قصرسفیدکے سابقہ فرعون بش نے بڑی معصومیت اورسادگی سے پوچھاکہ امریکاسے مسلمان نجانے کیوںنفرت کرتے ہیں؟نائن الیون کے بعداپنے اتحادیوں کی مددسے انہوں نے صلیبی جنگ کا جوطبل بجایاوہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔صلیبی جنگ کی آڑمیں عراق اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔لاکھوں بے گناہ مسلمانوںکوتہہ تیغ کردیاگیااوریہ سلسلہ ابھی تھمانہیںکہ آزادیٔ اظہارکے نام پر اب اسلامی شعائراورمسلمانوںکی مقدس ترین ہستی کوبرملا نشانہ بنانے کی مہم شروع کردی گئی ہے۔کبھی گوانتاناکے عقوبت خانے میں قرآن کی بے حرمتی،کبھی رسول اکرم ﷺکے کارٹون بناکر،کبھی قرآن کریم کو نذرآتش کرکے،کبھی مسلمان عورتوںکے حجاب پر پابندی کا قانون نافذکرکے اوراب رسول اکرمﷺکے بارے میںگستاخانہ فلم بناکر مسلمانوںکی غیرت کوللکارہ جارہاہے۔دریدہ دہن کا دہن بگڑے گاتوخبرتوضرورلی جائے گی اورخبرلینے کاسلسلہ پوری دنیامیں تھمنے میںنہیںآرہااوریہ تواس وقت تک جاری رہے گاجب تک اس دھرتی پرایک بھی دریدہ دہن کاوجودنامسعودباقی ہے مگراس حوالے سے دواہم سوالات نے پھرسراٹھایاہے کہ
(۱)امریکاکے خلاف نفرت کیوں؟اور(۲)کیانام نہاد،مہذب ومتمدن ملکوںمیںاس طرح کااظہارآزادیٔ تہذیب وتمدن کے مطابق قرارپاسکتاہے؟
نیویارک میںورلڈٹریڈسنٹراورپینٹاگون پرحملوںکی گیارہویںسالگرہ کاہفتہ یادگارہفتہ تھا۔۲۰۰۴ء اور۲۸۰۰۸ء میںہونے والے صدارتی انتخابات پرالقاعدہ اوراس کے جوابی حملے کاخوف چھایا ہوا تھا اب یہ رفتہ رفتہ معدوم ہوگیاتھااوریہ اب ایک غیراہم مسئلہ بن چکاتھا۔بیہودہ فلم کویوٹیوب پرچلانے کی گھٹیاحرکت نے صورت حال تبدیل کرکے رکھ دی ، اس کے ردعمل میں پرتشددواقعات رونماہونے لگے اورنفرت کانشانہ امریکاہی بنا،کیوں؟یہ ایساسوال نہیں ہے جس کے جواب کیلئے کسی راکٹ سائنس کے علم کی ضرورت ہو۔امریکا کی سرزمین پراشتعال اوردہشت کاسامان ہوگاتوذمہ داریقینا امریکا ہی قرارپائے گااورپھرامریکاکے کرتوت ایک دریدہ دہن کی ’’پرورش‘‘تک ہی محدودنہیں،دنیاکواستعماری مقاصدکی تکمیل کیلئے دہشتگردی کے جہنم میں دھکیلنے ولاامریکاہی توہے، توکیااس سے کوئی محبت کرے گا؟
کوئی یقین سے نہیںکہہ سکتاکہ اس فلم کی تیاری کے پیچھے کون ہے؟کیساخبیث دماغ نبی اکرمﷺ کی تحقیرکی جرأت کرے گا؟یہ نفرت انگیزفلم تمام مسلمانوںکی توہین ہے۔ مسلمانوں نے امریکی سفارتی مشنوں اورسفارت خانوںپرحملے کرکے اپنے دل کی بھڑاس نکالی جس کے نتیجے میںبن غازی لیبیامیںامریکی سفارت کاربھی ہلاک ہو گئے ۔ بپھرے ہوئے ہجوم نے مصر،تیونس اوریمن میں امریکی سفارت خانوںپرحملے کئے،مراکش سے لیکر بحراوقیانوس تک،جکارتہ،انڈونیشیااوربحرالکاہل تک مظاہرے پھوٹ پڑے اور امریکی پرچم کوپاؤںمیںروندکرنذرآتش کرنے کے مناظربھی دنیانے دیکھے کیونکہ اس فلم کے ذریعے ۶.۱/ارب مسلمانوں کے جذبات کوبری طرح مجروح کیاگیاجس نے سنی شیعہ کومتحدکردیااوردونوںمسالک اپنے محبوب ومحترم نبی ﷺکی ناموس کے دفاع کیلئے سڑکوںپرنکل آئے۔
