Home / Socio-political / آسام میں مسلمانوں کا قتل عام اور سوشل میڈیا

آسام میں مسلمانوں کا قتل عام اور سوشل میڈیا

آسام میں مسلمانوں کا قتل عام اور سوشل میڈیا

تیشہ فکر عابد انور

                ہندوستان میں مسائل کا خاتمہ اس لئے نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں ہر معاملے میں دوہرا معیار اپنایا جاتا ہے۔حکومت ہو یا افسران،لیڈر ہو دیگرشعبہ حیات سے وابستہ افراد کبھی بھی ایمانداری سے کام نہیں کرتے اور نہ ہی حالات و واقعات کا صحیح تجزیہ کرکے تصفیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے بری بات یہ ہوتی ہے کہ ہر معاملے کو مسلم اور ہندو کے پہلو سے دیکھا جاتا ہے جس میں تعصب کا رنگ نمایاں ہوتا ہے جس کی وجہ سے تجزیہ کرنے والے یا مسائل کا حل کرنے والے یا ادراک کرنے والے ہندو اور مسلم کے نظریہ کے حصار میں قید ہوجاتے ہیں اور مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوجا تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں کہیں بھی چھوٹی موٹی جھڑپ ہوتی ہے وہ فوراّ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرلیتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں فرقوں کے درمیان فساد شروع ہوجاتا ہے۔ اگر اس معاملے کو صرف انسانیت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ معاملہ وہیں دب جائے گا اور فساد کی صورت اختیار نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ معاملہ مسلمانوں کا ہوتا ہے یا مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو ہندوستانی میڈیا فوراّ اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے میں لگ جاتا ہے۔ الیٹرونک میڈیا یا ہوپرنٹ میڈیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو بھی ہندوؤں پر ہونے والے مظالم کے طور پر پیش کرتا ہے۔ آسام ، بریلی، مرادآباد، کوسی کلاں اور گوپال گڑھ کے فسادات کے بارے میں ہندوستانی میڈیا کی رائے جو انٹرنیٹ پر دستیاب ہے اسے دیکھ لیں تو آپ کو خود بخود اندازہ ہوجائے گا کہ ہندوستانی میڈیا کس قدر مسلم دشمنی پر آمادہ ہے۔ہندی اور ہندوستانی میڈیا (اردو اخبارات کے علاوہ)کا کوئی بھی مطالعہ کرے گا تو ان کے علم میں ایک ہی بات رچ بس جائے گی کہ ہندوستانی مسلمانوں جرائم پیشہ ہیں، دہشت گرد ہیں، فسادی ہیں اور طرح طرح کے جرائم میں ملوث ہیں۔انہیں انسانیت سے عار ہے۔ ہندوستانی میڈیا مسلمانوں کے ساتھ ایک منصوبہ بند اور منظم سازش کے تحت ایسا کر رہا ہے اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اگر ان کے مظالم کے پہاڑ توڑے جائیں تو یہ کہا جاسکے کہ مجرم کے ساتھ اور کیسا سلوک ہوگا۔ میڈیا نے مسلمانوں کے مسائل اٹھانے سے ہمیشہ گریز کیا ہے اگر انتطامیہ، پولیس اور حکومت کے اہلکار ان پر مظالم ڈھاتے ہیں تو اولاّ ہندوستانی میڈیا اپنے یہاں جگہ ہی نہیں دیتا اگر دیتا بھی ہے تو اندورنی صفحہ پر ایسی جگہ کہ جس پر کسی کی نظر نہ پڑ سکے۔ کہتے ہیں کہ ضرورت ایجا د کی ماں ہے۔ آج جو خبر کہیں نہیں ملے گی وہ سوشل نیٹ ورک اورسوشل میڈیا پر وہ خبر مل جائے گی۔ سوشل میڈیا نے ہر آدمی کو سٹیزن جرنلسٹ بنادیا ہے اور وہ اپنے علاقے اور گرد و پیش کے حالات و واقعات کو سوشل میڈیا کے توسط سے فوراّ پوری دنیا میں پہنچادیتا ہے۔ بہار کی نتیش کمار حکومت جو ہندوستا نی میڈیا کے سہارے بہتر حکومت فراہم کررہی ہے کوئی بڑا واقعہ پیش آتا ہے میڈیا اس کو دینے سے گریز کرتا ہے جس پر پریس کونسل نے بھی اعتراض کیا ہے اور اس بارے میں تفتیش بھی کی ہے لیکن بہار کے سوشل میڈیا نے ہر معاملے کو لوگوں کو تک پہنچایا ہے ۔ یہی میڈیا آج حکومت اور فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کانٹوں کی طرح چھپ رہا ہے۔ سکے کے دو پہلو کی طرح یہاں فرقہ پرست طاقتوں کے دو پہلو ہیں ایک بی جے پی اور دوسری کانگریس ہے۔ دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بی جے پی جو کرتی ہے وہ کھلم کھلا کرتی ہے اور کانگریس خاموشی سے۔

                سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو ایک گاؤں کی شکل میں پیش کردیاہے جہاں کہیں بھی مظالم کے واقعات پیش آتے ہیں سوشل میڈیا پر اس کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ ہندوستانی میڈیا نے جس طرح برما اور آسام کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے بارے میں کچھ لکھنے کے بجائے آسامی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دینے میں زمین آسمان ایک کردیا ہے۔ آج کوئی بھی ہندی یا انگریزی کا چینل دیکھیں سب میں ایک ہی آواز سنائی دے گی بنگلہ دیشی گھس پیٹھئے (درانداز)کوئی بھی میڈیا حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش نہیں کر رہاہے اور نہ ہی آسامی مسلمانوں ہونے والے مظالم کے بارے میں اپنے یہاں کچھ لکھ رہا ہے۔ اس میں سوشل میڈیا کا حرکت میں آنا لازمی ہے۔ سوشل میڈ فیس بک، ٹوئٹر اوردیگر ویب سائٹوں پر اس سے متعلق تصاویر اور ویڈیو آنے لگے۔ جب سے کیمرہ والا موبائل آیا ہے ہر طرح کے واقعہ کا اب ریکارڈ کیا جانے لگا ہے اور ریکارڈ کرکے وہ یو ٹیوب اور فیس بک اور ٹوئٹر اور دوسرے سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں پر ڈال رہے ہیں۔ حکومت نے شمال مشرق کے لوگوں میں خوف و ہراس کا بہانہ بناکر اس کے خلاف کارروائی کی ہے ۔ ایس ایم ایس ، ایم ایم ایس اور دیگر فوٹو گراف اور ویڈیو اپ لوڈ پر متعلقہ سائٹوں سے پابندی لگانے کے لئے کہا ہے۔ حد یہ تو ہے کہ پانچ ایس ایم ایس سے زائد بھیجنے پر بھی پابندی ہے۔ حکومت نے عین عید کے موقع پر یہ پابندی لگائی ہے کیا حکومت ایسا ہی قدم ہولی دیوالی کے موقع پر اٹھاسکتی تھی۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کسی مسلم لیڈر یا تنظیم سے وابستہ کسی رہنما اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی زحمت تک نہیں کی۔ یہ اچھی بات ہے کہ امریکہ نے اس پر اعتراض کیا ہے ۔حکومت کوسوشل میڈیا پر پابندی لگانے کے بجائے مظالم کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے جب مظالم نہیں ہوں گے تو سوشل میڈیا پر بھی ذکر نہیں آئے گا۔

                شمال مشرق کے لوگوں کے خلاف پھیلی افواہ اور دہشت کا شکار کوئی ہندو نہیں ہوا بلکہ مسلمان ہو ا ہے۔ بنگلور سے آسام جانے والی ایک خصوصی ٹرین میں کچھ لوگوں نے مغربی بنگال کے جلپائی گوڑی میں ۴۰،۴۵ لوگوں پر مشتمل مشتعل بھیڑ نے لوگوں کے آئی کارڈ چیک کئے جتنے مسلمان پائے گئے ان سب کو زدوکوب کیا اور پھر ۱۴ !افراد کو ٹرین سے باہر پھینک دیا۔ جن میں چار کی موت ہوگئی اور باقی سنگین زخمی حالت میں سلی گوڑی کے اسپتال میںداخل ہیں۔ سوال یہ ہے افواہ تو مسلمان پھیلا رہے تھے جیساکہ ہندوستانی میڈیا کا خیال ہے تو ان لوگوں کو کس نے ٹرین سے پھینکا؟۔ظاہر سی بات ہے کہ یہ گھناؤنا کارنامہ سنگھ پریوار اور اس کے ہمدرد کے علاوہ اور کوئی انجام نہیں دے سکتا۔کیوں کہ اتنے اچھے کام سنگھ پریوار والے ہی کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بنگلور میں گارڈ کا کام کرنے والے ۲۲ سالہ شاہجہان چودھری بھی اسی ٹرین سے اپنے گھر لوٹ رہے تھے ان کے ساتھ بھی مار پیٹ کی گئی جس کے بعد وہ نازک حالت میں اسپتال میں داخل ہیں۔ٹرین میں آرپی ایف کے دس خصوصی طور پر تربیت یافتہ جوان اور پانچ ریلوے پولیس کے جوان تعینات تھے اس کے باوجود دو تین گھنٹے تک چلنے والے اس تشدد کے کھیل کو روکنے میں ناکام رہے۔ اتنے دیر تک ان لوگوں نے ڈبہ اندر سے بند کئے رکھا اور ریلوے پولیس نے اس پرکوئی توجہ کیوں نہیں دی اور نہ ہی ریلوے کے اعلی افسران کو ْخبردی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان ۴۰، ۴۵ افراد میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو بنگلور سے ٹرین میں سوار ہوئے تھے۔ ٹرین سے پھینکے گئے ان تمام چودہ جوانوں کا تعلق آسام کے ضلع ہیلا کانڈی تھا۔ ذاکرحسین نامی ایک شخص اسی ٹرین میں سفر کر رہا تھا لیکن اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔ مرکزی و ریاستی حکومت کی بے حسی کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ ان ۱۴ مسلمانوں کو ٹرین سے پھینکنے والے اب تک گرفت سے باہر ہیں اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کا ان لوگوں کو گرفت میں لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تصور کیجئے اگر یہ مسلمان نہ ہوکر ہندو ہوتے تو اس وقت پورا ملک جل رہا ہوتا۔فرقہ پرست مسلمانوں کو ہر جگہ٬٬ سبق ‘‘سکھا رہے ہوتے۔

                اس میں کوئی شک نہیں سوشل میڈیا اس وقت خبر عام کرنے کا سب سے مؤثر ہتھیار اور زرد صحافت کا ردعمل ہے۔لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کے ذاتی ویب سائٹس ہیں جس میں اپنے ارد گرد پیش آنے والے واقعات کو قلم بند کرتے رہتے ہیں۔سوشل میڈیا کی خاص بات یہ ہے کہ لمحوں میں یہ بات پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے اور ہر اس آدمی تک پہنچ جاتی ہے جو سائٹ کھولے بیٹھا ہے۔ حالیہ دنوں میں سوشل سائٹوں میں لوگوں کی دلچسی میںبے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ہر انسان کوئی نہ کوئی سوشل نیٹ ورک سائٹ سے منسلک ہونا چاہتا ہے۔ ہر بڑے آدمی کا فیس بک اور ٹوئٹر پر اکاؤنٹ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ٹویٹر کے صارفین کی تعداد50کروڑ سے تجاوز ہوچکی ہے ۔ روزانہ اوسطاً 14کروڑ افراد ٹویٹ کرتے ہیں، فیس بک ایک ارب صارفین ہونے کی طرف گامزن ہے، فیس بک کے سرگرم صارفین کی تعداد80کروڑ سے زائد ہے،فیس بک پر ہر ماہ 6ارب تصاویرپوسٹ کی جاتی ہیں اور تقریباً ایک کھرب تصاویر ان کے سرورز میں محفوظ ہیں،فیس بک کو دنیا میں تصاویر کے اشتراک کا سب سے بڑا پلیٹ فارم سمجھا جارہا ہے گزشتہ برس سے آغاز کرنے والے گوگل پلس کے صارفین کی تعداد9کروڑ ہے اب تک گوگل پلس پر دس لاکھ سے زیادہ صفحات تخلیق کیے گئے ہیں۔ فیس بک نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی ایک ارب صارفین کا سنگ میل عبور کر جائیں گے ۔گزشتہ برس گوگل پلس سوشل میڈیا کا سب بڑا حریف بن کر سامنے آیا ۔

                سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوں کے خلاف فیس بک اور ٹوئٹر پر اشتعال انگیز مواد شائع کئے جاتے ہیں تو اس وقت حکومت کی نیند کیوں نہیں کھلتی۔ آسام میں فرقہ وارانہ فسادات، روہنگیا مسلم اور بنگلور سے شمال مشرق کے لوگوں کا واپس لوٹنا ان تمام میں کہیں نہ کہیں سوشل میڈیا کی جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ فیس بک پر ایسی تصاویر ہیں جو اشتعال انگیز ہیں ۔ یہ تصاویر بالکل سچی لگتی ہیں۔اسی طرح کچھ تصاویر ایسی بھی ہیں جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے ہندؤں کا ہاتھ پیر کاٹ دیا ہے اور ایک آدمی کا چمڑا اتاررہا ہے جب کہ حقیقت میں یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان کا چمڑا تارا جاسکے۔ یہ کام یک طرفہ نہیں ہے ۔ مسلمانوں سے زیادہ ہندؤں کی طرف سے اشتعال پھیلا جاتاہے۔مظالم کے شکار مسلمانوں کے فوٹو گراف کو ہندوؤں کے تصاویر میں تبدیل کرکے یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہندوؤں پر بہت ظلم ہورہا ہے۔ اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ تو مرادآباد، بریلی، کوسی کلاں اور دیگر مقامات پر ہونے والے فسادات کے بارے میں ہندی میں سرچ کریں تو آپ کو بے شمار اس طرح کے مواد مل جائیں گے کہ جس میں ہندوؤں کو انتقام کے لئے اکسایا گیا ہے جب کہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ ان مقامات پر ہندوؤں کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے ۔ نقصان صرف مسلمانوں کا ہوا ہے خواہ وہ جانی ہو یا مالی۔ یہ تصویریں کمپیوٹر کے ذریعے تبدیل کر دی جاتی ہیں اور حقیقت سے بہت مختلف بھی ہوتی ہیں ان تصویروں سے جذبات کو بھڑکانے کام باقاعدہ ہوتا ۔شمال مشرق کے کچھ باشندوں میں تھوڑی کھلبلی کیا مچی حکومت کیا ، اپوزیشن کیا اور یہاں تک پارلیمنٹ میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے جب کہ کہیں اب تک شمال مشرق کے باشندوں کے کسی طرح کے غلط سلوک کی خبر نہیں ہے جب کہ کچھ مسلمانوں کے ٹرین سے پھینک کر موت کے گھاٹ اتارنے وا قعہ پیش آچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک تقریباّ ۳۰ ہزار افراد ہندوستان کے مختلف شہروں میں شمال مشرق کوچ کرچکے ہیں۔ بنگلور، چنئی، پونے اور ممبئی جیسے شہروں سے خوفزدہ ہوکر شمال مشرق کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ تین سے چار دن میں تقریبا 15 ہزار لوگ بنگلور چھوڑ کر جا چکے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 800 لوگ ممبئی چھوڑ چکے ہیں۔آخر حکومت اس طرح کے واقعات رونما ہونے کا موقع ہی کیوں دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندی لگانا اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔یہ آزادی اظہار پر حملہ ہے جو جمہوری حقوق کے منافی ہے۔ کارروائی اگر کرنی ہے تو تمام لوگوں پر کارروائی کرنی چاہئے۔ صرف مسلمانوں پر کارروائی کرکے حکومت یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ صرف مسلمان اشتعال پھیلا رہے ہیں جبکہ اشتعال پھیلانے والے مسلمان آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور ہندو اشتعال پھیلانے میں آٹا ہیں۔اس بات کو انڈین ایکسپریس اور ٹائمس آف ان۔ڈیا نے اپنی خصوصی رپورٹ میں اجاگر کیاہے۔ریاستی یا مرکزی حکومت نے کتنے ایسے لوگوں کو گرفتار کیا ہے ۔ مرکزی داخلہ سکریٹری نے اس مسئلے اپنے لب کیوں سی لئے ہیں۔ یہ بات عقل میں آنے والی بھی ہے تکنالوجی تک پہنچ سب سے زیادہ کس کی ہے۔ کس کے پاس وسائل کی بھرمار ہے اور کس کو پولیس اور قانون کا خوف نہیں ہے۔کس کے سیاں کوتوال ہیں۔ ان سب باتوں پر غور کیا جاتاتو یہ نوبت نہیں آتی۔ ہندوستان میں یہ فیشن بن گیا ہے کہ کچھ بھی ہو پاکستان کا نام لے کر گلوخلاصی کرلیا جائے ۔فرقہ وارانہ فسادات کو بھی بیرونی ہاتھ قرار دیکر اپنے کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ہر جگہ تمام فسادات کی تہہ میں سنگھ پریوار اور اس سے وابستہ تنظیموں کا ہاتھ ثابت ہوا ہے لیکن آج تک ہندوستان کوئی قانون ان لوگوں کی گردن ناپنے میں ناکام رہا ہے۔

                حکومت کے دوہرے پیمانے کا ایک واقعہ اور سامنے آیا ہے جب راج ٹھاکرے نے غنڈہ گردی کے سہارے میں ممبئی میں ریلی نکالی اور جی بھر کر مسلمانوں، شمال ہندوستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کے نام پر مسلمانوں کو کوسا۔ راج ٹھاکرے نے پولیس کی اجازت کے بغیر منگل کو ممبئی میں اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ مارچ نکالا تھا ۔یہ مارچ 11 اگست کو ایک مسلم ریلی کے دوران تشدد کی مخالفت میں نکالا گیا تھا۔ مسلمانوں کے خلاف ممبئی پولیس نے فوراّ گرفتاری شروع کردی تھی اور درجنوں لوگ جیل میں ہیں جبکہ راج ٹھاکرے اور ان کے غنڈ ے آزاد گھوم رہے ہیں۔ شمال مشرق کے باشندوں کے سلسلے میں حکومت کو تشویش ہے یہ اچھی بات ہے لیکن آسام کے مسلمانوں کو کے بارے میں بھی حکومت ہند اور حکومت آسام کو فکر مند ہونا چاہئے ۔ تقریباّ پانچ لاکھ افراد مختلف کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں یہاں تک کے اسی کیمپ میں ان کی عید بھی گزری۔ کیمپ  بھی اب ان پناہ گزینوں کیلئے محفوظ نہیں رہا۔ سب سے افسوسناک بیان بوڈو لینڈ حکام کی طرف سے آرہا ہے جو مسلمانوں کو مزید دہشت میں مبتلا کرتا ہے۔وہ یہ ہے کہ جس کے پاس ثبوت ہوںگے اسی کو آنے دیا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ سارے ثبوت جل چکے ہیں۔ مسلمان اب ثبوت کہاں سے لائیںگے۔ اس پر حکومت ہند اور نہ ہی حکومت آسام کا ردعمل سامنے آیا ہے جو حکومت کے منشا کو ظاہر کرتا ہے۔ ان سب واقعات و حادثات کا مقصد صاف طور پر جو سامنے آرہا ہے وہ آسام سے مسلمانوں کو نکالنا ہے تاکہ بوڈو کو اپنی اکثریت ثابت کرنے میں آسانی ہو اور حکومت آسام کو آئندہ حکومت بنانے میں کسی طرح کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حکومت ہند اگر سوشل میڈیا کے اشتعال انگیزی پراس قدر توجہ دے رہی ہے تو اسے ہندی میڈیا اوریہاں کے ٹی وی چینلوں پربھی توجہ دینی چاہئے اور مسلمانوں کے خلاف ۲۴ گھنٹے چلنے والے پروپیگنڈہ کے سدباب کے لئے ٹھوس قدم اٹھانا چاہئے کیوں کہ یہ چینل اور اخبارات مسلمانوں کے خلاف اشتعال اور نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔

                آسام اور برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف مسلمانوں کو احتجاج کرنا چاہئے لیکن تشدد سے نہیں کیوں کہ تشدد نے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو پس پشت ڈال دیا اور احتجاج اس پرحاوی ہوگیا۔ میڈ۔یا نے اس موقع کو غنیمت تصور کرتے ہوئے آسامی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے معاملہ کو زندہ درگور کردیا ہے۔پورے ہفتہ میڈیا میں مسلمانوں کاپرتشدد احتجاج ہی چھایا رہا۔میڈیا نے اس وقت تک چین کا سانس نہیں لیا جب کہ ممبئی تشدد معاملے میں پچاس کے قریب مسلمان گرفتار نہیں ہوگئے۔ مسلمانوں کوحکمت عملی سے کام لیتے ہوئے ہر ایسے واقعہ سے گریز کرنا چاہئے جس میں تشدد ہو۔ میڈیا کے متعصبانہ رویے کو اجاگر کرنے کے لئے صحیح پلیٹ فارم کو استعمال کرنا چاہئے۔ اگر اخبارآپ کے خلاف لکھتا ہے تو اس کا منظم طور پر بائیکاٹ کرنا چاہئے اور جو ٹی وی چینلز مسلمانوں کی شبہیہ کو داغدار کرتا ہے تو اس چینل کو دیکھنا چھوڑ دیں اور اس کی شکایت پریس کونسل آف انڈیا، وزارت اطلاعات و نشریات اور اس وزارت کے میڈیا مانیٹرنگ سیل کو کریں۔

                ڈی۔ ۶۴ فلیٹ نمبر ۱۰، ابوالفضل انکلیو ،جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔

abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *