Home / Socio-political / اور کتنے کربلا اے ارض پاک؟

اور کتنے کربلا اے ارض پاک؟

اور کتنے کربلا اے ارض پاک؟

کوئٹہ میں نوے سے زیادہ لوگوں کی موت کا صدمہ ابھی کم نہیں ہوا تھا، آنکھوں سے اشک خشک نہیں ہوئے تھے، لوگ ابھی دہشت سے باہر نہیں آئے تھے کہ ایک دھماکے نے پھر سے سینکڑوں آنکھوں کو نم کر دیااور فضا کو آہ و بکا سے سوگوار کر دیا۔ کیرانی روڈ پر ہونے والا یہ دھماکہ پھر سے ایک خاص طبقے کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی مذموم سازش کا حصہ تھا۔  ہزارہ برادری کے لوگ جو ایک عرصے سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ایک بار پھر بلک اٹھے۔ بڑی مشکل سے اس برادری کے لوگ اپنے حقوق کی جنگ کے لئے ہمت جٹا پائے تھے اور کوئٹہ کی کڑ کڑاتی سردی میں دن رات  احتجاج کے بعد انہیں لگا تھا کہ ان کی بھی آواز اس ملک میں سنی جاتی ہے اور اب وہ دن دور نہیں جب ان پر ہونے والے حملوں کا دور ختم ہوگا اور وہ دوسرے پاکستانیوں کی طرح پنے شہری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے اس ملک میں ایک عزت دار زندگی گزار پائیں گے۔ یہ خواب ابھی پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک دھماکے نے ملک خداداد کی وہ کریہہ حقیقت پھر سے سامنے لا کر رکھ دی جو کچھ دیر کے لئے دھندلا گئی تھی۔  دھماکوں کے اس تواتر نے تو آنکھوں سے  بند ہونے کا حق بھی چھین لیا اب کون سا خواب اور کون سی تعبیر؟ خواب کے نام پر حیرت سے خیرہ آنکھیں اور تعبیر کے نام پر جگہ جگہ بکھرے  انسانی اعضأ۔ ملک خداداد زندہ باد۔۔۔

                خوف استعجاب سے پھٹی پھٹی آنکھوں  میں منجمد سوال اپنے پیاروں کا پتہ پوچھتے ہیں۔  یہ آنکھیں پوچھتی ہیں کہ اور کتنے کربلا اے ارض پاک؟ نم نگاہیں کہتی ہیں کہ کم سے کم انہیں یہ حق تو ملے کہ وہ اپنے خون کے پیاسے شمر و یزید کے چہرے دیکھ سکیں۔   یہ آنکھیں سوال کرتی ہیں اپنے حکمرانوں سے کہ بتاؤ تو سہی نسل کشی اور کسی کہتے ہیں۔ یہ آنکھیں سوال کرتی ہیں اپنے وزیر داخلہ سے کہ اے وزیر موصوف بھارت میں رہنے والے شاہ رخ خان کو تو تم پاکستان میں حفاظت کی گارنٹی دے ڈالتے ہو لیکن اس سر زمین پر پیدا ہوئے ہم غریبوں کی تمہیں کوئی فکر نہیں؟  یہ آنکھیں سوال کرتی ہیں تاریخ سے کہ کیا اسی دن کے لئے بر صغیر کا سینہ شق ہوا تھا؟ کیا اسی دن کے لئے ہمارے آباو اجداد نے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کئے تھے اور کیا وہ صدائے مقتل ہی تھی جس پر وہ دیوانہ وار چل پڑے تھے؟ اگر نہیں تو اب تک اس ملک نے ان کے ساتھ سوتیلا رویہ کیوں اپنایا ہے۔ کیوں ان کے گھروں کے چراغ روز گل کر دئے جاتے ہیں اور کیوں ماؤ کی گودیں سونی کر دی جاتی ہیں؟ کیوں ملک میں ان کا خون اس قدر ارزاں ہے؟  یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب اگر نہیں ملے تو ممکن ہے صبر کا بند ٹوٹ جائے اور ممکن ہے کہ مملکت خداداد کے ماتھے پہ لگے داغ کچھ اور گہرے ہو جائیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ان لہولہان جسموں پر مرہم رکھا جائے  اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ان کے جسموں کو خراش تک نہیں آئیگی ورنہ یاد رہے کہ ہر بار جیت یزید ی فوج کی ہو یہ ضروری نہیں ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *