Home / Socio-political / ”آرزو ناتمام“

”آرزو ناتمام“

سمیع اللہ ملک

لندن اور اس کے گردونواح میں اکثر گھروں میں مفت اخبار کی ترسیل ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی ہے اور اس کو دیکھے بغیر کبھی کبھار کوڑے دان(Bin)کی نظرکر دیا جاتا ہے۔اگر اخبار اردو میں ہو تو مجھ جیسا آدمی احتراماً اس کو دیکھنے کی زحمت اس لئے کرتا ہے کہ اس میں کہیں قرآنی آیات یا کوئی ایسا مواد نہ ہو جس کا احترام لازم ہے۔ایسے ہی ایک اخبار میں ایک جلی حروف میں چھپی خبر”فلاں علاقے میں پولیس نے چھاپہ مار کر دودرجن سے زائدغیر ملکی تارکِ وطن گرفتار کر لئے جن میں دس کے لگ بھگ کاتعلق پاک وہندسے ہے لیکن سرغنہ موقع سے فرار ہو گیا۔“ پچھلے دنوں ایسی ہی خبر ایک اخبار میں شائع ہوئی کہ فلاں سمندر میں غیر قانونی تارکِ وطن کی لانچ ڈوب گئی جس میں اتنے سوار تھے تو مجھے لند ن میں ذہنی مریضوں کا ایک ادارہ میں زیرِ علاج شاہ محمد یاد آجاتا ہے۔یہ ادارہ ایسے مریضوں کیلئے بنایا گیا ہے جو ایک طویل عرصہ پاگل خانے میں گزارتے ہیں اور پھر بھی مکمل صحت یاب نہیں ہوتے‘تو عمر کا باقی حصہ اس میں نیم ملازمت نما طور پر بسر کرتے ہیں۔اس ادارہ میں برطانیہ کے مخیر حضرات اپنے پرانے کپڑے یا کبھی کبھی نئے کپڑے خیرات کرتے ہیں۔یہ ذہنی مریض ان کو تہہ کرتے ہیں‘ان کی گٹھڑیاں بناتے ہیں اور پھر جنوبی ایشیا جیسے غریب ممالک کو روانہ کر دیتے ہیں‘جن سے ہمارا لنڈا بازار سجتا ہے۔

ایک کونے میں شاہ محمد یہ کپڑے تہہ کر ہا تھااور ساتھ ساتھ تنہائی میں کچھ بڑبڑارہا تھا۔الجھے بالوں اور میلی کچیلی جین جیکٹ کے باوجود میں نے اسے پہچان لیا۔مجھے قریب پاکروہ کچھ گھبرایا‘پھر انگریزی میں زور زور سے بولنے لگا۔میں نے پہلے اردو میں اس کا حال احوال پوچھا‘اس نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی ۔پھر میں پنجابی میں مخاطب ہواتو ایک دم رو پڑا پھر میرے قریب آکر سرگوشی کے لہجے میں بولا”مانو کو بولو اس لڑکے کو چھوڑ دے‘اس نے ایک کپڑے کو سر پر لپیٹااور میرے سامنے رکھ کر بولا‘یہ میری پگڑی اس کے قدموں میں رکھ دینا‘اس کو کہنا کہ تمہارا داداحافظِ قرآن تھا اور کئی گاوٴں کے بڑے بڑے عزت دار اس کی حویلی میں سر جھکائے احتراماً اس کے پاس اپنی ضروریات لیکر آتے تھے اور اس نے کبھی کسی کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹایا۔اس لڑکے کو چھوڑ دے‘ابھی میں نے گاوٴں والوں کو کچھ نہیں بتایاورنہ ہماری عزت خاک میں مل جائے گی۔“پھر وہ ہچکیاں لیکر رونے لگ پڑا۔

شاہ محمد آج سے چالیس سال پہلے ایک سیاحتی ویزہ پر اس ملک میں آیا تھا‘اسے یہاں کی رنگینیاں‘یہاں کا پیسہ اور ماحول اچھا لگتا تھا۔جب وہ برطانیہ آرہا تھا تو سارا گاوٴں اس پر رشک کر رہا تھا۔کئی دوستوں نے وہاں پہنچتے ہی اس کو ویزہ بھیجنے کی فرمائش بھی کی تھی۔اسے جلد ہی کام مل گیا۔اسے واپس پاکستان نہیں جانا تھا‘اس لئے اپنے اسٹور پر کام کرنے والی لڑکی سے سوچ سمجھ کر عشق شروع کر دیا۔شاہ محمد گھبرو خوبصورت نوجوان تھااس لئے محنت مزدوری سے جلد مالی حالات بھی بدل گئے۔دنیا کی ساری آسائش و آرام اس کے گھر کی زینت بن گئیں۔ایک بیوی کی ضرورت تھی اس لئے وہی عشق سر چڑھ کر بولا۔شادی ہو گئی اور پھر جلد ہی اس ملک کی شہریت بھی حاصل ہو گئی۔اپنا اسٹور کھول لیا‘دن رات کی محنت سے کاروبار کو دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا۔پھر ایک دن اس کی وہی وفا کا دم بھرنے والی بیوی اسٹور کے ایک گاہک کے ساتھ فرار ہوگئی اور اس کی جھولی میں پانچ سالہ عائشہ چھوڑ گئی جس کو وہ پیار سے ”مانو“ کہتا تھا۔

وہ آہستہ آہستہ ایک سے دو اور پھر دو سے پانچ اسٹوروں کا مالک بن گیالیکن اس نے مانو کی خاطر دوسری شادی نہیں کی۔مزیدبارہ سال کے عرصے میں مانو اس کی محبت اس کے پیار اور پانچ وقت نمازوں کے باوجود لندن کے آزاد ماحول میں رنگ گئی۔ایک رات جب وہ تہجد کیلئے اٹھاتو اسے اپنی بیٹی کے کمرے سے باتوں کی آواز آئی۔اس کے پاوٴں تلے سے زمین نکل گئی۔اس نے دروازے پر جا کر سوال کیا ”مانو !تمہارے ساتھ کون ہے؟“تھوڑی دیر کے بعد بیٹی نے دروازہ کھول کر کہا یہ میرا بوائے فرینڈ ہے ما ئیکل!سناٹے میں آئے ہوئے باپ نے زندگی میں پہلی مرتبہ بیٹی پر ہاتھ اٹھایا اور مارنا شروع کر دیا۔اتنے میں مائیکل نے پولیس کو فون کر دیالیکن پولیس کے پہنچنے سے پہلے شاہ محمد ذہنی توازن کھو چکا تھا اور پھر اسے جیل کی بجائے سائیکٹر کchiatric) (Psyوارڈ میں پہنچا دیا گیا۔

ایسی کئی کہانیاں ہیں‘زندگی سے نچڑی ہوئی داستانیں ہیں‘المیے ہیں‘جو ان ممالک میں میرے ملک کے باسیوں اور پردیسیوں پر گزرتے ہیں‘لیکن اس کے باوجود بھی اشتہار دینے والی فرمیں‘ٹی وی ڈراموں کے رائٹراور میرے ملک کے دانشورامریکہ اور یورپ کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ قانونی اور غیر قانونی طور پروہاں سے بھاگ رہے ہیں۔میں یہاں امریکہ اور یورپ کی اس لبرل سو سائٹی کا نقشہ یہاں امریکا کی حکومت کے ایک اہم ادارے مرکزی محکمہ انصاف (Department of Justice)کی رپورٹوں سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار سے ہی مرتب کرکے آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔یہ صرف اعداد و شمار ہیں ‘ان میں وہ دکھ اور اذیت شامل نہیں جو یہاں بسنے والے انسانوں کا مقدر بن گئے ہیں اور اب مارے شرم کے کسی کو بتانے سے بھی قاصر ہیں!

#پورے امریکہ میں ہر ڈیڑھ منٹ کے بعدکہیں نہ کہیں ایک عورت جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے صرف ایک سال یعنی ۲۰۰۸ء میں تین لاکھ پچاس ہزارچار سو عورتیں جنسی تشدد کا شکار ہوئیں۔یہ صرف پولیس کو رپورٹ شدہ تعداد ہے۔محکمہ کے مطابق صرف ۳۱ فیصد عورتیں پولیس کو رپورٹ کرتی ہیں‘باقی ۶۹ فیصدخاموش رہتی ہیں۔یوں اس سال میں ایسی عورتوں کی تعدادگیارہ لاکھ تیس ہزار سے زیادہ ہو جاتی ہے۔

#صرف ایک سال یعنی ۲۰۱۰ء میں تیرہ لاکھ ساٹھ ہزار بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے ‘جن میں ۷۵ فیصد بچیاں تھیں اور اکثر کی عمر دس سال سے کم تھی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں تیس فیصد بچیاں ایسی تھیں جن سے جنسی زیادتی ان کے گھرکے افرادوالد یا بھائی وغیرہ نے کی۔

#امریکہ میں روزانہ جتنے بچے پیدا ہوتے ہیں ان میں باسٹھ فیصد کنواری ماوٴں کے ہاں ناجائز پیدا ہوتے ہیں ۔صرف ۲۰۰۱۰ء میں کنواری ماوٴں نے چودہ لاکھ ناجائز بچوں کو جنم دیا‘اہم بات یہ ہے کہ ان کنواری ماوٴں میں ۳۵ فیصد اٹھارہ سال سے کم عمر کی تھیں۔

