رکھے۔ پارلیمانی ذرائع کے مطابق یہ بل اس لحاظ سے انتہائی منفرد ہے کہ جس کی منظوری کی صورت میںآئی ایس آئی دنیاکاواحدادارہ ہوگاجس کی لگامیںبیک و قت وزیراعظم ،پارلیمانی کمیٹی اورمحتسب کے ہاتھوں میں ہونگی ۔ دنیا کے کسی اورملک میںاس طرح کے اداروںکے سلسلے میںایسی قانون سازی کی مثال قطعاًنہیںملتی۔

یادرہے کہ آئی ایس آئی کومکمل سیاسی اورسول کنٹرول میںلانے اورفوج کاعمل دخل ختم کرناامریکاکی شدید خواہش ہے جس پراس نے ۱۹۸۸ء میںایک ریٹائرڈجنرل کوڈی جی لگوا کر عمل درآمدکرانے کی کوشش کی تھی اوراب موجودہ حکومت  کے ساتھ این آراوکے سلسلے میںامریکی ڈیل میںدیگرشرائط کے ساتھ یہ بھی طے پایاتھاکہ پی پی حکومت برسراقتدار آ کر امریکی خواہشات کے مطابق آئی ایس آئی کونہ صرف سول کنٹرول میںلائے گی بلکہ اس کے پہلے ممکنہ سول سربراہ کے طورپرایک ریٹائرڈجنرل کوسیکورٹی ایڈوائزربناکروزیراعظم ہاؤس میںمقررکیاگیااورغیرمحسوس طورپرآئی ایس آئی کواس ریٹائرڈجنرل کے ماتحت کرنے کی پہلی کوشش ممبئی حملے کے بعدڈی جی آئی ایس آئی کوصفائی پیش کرنے کی خاطربھارت بھیجنے کاحکم تھاجوچندلمحوںبعدہی واپس لیناپڑا۔

آئی ایس آئی کوامریکی خواہشات کے مطابق سابقہ وزیراعظم گیلانی نے اپنے پہلے امریکی دورے سے قبل وزارتِ داخلہ کے ماتحت کرنے کاایک حکم بھی جاری کیالیکن چند گھنٹوں کے بعداس کوبھی فوری طورپرواپس لینے کانوٹیفکیشن جاری کرناپڑاجبکہ ماضی میںامریکی فنڈسے قائم کئے گئے ایک ادارے نیکٹاکی ناکامی کاسبب بھی یہ تھاکہ ایوانِ صدراس ادارے کے ذریعے آئی ایس آئی کووزیرداخلہ رحمان ملک کے ماتحت کرناچاہتاتھاجس کیلئے اس ادارے کے سربراہ طارق پرویزآمادہ نہ ہوئے اورآئی ایس آئی بھی اس سازش سے محفوط رہی جہاںنیکٹاکے مجوزہ قانون میںڈی جی آئی ایس آئی کونیکٹاکے بورڈ آف ڈائریکٹر زمیںشامل کرکے وزیرداخلہ کوبورڈآف ڈائریکٹرزکاسربراہ مقررکیاجارہاتھا۔اسی لئے اب تک نیکٹاایکٹ کامجوزہ قانون منظورنہیںہوسکا۔

ماضی سے قطع نظرامریکی حکومت نے میموایشوکے دوران بھی آئی ایس آئی کوسول کنٹرول میںلانے کی شرط عائدکی تھی اوربعض ذرائع میموسکینڈل میںفرحت اللہ بابرکانام بھی ’’باس‘‘اورحسین حقانی کے درمیان رابطہ کارکے طورپرلیتے رہے ہیں۔ ایوانِ صدرنے ماضی میں بھی کئی بارحسین حقانی کے ذریعے امریکاکویقین دلایاتھاکہ موقع ملتے ہی اس اداے کابندوبست کردیںگے اوراب اسی لئے ایوان صدرکے ذاتی معاون فرحت اللہ بابر نے پرائیویٹ ممبربل کے طورپرمسودۂ قانون  سینیٹ میںداخل کروادیاہے اورکوشش یہ کی جارہی ہے کہ حالیہ سینیٹ کے اجلاس میںہی اس بل پربحث کے بغیرہی اسے قانونی شکل دے دی جائے۔ایوان صدرنے ۱۹صفحات پرمشتمل یہ بل امریکاکے انتہائی دباؤپر جلدبازی میںداخل کروایاہے جس کوکچھ عرصہ قبل حسین حقانی کے ذریعے امریکی دوستوںکے تعاون سے تیارکیاگیاتھا۔ایوانِ صدرکویہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ اس بل کی منظوری کیلئے صرف پی پی کے ارکان کی مکمل حمائت حاصل کرے جبکہ اتحادی جماعتوںاورنوازلیگ کواس بل کی حمائت میںقائل کرنے کی ذمہ داری امریکی حکام نے اپنے ذمہ لی ہے۔شائدیہی وجہ ہے کہ کچھ دن پہلے پاکستان میںامریکی سفیرنے اپنے ایک انٹرویومیںنوازشریف اورعمران خان کوامریکاکاحامی قراردیاہے۔

ایوان صدراس مرتبہ بل کی کامیابی پربڑی پراعتمادہے کہ اس دفعہ عوامی سطح پراس بل کی مخالفت نہیںہوگی کیونکہ لاپتہ افرادکے معاملے پر امریکی پے رول پرکام کرنے والے میڈیا کے عناصر آئی ایس آئی کوبری طرح متنازع بناچکے ہیںاوریہی اینکرزآج کل یہ دہائی دیتے ہوئے نظرآرہے ہیںکہ جمہوریت پرحملے کی تیاری ہورہی ہے اورسیاستدانوںکوجان بوجھ کرکرپٹ کہاجاتاہے تا کہ اس آڑمیںکوئی غیرجمہوری اقدام کابہانہ بنایاجاسکے جبکہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی اس سلسلے میںاپنے احکام میںدبنگ رویہ اختیارکررکھاہے۔دوسری طرف پی پی ذرائع کے مطابق ایوانِ صدرنے ذاتی ذرائع سے یقین دہانی کروائی ہے کہ اس بل کی منظوری کے بعداگلاڈی جی آئی ایس آئی فوج سے نہیںہوگااوراس سلسلے میںامریکی خواہشات کامکمل احترام کیاجائے گا۔کیاجنرل کیانی کے امریکی دورے میںاس معاملے پرکوئی بات ہوگی اس سوال کاجواب آئندہ چنددنوںمیںمتوقع ہے۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *