ڈاکٹر خواجہ اکرام
ایسو سی ایٹ پروفیسر
جواہر لعل نہر ویونیورسٹی ، نئی دہلی
الیکٹرونک میڈیا اور اردو
1990 کے بعد
گذشتہ د ودہائیوں میں زمانے کی ترقی کی رفتار کودیکھیں اور اِس رفتار کی سُرعت کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اِس کی رفتار نے صدیوں کی رفتار کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔گذشتہ زمانوں نے صدیوں کی محنت و ریاضت سے جو کچھ حاصل نہیں کیا وہ اِن دو دہائیوں میں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ علا الدین کے چراغ جیسے عجوبے ہماری آج کی ترقی کا معجزہ ہیں۔عمرو عیار کی زنبیل جیسی صلاحیت ہمارے کمپیوٹر، موبائل،سی ڈی، ڈی وی ڈی اور پین ڈرائیو میں موجود ہیں ۔ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ ہم 90کی دہائی کو معلومات کے انقلاب کی دہائی کہتے تھے ، زیادہ دن نہیں گذرے کہ اس ترقی نے دنیاکے حجم کو سمیٹ لیا اور ہم نے اسے گلوبل ویلج کہنا شروع کیا ۔ اور اِس عہد کو الیکٹرونک عہد سے موسوم کرنے لگے ، پھر جلد ہی اسے ڈیجٹل عہد کہا جانے لگا اور اب اسے سائبر ایج سے بھی موسوم کرنے لگے ہیں ۔ ترقی کی اس رفتار کو کس نام سے موسوم کریں یہ بھی اب شاید نئے لفظ کا متلاشی ہے کیونکہ آج کی ٹکنا لوجی نے روشنی اور ہوا کی رفتار کو بھی پیچھے چھوڑنے کا عزم کر لیا ہے۔ آج کے عہد کی ترقی کا یہ عالم ہے ہردن ایک نئے تجربے اورایجاد کادن ہوتا ہے۔
عہد حاضر میں سائنس اور ٹکنا لوجی کی ترقیا ت نے میڈیا کو بھی نئی پہنائیوں سے روشناس کرایا اور روایتی میڈیا کو الیکٹرونک میڈیا کے زرق برق لباس سے مزین کیا۔ابھی بہت عرصہ نہیں گزرا کہ ہم ہندستان میں ٹی وی کوایڈیٹ باکس کہا کرتے تھے اور اب یہ عالم ہے کہ ٹی وی پر دنیا جہان کی اتنی چیزیں موجود ہیں کہ آپ دیکھ بھی نہیں سکتے ۔بلکہ اپنی ترجیحات بھی طے کر لیں تب بھی معلومات کا اتنا بڑا ذخیرہ صرف اِس میڈیم میں موجود ہے کہ آپ سب تک پہنچ بھی نہیں سکتے۔اردو کے حوالے سے اس میڈیم میں اگرچہ بہت کام نہیں ہورہے ہیں ۔دوردرشن کا ڈی ڈی اردو اب بھی ای ٹی وی اردو سے پیچھے ہے ۔ سہار اکا عالمی اردو چینل لانچ تو ضرور ہو گیا ہے مگر ابھی تک کسی سروس پروائڈر نے اپنے یہاں جگہ نہیں دی ہے۔ ذی نیٹ ورک کا ذی سلام اردو چینل کے نام سے ضرور ہے مگر اس کے پروگرام اردو کے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پارہے ہیں۔
اسی طرح الیکڑونک میڈیامیں ریڈیو بھی ایک اہم میڈیم ہے جہاں پہلے سے زیادہ اور بہتر فری کوئینسز موجود ہیں ،جو بیک وقت تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات کی ترسیل کی خدمات بھی انجام دے رہی ہیں۔ حالانکہ ٹی وی کی ترقی کے بعد یہ کہا جانے لگا تھا کہ ریڈیو کا دور ختم ہونے کو ہے۔ لیکن یہ غلط ثابت ہوا اور ریڈیو نے زمانے کے رجحانات کے مد نظر نئی تبدیلیوں کو راہ دی اور کمیونٹی ریڈیو سے لے کر اسپیس ریڈیو تک کا سفر اس کی نئی ترقیات کا اشاریہ ہے۔
الیکٹرانک میڈیا میں ایک بڑا میڈیم کمپیوٹراور انٹرنیٹ ہے ۔ یہ ایسا میڈیم ہے جو گلوبل ویلج کے تصور کوبھی بدلنے کے در پے ہے ۔ کیونکہ گاؤں پھر بھی ایک وسعت اور عرضیت رکھتا ہے لیکن انٹرنیٹ تو ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے پوری دنیا سمٹ کر ایک چھوٹی اسکرین پر ہماری نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔گویا ویلج بھی اب ایک اسکرین میں تبدیل ہوگیا ہے۔اور کمپیوٹر کے اس اسکرین کا حال یہ ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی اضافی چیزیں بھی بہت چھوٹی چھوٹی ہیں۔ ایک چھوٹے سے پین ڈرائیو یا ہارڈ ڈسک میں آپ چاہیں تو ہزاروں کتابیں رکھ لیں اور چاہیں تو تفریحی فلمیں محفوظ کر لیں ۔ یہ آپ کے ذوق پر منحصر کرتا ہے کہ کس طرح کے ڈیجٹل مواد کورکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اتنی بات تو آپ بھی مانتے ہیں کہ ترقی کی یہ صورت اور یہ ایجاد عجوبہٴ روزگار ہے۔
الیکٹرانک میڈیا میں ریڈیو ، ٹی وی،کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ سبھی آتے ہیں ۔ یہ سب کے سب اپنی نوعیت کے اعتبار سے بحر ذخار ہیں ۔ جن کی گہرائی، وسعت اور ہمہ گیری کو ایک مقالے میں سمیٹنا مشکل ہے ۔کیونکہ ان دو دہائیوں میں ان ذرائع ترسیل و ابلاغ نے ترقی کے آسمانوں کو چھو لیا ہے۔ اردو کے کئی چینل آچکے ہیں ،کئی انٹر نیٹ ٹی وی بھی اردو کے دامن کو وسیع کر رہے ہیں ۔ آکاشوانی کے علاوہ ریڈیو کی کئی فری کوئنسیز اردو کے پروگرام پیش کر رہی ہیں ۔اس کے علاوہ ایف ایم ریڈیوز کی زبان اردو سے قریب ہورہی ہے۔ ان سب کا احاطہ مختصر وقت میں ممکن نہیں ۔ اسی لیے میں‘ الیکٹرانک میڈیا اور اردو ’کے حوالے سے اپنی بات کو محدود دائرے میں رکھتے ہوئے صرف کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے حوالے سے بات کروں گا۔
انٹرنیٹ آج کے دور کی ایک عظیم ، حیرت انگیز ، مفید اور کار آمدایجاد ہے، جس نے اگر ایک طرف فاصلے سمیٹ دئیے ہیں تو دوسری طرف معلومات کے انبار لگا دیئے ہیں۔گھر بیٹھے جس آسانی سے دنیا بھر کی من چاہی معلومات آپ کو حاصل کرنی ہے وہ سب ممکن ہے ۔ایسی معلومات بھی جس کے حصول کے لیے کئی خِطوں اور ملکوں کا سفر کرنا پڑتا تھا ،لیکن آج کا انسان اس معنی میں خوش نصیب ہے کہ اسے یہ سب چیزیں آسانی سے مل جا رہی ہیں۔اس لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انٹر نیٹ نے صدیوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا شرع کر دیا ہے ، دنیا بھر کی ڈیجٹل لائبریریز ، انسائیکلوپیڈیا ، اخبارات و رسائل ، ویب سائٹس ، بلاگز اورکتب سب کچھ یہاں موجود ہیں ۔ بلکہ اس سے بھی آسان تر صورت یہ نکل کر سامنے آئی ہے کہ بہت سی چیزیں آن لائن موجود ہیں ۔ آن لائن لرنگ سائٹس، آن لائن سیاحتی امداد،آن لائن بزنس گائیڈز کے علاوہ صحت و تندرستی کی رہنمائی سے متعلق ویب سائٹ اور آن لائن شاپنگ ، لاتعداد مارکیٹنگ رابطے ، طلبا و طالبات کو کسی بھی امتحان کا رزلٹ معلوم کرنا ہو ، کسی بھی قسم کا داخلہ فارم چاہیے یا پھر بیرون ممالک تعلیم و داخلہ ، یا پھر دنیا میں موجود مفت تعلیم کیلئے آن لائن روابط آپ کی سہولیات کے لیے موجود ہیں۔بہت سے ایسے فری سائٹس بھی موجود ہیں جن کے ذریعے رو برو باتیں کر سکتے ہیں۔گویا انٹر نیٹ کی مدد سے کمپیوٹر کی اسکرین آج کے دور کا جیتا جاگتا جادو ہے یا یہ کہیں کہ ایک ایسا روشن کمرہ ہے جہاں سے آپ ہر طرح کاعلم وفن کی روشنی حاصل کر سکتے ہیں ۔
انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی ہمہ جہت افادیت کے پیش نظر اگر اردو ، انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی طرف دیکھتے ہیں تو انٹرنیٹ اپنی تمام وسعتوں کے باوجود اردو دنیا کے لئے آج بھی یہ ایک تنگ وتاریک گوشے کی مانند ہے۔انٹرنیٹ پر جہاں دنیا کے تمام علوم سے متعلق موادبڑی مقدار اور اعلی ٰ معیار میں موجود ہیں وہاں اردو زبان و ادب کے حوالے سے ویب سائٹس کی تعداد اور معیاربہت حوصلہ افزا نہیں ہیں ۔یہ لمحہ ٴ فکریہ ہے ! کیونکہ تیزر رفتار ترقی کے اس عہد میں اگر ہم نے اپنے ادب اور اپنی زبان کو اس نئی ٹکنالوجی سے ہم آہنگ نہیں کیا تو ترقی کے اس دور میں ہماری زبان ، ادب اور تہذیب سب پیچھے رہ جائیں گی۔کیونکہ عہد حاضر میں ترقی اورتنزلی اسی سے منسوب ہے ۔
جدید تکنالوجی بالخصوص کمپیوٹر اور انڑنیٹ کی ترقی نے ابتدا میں یہ تاثر دیا کہ اس سے زبان وادب کے قارئین کم ہوں گے۔ اس سے عالمی رابطے اور کمپیوٹر کی زبان کے علاوہ دیگر زبانیں اپنے دائرے میں سمٹتی چلی جائیں گی۔مگر شکر ہے کہ ایسا نہ ہوابلکہ سائبر اسپیس نے زبان وادب کی ترقی کے نئے امکانات کو روشن کیا اور تیز رفتار ترقی کی راہیں ہموار کیں ۔آج کمپیوٹر کی زبان نہ صرف انگلش ہے بلکہ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے پاس بھی یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ کمپیوٹر اور سائبر کی زبان بن سکتی ہے۔جن ممالک نے انگریزی کے بجائے اپنی زبان کو کمپیوٹر سے ہم آہنگ کیا ہے ، وہ زبانین تمام تر خدشات کو غلط ٹھہراتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں اور جو زبانیں اب تک اس سے ہم آہنگ نہیں ہوسکیں وہ مقابلتاًپیچھے ہیں۔اس لیے ضرورت ہے کہ اپنی تہذیب و ثقافت کی بقا کے لیے جدید تکنالوجی سے زبان کو ہم آہنگ کیاجائے۔
یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری اردوزبان بھی اس لائق ہوچکی ہے کہ وہ جدید تکنالوجی سے ہم آہنگ ہوسکے۔اس نے بھی خود کو کمپیوٹر کی زبان بنا لیا ہے ۔ اب آپ کو انٹر نیٹ اور کمپیوٹر کے استعما ل کے لیے کسی اور زبان کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ اپنے پورے کمپیوٹر کو اردو میں منتقل کر سکتے ہیں ، ای میل ، چیٹنگ، براؤزنگ سب اردو زبان میں کر سکتے ہیں ۔ اردو یونی کوڈ کی ایجاد نے یہ ممکن کر دیکھایا ہے ۔اب آپ گوگل یا کسی بھی سرچ انجن میں جاکر اردو میں ٹائپ کریں اور اردو میں جوابات حاصل کریں۔
جی ہاں ! اب یہ سب ممکن ہے لیکن مجھے اندازہ ہے کہ ابھی بھی بہت سے لوگ ہیں جو اس کی واقفیت نہیں رکھتے ۔اسی لیے ارود میں ابھی اس کا رواج بہت کم ہے حالانکہ تمامتر سہولیات موجود ہیں ۔عدم واقفیت کے سبب ہم اپنی زبان میں انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا استعمال نہیں کر پارہے ہیں ۔حالانکہ اس کے لیے کسی اضافی سوفٹ ویئرکی بھی ضرورت نہیں تمام چیزیں انٹر نیٹ پر مفت میں دستیاب ہیں۔صرف چند گھنٹوں میں کمپیوٹر پر اردو کا استعمال سیکھ سکتے ہیں ۔اس لیے میرا خیال ہے کہ اردو کے ادارے اس سمت میں بیداری مہم چلائیں تو سائبر اسپیس میں ‘اردو’ معیاری جگہ بنا لے گی۔
