غلام مصطفی رضوی، مالیگاوٴں
gmrazvi92@gmail.com
عالم ربانی کے بارے میں امام ربانی مجدد الف ثانی تحریر فرماتے ہیں :” وہ علما جو دُنیا سے بے رغبت اور جاہ و ریاست اور مال کی محبت سے آزاد ہیں وہی علماے آخرت اور انبیاے کرام علیہم الصلوٰة و التسلیمات کے وارث ہیں ۔ یہی لوگ بہترین مخلوق ہیں ۔ کل قیامت کے دن ان کی سیاہی کو اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے خون کے ساتھ وزن کریں گے اور ان کی سیاہی کا پلہ بھاری ہو گا اور نوم العلماء عبادة یعنی علما کا سونا بھی عبادت ہے انھیں کی شان میں وارد ہے ۔ یہی وہ علماہیں کہ آخرت کا جمال ان کی نظروں میں اچھا لگتا ہے ۔“
امام ربانی کا یہ ارشاد مولانا احمد رضا محدث بریلوی (ولادت ۱۲۷۲ھ/ ۱۸۵۶ ء ، وصال ۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ ء ) کی ذات پر صادق آتا ہے ۔ آپ عالم ربانی تھے ، مصلح و مدبر اور وسیع فہم و فراست کے مالک بھی ، مولانا احمد رضا قدس سرہ نے دین کی صداقت و حقانیت کو واضح کیااور علوم و فنون کی وہ خدمت انجام دی کہ ماضی کی جلیل القدر علمی شخصیات کی یاد تازہ کر دی ، دلوں میں اللہ و رسول جل و علا و صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان کا نقش جمایا ۔ شعا ر شرکیہ کا رد بلیغ فرمایا جسے مسلم معاشرے میں بڑی شد و مد کے ساتھ رائج و نافذ کیا جارہا تھا ۔ ہر شعبہ ہاے حیات میں آپ نے مسلمانوں کی رہ نمائی فرمائی ۔ دینی و مذہبی شعبے میں ، اقتصادی و معاشی شعبے میں ، عمرانی و سیاسی شعبے میں ، معاشرتی و اصلاحی شعبے میں اور شعبہ ہاے علم و فن میں بھی ۔ آپ نے سائنس و فلسفہ کی اصلاح کی، سیاسی نظریات کی اصلاح کی ، باطل نظریات کی بیخ کنی کی ۔ غرض یہ کہ ہر جہت میں ممتاز اور ہر شعبے میں یکتاے روزگار تھے۔ آپ کی حیات و خدمات اور علم و فن کے مختلف گوشوں اور جہتوں پر ریسرچ و تحقیق کی جارہی ہے اور یہ سچ ہی ہے بقول پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد : ” امام احمد رضا ایک بحر ذخار ہیں اس بحر کے کنارے تک پہنچنا بھی سعادت ہے ۔“ وہ ایسے بندہٴ مومن کہ ع
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
آپ کی ہمہ جہت و ہمہ صفت شخصیت کے بارے میں قاضی عبدالدائم دائم # (خانقاہ نقش بندیہ مجددیہ ہری پور پاکستان ) لکھتے ہیں :
اعلیٰ حضرت کی شخصیت اتنی ہمہ جہت ہے اور ہر جہت اتنی ہمہ گیر ہے کہ اگر کوئی محقق ان کی ایک ہی جہت پر شب و روز تحقیق کرتا رہے تو اس کی عمر تمام ہوجائے گی ، مگر وہ جہت ہنوز تشنہٴ تحقیق رہے گی ، متنبی کے اِس شعر کا حقیقی مصداق اعلیٰ حضرت ہی کی ذات گرامی ہو سکتی ہے ۔
مضت الدھور وما اتین بمثلہ
ولقداتی فعجزن عن نظر ائہ
مولانا امام احمد رضا محدث بریلوی علوم و فنون کی جملہ شاخوں میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور اصل تعلق علم دین ہی سے تھا ۔ فتویٰ نویسی میں ریاضی کے بعض قواعد کی ضرورت ہوتی ہے ، اِس لیے چار قاعدے اثناے درس سیکھے :
(۱) جمع (۲) تفریق (۳) ضرب (۴) تقسیم
عنایت باری عز و جل و عطاے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے علم و فن کے بہت سے ضابطے اور قاعدے خود ایجاد فرمائے ۔ نیز علوم عقلیہ کی اصلاح میں متعدد رسائل تصنیف فرمائے ۔ زمانہٴ طالب علمی میں اقلیدس کی شکل اوّل کی سمت توجہ کی تو والد ماجد علامہ نقی علی خاں برکاتی بریلوی ( م ۱۲۹۷ھ/ ۱۸۸۰ء ) نے علوم دینیہ کی سمت متوجہ رہنے کی تلقین فرمائی ، امام احمد رضا قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں :
” اللہ عز و جل اپنے مقبول بندوں کے ارشاد میں برکتیں رکھتا ، حسب ارشاد سامی بعونہ تعالیٰ فقیر نے حساب و جبر و مقابلہ ولوگارثم و علم مربعات و علم مثلث کروی و علم ہیئت قدیمہ و ہیأت جدیدہ و زیجات وارثما طیقی وغیر ہا میں تصنیفاتِ فائقہ و تحریرات رائقہ لکھیں اور صدہا قواعد و ضوابط خود ایجاد کیے ۔“
علما و محققین نے علوم رضا پر تحقیق کر کے متعدد فہرستیں ترتیب دی ہیں جن میں بعض کے شما ر اس طرح ہیں :
(۱) خلیفہٴ امام احمد رضا مولانا محمود جان جودھ پوری ( م ۱۳۷۰ھ / ۱۹۵۰ ء ) نے اپنی تصنیف ” ذکر رضا ۱۹۲۱ء “
(منظوم ) کے حاشیہ میں ۶۰/ علوم کی فہرست دی ۔ اس کی اشاعت اوّل۱۹۲۱ ء میں آگرہ سے ہوئی ۔
(۲) پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری نے اپنے مقالہ ” قرآن سائنس اور امام احمد رضا “ میں۷۰ / کے قریب علوم و فنون کی تعداد تحریر کی ہے۔
(۳) سیّد ریاست علی قادری نے اپنے ایک مضمون ” امام احمد رضا ایک عظیم سائنس داں “ مشمولہ معارف رضا سال نامہ ۱۹۸۹ء میں ۱۰۵ / علوم و فنون کی فہرست درج کی ۔
(۴) ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی ( ایم۔اے ،پی ۔ ایچ ۔ڈی ) نے اپنی تالیف ” اعلیٰ حضرت ، اعلیٰ حضرت کیوں ؟ “ میں جدید ترتیب کے ساتھ ۷۰/ علوم و فنون کی فہرست دی ہے ۔
(۵) مولانا محمد عبدالمبین نعمانی قادری نے ” تصانیف امام احمد رضا “ میں امام احمد رضا کے رسائل و حواشی اور کتب کی فہرست علوم و فنون کے لحاظ سے مرتب کی ہے ۔ ان علوم و فنون کی تعداد ۱ ۵/ بنتی ہے ۔مولانا احمد رضا قدس سرہ نے حرمین مقدس کے مشاہیر علماکے نام جو اسناد و اجازات جاری فرمائے بہ نام ” الاجازات المتینة لعلماء بکةو المدینة“ اس میں اپنے ۵۵/علوم و فنون کا ذکر فرمایا ہے ۔ ان کی فہرست ملاحظہ فرمائیں:
(۱) علم قرآن (۲) علم حدیث (۳) اصولِ حدیث (۴) فقہ حنفی
(۵) کتب فقہ مذاہب اربعہ (۶) اصولِ فقہ (۷) جدل مہذب
(۸) علم تفسیر (۹) علم العقایدوالکلام (۱۰) علم نحو (۱۱) علم صرف
(۱۲) علم معانی (۱۳) علم بیان (۱۴) علم بدیع (۱۵) علم منطق
(۱۶) علم مناظرہ (۱۷) علم فلسفہ (۱۸) علم تکسیر (۱۹) علم ہیئت
(۲۰) علم حساب (۲۱) علم ہندسہ (۲۲) قراء ت (۲۳) تجوید
(۲۴) تصوف (۲۵) سلوک (۲۶) اخلاق (۲۷) اسماء الرجال
(۲۸) سیر (۲۹) تواریخ (۳۰) لغت (۳۱) ادب مع جملہ فنون
(۳۲) ارثما طیقی (۳۳) جبر و مقابلہ (۳۴) حساب ستینی (۳۵) لوغارثمات
(۳۶) علم التوقیت (۳۷) مناظر و مرایا (۳۸) علم الاکر (۳۹) زیجات
(۴۰) مثلث کروی (۴۱) مثلث مسطح (۴۲) ہیأة جدیدہ (۴۳) مربعات
(۴۴) حصہ جفر (۴۵) حصہ زائچہ (۴۶) نظم عربی (۴۷) نظم فارسی
(۴۸) نظم ہندی (۴۹) نثر عربی (۵۰) نثر فارسی (۵۱) نثر ہندی
(۵۲) خط نسخ (۵۳)خط نستعلیق (۵۴) تلاوت مع التجوید (۵۵) علم الفرائض
علوم و فنون ترتیب و تدوین کے مرحلے سے گزرتے رہتے ہیں ، یہ ایک ایسا شجر بار آور ہے کہ شاخیں پھوٹنے کا عمل برابر جاری رہتا ہے ، علم و فن کی نئی نئی فروعات متعارف ہوتی رہتی ہیں ۔ اِس رو سے دور جدید کے مطابق مولانااحمد رضا قدس سرہ کے علوم و فنون کا شمار کیا جائے تو۵۵/ سے زیادہ ہی بنتے ہیں ۔ ایسے بعض علوم درج کیے جاتے ہیں ۔ یوں ہی ان میں آپ کی تصانیف (مطبوعہ و غیر مطبوعہ ) بھی ملتی ہیں :
(۱) ما بعد الطبیعیات (۲) لسانیات (۳) فونیات (۴) نفسیات
(۵) عمرانیات (۶) سیاسیات (۷) معاشیات (۸) ایجوکیشن
(۹) علم تجارت (۱۰) بنکاری (۱۱) ارضیات (۱۲) حیاتیات
(۱۳) نباتات (۱۴) طب و حکمت (۱۵) شماریات (۱۶) حرکیات
(۱۷) سکونیات (۱۸) حجریات (۱۹) بین الاقوامی امور (۲۰) اشعیات
(۲۱) موسمیات
مذکورہ ۲۱/ علوم عقلیہ شمار کر لیے جائیں تو ۷۶/ علوم و فنون بنتے ہیں ۔راقم نے اس مضمون میں صرف علوم رضا کی وہ فہرست پیش کی جن موضوعات کے حوالے سے تحقیقات رضا# راقم کے اپنے کتب خانے میں موجود ہیں۔ یعنی ذکر کردہ علوم کی فہرست حقایق کے اجالے میں تیار کی گئی ہے۔ضرورت ہے کہ ارباب تحقیق امام احمد رضا کی علمی و فنی خدمات پر مطالعاتی و تحقیقی کام انجام دے کر عالم اسلام کے اس عبقری کا صحیح تعارف کرائیں تاکہ حوصلہ افزا فکر آگے بڑھے اور مثبت اقدار کی اشاعت میں مدد ملے۔
###