قریباً دودہائیاںقبل آنجہانی سیموئیل ہینگٹن نے اسلام اورمغرب کے درمیان تہذیبوں کے تصادم کے بارے میںخبردارکیاتھا۔(مبینہ طورپر)القاعدہ سے نائن لیون کوامریکاپرحملہ کے جواب میں امریکا نے افغانستان اورعراق پرجنگیںمسلط کرکے ان پرقبضہ کرلیااوراسے ’’دہشتگردی کے خلاف‘‘جنگ کاسراسرغلط نام قراردے دیاجس نے اسلام اورمغرب کے درمیان تعلقات کوبہت زیادہ خراب کر دیا ۔ بنیادی طورپرامریکاہینگٹن کے انتباہ پرپورااترتاہے ،امریکاکے حکمران اس سلسلے میںاپنی ذمہ داری سے انکار نہیں کر سکتے ، اور اگر کریں گے بھی توان کاکوئی اعتبارنہیںکرے گااورامریکاکے خلاف عالمگیر نفرت میںاضافہ ہوگا۔‘‘
صدراوبامہ نے امریکی صدارت کاعہدہ سنبھالنے کے بعد۲۰۰۹ء میںمصرکے دارلحکومت قاہرہ میںتقریرکرتے ہوئے کہاکہ امریکااسلام کے ساتھ جنگ نہیںچاہتا۔اوبامہ کے مسلمان پس منظرنے اپنے پیش روبش کی دھونس ودھاندلی اورجارحیت کے متضادپالیسی اختیارکی۔یہ کہنابلاضرورت ہوگاکہ گزشتہ چندسالوںمیںمسلم دنیااورمغرب کے درمیان کشیدہ تعلقات میںبہتری لانے پراتفاق کیاگیالیکن کچھ رخنہ اندازامریکامیں مسلمانوںاورمساجدکے بارے میںنفرت کے جذبات بھڑکاتے رہے۔اس کاتدارک نہ کرکے امریکی حکومت کے ذمہ داروںنے مجرمانہ غفلت برتی توان کے خلاف نفرت میں شدت ایک قدرتی امرتھااورہے۔اوبامہ نے رسوائے زمانہ گوانتاناموبے بندکرنے کاوعدہ ایفانہ کیا جواوبامہ کی ایک بڑی ناکامی اورامریکاکے خلاف نفرت بڑھانے کاموجب بنی مگراس سے بڑی ناکامی عرب اسرائیل امن منصوبے اوردوریاستی حل کے بارے میںاپنی پوزیشن پرعمل کرانے میں ناکامی ہے۔
یہ اسکینڈل بھی سامنے آرہے ہیںکہ نیویارک سٹی پولیس کامحکمہ مسلمانوںکی جاسوسی پرمامورہے۔ورلڈٹریڈسنٹرسے تھوڑادوراسلامی سنٹربنانے کی مخالفت اورایک شدت پسندجنونی پادری ٹیری جونزکی طرف سے قرآن کریم کونذرِآتش کرنے کے واقعے نے حالات زیادہ خراب کردیئے ہیں۔اوبامہ انتظامیہ کاکہناہے کہ رسول اکرمﷺ کے متعلق بنائی گئی فلم سے ان کاکوئی تعلق نہیںہے۔یہ خبرحیرت کا باعث اورخطرناک بھی تھی کہ قاہرہ،بن غازی،دوحہ،کویت اورصنعامیںمظاہرین یہ نعرے لگاتے رہے کہ ’’اوبامہ اوبامہ،ہم سب ہیں اسامہ‘‘۔اوبامہ نے واضح طورپراس توہین آمیزفلم کی مذمت کی ہے اور خوکواس سے دوررکھنے کاتاثرقائم رکھنے کی کوشش بھی کی ہے ،مزیدبرآں وائٹ ہاؤس نے سرکاری طورپریو ٹیوب سے درخواست کی ہے کہ وہ اس متنازعہ مسلم مخالف فلم کادوبارہ جائزہ لے مگر مسلمانوں اورعام انسانوںکیلئے یہ ناکافی ہے،اس سے امریکاکے خلاف نفرت کاطوفان تھم نہیںسکتا۔نفرت کم کرنے کیلئے توامریکاکودوغلہ پن ترک کرکے حقوقِ انسانی کے عالمی مسلمہ اصولوںکی پاسداری کاقابل یقین مظاہرہ کرناہوگا کیونکہ امریکادہشتگردی کے انسداد کے دعویٰ کے تحت عالمگیردہشتگردکے روپ میںپوری دنیاکے سامنے بے نقاب ہوچکاہے اوراس پراعتبارکرنامحال ہے۔
اوبامہ انتظامیہ،عالم عرب اورامت مسلمہ سب جانتے ہیںکہ توہین آمیزفلم کے خلاف مظاہروںاورریلیوںکے پس منظرمیںاصلاً غصہ امریکہ ہی کے خلاف ہے جس کااظہاربھی ہورہاہے لہندااس حقیقت میںکوئی شک باقی نہیںرہ جاتاکہ نفرت کااصل ہدف بجاطورپرامریکاہی ہے اورمظاہرین کے اصل غم وغصے کی وجہ علاقے میںجاری امریکی پالیسیاں ہیں۔ یہ یقین کرنانادانی ہوگی کہ یہ ردعمل صرف گستاخانہ فلم کی وجہ سے ہے۔اس میںشک نہیںکہ دنیابھرکے مسلمان بلکہ شریف غیرمسلم بھی نبی آخری الزماںﷺ ایسی عظیم ہستی کی اہانت برداشت نہیںکرسکتے مگروہ یہ بھی تواچھی طرح جانتے ہیںکہ مسلمانوںاورانسانوںکے بارے میںامریکاکارویہ کیاہے۔مسلمانوںاورحقوق انسانی کے علمبردارکی امریکاکے خلاف نفرت واظہارکئی عشروںسے جاری امریکاکی دوغلی پالیسیوںکے سبب ہے۔یہ اسرائیلی مظالم ،عرب ممالک کی زمینوںاورکشمیرپربھارتی برہمن کے ناجائزقبضے پر امریکاکی خاموشی اوریہودوہنودکی درپردہ حمائت کے خلاف ہے۔یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ امریکانے افغانستان،عراق پرناجائزقبضہ کرکے بے پناہ مظالم ڈھائے ہیں،پاکستان سے لیکر یمن اورصومالیہ تک کئی عرب اوراسلامی ممالک حالت جنگ میں ہیں۔ایران پرحملے کی تیاری ہورہی ہے جب کہ اسرائیل کے جوہری پروگرام پرانگلی تک نہیںاٹھارہا۔واشنگٹن ایک عرصے سے ایک طرف جمہوریت اورآزادی کے درمیان توازن قائم رکھنے اوردوسری طرف سیکورٹی اوراستحکام برقراررکھنے کی مشکل صور ت حال سے دوچار ہے ۔
سابق امریکی وزیرخارجہ کنڈولیزارائس نے ۲۰۰۵ء میںدوٹوک اورواضح الفاظ میںبتایاتھاکہ امریکامشرقِ وسطیٰ کے ساتھ کیسے معاملات نمٹارہاہے۔ان کاکہناتھا:’’امریکانے ۶۰سال سے مشرقِ وسطیٰ میںاستحکام کوجمہوریت کے مقابلے میںترجیح دی اورہمیںاس سے کچھ حاصل نہیںہوا،اب ہم مختلف زاویہ اختیارکررہے ہیں اورخطے میں لوگوں کی جمہوری خواہشات کی حمائت کررہے ہیں‘‘۔اس ضمن میںایک اوربات یہ کہ امریکااپنے اورمسلمان ،نیزمغرب اوراسلام کے درمیان تعلق کے حق میں بڑاکرداراداکرسکتاہے بشرطیکہ وہ عربوں اورمسلمانوںکے درمیان پائی جانے والی بے چینی واختلافات اور شکایات کے حقیقی اسباب سے عہدہ براہوسکے،اس کی مددسے تہذیبوںکے تصادم سے بچاجاسکتاہے ۔امریکاکوچاہئے کہ ان لوگوںکومجرم ٹھہرانے کیلئے کھل کرپختہ اورزوردارکرداراداکرے جوعقائد اور مذہب کی توہین کے مرتکب ہیں۔بالآخر اس طریقے سے امریکیوںکواپنے اس سوال کابھی جواب مل جائے گاکہ لوگ ان سے نفرت کیوںکرتے ہیں۔اس سے امریکی سفیروں،فوجیوں وغیرہ کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے گااوراسے اپنے سفارت خانوںکوقلعوںمیںتبدیل کرنے کی بھی حاجت نہیں رہے گی۔
۱۷ستمبرکے گلف نیوزمیںمعروف خاتون تجزیہ کارلینڈایس ہیرڈے نے’’آزادیٔ رائے کانامعقول اظہار‘‘کے عنوان سے لکھاہے:’’آزادیٔ رائے اوراپنی آوازبلندکرنے کی آزادی دونوں جمہوریت کے ستون ہمیں جن کی بھاری قیمت اداکرنی پڑرہی ہے۔اسلام کے متعلق یہ شرمناک اوراشتعال انگیزاقدام اسلام سے نفرت کرنے والے اس دھوکہ بازشخص نے کیاہے جو۲۱ماہ جیل میںرہ چکا ہے ۔ کیا وہ اس قابل ہے کہ وہ دوردرازدنیاکے حصوں میںلوگوںکے جذبات مشتعل کرسکے جس کے علاقائی تعلقات پرمنفی اثرات مرتب ہوں۔اگرحکومت اس موادکوقانون شکن آزادی کے اصولوںکی عدم موجودگی کی وجہ سے کنٹرول نہیںکرسکتی تھی تب بھی غلط زبان کوروکاجاسکتاتھا۔یقیناقانونی نظام میں کہیں خرابی ضرورہے جوباربارزہرافشانی کرنے والے لوگوں سے معاشرے کومحفوظ رکھنے میںناکام ہے ۔پادری ٹیری جونزاوراس کاساتھی بھی جرم کے مرتکب ہوئے،۶۵ سالہ فلم ساز نکولا بیسلے سے پولیس نے تفتیش کی لیکن اسے گرفتاری کاکوئی خوف نہیں کیونکہ اس نے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیںکی۔کیااس امریکاکومہذب ومتمدن ملک سمجھاجائے گاجہاں انتہائی بنیادی ضرورت کاقانون نہیں۔بہت کم لوگ اس حقیقت سے باخبرہونگے کہ امریکی کانگرس نے ۲۰۰۴ء میںعالمی سامی مخالف ریویوایکٹ منظورکیاتھا جس میںسامی مخالف کی تعریف یوںکی گئی کہ اس سے مراداسرائیلی مخالف تندجذبات اورسابقہ اورموجودہ اسرائیلی رہنماؤں پرمخاصمانہ تنقیدہے۔اس میں بعض حقائق کا حوالہ دیا گیاتھاکہ یہ رویہ کسی نہ کسی طرح ۶۰لاکھ یہودیوںکے ہندسے کوآہستہ آہستہ ختم کردے گاجوہولوکاسٹ کانشانہ بنے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہودی مذہب یااس کے مذہبی رہنماؤں پر تنقید بھی اسی ایکٹ کی زدمیںآئے گی۔یہ خلافِ آئین تھایا نہیں،اس ایکٹ کی منظوری پرزیادہ ردِعمل نہیںہواتھا،اس صورت حال میںکیوںنہ اس قانون کوتوسیع دی جائے تاکہ مسلمانوں سمیت دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے احساسات وجذبات کااحترام کیاجاسکے‘‘۔
یقینا اب یہ معاملہ اوبامہ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ مٹھی بھران صہیونیوںکی حمائت چاہتے ہیں جودنیاکے امن کوتباہ کرکے اپنی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں یا جمہوری تقاضے پوری کرتے ہوئے دنیاکے تمام مذاہب کے احترام میں کوئی عملی قدم اٹھاتے ہوئے امریکیوں کے خلاف نفرت کوختم کرنے میں اہم کردار اداکرتے ہیں!