جہاں تک اردو اور انٹرنیٹ کا سوال ہے تو اس حوالے سے میرا تفصیلی مضمون “ اردو تدریس اور سائبر اسپیس”ہے جودنیاکے کئی اہم رسالوں میں شائع ہوچکا ہے اور میرے ویب سائٹwww.khwajaekramonlione.com پر بھی موجود ہے ۔ جس میں اردو کے اہم سائٹس کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ “ اردو تحقیق اور سائبر اسپیس” “ کمپیوٹر میں اردو کا استعمال ”“ اکیسویں صدی میں الیکٹرانک میڈیا کے تقاضے اور اردو زبان” وغیرہ مضامین ہیں ، جن میں ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔یہاں میں ان سے الگ کچھ دیگر علمی اور ادبی ویب سائٹس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
انٹرنیٹ پر اردو میں ڈیجٹل لائبریری اور کئی اہم ادبی ، تہذیبی ، ثقافتی اور تعلیمی سائٹس موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ آج کی اردو صحافت کو انٹرنیٹ کے استعمال نے کافی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔اردو کے بیشتر اخبارات انٹر نیٹ پر موجود ہیں ۔ کئی اخبارات تو ابھی بھی امیج فائل کی شکل میں انٹر نیٹ پر شائع ہو رہے ہیں ۔ مگر زیادہ تر اخبارات یونی کوڈ میں شائع ہورہے ہیں ۔ ان کے مواد بھی طبع شدہ ( کاغذی اخبار ) سے الگ ہوتے ہیں ۔ ایسے اخبار زیادہ اَپ ڈیٹ ہوتے ہیں کیونکہ کسی واقعے یا حادثے یا اطلاع کو وہ فوراً شائع کرسکتے ہیں۔ اسی لیے انٹرنیٹ پر موجود اخبارات کو لوگ زیادہ پڑھتے ہیں کیونکہ یہاں تازہ ترین حالات معلوم ہوتے رہتے ہیں۔
کمپیوٹر اورانٹرنیٹ فاصلاتی تعلیم و تدریس کے سلسلے میں بھی کافی معاون ثابت ہو رہا ہے ۔ اسباق کی تیاری ، طلبہ تک اس کی رسائی اور طلبہ سے اس کے رد عمل کو اس تکنالوجی کی مدد سے جانا جاسکتاہے اوراُن کی ضرورت اور تقاضے کے مد نظر تدریسی مواد تیار کیا جاسکتا ہے ۔ اسی تکنالوجی کے سبب یہ بھی ممکن ہو سکا ہے کہ دور بیٹھے طلبہ سے براہ راست مخاطب ہو سکتے ہیں اور ان کے سوالات اور تاثرات کو بھی جان سکتے ہیں۔مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدید تکنالوجی نے جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں اس نے زبان و ثقافت کے حوالے سے بھی نئے امکانات کو روشن کیا ہے اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو بھی جدید تکنالوجی سے پورے طور پر ہم آہنگ ہے۔
زبان کی ترویج وترقی کے لیے سائبر اسپیس کے استعمال کی جہاں تک بات ہے تو یہاں وسائل بے شمار ہیں اور طریقے بھی ہزار ہیں ۔آڈیو ، ویڈیو اور ڈیجیٹل تکنیک کی مدد سے ہم ان مسائل پر بھی قابو پاسکتے۔ اس وسیلے کو اردو ادب اور زبان دونوں حوالوں سے استعمال کرنے کی بہت زیادہ گنجائشیں موجود ہیں ۔ادب کے حوالے سے جو کام اب تک کیے گئے ہیں یا جو کچھ سائبر اسپیس میں موجود ہیں وہ تشفی بخش ضرور ہیں مگر یہ ناکافی ہیں اس میں مزید وسعت کی ضرورت ہے۔