بے گناہوں کی ”لیلة القدر“

سمیع اللہ ملک

لندن

عہدِ خوں رنگ کی خونخواری آخری حدوں کو چھونے لگی؟ لیکن کیا خونخوار کی کوئی آخری حد ہوا بھی کرتی ہے ؟ کیا کوئی ایسا لمحہ آیا کرتا ہے جب دستِ قاتل تھم جائے اور اس کے سینے میں بگولوں کی طرح گردش کرتی درندگی سیر ہو جائے؟ کیا اقتدار کی ہوس میں اندھے حکمرانوں پر کبھی دو ساعت طلوع ہوا کرتی ہے جب ان کے سنگ و آہن جیسے دلوں میں رحم کی کوئی آبشار پھوٹ نکلے؟ کبھی اپنے آپ کو عالمی طاقتوں کا باجگزار بنا لینے اور ان کی خوشنودی کیلئے خود اپنے لوگوں پر قہر ڈھانے والے فرمانرواﺅں کو بھی یہ احساس ہوا کرتا ہے کہ بہت ہو چکی، اب آگ، خون اور درندگی کا یہ کھیل بند ہو جانا چاہئے ؟ قبائلی علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی زندہ، متحرک، بیدار اور احساس معاشرے میں ہوتا تو چار سو ایک قیامت بپا ہو چکی ہوتی۔ غضب خدا کا، پاک فضائیہ کے طیارے اپنے ہی لوگوں پر بم برسا رہے ہیں؟ گن شب ہیلی کاپٹرز اپنی ہی بستیوں کو بھسم کر رہے ہیں؟ اپنی توپیں، اپنی بندوقیں اپنے ہی عوام کے پرخچے اڑا رہی ہیں۔

چار دن سے کہرام مچا ہے، کسی کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں۔ میڈیا وہاں جھانک نہیں سکتا، کامل تصدیق محال ہے کہ کتنے عسکریت پسند مارے گئے؟ کتنی عورتیں کتنے بچے اور کتنے عام لوگ اس قہر کی بھینٹ چڑھ گئے؟ کتنے سیکورٹی اہلکار اپنی جانیں گنوا بیٹھے؟ کسی کو درست تعداد کا علم نہیں البتہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک اعلیٰ افسر نے یہ بتایا ہے کہ منگل اوربدھ کی درمیانی شب جیٹ طیاروں نے وادی تیرہ کے چارعلاقوںنارائی بابا،شیندانہ،شیندرب اورتیندرب میں لشکرِاسلام،انصارالاسلام اورامربالمعروف شدت نامی تنظیموںکے بارہ ٹھکانوں پر بمباری کرکے۵۴شدت پسندوں کوہلاک کردیا ہے۔ان کے بارے میں یہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ وہ عید سے قبل پشاور میں خودکش حملوں کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس بمباری کے نتیجے میں چند مکانات پربھی بم گرے ہیں جس سے بے گناہ عورتیں اوربچے بھی شہید ہو گئے ہیں اورکچھ زخمی بچے لنڈی کوتل کے ہسپتالوں میں زیرِعلاج ہیں۔واضح رہے کہ رواں سال اپریل میں وادی


¿ تیرہ ہی میں جیٹ طیاروں کی بمباری کے باعث درجنوں شہری ہلاک ہوگئے تھے اوران شہری ہلاکتوں پربری فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے معذرت بھی کی تھی۔ مجھے ان ظالموں سے قطعاً کوئی ہمدردی نہیں جوخودکش حملوں میں بے گناہ افرادکواپنانشانہ بناتے ہیں لیکن اس بمباری میںان بے گناہ مسلمان بچوں اورعورتوںکانوحہ توکرنے دیں جن کاان ظالموں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

 مقامی اطلاعات کے مطابق ان ہلاک شدگان کی تعدادکوئی پچاس بتا رہا ہے کوئی اڑھائی سو اور کوئی اس سے زائد۔ سب کے سب پاکستانی تھے۔ سب کا رشتہ اس مٹی سے تھا۔ سب محمد عربی ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے تھے۔ وہ بھی جن کی وردیاں لہو میں تر ہو گئیں، وہ بھی جو ا یف-۶۱طیاروں کی بمباری سے ملبہ ہو جانے والے گھروں میں دفن ہو گئے، وہ بھی جنہیں عسکریت پسند قرار دے کر بھون ڈالا گیا۔ اس بے رحمی کے ساتھ تو چرند و پرند کا شکار کھیلنے کی بھی آزای نہیں۔ تحفظ یافتہ ایک چکوریا ایک ہرن کو بھی شکار کیا جائے تو مقدمہ بنتا، بازپرس ہوتی، سزا بھگتنا پڑتی ہے لیکن قبائلی علاقوں کو انسانی شکار گاہ بنالینے والوں کو کیا ہو گیا ہے ؟

 این آراوکے تحت اربوں ڈالر کی کرپشن معاف کروانے والی حکومت جو اس وقت خود توایوانِ صدر میں براجمان ہے اوراگر قوم کی حالتِ زار کودیکھنے کی ضرورت یامجبوری آن پڑے تو ہنگامی بنیادوں پر بلٹ پروف گاڑیوں کے ایک لاو


¿ لشکر میں فوٹوسیشن کے بعد جب محفوظ واپس لوٹتے ہیں توکئی بکروں کوصدقے کے نام پرقربان کیاجاتا ہے لیکن ان کے دلوں میںان افتاد گانِ خاک کیلئے رحم کی کوئی رمق نہیں؟ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ قبائلی علاقوں کے چاک گریباں، کی بخیہ گری کرے؟ کسی کواحساس نہیں کہ آگ اور بارود کا یہ مکروہ کھیل کتنی خوفناک تاریخ رقم کر رہا ہے اور اس کے کتنے ہولناک نتائج ہم بھگت رہے ہیں؟ کسی کو پاس و لحاظ نہیں کہ یہ طیارے، یہ میزائل، یہ بم، یہ گن شپ ہیلی کاپٹر ہم نے اس کام کیلئے نہیں خریدے تھے؟ کیا اقتدار کے ایوانوں میں بستی ساری کی ساری مخلوق پتھر ہو گئی ہے؟

انہیں کیوں مارا جا رہا ہے ؟ کیا وہ باغی ہیں؟ کیا انہوں نے غداری کا ارتکاب کیا ہے ؟ کیا وہ پاکستان سے الگ ہو جانے کی جدوجہد کرنے والے علیحدگی پسند ہیں؟ ہر گز نہیں اُن کا قصور یہ ہے کہ غیرت میں گندھی قبائلی روایات رکھتے ہیں؟ گستاخ نگاہوں سے گھورنے والوں کی آنکھیں نکال لینا ان کی تہذیب کا قرینہ ہے۔ مارنے والے کو مارنا ان کے پُرکھوں کی تعلیمات کی روح ہے۔ وہ غلامانہ اسلوب حیات سے واقف ہی نہیں۔ ان کے کشادہ دلوں میں محبت کا سمندر موجزن ہے ۔ دوستی کا ہاتھ بڑھانے والے پر وہ اپنی جان بھی، قربان کر دیتے ہیں لیکن گردن جھکانا ان کی لغت سے خارج ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیںقائداعظم محمد علی جناحؒ نے مخصوص ضمانتیں دی تھیں، جنہیں باورکرایا گیا تھا کہ یہاں نہ فوج ہو گی نہ چھاﺅنیاں بنیں گی لیکن نائن الیون کے بعد ایسی آندھی چلی کہ بابائے قوم کی ضمانتیں، قصرِ سفید میں بیٹھے شہنشاہِ عالم پناہ کے فرمان کے سامنے اپنی وقعت کھو بیٹھیں۔

 آج قبائلی علاقوں میں بڑھکتے آتشکدے کا محرک کیا ہے ؟ صرف اور صرف یہ کہ ہمارے حکمرانوں کو امریکیوں کے سامنے تاب گویائی نہیں۔ امریکہ کہتا ہے

 ” انہیں مارویہ طالبان کے حامی ہیں “ ہم انہیں مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ امریکہ کہتا ہے ” ان پر بم برساﺅ ورنہ خود آ رہا ہوں ۔ “ ہم ان پر بم برسانے لگتے ہیں۔ امریکہ کہتا ہے ” ابھی جوئے خوں سر سے نہیں گزری، تھوڑا اور زور لگاﺅ۔“ ہمارے فائٹر طیارے گرجتے ہوئے فضاﺅں میں بلند ہوتے اور بستیاں خاکستر کرنے لگتے ہیں ؟ کیا آزاد خود مختار قوموں کا یہ شیوہ ہوتا ہے ؟ کیا اپنے فیصلے خود کرنے اور ڈکٹیشن نہ لینے کے دعوے کرنے والے حکمران ایسے ہوا کرتے ہیں؟ کیا ہنستے بستے بازاروں اور لوگوں سے بھری مارکیٹوں پر بمباری کرتے ہوئے بھی کسی کا دل نہیں کانپتا؟

بے حسی کا عالم یہ ہے کہ پوری قوم سیلاب کی افتاد میں مبتلا ہے لیکن دوسری طرف اس خبرپر پورا پاکستان چپ ہے۔ معمول کے مطابق پُر تعیش افطاریاں ہو رہی ہیں، تقریریں فرمائی جا رہی ہیں، سیلاب زدگان کواپنے اپنے سیاسی جھنڈوں تلے امدادی سامان تقسیم کرتے ہوئے رہنماو


¿ں کی تصاویر میڈیاپردکھائی جارہی ہیں، سیاسی حریفوں کو شہ مات دی جا رہی ہے ، چالیں چلی جا رہی ہیں لیکن کسی کے سینے میں یہ خلش نہیں کہ وطن عزیز جل رہا ہے ۔ مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم ، اے این پی اور وابستگانِ دربار میں سے کوئی نہیں جو اس خونریزی پر دو آنسو ہی بہا دے۔ آج تک کسی نے حکمرانوں سے یہ نہیں پوچھاکہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قراردادپرعمل کرواناکس کی ذمی داری ہے؟کسی نے صدر کو متوجہ نہیں کیا کہ جس پارلیمنٹ کی بالادستی کانعرہ آپ لگاتے ہیں اسی پارلیمنٹ میں یہ بھی طے ہواتھا کہ ہم اپنے لوگوں کوپرائی جنگ کاترنوالہ


¿ نہیں بنائیں گے بلکہ اس کا کوئی پرامن حل تلاش کریں گے۔

سیلاب کے بعداب کرکٹ کے افسانے دہرائے جارہے ہیں۔ یہ وہ دن تھا جب قبائلی علاقوں پرایک دفعہ پھر بمباری کاسلسلہ شروع کردیا گیا ہے لیکن کسی ایک رکن اسمبلی کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ صدائے احتجاج بلند کرتا۔ طالبان کی خون آلود قبائیں لہرا کر ووٹ لینے اور اسلام کے فلک شگاف نعرے بلند کرنے والے مولانافضل الرحمان کوبھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)حقیقی اپوزیشن کے دعویدار اپنے زائچے بنانے میں مصروف ہیں۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پہ حملہ کیا اور دو ماہ بعد رمضان المبارک کا مہینہ آگیا تو فاسق کمانڈو پرویز مشرف نے بڑی لجاجت کے ساتھ قصرِ سفید کے فرعون جارج ڈبلیو بش سے اپیل کی ” یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے ،میں درخواست کروں گا کہ ایک ماہ کیلئے جنگ روک دی جائے ۔ “ بش نے یہ مطالبہ حقارت سے ٹھکرا کر اس فاسق کواس کی اوقات یاددلادی تھی۔

پاک فوج کے دومیجرجنرل رینک کے افسروں کی سربراہی میں تینوں افواج کے اعلیٰ آفیسرکا نورکنی وفد جوامریکی سنٹرل کمانڈکے سرکاری دورے پر گیاتھا،ڈیلاس کے ہوائی اڈے پراس وفدکوتفتیش کےلئے حراست میں لے لیاگیاجس کے جواب میں پاکستانی فوجی وفد نے امریکی سینٹ کام کادورہ منسوخ کردیا۔ماہِ رمضان کی یہ وہی رات تھی جب وادی تیرہ


¿ میں امریکا کوخوش کرنے کےلئے بمباری کی گئی تھی۔کیاپاکستان میں ایسا ہی سلوک امریکاکے ایسے ہی اعلیٰ سطح کے فوجی وفد سے کیا جاسکتا ہے؟کیایہ مکافاتِ عمل نہیں؟

اب ایک اورگہری سازش کے مطابق ایمپرس مارکیٹ کراچی میں حضرت علیؓ کے یوم ِ شہادت پراہل تشیع کے جلوس پر نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ اورکربلا شاہ گامے لاہورمیں تین بم دھماکوں میں اب تک ۵۳افرادکے مارے جانے اوردوسوسے زائدزخمیوںکی اطلاع سامنے آئی ہے۔ایک دفعہ پھر ان سازشوں کا رخ قبائلی علاقوں کی طرف موڑدیا جائے گاتاکہ قوم کی نظروں سے ان غیرملکی دشمن طاقتوںکادھیان ختم کیا جاسکے جن کوہمارے ہی ملک میںسفارتی تحفظ حاصل ہے تاکہ ہماری سیکورٹی فورسز کو مزید اپنے مقاصد کےلئے استعمال کرنے میں آسانی ہو۔کیایہ بھی مکافاتِ عمل نہیں؟

اب ماہِ رمضان کا آخری عشرہ چل رہا ہے جس شب وادی تیرہ


¿ کے کچے پکے گھروندوں پہ بمباری ہوئی وہ ان کے ہاں لیلتہ القدر کی تلاش جاری تھی ،وہ رات جب آسمانوں سے رحمتوں، برکتوں اور فضیلتوں کا نزول ہوتا ہے اور اس نورانی شب ہمارے طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹروں نے روزہ داروں کو بارود میں بھون ڈالا۔ سنا ہے اب وہاں کھانے پینے کی اشیا ختم ہو چکی ہیں۔ عید پر پردیسی دور دور سے اپنے گھروں کو آتے ہیں لیکن قبائلی علاقوں کی جنگ زدہ بستیوں کے لوگ ایک دفعہ پھراپنے بچوں کی انگلیاں تھامے گھر بار چھوڑ کر اجنبی سر زمینوں کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ کہاں کی لیلتہ القدر، کہاں کی عید، کہاں کا میل ملاپ؟

ےا میر ے رب!!!!!!

ذہن پر خوف کی بنیاد اٹھانے والو   ظلم کی فصل کو کھیتوں میں اگانے والو

گیت کے شہرکو بند وق سے ڈھانے والو   فکر کی راہ میں بارود بچھانے والو

کب تک اس شاخِ گلستاں کی رگیں ٹوٹیں گی   کونپلیں آج نہ پھوٹیںگی توکل پھوٹیں گی

 

 

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *