پروفیسر ڈاکٹرساجد خاکوانی۔اسلام آباد
بشکریہ
ا ردونیٹ جاپان ۲۶ جولائی ۲۰۱۱ءء
شریعت اسلامیہ نے فریقین کو یہ حقوق دیے ہیں کہ وہ عدم اتفاق کی صورت میں اپنے اپنے راستے جداکرنے کافیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔یہ حق جدائی جب مرد استعمال کرتا ہے تواسے اصطلاح میں ”طلاق “کہاجاتاہے جبکہ عورت کا اس حق کو استعمال کرنا ”خلع“کہلاتاہے
پروفیسر ڈاکٹرساجد خاکوانی۔اسلام آباد
خاندان ایک ایسا ادارہ ہے جس کی تاسیس کا سہرہ انبیاء علیہ السلام کے سر ہے،مضبوط کردار سے مستعار مضبوط بنیادوں کے باعث سیکولر یورپی تہذیب سے اٹھنے والا طوفان بدتمیزی بھی ہنوز اس ادارے کی فصیلوں کو جنبش نہیں دے سکا۔خاندان کا آغاز عمل نکاح سے ہوتا ہے جس میں فریقین باہمی رضامندی سے زندگی کے نشیب و فراز میں یک جان دو قالب بننے کا فیصلہ کرتے ہیں اور قانون انہیں ایک دوسرے کاوارث تک بنا دیتاہے تاکہ تاحیات یہ بندھن قائم و دائم رہے۔زندگی کے کچھ ترش و تلخ تجربات بعض اوقات اس بندھن کی چولیں ڈھیلی کر دیتے ہیں اور انسانی فطرت کے باعث فریقین کا اکٹھا رہنا معاشرے پربوجھ بننے لگتاہے۔ان حالات میں شریعت اسلامیہ نے فریقین کو یہ حقوق دیے ہیں کہ وہ عدم اتفاق کی صورت میں اپنے اپنے راستے جداکرنے کافیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔یہ حق جدائی جب مرد استعمال کرتا ہے تواسے اصطلاح میں ”طلاق “کہاجاتاہے جبکہ عورت کا اس حق کو استعمال کرنا ”خلع“کہلاتاہے۔”خلع“کالفظی مطلب ”اتار دینا“ہے۔قرآن نے چونکہ زن و شوکو ایک دوسرے کالباس گرداناہے اس لیے اس تعلق کو ختم کرنا گویااس لباس کو اتاردینا کہاگیا۔
الله تعالی نے سورة بقرہ کی آیت نمبر229میں ارشاد فرمایا”اور رخصت کرتے ہوئے ایساکرناتمہارے لیے جائز نہیں کہ جوکچھ تم انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو،البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو الله تعالی کی حدود پر قائم نہ رہ سکنے کااندیشہ ہو توایسی صورت میں اگرتمہیں یہ خوف ہوکہ دونوں حدودالہی پر قائم نہ رہ سکیں گے توان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کرعلیحدگی حاصل کر لے”۔اسی طرح سیرت نبوی ﷺ سے بھی ایسے واقعات ملتے ہیں کہ بیوی نے شوہر سے خلع لے لیا ہو۔ایک بار ثابت بن قیس نامی مسلمان کی بیوی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرے شوہر میں اگرچہ کوئی شرعی یااخلاقی عیب نہیں ہے لیکن پھر بھی مجھے ان کی شکل انتہائی ناپسند ہے اورمیں ان کی صورت دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔آپ ﷺ نے اس خاتون سے استفسار فرمایاکیاآپ مہر میں لیاہوا باغ واپس کرنے کے لیے تیار ہیں؟؟انہوں نے ہاں میں جواب دیا تب آپ ﷺ نے ثابت بن قیس کو حکم دیا کہ مہرمیں دیاگیاباغ واپس لے لیں اور اس عورت سے علیحدگی اختیار کر لیں۔اسی طرح حضرت عمربن خطاب رضی الله تعالی عنہ کے پاس ایک عورت اپنے شوہر کی شکایتیں کرتی ہو ئی حاضر ہوئی،حضرت عمر نے اسے تین راتوں تک گندگی والے گھر میں قید رکھنے کاحکم دیااور
پھر اسے بلاکر پوچھا یہ راتیں تجھ پر کیسے گزریں؟؟اس نے جواب دیا زندگی بھر میں یہی راتیں سکون سے گزاری ہیں،حضرت عمرنے اس کے شوہر کو خلع کا حکم دیااور ان میں علیحدگی کرادی۔
زن و شومیں علیحدگی کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ان سب اسباب کا سب سے بڑا سبب عدم برداشت ہے۔برداشت جب تک قائم رہے گی یہ رشتہ بھی قائم رہے گااور جب اس رشتے ہیں برداشت کا عمل ڈھیلا پڑ جائے گا تو یہ رشتہ بھی نرم پڑ سکتاہے ۔برداشت یاعدم برداشت کاتعلق تو خالصتاََذاتیات سے ہے لیکن قانون اسلامیہ کے ماہرین نے جنہیں اصطلاح میں ”فقہاکرام“کہاجاتاہے انہوں نے خلع کی چند شرائط لکھی ہیں جن کے باعث خلع کا عمل جائز گردانا جائے گا۔ان شرائط میں پہلی شرط شوہر کی طرف سے نان نفقہ کی عدم ادائگی ہے۔قرآن مجید نے معاش کی ذمہ داری مرد کے کندھوں پر ڈالی ہے اوراسے اس بات کا پابند کیاہے کہ وہ اہل و عیال کے جملہ اخراجات کی ادائگی کا پابندہوگا،اگر شوہر اپنی یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتاتو عورت چاہے تواس کو برداشت کرے اور چاہے تو خلع کادعوی کرسکتی ہے۔اگر شوہر ازدواجی تعلقات کے قابل نہ تو بھی عورت خلع کادعوی کرسکتی ہے،خاوند کے بے دین ہونے کی وجہ یا طبائع میں بعدالشرقین بھی خلع کے دعوے کاباعث بن سکتا ہے جب تک یہ معاملات برداشت کی حدودکو پھلانگ نہ جائیں۔اسی طرح بعض فقہاشوہر کی تندمزاجی اور مارپیٹ کا عادی ہونے کو بھی خلع کے دعوے کاباعث سمجھتے ہیں۔پس اگرچہ نکاح کے تعلق کا پہلا باب پیارومحبت کے مقدمے سے ہی شروع ہوتا ہے لیکن بعدکے ادوار میں یہ تعلق بہرحال برداشت سے عبارت ہے اور جب برداشت عنقاہوجائے تو شریعت نے عورت کو ”خلع“کے دعوے کاحق تفویض کیا ہے جسے وہ جب چاہے استعمال کر سکتی ہے۔ تاہم علیحدگی کا دعوی کسی معقول وجہ کی بنیاد پر ہو ٹھیک ہے اور بغیر کسی وجہ کے ہو یا کوئی ایسی وجہ ہو جس کی برداشت ممکن الحصول ہوتوبھی عورت کی طرف سے علیحدگی کا مطالبہ کرنے پر آپ ﷺ نے اسے جنت کی خوشبو حرام ہونے کی وعید سنائی ہے۔
مرد کی طرف سے عورت کو اس حد تک مجبور کر ناکہ وہ خود سے خلع کا دعوی کرے انتہائی ناپسندیدہ ہے اور قرآن نے سختی سے منع کیا ہے کہ کسی صورت میں بھی زوجہ کو دیے گئے کسی مال کی واپسی قطعاََ ناجائز ہے خواہ وہ حق مہر ہو یا دیگر ہدیہ و تحائف کی صورت میں ادا کیا گیا ہو۔ بلکہ قرآن مجید نے پوری شدو مد کے ساتھ اس بات کی نصیحت کی ہے جب عورت کو رخصت کروتواسے خالی ہاتھ رخصت نہ کرو بلکہ کچھ دے دلا کر رخصت کرو۔مردوں کے لیے مناسب ہے کہ عورتوں کے مطالبہ خلع کو رد نہ کریں،حضرت عمر سے یہ قول منسوب ہے کہ عورتیں خلع کاارادہ کریں تو انکار نہ کرو۔ان تعلیمات کی موجودگی میں مردوں کا اس طرح عورتوں پرتشدد کرنا کہ وہ خود ہی تنگ آکر لیاہوا مال لوٹاکرخلع کا دعوی کربیٹھیں، بالکل بھی ناجائزو ناپسندیدہ ہے۔امام مالک رحمة الله تعالی علیہ کا فتوی ہے کہ عورت کو تکلیف پہنچاکر اور اس کے حق میں کمی کر کے اگراسے مجبور کیاگیا اور اس کو اداکیاگیامال لے لیا گیاتو اس مال کا عورت کو لوٹانا
”واجب“ہے۔احناف کے ہاں بھی اسی طرح کا فتوی موجود ہے کہ اگر زیادتی عورت کی طرف سے ہو تو شوہر کے لیے اتنا ہی لینا جائز ہے جتنا کہ دیا تھااس سے زیادہ کی وصولی قطعاََ ناجائز ہے اور اگر زیادتی کا ذمہ دار مرد ہو تو تو پھر احناف میں جمہور کا مسلک یہ ہے کہ اس صورت میں مرد کا کچھ بھی لینا جائز نہیں اور بغیر کچھ لیے ہی عورت سے خلع کرنا ضروری ہے،کم و بیش اسی طرح کی رائے حضرت امام علی کرم الله وجہ سے بھی مروی ہے۔
خلع گھربیٹھے بھی ہو سکتا ہے اگر فریقین باہمی طور پر اس پر رضامند ہوں اور اگرایک فریق اس پر رضامند نہ ہو تو عدالت سے رجوع کرنا ضروری ہے کہ عدالت،پنچائت یا جرگہ میں اس کا فیصلہ کیا جائے۔ جس طرح روایات سے ثابت ہے کہ عورت اپنا دعوی خلع لے کر خدمت اقدسﷺ میں حاضر ہوئی یا خلفائے راشدین کے پاس بھی عورتیں اسی مقصد کے لیے آئیں،اسی طرح یہ قانون ہے کہ عورت کو اپنا دعوی لے کر حکم یا قاضی کے پاس جانا ہو گا۔حاکم یاقاضی فریقین کا موقف سنے گااور چاہے انہیں برداشت کی خاطر مہلت دے تاکہ وہ اپنے رویوں اور فیصلوں پر نظر ثانی کر سکیں اور اس طرح ایک گھراجڑنے سے بچ پائے اور چاہے تو ان کے درمیان فیصلہ کر دے۔شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ،پہلی صورت میں حاکم شوہر سے کہے گاکہ عدالت کے روبرو اپنی زوجہ کو طلاق دے دے،اگر شوہر نے طلاق دے دی تو یہ طلاق بائن صغری ہوگی۔اور اگر شوہر طلاق دینے سے انکار کردے تو عدالت یا حاکم اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس نکاح کو فسخ قرار دے دے گا،نکاح کے فسخ ہونے کاسادہ سا مطلب ہے کہ نکاح اب باقی نہیں رہااور اور زن و شواب باہم نامحرم ہو گئے۔دونوں صورتوں میں عورت کو ایک حیض تک عدت میں رہنا ہوگا،خلع کے بعد پہلے غسل کے بعد اب اس کی عدت ختم ہوچکی جبکہ بعض فقہاتین حیض کے بھی قائل ہیں۔عدت کے بعد وہ چاہے تو اپنا عقد ثانی اپنی مرضی سے کر سکتی ہے اوراس کے گزشتہ شوہر کو حق رجعت باقی نہیں رہتا۔حق رجعت کا مطلب ہے کہ طلاق کی صورت میں مرد اگر چاہے تو رجوع کر کے طلاق کوختم کر سکتاہے لیکن طلاق چونکہ مرد کی مرضی سے واقع ہو تی ہے اس لیے اسے رجوع کا حق رہتاہے جبکہ خلع چونکہ عورت کی مرضی سے واقع ہوااس لیے خلع کے بعد مرد کا یہ حق رجعت ساقط ہو جاتا ہے یعنی ختم ہو جاتا ہے۔بعد میں اگر زوجین اپنی اپنی اصلاح کرلیں تو باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔
محسن انسانیت ﷺ کا ارشادعالی شان ہے کہ” زن و شو ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں“،پس جب تک دونوں پہیے ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہیں گے گاڑی بھی چلتی رہے گی ،اور جب بھی گاڑی کسی موڑ پر پہنچے گی تو لامحالہ ایک پہیے کو کم اور دوسرے پہیے زیادہ بڑا چکر کاٹنا ہوگا اس صورت میں حقوق و فرائض میں توازن کانظام لازمی طور پرمتاثر ہوگا،اب اگر دونوں پہیے گاڑی کی خاطر ایک دوسرے کی کمی و زیادتی برداشت کرتے رہیں گے تومنزل تک پہنچنا یقینی ہوگابصورت دیگر ایک پہیے کی علیحدگی سے گاڑی یقینی طور پر رک جائے گی اور پھربعد میں آنے والا پہیہ کس طرح سے
اس گاڑی کو کھینچ پاتا ہے اس کااندازہ قبل از وقت ہوگا۔اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اس دین کے قانون میں اختلاف طبائع کااعتبار کیا گیاہے اور مزاج کی دوریوں کو بھی خاطر میں لایا گیا ہے اور گاڑی کے پہیوں پر زبردستی نہیں کی گئی تاہم معاشرتی ارتقاء اور آنے والی نسلوں کے نفسیاتی و جذباتی استحکام کا تقاضا ہے کہ زوجین باہمی رنجشوں اور وقتی ناراضگیوں کو دورازکار مقاصد کے حصول پر قربان کریں اور ایک دوسرے سے ہمیشہ سمجھوتہ کرتے رہیں کہ اسی میں نسل انسانی کی بقا مضمر ہے اورعلیحدگی سے حل ہونے والے مسائل کی نسبت پیداہونے والے مسائل کی کمیت و حجم کہیں زیادہ ہے۔