ٴ #والدین کی محبت کا یہ عالم ہے کہ امریکہ میں روزانہ پانچ بچے والدین کے تشدد سے مارے جاتے ہیں۔۲۰۱۰ء میں ۳۲ لاکھ بچے تشدد کا شکار ہوئے‘سولہ لاکھ کو ہسپتال میں داخل کروانا پڑا اور بائیس فیصد اپنی معصومیت ساتھ لئے اپنے والدین کے ہاتھوں موت کی آغوش میں چلے گئے۔

#اس وقت امریکہ کی کل آبادی میں ساڑھے چھ کروڑ ایسے لوگ زندہ ہیں جنہیں بچپن میں جنسی تشدد کا شکار ہونا پڑا۔

میں نے یہاں صرف امریکہ کے چند اعداد و شمار بتائے ہیں جومالی لحاظ سے دیوالیہ ہوچکاہے اوراپنی معیشت کوبچانے کیلئے زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلاہے ‘ ان جرائم میں یورپ کا تناسب بھی امریکہ سے کچھ مختلف نہیں ۔اس میں قتل و غارت‘لوٹ مار‘اغواء اور دیگر جرائم کا حساب نہیں بتایا۔اس معاشرہ کی عادات اور خاندانی زندگی کا تذکرہ بالکل نہیں کیا۔شراب اور نشہ آور ادویات کے کاروبار کا ذکر نہیں کیا‘جبکہ دنیا میں پیدا ہونے والی ہیروئن کی سب سے زیادہ کھپت امریکہ میں اورچوتھے نمبرپر برطانیہ ہے۔مردوں کی مردوں اور عورتوں کی عورتوں کی شادی کا تذکرہ نہیں کیا‘حالانکہ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے بعض ممبران کے بارے میں خود جنسی کی خبریں یہاں کا پریس شائع کر چکا ہے۔اس بچی کی کہانی بھی یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا جسے میں ایک ادارہ میں ملا تھا ‘وہ صرف چھ برس کی تھی جب اپنے باپ کی ہوس کا شکار ہوگئی تھی۔اسی ادارہ میں ایک ہزار سے کچھ اوپر ایسی بچیاں اپنا علاج کرواچکی ہیں اوراس وقت سارایورپ بھی کسادبازاری سے نکلنے کیلئے ہاتھ پاوٴں ماررہاہے۔

ایک سیاہ فام کی دوران تلاشی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعدپچھلے تین دنوں سے برطانیہ نسلی فسادات کی لپیٹ میں آچکاہے۔فسادات لندن سے نکل کربرمنگھم،مانچسٹراوربرسٹل کواپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔جہاں اربوں پاوٴنڈکی املاک نذرآتش کی جاچکی ہیں وہاں بڑے بڑے شاپنگ اسٹورسے کروڑوں پاوٴنڈزکی اشیاء لوٹ لی گئیں ہیں۔لاقانونیت عروج کوپہنچ چکی ہے اورمقامی پولیس اورانتظامیہ بے بس نظرآرہی ہے۔ کیایہ سب مکافات عمل ہے!

میرے ملک کے کتنے لوگ مغرب میں آباد ہو چکے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑے اس آرزو میں ہیں۔کتنے ایسے دانشور ہیں جو میرے ملک میں اسی لبرل ازم کے حق میں تقریریں کرتے ہیں لیکن کوئی شاہ محمد کی چیخوں کی کہانی بیان نہیں کرتا۔کوئی نہیں بتاتاکہ کتنی”مانو“تہجد گزار باپ کی دعاوٴں کے باوجود یوں اس معاشرے میں گم ہو گئیں کہ پہچانی نہ جا سکیں۔ٹڈی دل جب فصلوں پر حملہ کرے تو پورا علاقہ اسے مارنے کیلئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔جہازوں سے اسپرے ہوتے ہیں تاکہ فصل بچ جائے لیکن کیا معصومیت ہے کہ ہم اپنے اخلاق ‘روایات اور اقدار میں گندھی انسانوں کی فصل پر یا تو اس ٹڈی دل کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں یاخود اس کے دیس میں جا بسنے کی آرزو رکھتے ہیں۔حضرت علامہ اقبال کیاخوب فرما گئے!

ضمیرِ مغر ب ہے تاجرانہ،ضمیر مشرق ہے راہبانہ        وہاں دگر گوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ

کنارِ دریا خضر نے مجھ سے کہا بانداز محرمانہ          سکندری ہو،قلندری ہو،یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *