Home / Socio-political / اسی کی تیغ سے ڈوبا ہوا لہو میں ہوں

اسی کی تیغ سے ڈوبا ہوا لہو میں ہوں

اسی کی تیغ سے ڈوبا ہوا لہو میں ہوں
سمیع اللہ ملک لفظ چاہے کتنے ہی خوب صورت ہوں ،سماعتوں کو کتنے ہی بھلے لگیں، انہیں چاہے کتنا ہی خوب صورت کرکے لکھ لو…. دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوں ،وہ اخلاص میں گندھے ہوئے محبت میں رچے ہوئے…. وہ آٹا تو نہیں ہوتے ناں جس سے روٹی بنائی جاسکے۔ لفظ تو بس لفظ ہوتے ہیں۔ آپ کا عمل انہیں تعبیر دیتا ،انہیں مجسم کرتا ہے،جیسے پتھر ہوتا ہے۔ کوئی ہاتھ اسے خوب صورت مورت میں ڈھال دیتا ہے۔ تصویر پتھر میں نہیں اس دل میں ہوتی ہے جس کے ہاتھ اسے تراشتے ہیں اور لوگ اس صنم کو خوب صورت لفظ دیتے ہیں اور اسے بھول جاتے ہیں جس کی نیند اڑ گئی تھی، جس نے اپنا چین کھو دیا تھا اسے ستائش کے قابل بنانے میں۔ ایسا ہی ہے یا کم از کم میرا تجربہ یہی ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کا مختلف ہو۔ ہاں جب پیٹ بھرا ہوا ہو اور بہت روپیہ پیسہ بینک میں اور زروجواہر لاکرز میں محفوظ ہوں، اندرون و بیرون ملک میں بہت ساری جائداد ہو پھر لفظ بہت بھلے لگتے ہیں۔ بہت واہ واہ ہوتی ہے۔
میں نے خود دیکھا ہے ایسے لوگ بہت سوشل ہونے لگتے ہیں۔ بڑے بڑے کلب ان کی بیٹھک بن جاتے ہیں جن کی ممبرشپ فیس لاکھوں میں ہوتی ہے اور وہاں لفظوں کا انبار ہوتا ہے اور لذتِ کام و دہن اور پھر الفاظ کی بازی گری۔ نزاکت کے ساتھ افسوس کا اظہار اور بنا ؤسنگھار کے ساتھ محفلیں، ہلا گلا بس الفاظ کی بازی گری…. یہی انہیں درکار ہوتی ہے۔ خودمختاریٔ نسواں،جمہوریت کی آڑمیںدوسرے اداروںکولتاڑنا اچھا خواب ہے، اور چولہا جلتا رہے اس سے بھی اچھا۔ میرا مالک ہر ایک کا چولہا جلائے رکھے،میرے رب نے تو مخلوق کے لیے وافر رزق اتارا ہے،ہم ہی بہت سوں کے رزق پر قابض ہوگئے ہیں۔ کروڑوںلوگوںکے چولہے بجھاکراپنے خزانوںکورونق افروزکرکے غریبوںکیلئے آہیںبھرناانہی لوگوںکاایک مرغوب مشغلہ بن گیاہے اوراس مکاری کواپنی کامیاب سیاست قراردے رہے ہیں۔
حکومت کاایک اشتہار نظروںسے گزرا،بہت ہی خوب صورت لفظوں اور سہانے خوابوں سے سجا ہوا ہے۔ ۳۵لاکھ سے زائد خاندانوں میں بے نظیرسکیم کے تحت ہر ماہ ایک ہزار روپیہ دینے کا فراخ دلانہ اعلان۔ جی جناب ایک ہزار روپے انہیں ملیں گے اور وہ بھی گھر کی دہلیز پر جن کی آمدنی چھ ہزار سے کم ہو۔ وہ ۸۰گز سے بڑے مکان یا فلیٹ میں نہ رہتے ہوں ،فیملی کا کوئی فرد کسی سرکاری نیم سرکاری خود مختار ادارے یا افواج پاکستان سے تنخواہ وصول نہ کرتا ہو۔ بیوہ یا طلاق یافتہ خواتین یا جسمانی ذہنی معذور افراد یا ایسے افراد جو کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہوں لیکن رقم وصول کرنے کی حق دار صرف خاتونِ خانہ ہوگی۔ خوب صورت بے نظیر خواب کی تعبیر کا وقت آگیا ہے۔ رکن قومی اسمبلی اور سینیٹرز سے فارمز لیے جاسکتے ہیں اور پھر ایک ہزار روپے ماہانہ کی خطیر رقم سے آپ اپنا چولہا جلا سکتے ہیں، کیسے؟ یہ سوال آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں۔ مجھے تو بس آپ کو ایک کہانی سنانی تھی۔ یہ بات تو ویسے ہی درمیان میں آگئی۔
ایک کتا نزع کے عالم میں تھا۔ اور اس کا آقا پاس بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔ فرطِرنج و غم سے اس کی ہچکی بندھ گئی تھی ،روتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ہائے!مجھ پر تو آسمان ٹوٹ پڑا، میں مارا گیا ،میں کیا کروں ،کدھر جاؤں، کون سے جتن کروں کہ میرے عزیز ازجان کتے کی جان بچ جائے۔ اس کے مرنے کے بعد میں کیوں کر جیوں گا؟غرض اسی طرح اونچی آواز میں روتا اور بین کرتا رہا۔ ایک مردِ فقیر ادھر سے گزرا ،کتے کے مالک کو یوں بے حال دیکھا تو پوچھا کہ بھائی خیر تو ہے، یوں گلا پھاڑ کر کیوں رو رہا ہے؟ کتے کے مالک نے جواب دیا: ہائے کیا کہوں کون میری فریاد سننے والا ہے۔ یہ کتا جو تم رستے میں پڑا دیکھ رہے ہو میرا ہے اور اس وقت نزع کا عالم طاری ہے۔ ایسا کتا چراغ لے کر بھی ڈھونڈوں تو نہ ملے گا۔ دن کو شکار کرکے لاتا اور رات بھر میرے مکان کی نگہبانی کرتا۔ کیا مجال کہ پرندہ بھی پر مار جائے۔ کتا کیا شیر کہو شیر، بڑی بڑی روشن آنکھوں والا۔ یہ ہیبت ناک جبڑا اونچا قد دوڑنے میں ہرن کو مات کرے، اسے دیکھ کر چور اچکوں کی روح فنا ہو۔ شکار کے تعاقب میں کمان سے نکلے تیر کی طرح جاتا تھا ،ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ بلا کا قانع بے غرض اور وفادار۔
مردِ فقیر نے بے حد متاثر ہوکر پوچھا: تیرے کتے کو کیا بیماری لاحق ہے؟ آقا نے جواب دیا: بھوک سے اس کا دم لبوں پر ہے اور کوئی بیماری نہیں۔ کئی دن ہوگئے اسے کھانے کو کچھ نہیں ملا۔ فقیر نے کہا: اب صبر کر اس کے سوا اور چارہ ہی کیا ہے!خدا کے ہاں کس چیز کی کمی ہے، وہ تجھے اپنے فضل و کرم سے کوئی اور کتا دے دے گا۔ اتنے میں فقیر کی نظر کتے کے مالک کی پیٹھ پر پڑی جہاں کپڑے میں کوئی چیز بندھی ہوئی لٹک رہی تھی۔ فقیر نے پوچھا: میاں اس کپڑے میں کیا لپٹا ہوا ہے؟ اس نے جواب دیا: روٹیاں اور سالن ہے۔ یہ میں اپنے جسم و جاں کی قوت برقرار رکھنے کے لیے ساتھ لے کر چلتا ہوں کہ جہاں بھوک لگے کھا سکوں۔ یہ سن کر مردِ فقیر کو سخت تعجب ہوا کہنے لگا: اے بندۂ خدا!تف ہے تجھ پر تیرا اپنا اتنا پیارا کتا بھوک سے مر رہا ہے لیکن تو اسے کھانے کو نہیں دیتا؟ مالک نے کہا: بے شک کتا مجھے بے حد عزیز ہے لیکن اتنا عزیز بھی نہیں کہ اپنی روٹیاں اسے کھلا دوں ،روٹیاں حاصل کرنے کے لیے مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ البتہ میرے پاس آنسو بے کار ہیں اس لیے کتے کے غم میں بہا دیتا ہوں۔مردِ فقیر بولا: لعنت ہو تیری عقل اور محبت پر۔ تیری مثال اس مشک کی سی ہے جس میں ہوا بھری ہوتی ہے۔ تیرے نزدیک روٹی کا ایک ٹکڑا آنسو سے زیادہ قیمتی ہے، ارے نامراد! آنسو تو وہ خون ہے جسے غم نے پانی بنادیا ہے۔ او احمق!یہ خون خاک کے برابر بھی نہیں رہا حالانکہ آنسو کی قیمت کائنات میں کہیں بھی نہیں۔
مجھے لاہور کا جیالا بی بی بے نظیر کا سیکورٹی گارڈ شفیق عرف بھولا یاد آرہا ہے جو اپنی وفا کا نذرانہ اپنی لیڈر کو پیش کرکے اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔ شفیق کی چار جوان بیٹیاں اور ایک چھوٹا بیٹا ہے وہ اپنی ماں کے ساتھ ایک بہت چھوٹے سے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ بی بی کی چوتھی برسی بھی گزرگئی مگرابھی تک انہیں کھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی جی رہے ہیں۔ شفیق تو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے چلا گیا اور باقی خاندان کو بے بسی کی تصویر بناگیا۔ جب شفیق کی بیوہ پارٹی کے قائدین سے اپنے حالات کا تذکرہ کرکے مدد کی اپیل کرتی ہے تو اسے جواب میں سننا پڑتا ہے: شفیق عرف بھولا کسی حادثے کا شکار بھی تو ہوسکتا تھا پھر آپ کیا کرتیں؟ سب کو چھوڑ دیجئے جناب! بس اتنا کردیجئے کہ وہ جو آپ کی پارٹی کے ورکر اپنی جان نچھاور کر گئے وہ جو معذور ہوگئے ان کے خاندان کی کفالت اور ان کے بچوں کی تعلیم کا عزت دارانہ انتظام کردیجئے۔ میں آپ کا مشکور رہوں گا۔ آپ کے حق میں نغمہ سرائی کروں گا آپ کی ستائش کروں گا………..بس ان ناداروں کے چولہے جلانے میں ان کی مدد کیجئے۔ یاد رکھئے ،غور سے سن لیجئے یہی ہیں آپ کا اثاثہ یہی نہ رہے تو پھر سارا دن دھوپ میں جیوے جیوے، آوے آوے کے نعرے کون لگائے گا؟ آپ کی لینڈ کروزر کے ساتھ ساتھ کون بھاگے گا؟ آپ کو ایسے جیالے بے دام غلام کہاں سے ملیں گے؟ آپ کی نگہبانی کون کرے گا؟ اپنے سینے پر گولی کون کھائے گا؟ وہ جو آپ نے اتنا کچھ جمع کر رکھا ہے اس میں سے ان کے چولہے جلا دیجئے ،بے کار کے آنسو مت بہائیے۔ سب کو چلے جانا ہے کوئی بھی یہاں نہیں رہے گا۔بس نام رہے گا اللہ کا۔

تو مجھ کو بھول گیا ہے مگر میرے مطرب میں درد بن کے ترے نغمۂٔگلو میں ہوں
وہ جس کے طرزِ مسیحائی پر ہے شہر نثار اسی کی تیغ سے ڈوبا ہوا لہو میں ہوں

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *