عباس ملک
اکابر حکومتی عہدیدار نے ارشاد فرمایا کہ اگر عدالت حکومت کو ناکام قرار دیتی ہے تو اس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہونگے یا حکومت پر اس کی وضاحت و صراحت اس بیان میں موجود نہیں ۔اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ ایٹمی قوت ناکام نہیں ہو سکتی ۔ ان کو جانے کس منطق نے اس بیان سازی کیلئے راضی کیا ۔ حالانکہ ان کے سامنے ایٹمی سپر طاقت امریکہ ناکامی سے دوچار ہو رہا ہے۔ اس کی حربی اور معاشی پالیسیاں بری طرح ناکام ہو رہی ہیں ۔البتہ اس کے پر وپیگنڈہ کی وجہ سے ابھی اس کی ساکھ بنی ہو ئی ہے ۔ابھی روس کو ٹکڑے ہوئے اتنا وقت تو نہیں بیت گیا کہ اس ایٹمی قوت کی افغانستان میں افغانوں اور پاکستانیوں کے خلاف ناکامی کو بھلا دیا جائے ۔اسی ناکامی کے سبب وہ اپنے متحدہ ریاستی ڈھانچے کو ٹکڑے ہو نے سے بچانے میں ناکام رہا ۔ڈاکٹروں کی اپنی منطق ہوتی ہے اور عطائی ڈاکٹروں کو تو ویسے ہی قدرت کی طرف سے ہی صلاحیت عطا ہوتی ہے ان سے مقابلہ کرنے کیلئے عطائی قوتوں کے حاملین ہی چاہیں ۔کسی بھی معاشرے کے دفاعی ادارے اسکی سرحدوں کے دشمنوں سے تو لڑ سکتے ہیں لیکن وہ داخلی دیمک ان کی دسترس سے باہر ہوتا ہے ۔ملک کو سیاسی دیمک چاٹ رہا ہے ۔اس سبب معاشرتی نظام شکست و ریخت کا شکار ہو رہا ہے ۔عدلیہ کے سامنے زبان دانی کے جوہر دکھانے اور اکابرین کیلئے سنگ راہ دور کرنے کی مہارت کا حکو مت اور معاشرے پ جو مثبت اثر ہو گا اس بارے میں ڈاکٹر صاحب کیا کہتے ہیں ۔عدالتوں کو آئینی موشگافیوں میں الجھا کر وہ عدلیہ کے فیصلہ کرنے کی راہ میں حائل ہو کر معاشرے اور قوم کی جو خدمت سر انجا م دے رہے ہیں وہ تاریخ کا تاریک باب کہلائے گی ۔حکومت کسی پارٹی کی نہیں بلکہ عوام کی ہوتی ہے ۔اس پر مزید پیپلز پارٹی تو دعوی یہی کرتی ہے کہ وہ واحدعوام کی نمائیندہ سیاسی جماعت ہے ۔دیگر پارٹیاں تو اس کا استحقاق نہیں رکھتیں ۔اس پارٹی کا شریک چیئرمین اور آئینی طور پر ملک کا سربراہ جو سیاسی عناد سے بالا تر ہو نا چاہیے صرف بھٹو خاندان کا نمائیندہ اور سندھ کارڈ ہو لڈر کہلانے میں فخرمحسوس کرتا ہے ۔سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں پائینچے چڑھا کر سندھی عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کی تشہیر تو کر دی گئی اور یہ فرض سندھ میں ادا کر دیا گیا لیکن پنجاب کیلئے مملکت خداد پاکستان کے صدر نے ڈینگی وائرس کیلئے سوائے طنز کرنے اور ان کی جماعت نے دھرنے دینے کے سوائے کیا اقدام کیا۔ اس سے پنجاب کے عوام کو جو دکھ ہوا وہ وفاق کی علامت کہلانے والی پیپلز پارٹی کے عطائی ڈاکٹروں کی سوچ سے ماوراء ہے ۔نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ سیاسی معرکہ آرائی میں انہیں پیپلز پارٹی کا ہر نمائیندہ یہ ضرور جتلاتا ہے کہ وہ ضیاء الحق کے منہ بولے بیٹے اور اس کے سیاسی جانشین ہیں لیکن الطاف حسین کو آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ تم نے قائد اعظم کے بارے میں غلط ریمارکس دئیے یا انڈیا میں کھڑے ہو کر پاکستان کی تقسیم پر مخالفانہ جملہ بازی کی ۔پاکستان بنانے والوں نے اسے مملکت خدادپاکستان کہا اور تم اسے سیکولر سٹیٹ کہتے ہو ۔تم نے پاکستان میں پڑھائی جانے والے نصاب تاریخ کو غلط کہا تو کیسے کہا؟ بھٹو ایوب کی کابینہ سے سیاسی دور کا آغاز کرتے ہیں تو کئی گناہ نہیں تو پھر نواز شریف ضیاء کا ساتھ دیکر کیسے گنہگار ہوگیا ۔ یوسف رضا نے کون سا تریاق استعمال کیا کہ انہیں اس موذی مرض سے شفاء یابی کی سند جاری کر دی گئی ۔مشرف کے ہم نوالہ و ہم پیالہ چوہدری بردران بھی تو ضیا ہی باقیات ہیں۔انہیں حکومت نے کولیشن پارٹنر کے طور پر لینے سے پہلے کیا گنگا اشنان کرایا کہ وہ اس گناہ سے مبرا قرار دیئے گئے ۔مفاہمت کا مفہوم کس معنی میں استعمال ہو رہا ہے ۔اس کو کرپشن اور بندر بانٹ پر ایک دوسرے سے انکھیں بندکرنے اور کوئی تعرض نہ برتنے پر مفاہمت قرار کیوں نہ دیا جائے ۔آمریت کے سرخیل چوہدری برادران اور قیام پاکستان پر دل کے دو ٹکڑے کر دینے والے تاثرات رکھنے والے اتحادی کی موجودگی میں جمہوریت کے چمپیئن کیا حق و صداقت کے معنی بتانا پسند فرمائیں گے ۔حق کس کو کہتے ہیں اور صداقت کیا ہے۔جتنا زور بھٹو مرحومین کے افکار و خواہشات و تعلیمات کے پرچار پر صرف کیا جاتا ہے کیا اتنا ہی جمہوری فکر کی ترویج پر بھی زور دیا جاتا ہے ۔جمہوری طرز عمل اور طرز فکر کو بھٹو ز کی فکر قرار دینا عطائی ڈاکٹروں کا اپنا فارمولا ہے ۔انہیں اس قوم کا ان داتا بنانے پر اپنے خون کا آخری قطرہ نچھاور کرنے والے جیالوں کی زندگیوں میں تعلیمات اسلامی کی ترویج کیلئے کتنی تڑپ ہے ۔اگر یہ نہ ہوتے تو کیا آ پ لوگ پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے کچھ نہ کرتے ۔حکمران ہونے کے ناتے یہ آپ کی ذمہ داری ہے اور اس قوم پر اس کا کوئی احسان نہیں ۔ اگر ترقیاتی منصوبے بنائے گئے اور ان کی افتتاحی تختیوں پر آپ کا نام لکھا ہے تو اس پر کسی کے وارث ہونے کی تحریر کنندہ نہیں بلکہ اس ملک کے ایک ذمہ دار ہونے کی تحریر نقش ہوتی ہے ۔اس پر آپ کی جاگیروں سے مال خرچ نہیں ہوتا اور نہ کسی کی جاگیر اس کیلئے وقف کی گئی اور نہ ہی کسی جاگیردار نے اس میں مالی معاونت کا اعلان کیا ،یہ صرف پاکستان کے غریب عوام کے خون پسینے سے ادا کردہ ٹیکسوں پر تعمیر کردہ ہیں ۔جمہوری طرز فکر تو اسی روز عیاں ہو جاتا ہے جب حکومت اپنے بچاؤ کیلئے بھینس چور اور آمریت کے ستونوں چوہدری برادران کو گلے لگا لیتی ہے ۔حکومت اپنے تسلسل کو عوامی مفادات کے ساتھ منسلک کرنے کی بجائے اپنے کولیشن پارٹنرز کی خواہشات کے تابع کرتی ہے ۔جمہوریت کا تسلسل ضروری ہے لیکن کیا اس کیلئے یہی اصول اور ایسا ہی اسلوب اپنا یا جا
نا چاہیے تھاکیا جمہوری معاشروں کا امتیاز یہی ہے ۔حکومت نے عوام کی جمہوری آواز پر کب اور کس طرح اک جمہوری طرز عمل اور طرز فکر کا مظاہرہ کیا ۔عوام چلا رہی ہے کہ گیس ،پیٹرول کی قیمت ہماری قوت خرید سے باہر اور استطاعت کو متاثر کر رہی ہے ۔ہم مہنگائی کے طوفان میں بقائے حیات کیلئے سرگرداں ہیں ۔ہمارے لیے تعلیم ،صحت اور روزگار کے جو مراکز ہیں وہاں ہمارے ساتھ عجمی طرز عمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔سفارش ،رشوت ،دھونس ،دھمکی اور اقربا پروری کے سبب غریب اور مظلوم عوام کو انصاف اور عدل کی دستیابی چاند کی تمنا کے مترادف ہے ۔میرٹ اور اہلیت کا کوئی پاس نہیں ۔حکومت ہر جگہ عوامی ضروریات اورخواہشات کو پورا کرنے میں ناکام ہے ۔البتہ حکومت اقربا پروری ،کمیشن خوری اور امریکہ نوازی میں اپنا مقام بنانے میں طاق ہے ۔حکومت عوام کو لوٹنے اور اپنے خزانے بھر کر انہیں اپنوں کو لٹانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔شریک چیئرمین اور ان کے حواری ان پانچ سالوں میں اپنی آنے والے کتنی نسلوں کو سنوار گئے یہ تو آنے والی حکومت کے وزیر خزانہ ہی بہتر طور پر بیان کرپائیں گے ۔جمہوریت کے مبلغوں نے جس طرح جمہوری روایات کو کامیابی سے استعمال کیا ہے اس کیلئے صدر اور وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا ۔رنگیلا شاہی کے بعد شاید مسلمانوں کی بدقسمتی کی یہی انتہا کہلائے گی ۔شاید یہی وہ کامیابی ہے جس جمہوریت کے پاسبان اور راہنما اتراتے اور فخر محسوس کرتے ہیں ۔