Home / Socio-political / آپریشن کے نام پر سازش؟

آپریشن کے نام پر سازش؟

آپریشن کے نام پر سازش؟
سمیع اللہ ملک جونہی سینیٹ میں اے این پی کی طرف سے کراچی کو اسلحے سے مکمل پاک کرنے کی قراردادمنظور ہوئی تو اس سے اگلے ہی دن قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم نے پورے ملک کو اسلحے سے پاک کرنے کی قرارداد پیش کی اوراس کوبھی منظور کر لیا گیا۔اب دیکھنا  یہ ہے کہ دونوں جماعتیں موجودہ حکومت کی حلیف ہیں اورپچھلے ساڑھے چار سال سے زائد حکومت کے مزے بھی لوٹ رہی ہیںاور اب ملک میں اگلے نئے انتخابات کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں ،ان کو آخراس قرارداد کی منظوری کی ضرورت اس وقت کیوں آن پڑی؟
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ۱۸کروڑ کی آبادی میں اس وقت دوکروڑلائسنس یافتہ چھوٹے بڑے ہتھیارموجود ہیں جبکہ غیر قانونی ہتھیاراس سے کہیں زیادہ ہیں،کچھ تو اس سے بھی بڑھ کر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں کہ نیٹو سپلائی کے گم کردہ ہز اروں کنٹینرزکا اسلحہ بھی ملک دشمن عناصرکے پاس چلا گیا ہے بلکہ ایک حکومتی مشینری سے منسلک رہنے والے ایک سیاستدان نے برسوں پہلے میڈیا میں انکشاف کیا تھا کہ چارارب مالیت کا جدید اسلحہ صرف کراچی کی ایک دہشت گرد تنظیم کی دسترس میں ہے اور خوش کن بات یہ ہے کہ ملکی ادارے بھی اس سے باخبر ہیں کہ یہ کہاں چھپایا گیا ہے مگر اس سے کیافرق پڑتا ہے کہ ادارے با خبربھی ہیں۔باخبر تو وزیر داخلہ رحمان ملک بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ جعلسازی سے ایک قانونی کلاشنکوف کے لائسنس پرپندرہ تک کلاشنکوفیں جاری کرالی گئیں ہیں اور سب کی قانونی حیثیت ہو چکی ہے گویا پاکستان اس وقت ایسے بارود کے دہانے پر بیٹھا ہو ا ہے کہ خاکم بدہن خانہ جنگی کی صورتحال میں خود کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے کیلئے کسی دشمن کی حاجت نہیں۔
باخبری حالات کی ابتری روکنے میںکام آئے توکام کی ہے ورنہ اسے اپنے منہ پر مار لینی چاہئے۔صوبہ سندھ میں لسانی آگ جو ایک منصوبہ کے تحت مردہ سندھ کارڈ کودوبارہ زندگی بخشنے کیلئے بھڑکائی گئی ہے۔منصوبہ کے تحت سندھی ٹوپی کے دن سے بلدیاتی آرڈی نینس تک اس آگ پرپٹرول چھڑکانے اور نورا کشتی کے ذریعے اس کو تیز کرنے کی جو سازشیں کی جا رہی ہیںخدانخواستہ یہ لڑائی جنگ وجدل تک جا پہنچی توسندھ میں خانہ جنگی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ صوبہ سندھ جو امن و آشتی کا خطہ رہا ہے ،جہاں کبھی بھی سندھی مہاجر کا مسئلہ نہیں اٹھا،اس صوبہ میں قیامِ پاکستان سے لیکر ۲۰۰۱ء تک صرف ۵۰ہزارہتھیاروں کے لائسنس جاری ہوئے یعنی ایک ہزار سے بھی کم سالانہ لائسنس کی شرح بنتی ہے اوراس دورانیہ میںبھی ہتھیاروںکے لائسنس کے اجراء میں۷۳۔۱۹۷۲ء کے لسانی فسادات کے دوران ہتھیاروں کے لائسنس کی تعدادشائد بقیہ ۵۰ سالوں کے لائسنسوں سے بڑھ کر رہی کیونکہ ان برسوں میں ہتھیار کے حصول کی دوڑ لگی رہی،یہ پی پی کا پہلا دورِ حکومت تھااور اس دور میں ضرورت مندوں نے ۵ ہزار روپے نذرانہ تک میں لائسنس بنوائے ،اس کے بعد۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۸ء تک یعنی دورِ مشرف میں سندھ بھر میں۸۵ ہزار لائسنس جاری ہوئے جوپچھلے ۵۴ سال کے مقابلے میں صرف چھ سال میں ڈیڑھ گناسے بھی بڑھ گئے۔
مشرف دور میں حکومت متحدہ پر خوب مہرباں رہی بلکہ صوبہ سندھ کی وزارتِ داخلہ تو مستقل متحدہ کے پاس ہی رہی۔اس دور میں متحدہ نے اندرونِ سندھ بھی خوب مہم چلا کرکارکنوں کولائسنس کے اجراء پر آمادہ کیا گیااور کچھ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ خریداری کی مد میں کھالوںکے سرمایہ سے بھی مدد لی گئی اور ہتھیاروں کی اجتماعی خریداری کرکے اجتماعی سپلائی کی گئی ۔یہ جو ان دنوں سندھ کی دیواروں پر خبثِ باطن کی کالک اگلی گئی کہ ’’اب ہو گا بٹوارہ،آدھا تمہارا آدھا ہمارا‘‘کچھ یوں ہی نہ تھی بلکہ یہ ہتھیاروں کی گرمی کابھی دماغ پر اثر تھا۔ اب عوامی حکومت جس کو مفاہمتی حکومت کہا جا رہا ہے ،اس حکومت کے اعدادوشمار توبڑے ہی خوفناک و ہولناک ہیں۔اس حکومت نے ۲۰۱۰ء کے صرف ایک سال میں۸۳ ہزار لائسنس جاری کئے جومشرف دور کے چھ برسوں میں جاری کئے گئے لائسنسوں سے صرف دوہزار کم رہے ،اس کا بڑے فخر سے شرمناک اعلان ذوالفقار مرزانے سارے میڈیا کے  سامنے سینہ پھلا کر کیا ۔بھلا سال ۲۰۱۰ء میں کون سی ایسی آفت ٹوٹ پڑی کہ اس بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کے لائسنس بنوائے گئے۔
دونوں حکومتی جماعتوں نے سندھ میں باقاعدہ سیل قائم کئے اور کارکنوں کوآمادہ کیا کہ وہ ہتھیارکا لائسنس لیں۔ایم پی اے صاحبان نے بڑی تعداد میں وزیر اعلیٰ سندھ ،وزارتِ داخلہ سے ان پر آرڈر جاری کراکر لائسنس بنوائے۔دیہی و شہری ایم پی اے صاحبان نے اس کا م کو بھی فرائض میں شامل سمجھ لیااور کچھ جیالوں نے تو اس کوکاروبار بناکرخوب مال سمیٹا۔۲۰۱۱ء میں ۶۰ہزار لائسنس جاری ہوئے جو ۲۰۱۰ء کے مقابلے میں کم رہی مگر یہ قیامِ پاکستان سے لیکر۵۴ سال میں جاری رہنے والے ۵۰ہزار لائسنسوں پر پھر بھی بھاری رہی اوریقینا اس کی مکمل ذمہ داری موجودہ حکومت اوربالخصوص ذوالفقارمراز پر عائد ہوتی ہے جواب بھی میڈیا پر آکر برملا اعلان کررہاہے کہ اگر مجھے دوبارہ حکومت میں آنے کا موقع ملا تو میں۵لاکھ اسلحے کے لائسنس اور جاری کرنے سے دریغ نہیں کروں گا۔لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں اور سال ۲۰۱۲ء میں اب تک ۳۳ہزار مزید لائسنس جاری کئے جا چکے ہیں اورابھی اس سال کاآخری مہینہ باقی ہے اوریہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی اپنی حکومت کے آخری دنوں میں اپنی جماعت کے ووٹروں میں تھوک کے حساب سے لائسنس جاری کرنے کے پروگرام پر عملدرآمد کرنے جا رہی ہے۔
اسلحہ کے لائسنسوں کا اس بڑے پیمانے پراجراء یا تو یہ ثابت کرتا ہے کہ سندھ میں بدامنی اور عدم تحفظ کا شدید احساس موجودہ دورِ حکومت میں بڑھا ہے اورپی پی پی کی مفاہمتی حکومت  کے موجودہ دور میں  صرف تین سال میں ایک لاکھ ۷۶ہزار لائسنس جا ری ہوئے جو قیامِ پاکستان کے بعد کے ۵۴ سالوں میں جاری کردہ لائسنس کی تعدادسے تین گنا ہیں۔ کراچی کی بد امنی تو ڈھکی چھپی نہیں،وہاں کا کاروباری طبقہ اسلحہ کا لائسنس لیتا ہی نہیں ،وہ تو گارڈحفاظت کیلئے رکھتا ہے جو پرائیویٹ کمپنیاں اسے فراہم کرتی ہیں،یہ لائسنس زیادہ تران ہی لوگوں کے ہتھے چڑھے جو دہشتگرد ہیں جبکہ اندرونِ سندھ میں ہتھیارکے لائسنس بھی جس بڑے پیمانے پر حاصل کئے گئے ہیں ان دوکا مقصدہتھیارکے بل بوتے پر آزادی تو نہیں۔وزیرِ داخلہ کا بیان ہے کہ ایک اسلحہ لائسنس کی آڑ میں پندرہ تک ہتھیار خریدے گئے ہیں۔اگر ۵۰فیصد لائسنس پراس قسم کی واردات کی گئی ہوںتو پھر اندازہ کرنا مشکل نہیںکہ سندھ بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے اور اگر معاملات بگڑے توسنبھالے نہ جائیں گے۔
سندھ میں ہتھیار کی ریل پیل کا مطلب کیا یہ نہیں کہ جس خطہ ارض کو سب سے پہلے حصولِ پاکستان کی قراردادکااعزاز حاصل رہاہے اس کو سب سے پہلے بقیہ پاکستان سے جدا کرکے اس اعزاز کی مٹی پلید کی جائے۔گاڑیوں کا لائسنس بنواکر دینے والے دلالوں کی طرح اب اسلحہ کے لائسنس بنواکر دینے والے دلالوں کاایک ٹولہ سندھ میں معرضِ وجود میں آچکا ہے۔آپ ان سے متعلقہ اسلحے کی رقم طے کرلیں اور پھراسلحے کی درخواست پر دستخط کرکے انہیں تھمادیں،وہ اچھے کردارچال چلن کی تھانہ رپورٹ سے لیکر ڈی سی تک کی تمام کاروائی خود نمٹاکرآپ کو اسلحہ کا لائسنس آپ کے گھر میں لاکر دیدیں گے اوراوسطً اس کا م کی مٹھائی ۱۰ہزار روپے بتائی جاتی ہے جو جرائم پیشہ افراد کیلئے کوئی زیادہ رقم بھی نہیں ،یہ تو ان کے ایک جھٹکے کی مار ہے۔(جاری ہے)

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *