‘‘ رات اور ریل ’’ جیسی منظری نظم لکھنے والا شاعر جب قدرت کے حسین مناظر کی پیکر تراشی کرتا ہے تو قاری انھیں وادیو ں میں خود کو نہ صرف محسور پاتا ہے بلکہ شاعر کے ساتھ و ہ بھی اسرار کائنات کا متلاشی ہو جاتا ہے ۔ اسرارکا استعاراتی انداز ان کی شاعری کا خاصہ ہے ۔اس نظم کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں ۔:
چھیڑتی اک وجد کے عالم میں ساز سرمدی
غیظ کے عالم میں منہ سے آگ برساتی ہوئی
آگے آگے جستجو آمیز نظریں ڈالتی
شب کے ہیبتناک نظاروں سے گھبراتی ہوئی
ایک اک حرکت سے انداز بغاوت آشکار
عظمت انسانیت کے زمزمے گاتی ہوئی
اس نظم میں جس انداز سے اسرارِ کائنات کے رموز و اسرا ر کو سمجھنے کی کوشش کی ہے یہ مجاز کا ہی حصہ ہے ۔ ان کی شاعری میں جو ترنم اور لہجے کی شیرینی ہے وہ مجاز کو بہت دور لے جاتی ۔ لیکن اسے عہد کا المیہ کہیں یا شاعر کا ، کہ اس شاعر سے تغزل چھن گئی ،لہجے کی نرمی اور شیرینی حالات کی تلخی میں کھو گئی ، اثر لکھنوی نے یہ سچ ہی کہا ہے کہ ‘‘ مجاز کو ترقی پسند بھیڑئیے اٹھا لے گئے ’’ اگر مجاز اپنے ڈگر پر قائم رہتے تو ان کی شاعری رجحان ساز شاعری کہلاتی مگر شوسلسٹ اور کمیونسٹ نظریات نے ان کی شاعری پر منفی اثر ڈالا ۔ آب اسی نظم کو دیکھں جو منظور قاضی صاحب نے اس بلاگ پر لکھی ہے۔ پندرہ بند کی اس نظم میں ابتدائی بندوں میں جو جو شاعرانہ حسن اور کیفیت ہے وہ آکر تک آتے آتے دم توڑ دیتی ہے اور جس انداز سے اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار شاعر کرتا ہے کہ :
بڑھ کے اس اِندر سبھا کا ساز وساماں پھونک دوں
اس کا گلشن پھونکدوں اس کا شبستاں پھونک دوں
تختِ سلطاں کیا ، میں سار ا قصرِ سلطاں پھونک دوں
یہ اظہار شاعرانہ اظہار نہیں ہے اس ، لیکن نظم کے ابتادئی بندوں میں جو اظہار ہے وہ خالص شاعرانہ ہے ۔ مجاز کی خوبی تو یہی ہے کہ انھوں نے نظم کو داخلی اظہار کے نقطہ نظر سے غزل سے قریب تر کر دیا میں ۱۹۳۳ کے بعد کی شاعری میں جو لہجے میں تبدیلی آئی اس نے مجاز کے شاعرانہ حسن کو نقصان پہنچایا ہے ۔