اقتدار اور طاقت کا نشہ
انعام الحق
قیام پاکستان سے اب تک پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمارا سیاسی منظرنامہ ایک دلچسپ فکشن کہانی جیسا لگتا ہے جس میں سسپنس،ٹریجڈی ،محلاتی سازشیں ،پرسرارقتل جےسے سب لوازمات موجود ہےںےعنی اس موضوع پر اےک مکمل فلم تےار کی جاسکتی ہے۔اس ملک کی سیاسی بساط پرملکی اور غیرملکی اداکار اپنی اپنی اداکاری کے رول پلے کرتے نظر آتے ہےں۔قائداعظم کے غیرمعمولی حالات میں وفات سے لے کر بے نظیر بھٹوکی شہادت تک کے تمام واقعات پر شکوک و شبہات کے پردے پڑے ہیں۔حالات اتنی جلدی اور اچانک پلٹا کھاتے ہیں کہ ناظرےن بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران جب اےک اینکر نے ایک پرانے سیاستدان سے یہ سوال کیا کہ آپ اگلے دس سال کے دوران پاکستان کی سیاست کوکیسے دیکھتے ہےں؟تو اُن صاحب نے فوراً جواب دیا کہ ”آپ مجھے اگلے دس سال کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جب کہ میں تو اگلے دن کے بارے میں نہیں بتاسکتا کہ اس ملک میں کیا ہوگا“۔پاکستان کےساتھ المیہ یہ ہوا کہ قیام کے ایک سال بعد ہی قائداعظم کی وفات ہوگئی۔جبکہ ہندوستان میں جواہرلعل نہرو جیسا قائداُن کی راہنمائی کے لئے ایک لمبا عرصہ تک موجود رہا۔پھرہندوستان کے ساتھ خراب تعلقات اور کشمیر کے جھگڑے کی وجہ سے فوج قیام پاکستان کے وقت سے ہی ایک طاقتورعنصر بن چکی تھی۔اپنے خاص محل وقوع کی وجہ سے عالمی قوتیں بھی پاکستان کے معاملات میں دخل اندازہوگئیں جس کا سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین پاکستان کے گورنرجنرل بن گئے تھے اور لیاقت علی خان اُس وقت وزیراعظم تھے۔1951ءمےںلیاقت علی خان کوراولپنڈی میں شہیدکردیاگیا۔ان کی شہادت کے پیچھے کون تھا اُس کے بارے میں اب تک کچھ نہیں پتہ چل سکا۔اُن پرگولی چلانے والے قاتل کو اُسی وقت ایک پولیس والے نے ہلاک کردیاجِسے بعد میں ترقی دے دی گئی جبکہ جوپولیس آفیسر اس قتل کی تفتیش کررہا تھاوہ بھی ایک پراسرارفضائی حادثے میں اپنے تفتیشی ریکارڈسمیت جاں بحق ہوگیاےعنی اےک لحاظ سے لےاقت علی خان قتل کےس بغےر انجام کے ختم ہوگےا۔اُس وقت کے سیاستدانوںسے ایک تاریخی غلطی یوں سرزدہوئی کہ ایک بیوروکریٹ کوگورنرجنرل کے عہدے پربیٹھا دیا۔ان صاحب کا نام غلام محمدتھا۔جبکہ پاکستان کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین مقررہوئے۔اس واقعہ کے بعد ہی غیرجمہوری قوتوں کو پاکستان کی سیاست میں اپنے پاؤں جمانے کا موقع ملا۔غلام محمدایک انتہائی مغروراور اناپرست انسان تھے۔1953ءمیں انہوں نے بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کوکو برطرف کردیااور پھر1954ءمیں پاکستان کی پہلی دستورسازی اسمبلی کو بھی برخاست کردیا۔اس دستورسازاسمبلی کی منسوخی کے پیچھے اُس وقت عدلیہ،کمانڈرانچیف اورحکمرانوں ےعنی تقرےباًسب کا ہاتھ تھاکےونکہ یہ اکیلے غلامحمدکے بس کی بات نہیں تھی۔سپیکراسمبلی مولوی تمیزالدین اس اقدام کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں گئے جہاں سپیکر کے حق میں فیصلہ آیا لیکن اُس وقت کی فیڈرل کورٹ نے دستورسازاسمبلی کی برخواستگی کو بعض تکنیکی بنیادوں پر جائزقراردے دیا۔اس طرح اس غیرجمہوری اقدام کو عدلیہ کی طرف سے حمایت حاصل ہوگئی۔بعدمیں بھی اس طرح کے اقدامات کو ہماری عدالتوں کی طرف سے جوازملتا رہاجوہماری تاریخ کا ایک المیہ ہے۔خواجہ ناظم الدین کے بعد محمدعلی بوگرہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔غلام محمدجسمانی طور پر مفلوج ہونے کے باوجود اقتدارسے چمٹے ہوئے تھے مگرآخر اُنہےں 1955ءمیں استعفیٰ دینا پڑا۔اس کے بعد ایک اور بیوروکریٹ اسکندرمرزا ملک کے گورنرجنرل بن گئے۔اُسی دور میں ایوب خان کو وزیردفاع بنا دیا گیا جبکہ وہ ابھی آرمی چیف تھے۔یہ وہ دور تھا جب بیوروکریسی ،فوج اور غیرجمہوری قوتیں پاکستان کی سیاست میںمستقل طور پر اثر اندازہونا شروع ہوگئے۔اسکندرمرزا نے بھی اپنے اقتدار کے طول دینے کے حیلے شروع کردیئے۔1956ءمیں پاکستان کا آئین منظورہونے کے باوجود ملک میں اقتدارکی کشمکش اور غیریقینی کی کیفیت جاری رہی۔سکندرمرزا پاکستان کے پہلے صدربن گئے۔اُنہوں نے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے پے درپے وزرائے اعظم کوبرطرف کرنا شروع کردیا۔پاکستان کے باربارتبدیل ہوتے حکمرانوں کو دیکھ کر پنڈت نہرونے بےان جاری کےاکہ میں اتنی جلدی اپنی تہہ بند نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی اپناوزیراعظم تبدیل کرلیتے ہیں۔
1958ءمیں اسکندرمرزا نے خود مارشل لاءلگاکراپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو توڑدیا اور ایوب خان کو مارشل لاءایڈمنسٹریٹرمقررکردیا ۔اصل میں ایوب خان اور سکندرمرزا کافی عرصہ سے اقتدارکے حصول کے لئے آپس میں گٹھ جوڑکررہے تھے۔تاریخ کی ستم ظرفی دیکھیں کہ ایوب خان نے اپنے ہی دوست اسکندرمرزاکو اقتدارسے باہرپھینک دیا۔تین جرنیلوں نے رات کو اُن کے بیڈروم پردھاوابولا اورپستول دکھا کے اُسے اقتدارسے دستبردارہونے پر مجبورکردیا۔اِس کے بعداُنہےںبرطانیہ بھیج دیاگیا۔جہاں اُنہوں نے انتہائی بُرے حالات میں اپنے آخری ایام گذارے۔ایوب خان کے آنے سے ملک میں فوجی طالع آزماؤں کا اقتدار پرقابض ہونے کا راستہ کھل گیا۔1968ءمیں ایوب خان کے خلاف ایک ملک گیر تحریک شروع ہوگئی۔بالاخرایوب خان کواپنے ہی مقررکردہ آرمی چیف کی سازشوں کے نتیجے میں استعفیٰ دےنا پڑا۔1970ءکے پارلیمانی انتخابات جس مےں مغربی پاکستان سے بھٹوکی پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی۔مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زوروں پر تھی لیکن سیاستدان اقتدار پر قبضے کے لئے اپنی اپنی چالیں چل رہے تھے۔