Home / Socio-political / امام حرم کے پیچھے نماز کے لیے اشتہار:سنت یا بدعت؟

امام حرم کے پیچھے نماز کے لیے اشتہار:سنت یا بدعت؟

خوشتر نورانی

2/3مارچ 2012ء کو علمائے اہل حدیث کی طرف سے دہلی میں رام لیلا میدان میں ”عدالة الصحابہ کانفرنس“ہورہی ہے-صحابہ کی عظمت پر کہاں حملے ہورہے ہیں،جس کے دفاع کے لیے علمائے اہل حدیث کمربستہ ہیں؟یہ فرائض کن اشاروں پر،کن مقاصد کے لیے انجام دیے جارہے ہیں ،یہ تو بہتر وہی جانتے ہیں،ہمیں ان سے شکوہ کیا ،سوائے اس کے کہ ہم بشمول ان کے معاصر تمام مسالک سے یہی امید رکھتے ہیں کہ دین اور مسلک کی اشاعت کے نام پر اگر شیرازہٴ امت بکھر رہا ہو اور مسلمانوں کی اجتماعیت ٹوٹ رہی ہو تو ایسے موقعے پر ہر شخص اورہر جماعت کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے-

”عدالة الصحابہ کانفرنس“کے ایک مہینے پہلے سے اشتہارات اخبارات میں چھپ رہے ہیں اور خاص بات یہ کہ ان اشتہارات میں امام کعبہ شیخ محمد الشریم کی آمد کی خبر اور ان کے پیچھے رام لیلا میدان میں نماز کی دعوت زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے-اشتہارات میں یہ بات بھی لکھی گئی ہے کہ لوگ اپنے ساتھ مصلے لے کر آئیں -ابھی کچھ مہینوں پہلے امام کعبہ شیخ محمد السدیس کی آمد پر بھی اسی طرح کی ہنگامہ آرائی کی گئی تھی-ایک عام مسلمان مذہب کے نام پر ہونے والے اس پروپیگنڈے سے مرعوب ہوجاتا ہے-وہ اپنے کاروبار کو چھوڑ کر امام حرم کے پیچھے نماز کے لیے ایسے بھاگتا ہے جیسے رام لیلا میدان میں آسمان سے کوئی فرشتہ اتر پڑا ہو اوراس کے پیچھے نمازپڑھ کراپنے لیے جنت کے ٹکٹ کی بکنگ کرانی ہو یا جیسے امام کعبہ نہیں آئے رام لیلا میدان میں کعبہ اتر آیا ہو،جب کہ اہل علم اس تماشے پر حیران و پریشان ہیں کہ یہ علمائے اہل حدیث ،جنھوں نے ہمیشہ بدعت کے خلاف ،حسنہ اور سئیہ کی تفریق کے بغیر جنگ لڑی ہے،یہ کون سی بدعت وضع کرلی ہے؟اس ہنگامہ آرائی کا سوائے اس کے اور کیا مقصد ہوسکتا ہے کہ علمائے اہل حدیث نے اپنی عددی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کانفرنس کی کامیابی کے لیے امام حرم کے پیچھے نماز کے نام پر عوام کی بھیڑ جمع کرنے کی خوب صورت تدبیر نکال رکھی ہے-مذہب اور دین کے نام پر فقیہان حرم نے عوام کے جذبات سے پہلے بھی کھیلا ہے،یہ کوئی نیا سانحہ نہیں ہے،اگر اس میں کچھ نیا ہے تو واقعے کی نوعیت نئی ہے جو کئی سوالات جنم دیتی ہے،مثلاً:

1-اجتماعی نماز کے تین بڑے مواقع جمعہ اور عیدین کے علاوہ اس چوتھے موقعے کہ جس میں امام کعبہ جہاں کہیں جائیں، ان کے پیچھے نماز کے لیے دعوت عام دی جائے ،کیا اس کی کوئی نظیر کتاب و سنت اور تاریخ اسلام میں موجود ہے؟

2-حرمین شریفین میں نماز کے ثواب بڑھ جانے کی بات احادیث سے ثابت ہے،کیا کوئی ایسی حدیث بھی ہے جس میں ایسی کوئی بشارت ہو کہ اگر امام حرم کے پیچھے حرم کے باہر بھی نماز پڑھی جائے تو ثواب میں اضافہ ہوگا؟

3-حدیث شد رحال جس میں اس بات کا حکم ہے کہ صرف تین مسجدوں کا سفر کیا جاسکتا ہے،مسجد حرم،مسجد نبوی اور مسجد القدس،شیخ ابن تیمیہ اور ان کے ہم نواوٴں ،جن میں علمائے اہل حدیث بھی شامل ہیں ،نے اس حدیث سے اس مسئلے کا بھی استنباط کیا ہے کہ حتی کہ روضہٴ رسول ﷺکی زیارت کے مقصد سے سفر کرنا بھی حرام ہے-ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کیا کوئی ایسی حدیث بھی ہے جس سے صراحت یا اشارے سے یہ بات ثابت ہو کہ رام لیلا میدان میں اگر امام حرم نماز پڑھائیں تو کثرت ثواب کی نیت کے ساتھ رام لیلا میدان کا سفر کرنا سنت،مستحب یا جائز ہو؟

4-بدعت اور سنت کا معیار کیا ہے؟علمائے اہل حدیث نے کانفرنس کی کامیابی کے لیے عوامی جذبات کا استحصال کرکے بھیڑ اکٹھی کرنے کاجو خوب صورت طریقہ اپنایا ہے ،یہ اس معیار کے مطابق سنت ہے یا بدعت؟

.ہمیں اس حوالے سے ہر طبقے کے علما،طلبہ،اہل علم و دانش اور عام قارئین کی آراء کا انتظار رہے گا-

****

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

9 comments

  1. khushtar noorani sb ne achhe sawaalaat othaye hain jamiat ahl e hadis ki janib se jawab ka intezar hamen bhi rahe ga

  2. صحابہ کی عظمت پر کہاں حملے ہورہے ہیں،جس کے دفاع کے لیے علمائے اہل حدیث کمربستہ ہیں؟
    حضرت لگتا ہے کہ آپ مریخ پر رہتے ہیں۔

  3. ان کے اپنے ہی استدلال سے یہ اجتماع قطعی بدعت قرار پاتا ہے، تاہم بدعت ہمیشہ
    دوسروں کے لیے ہوتی ہے، اپنے لیے نہیں، یہی لوگ یہ فتوی دیتے ہیں کہ مسجد میں قبر
    بنانی جائز نہیں، لیکن جب بات مسجد نبوی میں موجود قبروں کی کی جاتی ہے تو یہ لوگ
    بغلیں جھانکنا شروع کردیتے ہیں.. الغرض:

    مذہبی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

    روح اقبال سے معذرت کے ساتھ.

  4. بطور اطلاع امام حرم کعبہ کا ذکر معيوب نہيں ہے البتہ اسے زيادہ ثواب نہيں قرار دينا چاہيئے
    ناموں کی تصحيح کر ليجيئ
    الشيخ سعود الشريم
    الشيخ عبدالرحمٰن السديس

  5. یہ خاکسار بھی افتخار صاحب کی بات سے اتفاق کرے گا کہ بطور اطلاع ایسا کرنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے ہاں البتہ اگر یہ لوگ اس سلسلے میں ثواب وغیرہ کی بشارت دیتے ہیں تو یقیناً یہ بات بدعت کہلاتی۔

    رہی بات ان تین مساجد کے سفر کی اجازت کی تو اس میں بھی اصل بات کا آپ نے ذکر نہیں کیا اور وہ یہ کہ ثواب کی نیت سے ان تین مساجد کے علاوہ کہیں اور کا سفر کرنا درست نہیں۔

    آپ کے طرزِ تحریر سے اندازہ ہوتا کہ آپ کو اصل معاملے سے زیادہ اہلِ معاملہ سے اختلاف ہے لیکن بہر کیف سب کی طرح آپ کو بھی اختلاف کا حق حاصل ہے اور اس اختلاف کے اظہار میں آپ آزاد ہیں۔

  6. Is masle par hamare ulama e ahle sunnat ko khas taur par tawajjo dena chaiye.

  7. واقعی یہ بات قابل غور ہے کہ اہل حدیث طبقے کے لوگ اپنے ہر اجتماعات میں عالم اسلام خصوصا” مکہ اور مدینہ کے اعلی شخصیات کو نماز کی امامت کے لئے دعوت دیتے ہیں اور عوام کو اسی بنیاد پر جمع کرتے ہیں۔۔۔ اور ہم جیسے لوگ ۔۔۔۔۔ ان اعلی شخصیات کی اقتداءمیں نماز ادا کرنے کی جوش میں چلے جاتے ہیں ۔۔۔

    باقی ۔ ۔ سنت یا بدعت ۔ ۔ ۔ یہ تو ہم جیسے جاہل نہیں بتا سکتے ۔ ۔ ۔

    جزاک اللہ

  8. کسی نے درج زیل ویب سائیٹ کا لنک فراہم کیا تھا جہاں کئی سوالوں کے جوابات تاریخی حوالوں سے موجود ہیں ۔ کون کیا ہے اور کیوں کر رہا ہے ۔

    http://www.correctislamicfaith.com/foundersofsalafism.htm

  9. عبد الملک

    امام الشریم جس کانفرنس میں شرکت کی خاطر تشریف لائے ہیں اس کا پورا عنوان ہے عدالة الصحابہ:صحابہ کرام اخلاق وکردار کے حقیقی معیار اور انسانیت کے سچے معمار۔ صحابہ کے عظیم اخلاق اور بلند مرتبہ کو بیان کرنے کے لئے اور ان کے پیغام امن وانسانیت کو عام کرنے کے لئے کسی خاص موقع کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانے کے لئے کسی بھی وقت اور کسی بھی شخص یا تنظیم کے ذریعہ اٹھایا گیا کوئی بھی قدم خوش آئند ہے۔رہی بات امام صاحب کع پیچھے نماز ادا کرنے کے ثواب کی، تو کسی بھی تنظیم یا ادرہ کی جانب سے یہ دعوی نہیں کیا گیا۔ جہاں جہاں امام الشریم کے نماز پڑھانے کا پروگرام وہاں پر ان کا عوام سے خطاب بھی ہے جس کے لئے دعوت دینے میں کوئی قباحت نہیں۔ حقیقت کے آئینہ میں دیکھیں تو مقالہ نگار کے بارے میں اوپر کیا گیا تبصرہ “آپ کے طرزِ تحریر سے اندازہ ہوتا کہ آپ کو اصل معاملے سے زیادہ اہلِ معاملہ سے اختلاف ہے لیکن بہر کیف سب کی طرح آپ کو بھی اختلاف کا حق حاصل ہے اور اس اختلاف کے اظہار میں آپ آزاد ہیں۔” مبنی بر حق لگتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *