ڈاکٹر نگہت نسیم ۔سڈنی
آج بہت دنوں کے بعد کچھ لکھنے بیٹھی تو احباب کے بے حد اصرار پر ر اردو ادب کے نام پر بننے والوں جماعتوں کے بارے میں لکھوں ۔ سو سوچا چلئے اسی موضوع پر لکھتے ہیں معزز قارئین جس طرح سیاسی جماعتوں میں ‘‘تانگہ پارٹیاں‘‘ ہوتی ہیں کہ جن کے ارکان کی کل تعداد گھوڑے اور سواریوں کو ملا کر پانچ سے زیادہ نہیں ہوتی اسی طرح بیرونی ممالک میں پاکستان کے نام پر اور اردو ادب کے نام پر بننے والوں جماعتوں نے بھی آدھی آدھی اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے اور ان تانگہ ادبی اور کیمونٹی جماعتوں کے صدر خود کو صدر اوبامہ سے سیکرٹری خود کو اقوام متحدہ کے سکیرٹری سے کسی طرح کم نہیں سمجھتے
مجھے یہاں سڈنی میں رہتے ہوئے ایک زمانہ ہو چلا ہے اور میں ایسی تنظیموں کو بنتے،تقسیم ہوتے اور پھر ٹوٹتے بھی دیکھا ہے اور ایسی ننانوے فیصد تنظیموں کے کرتا دھرتا صدور و سیکرٹری صاحبان سے بھی بخوبی آشنا ہوں اور اسی وجہ سے دل میں کسک ہونے کے باوجود آج تک خود کو کسی تنظیم سے وابستہ نہیں کر سکی کہ ایسی صورت میں رہی سہی عزت سادات کے جانے کا بھی خدشہ اور خطرہ لاحق رہا ہے
مجھے کسی خاص تنظیم کا یا کسی مخصوص گروہ کا ذکر نہیں کرنا بلکہ اجمالی طور پر ایسے تمام حلقوں اور افراد کی بات کرنی ہے جو پاکستان اور اردو ادب کے نام اپنی اپنی دکان داری چمکا رہے ہیں۔ ان احباب میں ایسے ایسے بزرگ بھی شامل ہیں جو برسوں سے بقول خود انکے شعر کہہ رہے ہیں لیکن حیرت ہے کہ اپنے ہی لکھے ہوئے شعر کو درست نہیں پڑھ سکتے اور اس پر طرہ یہ کہ خود کو غالب سے کسی طرح کم نہیں سمجھتے۔ ان جماعتوں میں نوے فیصد سے زیادہ مردوں کا غلبہ ہے اور وہ کسی پڑھی لکھی اور تخلیق کار خاتون کو تو کسی طرح آگے نہیں بڑھنے دیتے کہ اس طرح خود انکے ایکسپوز ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے
ہمارے ہاں سڈنی بلکہ آسٹریلیا میں شکر ہے کہ ابھی یہ صورت حال پیدا نہیں ہوئی کہ لاہور کے حلقہ ارباب ذوق کے وائی ایم سی ہال کے اجلاس میں کھڑا ہو کر ایک شاعر کے منہہ پر جیسے کوئی کہہ دیتا تھا کہ یہ غزل تمہاری نہیں اقبال ساجد سے لکھوائی ہوئی ہے لیکن جس طرف حالات بڑھ رہے ہیں یوں لگتا ہے کہ ایک دن ایسا حادثہ بھی رونما ہو جائے گا۔
اللہ جانے یہ اقبال ساجد کہاں سے یاد آ گئے۔ بات ہو رہی تھی ادبی اور تنظیم ساز مجاوروں کی۔ مجھے تو اب دشمنوں میں رہنے کی عادت ہو گئی اور جس دن اپنے دشمنوں میں اضافہ نہ کرؤں وہ دن جیسے زندگی سے منہا ہو جاتا ہے پر ادب کی دنیا میں بھی مافیا صفت لوگوں کے داخل ہو جانے کے بارے میں سوچ سوچ کر جیسے بلڈ پریشر بڑھ رہا ہے۔یہ تو بالکل دھرتی کا سینہ چیرنے والے کسان کا معاملہ ہے کہ فصل وہ اگاتا ہے لیکن بچے بھی اسی کے بھوکے رہتے ہیں، کپاس وہی اگاتا یے اور بچے بھی اسی کے بے لباس ہوتے ہیں۔
یوں تو روز اول سے ہی یہ دنیا مفادات کی ہے لیکن ادب کی دنیا تو پہلے کبھی ایسی نہیں تھی جیسی تجارت صفت اور انسان کش یہ دنیا آج بن چکی ہے۔ اٹلی کے زیر زمین مافیا کی طرح اب اردو ادب کی دنیا بھی ایک مافیا بن چکی ہے جس میں ہر شعبے کے دو نمبر نے قبضہ کر رکھا ہے جو خود ہی اپنے آپ کو عظیم اور مستند ادیب و شاعر لکھتا ہے، جیب سے پیسے خرچ کر کے اپنے ساتھ شام منواتا ہے، اپنے پیسوں سے اپنے لیئے ایوارڈ بنواتا ہے، پیسے دیکر ایوارڈ کی خبر شائع کرواتا ہے، نام نہاد ادبی کانفرنسوں میں اپنے پیسے خرچ کر کے شرکت کرتا ہے اور کسی سے ملاقات کیئے بغیر بڑے بڑے ناموں سے ملاقات کی خبریں شائع کرواتا ہے اور حد تو یہ کہ اس دور میں بھی کچھ بڑے نام ایسے ہیں جو صاحبان زر ہیں اور بھارت پاکستان جیسے ممالک میں غربت زدہ قلم کاروں کی مالی مدد کر کے ان سے تحقیق کا کام کرواتے ہیں اور اپنے نام سے شائع کرواتے ہیں۔
ایوراڈ اور اعزازات کی منڈی کا بھی یہی حال ہے اور یہاں بھی وہی مال بکتا ہے جسکی طلب ہے۔ اس عہد میں معیار کی یا علم کی طلب نہیں۔ جہل کو علم کا لباس بنا کر فروخت کیا جارہا ہے۔ ایوارڈ اور اعزازات فروخت ہوتے ہیں اور نام نہاد قلم کاروں کو اس کے حصول کے لیئے اپنا ضمیر بھی فروخت کرنا پڑتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ ادب کی دنیا میں اعزازت کی تقسیم کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے اور شاید اتنے قلم کار ہیں نہیں جتنے اعزازات تقسیم ہو چکے اور ہو رہے ہیں۔ اس بے بصر اور ڈرامہ باز عہد میں جس کے پاس ایک سو ڈالر ہیں وہ بڑی آسانی سے اپنی ویب سائٹ کھول کر چند دنوں میں خود کو یورپ کا صف اول کا شاعر منوا لے گا۔ وہ جسے خود شعر وزن میں کہنا نہیں آتا وہ ‘‘عروض ‘‘ کی تعلیم دے گا اور وہ جسے اپنا شعر خود درست طور پر پڑھنا نہیں آتا وہ نئے لکھنے والوں کی اصلاح کرے گا۔ بس سکہ رائج الوقت تعلقات عامہ ہے اور یہ ایک فن ہے جو صرف مجھے ہی نہیں مجھ جیسے کئی ادیبوں شاعروں کو نہیں آتا۔
آج کی ادبی فضا زیادہ تر جعلی پن کی وجہ سے سخت مسموم ہے اور اس کی بڑی وجہ ادیبوں کی گروپ بندیاں ہیں۔گروپ بندیوں نے ادب کو نقصان پہنچا یاہے۔ا س منفی عمل سے کئی حقیقی ادیب پسِ منظر میں چلے گئے ہیں جبکہ کئی دونمبر لوگ موجیں مار رہے ہیں۔ میں ان گروپ بندیوں کے سخت خلاف ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اختلاف رائے ضروری ہے تاہم مقابلہ صحت مندانہ ہونا چاہیے۔ یعنی تنقید برائے تنقیدنہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔
میڈیا میں پرائیویٹ چینلز یا تو کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں اور یا پھر خوف وہراس پھیلانے والی رپورٹس چلاتے ہیں۔ سو ان کے پاس ادب پرموٹ کرنے کا و قت ہی نہیں ہوتا۔ پی ٹی وی پر اگر کوئی مشاعرہ یا کوئی اور ادبی پروگرام آئے تو وہاں مخصوص لوگوں کی اجارہ داری ہے اور بار بارو ہی چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کاادب کے فروغ و ترویج کے حوالے سے ہمیشہ مثبت کردار رہا ہے لیکن اب وہ بھی الیکٹرانک میڈیا کی راہ پر چل نکلے ہیں اور بڑے قومی اخبارات نے اپنے ہفتہ وارادبی ایڈیشنزتقریبا ختم کردیے ہیں۔ بیرونی ممالک میں مقیم ادبی مجاوروں نے اپنے دحرے بنا رکھے ہیں اور یہ سب ایک دوسرے کو لاجواب اور لافانی شاعر کہتے ہیں۔ اب کوئی بتائے تو کہ اس ناگفتہ بے صورتحال میں ادب کیا ترقی کر پائے گا۔
ادبی گروہ بندیوں نے ادب کو نقصا ن ہی دیا ہے ۔ ان گروہ بندیوں کی بدولت حقیقی تخلیق کا ر پس منظر میں چلے گئے ہیں جبکہ ریڈی میڈ لوگ منظر عام پر نظر آتے ہیں ۔ کئی سینیئر تخلیق کارو ں نے اپنے اپنے گروہ پا ل رکھے ہیں جو ادب کے لئے ہر اعتبار سے نقصا ن دہ ہیں۔اس حوالے سے میڈیا کا کردار انتہا ئی مایوس کن ہے ۔ کسی زما نے میں ہر قومی اخبار کے لئے ہفتہ وار ادبی ایڈ یشن کی اشاعت ضروری تھی لیکن اکثر اخبارات نے یہ ادبی ایڈیشنز ختم کر دیے ہیں جبکہ الیکٹرا نک میڈیا کے پا س سنسنی پھیلانے ،من پسند لیڈروں کی تشہیر ،نا پسند یدہ پارئیوں کے خلا ف پر و پیگنڈہ کرنے اور دنیا بھر میں ارض وطن کو رسوا کر نے کے سوا کوئی کام ہی نہیں ہے۔
آج کی تقسیم در تقسیم شدہ ادبی انجمیں تو ‘‘ انجمن خدام زوجگان ‘‘ کی طرح ہیں
سچ پوچھیں تو ہمارا معاشرہ تباہ ہوچکا ہے اور ہماری قدروں کو مادہ پرستی نے نگل لیا ہے جس کی وجہ سے آج سب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم کیا ناکام ہوچکے ہیں اور یوں کیا ہم نے دولت اور ثروت کی خاطر خود کو ہلاک کرنے کا تہیہ کرلیا ہے؟ یہ سب کچھ یقین کریں ادب کے مٹنے کی وجہ سے ہورہا ہی، کیونکہ ادب زندگی ہے اور ادب سے قومیں ہلاک نہیں پروان چڑھتی ہیں یوں اب ادب ہی ہمارا آخری سہارا رہ گیا ہے، آج ادبی محفلیں اوّل تو ہوتی ہی نہیں اگر ہوتی ہیں تو برائے نام اور وہ بھی اس طرح کہ عام آدمی کی پہنچ سے دور۔ اہم ترین اور حساس ترین شعبہ ”ادب“ میں بھی تنزل کا دور دورہ ہے اور ادب میں تنزل اور بدحالی ملک اور قوم کو لے ڈوبتی ہے اور جب ہر شعبہ زندگی کی حالت قابل رحم حد تک گرچکی ہے جس کی وجہ سے ساری قوم نہ زندہ ہے نہ مردہ ہے۔
اب غور کریں جن دنوں سرعام رات گئے تک ادبی محفلیں سجتی تھیں ان دنوں قوم کو نہ یہ بڑی بڑی بیماریاںلگتی تھیں اور نہ تعصب کی وبا پھیلی تھی۔ اسپتال کم تھے اور میڈیکل اسٹور بھی کہیں کہیں دکھائی دیتے تھی، آج ادبی محفلیں نہ سجنے کی وجہ سے ساری قوم بے شمار نفسیاتی مسائل کا شکار ہوچکی ہے اور اسی وجہ سے قوم کو اور بھی بہت سے انہونے اور جان لیوا روگ لگ چکے ہیں۔ میری قوم کا مستقبل(نوجوان نسل) ادب کی پذیرائی نہ ہونے کی وجہ سے ہلاکت کی طرف دوڑا چلا جارہا ہے اور جرائم کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے، جس کی وجہ سے آج کا نوجوان بے مقصد زندگی گزار رہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں قلم اور کتاب کے بجائے ٹی ٹی پستول اور منحوس موبائل دکھائی دیتا ہے، آپ یاد کریں پہلے ہر شہر اور ہر سطح پر ادبی انجمنیں اور ادبی سوسائٹی منظم اور فعال ہوتی تھیں اور تحصیلدار سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر تک ان محفلوں کے انعقاد میں دلچسپی لیتے تھے جو رات گئے تک یہ ادبی محفلیں لوگوں کو تعمیری زندگی گزارنے کا درس دیتی تھیں اور سکون و محبت، اتحاد و اخوت پیدا کرتی تھیں اوّل تو آج ایسی محفلیں سرے سے یا تو ہوتی ہی نہیں اور اگر ہوتی ہیں تو وہ خاص خاص جگہوں پر اور خواص کے لیے ہی ہوتی ہیں، میرے نزدیک ادب کی تنزلی کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں جو اپنے چہیتوں کو تو کروڑوں اور اربوں کے قرضے معاف کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر کسی ادبی تحریک یا انجمن کو زندہ رہنے کے لیے بھی کچھ دینے کو تیار نہیں ہیں ۔
ایسے ہی لوگوں کے گماشتے سڈنی جیسے شہر میں بھی موجود ہیں۔ کوئی زرداری سے اپنی دوستی کے قصے سناتا ہے تو کسی نے ابھی تک فراز مرحوم کی بیساکھی سے قد بڑا کر رکھا ہے۔کوئی خاتون خود کو پروین شاکر اور کشور ناہید سے بھی بڑی شاعرہ سمجھتی ہے اور کوئی خود کو نثر کے میدان عینی آپا سے بھی دراز قد کہتی ہیں۔
آسٹریلیا خاص پر سڈنی میں بھی ادب و صحافت کے کئی رنگ دیکھنے میں آئے ہیں اور اسے کئی نام دئے جا چکے ہیں ، کوئی اسے پاکستانی صحافت کا چربہ کہتا ہے۔ کوئی اسے غلاظت کا چھینٹا کہتا ہے ۔ کوئی اسے ذاتی عداوت کا پلیٹ فارم کہتا ہے۔ کوئی اسے لادینت و ذلالت کا نمونہ کہتا ہے۔ کوئی اسے اندھی ثقافت کا ٹھمکا کہتا ہے ۔ کوئی اسے مذہبی و گروہی منافقت کا بھنگڑا کہتا ہے۔کوئی اسے ابلیسیت کا مرقع کہتا ہے ۔ الغرض ہر قاری و صحافی و شاعر و ادیب اپنے اپنے رنگ میں اپنے اندر کے فاسد مادے کی الٹی کرتا رہتا ہے۔ یہاں ہر شخص اپنی آستین میں خنجر لئے پھرتا ہے۔کوئی ذرا سا بھی چوکا اور وہ خنجر سینے سے آرپار ہوگیا۔ لیکن انہیں آپ کچھ نہ کہیں !
یہی نہیں کہ یہاں زیادہ تر مدیر ِاخبار اور ادبی تنظیموں کے منتظمین کا اپنا ایجنڈا ہے اور وہ ایجنڈا زیادہ تر کمرشل بنیادوں پہ ہی مستحکم ہے۔اپنی اپنی گروہ بندیاں ہیں۔ہر گروہ دوسرے پہ کیچڑ اچھالتا رہتا ہے ۔ لیکن آپ انہیں بھی کچھ نہ کہیں !
ادب گروہ بندی نے ہمارے اندر بغض، تعصب، کینہ، حسد، کروفر، غرور، تکبر، غصہ، مادیت پرستی اور انا پرستی سمیت اور نجانے کیسا کیسا بارود بھر دیا ہے کہ آج ہم انسان کم حیوان زیادہ دکھائی دیتے ہیں ادب تو دوسروں کو بھلائی اور اچھائی کے لیے سجتا ہے سنورتا ہے اور بنتا ہے اور اسلام بھی یہی چاہتا ہے اور انسانیت کا بھی یہی تقاضا ہے جبکہ میرا سوال یہ ہے کہ مارکیٹنگ اور اکانومی کے اس دور میں یا مادہ پرستی کے اس دور میں جبکہ ہر شے کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں تو پھر انسان کے نرخ کیوں کر گئے ہیں یاد رکھیں صرف اس لیے کہ ہم نے ادب کی قیمت گرادی ہے یا ہم نے ادب کی اہمیت، افادیت اور ضرورت کو نہیں سمجھا۔
اپنی تشہیر اور شیطانی جذبوں کی تفسیر بہ شکل کتاب بھی چھپوائی جا رہی ہیں ، ان کے معتبر ہونے کی صداقت کئی مقامی اور پیسے وصول کر کے بیرونی ممالک کےاخبار ان کا تعارف اور ان کے مضامین چھاپ کر کر رہے ہیں ۔
ایک نیا نکتہ آپکے تحریر کرؤں اور وہ یہ کہ تمام خلفائے راشدین نہ صرف ادب کی خدمت کرتے رہے بلکہ آپ تمام حضرات شاعر بھی تھے اور ادیب حضرات کی قدر بھی کیا کرتے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر کا سینہ مبارک ایک ایسے گھر کی مانندتھا جس کے مختلف دروازے ہوں اور ہر دروازہ پر ایک صاحب کمال شخصیت بیٹھی ہو خود حضرت عمر سے بھی بہت سے اشعار مختلف کتب میں ملتے ہیں ایک ادیب العائشی فرماتے ہیں ایک بار حضرت عمر نے ایک شاعر کا کلام سنا تو بہت خوش ہوئے اور اپنی قمیض اتار کر اسے عطا کردی، حضرت عمر کا شعری ذوق بہت بلند تھا ایک شعر ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ گھبراؤ نہیں کیونکہ تمام معاملات کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہی، موت ایک حوض کوثر کی طرح ہے اور سب نے اس کا مزہ چکھنا ہے۔
کہتے ہیں کہ ادب اور سیاست ساتھ ساتھ چلتی ہے اور صرف ادب ہی پہ کیا موقوف سیاست تو ہر شعبہ میں ہی ساتھ ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنے ملک سے نکلے ہیں تو وہاں کی ساری خرافات اور آپس کی دشمنیاں بھلا کر ہم سب ایک نئی جگہ اپنا وقار قائم کریں اور مل جل کر رہیں لیکن بھلا ہو ان سیاسی گماشتوں کا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ چل کر یہاں آگئے اور وہی نفرت و عناد کی فضا قائم کردی گئی۔یہاں بھی ہم ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ، ملت پارٹی ، تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، جمیعت علما ئے اسلام اور نہ جانے کتنی پارٹیوں میں بٹ کے رہ گئے ہیں ۔ایک دوسرے کے خلاف اوچھے ہتھیار استعمال کرنے سے ہم نہیں چوکتے۔ غیر ممالک میں رہ کر بھی ہم یہاں کے مسائل اور سیاست سے کم واقف ہیں یا اس میں کم شریک ہوتے ہیں لیکن پاکستان کی فکر ہمہ وقت ہے۔ کیا کریں بات کرنے کو اور کچھ ہے بھی تو نہیں۔ ان سب کو بھی آپ کچھ نہ کہیں !
ہم اس لحاظ سے بدقسمت قوم ہیں کہ ہر وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے بلکہ ایک دوسرے کو نوچتے کھسوٹتے رہتے ہیں ایک دوسرے کو لعن طعن اور ڈی گریڈ کر کے خود کو فاتح اعظم سمجھتے ہیں لیکن بھارت میں اس طرح کی کی کوئی روایت نہیں ہے شمس الرحمن فاروقی اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ الگ الگ نظریات اور دبستانوں کے نمائندہ ہیں مگر ان میں کوئی دشمنی، مخاصمت کینہ نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اورایک دوسرے کی صلاحیتوں کا برملا اعتراف کرتے ہیں لیکن یہاں جس قدر گروپ بازی ہے وہ مافیا کی صورت اختیار کر چکی ہے جو ادیب شاعر کسی گروپ کے بینر تلے نہیں ہے تو سمجھیں اس کے سر پر نہ چھت ہے نہ آسمان اس قدر نفرت اور انتقامی رویے ہیں کہ افسوس ہوتا ہے یہ گروپ بازی ہر سطح اور ہر شعبے میں ہے لیکن کم از کم ادب میں نہیں ہونی چاہیے ادب میں صرف مہذب اور وسیع القلب لوگوں کی ضرورت ہے لیکن ادب میں بھی کئی غیر ادبی بلکہ بے ادب گھس آئے ہیں۔ ہر ادیب شاعر خود کو کیش کرانے پر لگا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ سب کچھ اکیلے اکیلے ہڑپ کر جائے۔
اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لیں اور نہ صرف زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے آپ کو نمایاں کریں اور اپنی اپنی الگ سے ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر نہ بیٹھ جائیں بلکہ ادب کے میدان میں تو اپنے آپ کو اپنے اتحاد اور یگانگت سے نہ صرف خود کو نمایاں کریں بلکہ دیگر کمزور ادیبوں کی بھی کمر مضبوط کریں اور انہیں بہتر ماحول مہیا کرنے اور انہیں یکجا کرنے میں بھی اپنا موثر کردار ادا کریں۔ گروہ بندیاں ختم کرانے میں بھی ہر کوئی اپنا اپنا کردار اپنی اپنی جگہ پر خلوص نیت کے
ساتھ ادا کرکے اور تمام ادبی پلیٹ فارموں سے اسلامی ادب کو فروغ دیں ۔
جال کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ ء وقت کو کیا نام دیا جائے
میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگرجام دیا جائےٰٰ