1971ءکی شکست اورمشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود یحییٰ خان انتہائی بے شرمی سے اقتدارکے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔لےکن ےحےیٰ خان کے خلاف جاری کی جانے والی تحرےک جس مےں ذوالفقار علی بھٹو کی خاص حماےت شامل تھی ، کی وجہ سے ےحےٰی خان کو استعفیٰ دےنا پڑا۔بھٹونے جنرل ضیاءالحق کواپنا خاص بندہ سمجھتے ہوئے آرمی چیف مقرر کیا۔لیکن حکومت اور طاقت کے نشہ مےں جنرل ضیاءنے بھٹوکو اقتدار سے ہٹایا اور اپنے ہی محسن کو پھانسی کے تختے تک لے گیا۔ضیاءالحق آئندہ دس سال کے لئے ملک پر مسلط رہا۔ اُس کی حکومت ایک فضائی حادثے کی صورت میں ختم ہوئی جس کے بارے میں اب تک سمجھ نہیں آسکی لیکن انگلیاں کئی لوگوں پر اٹھائی جارہی ہیںےعنی ضےاءکے حادثے کوضےاءکا قتل کہا جا تا رہاہے۔پھر90کی دہائی میں دوبڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اقتدار کی لڑائی چل پڑی اور اقتدار ان دونوں پارٹیوں کے درمیان میوزیکل چیئرکا کھیل بن کر رہ گیا۔ایک اور بیوروکریٹ صدرغلام اسحاق خان نے لگاتاردونوں کی حکومتیں برطرف کیں۔دونوں پارٹیاں مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی اپنی اپنی حکومت کی معیاد پوری نہ کرسکیں۔دوسری مرتبہ پیپلزپارٹی کی حکومت انہی کے پارٹی ممبراور منتخب کردہ باعتمادصدرفاروق لغاری نے ختم کردی۔ان دونوںپارٹیوں کے درمیان مسلسل رسہ کشی چلتی رہی اور ایک دوسرے کو گرانے کے لئے ہر جائزاور نہ جائزحربہ استعمال کیا گیا۔پھر1999ءمیں نوازشریف ملک کے وزیراعظم تھے مشرف کو آرمی چےف کے عہدہ پر نواز شرےف نے ہی فائز کےا تھااور مشرف نے ہی نواز شرےف کو اقتدار کی کُرسی سے اُٹھاےا بلکہ ساتھ ہی ملک سے بھی باہر نکال دےا۔مشرف کا اقتدار حاصل کرنا بھی پہلے واقعات کی طرح ایک ڈرامائی شکل لئے ہوئے ہے۔مشرف کا دوران پروازبرطرف کیا جانا پھر جی ایچ کیوکی بغاوت اور فوج کا وزیراعظم ہا ؤس پر دھاواایک دلچسپ کہانی جیسا ہے۔مشرف نے دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہوں کو ملک بدرکر کے سکون سے حکومت کی۔پھر اےک لمبے عرصے کے بعد خود مشرف نے ہی اُنہےں پاکستان آنے کی اجازت دےنے کے طرےق نکالے ۔27دسمبر2007ءکو محترمہ بینظیربھٹوکی ایک قاتلانہ حملے میں شہادت کا افسوس ناک واقعہ رونماہوگیا۔یہ سیاسی قتل بھی لیاقت علی خان اور ضیاءالحق کے قتل کی طرح ابھی تک ایک معمہ بنا ہوا ہے۔پھرپرویزمشرف نے بھی اقتدارقومی اسمبلی میں محاسبے کے ڈرسے ہی چھوڑا۔پاکستانی سیاست کے اس مختصر سے احوال کو دیکھ کر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی حکمران اپنی مرضی سے نہیںگیا اوراس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران کس قدر اخلاقی دیوالیہ پن اور خودغرضی کا شکارتھے۔