Home / Socio-political / بغیر اتحادکے اتحادی

بغیر اتحادکے اتحادی

       بغیر اتحادکے اتحادی 

  عباس ملک

  پاکستان

اتحادی حکومت ہونے کے باوجود ابھی ڈیڑہ اینٹ کی علیحدہ مساجد کے امام کسی اور بڑے اتحاد کیلئے سر گرم عمل ہیں ۔یہ اتحاد اگر اتحاد کے خلاف نہیں تو اتحادیوں کو مجتمع ہونے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔سب قوتیں اب ایک طرف ہو کر کس کو اکیلا ہونے کا تاصر دینا چاہتی ہیں ۔ میاں نواز شریف اگر مسلم لیگی نہیں تو پھر اپنی ذات کے سوا دوسرا ممبر نہ رکھنے والی مسلم لیگوں کے سربراہ کس طرح مسلم لیگی ہو سکتے ہیں ۔جس شخص کی راہنمائی پر قومی او رصوبائی اسمبلی کے سینکڑوں ممبران متفق ہیں اس کو ایک ایسا شخص کس طرح مسلم لیگی ہونے سے محروم کر سکتا ہے جو خود کئی جماعتیں بدل کر آخر میں مسلم لیگی کا بھیس بدل آیا ہو ۔افکار میں بھٹو سے متاثر ،کرادار میں بھٹو کی پیروی، گفتار میں بھٹو کی تقلید کے بعد قائد اعظم اور مسلم لیگ سے کون سے تعلق اسے مسلم لیگی ہونا ثا بت کرے گا ۔جمہوریت کے پاسدار اپنی باری کے انتظار میں بیتاب ہو کر کبھی ایک در سے جھانکتے ہیں تو کبھی دوسرے کی ہانکتے ہیں ۔ جمہوریت کی پاسداری کا اولین اصول ہی یہی ہے کہ جمہورکی آواز کو اولیت اور ترجیح دی جائے ۔ جب جمہور نے ایک پارٹی کو مینڈیٹ دے دیا تو اب اس کے احترام میں اپنی چونچ بند رکھنی ہی جمہور اور جمہوریت کی پاسداری ہے ۔اگر جمہوریت کا اتنا ہی درد تھا تو الیکشن کے وقت تمام مسلم لیگیں کیوں اکھٹی نہیں ہوئیں جبکہ اس وقت اس ضرورت بھی تھی ۔اگر اس وقت تھالی کے بینگن اپنوں کے جانب لڑھک آتے تو آج دربدر لڑھکنے کی نوبت نہ آتی ۔اس سے پہلے اگر کمانڈو کی ہمرکابی کی بجائے جمہوریت کی پاسداری کو مقدم رکھا جاتا تو نہ میاں نواز شریف کو گلا ہوتا اور نہ آپ کے دامن جمہور اور جمہوریت کو بے آبرو کرنے کے داغ سے داغدار ہوتے ۔وہ تو اب بھی کوئی فرق نہیں پڑا کیوں کہ جمہور کو روٹی اور روزی سے سے فرصت نہیں اور موٹر وے پر ہیوی ٹریفک کے ڈر سے چھوٹی گاڑی آتی ہی نہیں کہ کوئی آپ کو کراس کر ے ۔عوام کے حقوق کے محافظ عوام کو لٹتے خاموشی سے دیکھ کر بھی کوئی رکاوٹ ڈالنے کیلئے تیار نہیں ۔عوام بھوک سے نڈھال ،جان و مال کا تحفظ نہیں ،روزگار کی راہ نہیں ،عصمت کی کوئی ضمانت نہیں ،لیکن کوئی اتحادی اتحاد اور مشترکہ آواز نہیں ۔جمہوریت کے پاسداروں اور عوامی کے محافظین میں سے کوئی اس اتحاد میں شامل ہونے کیلئے تیار نہیں کہ ہم عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے میں سداراہ بنیں گے ۔استاتذہ ،کلرک ،ڈاکٹر ،وکیل،میڈیا ،سب احتجاج کر رہے ہیں ۔رول ماڈل کیلئے دوسروں کی تقلید و پیروی کی امثال دینے والوں کو کیا قائد اعظم اور علامہ اقبال کے افکار میں سے لیڈنگ رول نہیں مل سکتا ۔ اگر وہ گھر کے اندر سے آتی ہوئی صد ا ایمان اتحاد اور تنظیم کو نہیں سن پاتے اور سمجھ پاتے تو انہیں اورزبانیں کیسے سمجھ آئیں گی۔مکے میں رہ کر کعبہ کی شکل نہ دیکھنے والا مکے سے دور ہو کر کعبہ کے دیدار کی تمنا کرتے ہوئے مفکر و مدبر اور صاحب حب کہلائے گا یا عقل و خرد سے عاری فقط ایک شاطر کہلائے گا ۔ پاکستان کے اندر رہ کر اور بانی پاکستان کے اور مفکر پاکستان کے افکار کو نظر انداز کر کے سیاستدان یہ ثابت کرتے ہیں کہ انہیں ان ہستیوں سے کوئی سروکار اور چاہت نہیں۔ اسلامی طرز معاشرت ترک کرکے سیکولر طرز معاشرت میں دنیاوی ترقی کے خواب دیکھنے والوں کو یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ سائنسی علوم کی ابتداءاسلامی معاشرے اور اس کے قابل قدر پیرکاروں نے کی تھی ۔وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کیلئے عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اہم ترین نکتہ ہے ۔جمہور اور جمہوریت کے پاسداروں کو یہ تو معلوم ہو گا کہ جمہوری معاشروں میں حکومت عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی کی ذمہ دار ہوتی ہے ۔آئین کے تحت وہ عوام کو یہ ضروریات باہم پہنچانے کی پابند ہوتی ہے ۔جان و مال ،صحت و تعلیم ،اور انصاف کی فراہمی کے ستاھ روزگار کی فراہمی جمہوری طرز حکومت کا بنیادی فریضہ ہے ۔ اگر یہ شعبہ جات حکومت کے کنڑول میں نہ ہو ں اور تاجر پیشہ پرائیویٹ سیکٹر کے قبضے میں ہوں تو حکومت انہیں کیسے اور کیونکر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ عوام کی ضروریات اور مفاد کو مدنظر رکھ کر اپنی منافع پالیسی کو محدور کر یں ۔حکومت ایک پرائیویٹ ڈاکٹر کو فیس کم رکھنے ،کسی تعلیمی ادارے کے مالک کو بچوں کو سکالر شپ دینے کسی فیکڑی یا کارخانے کے مالک کو مزدروں کی اجرت بڑھانے اور انہیں صحت اور رہائش کی سہولت دینے پر کیا مجبور کر سکتی ہے ۔ کاروبار حکومت کے براہ راست کنٹرول میں نہیں بلکہ بلواسطہ کنڑول میں ہوتا ہے ۔حکومت ٹیکسوں اور کنٹرولنگ مجسٹریٹی نظام سے انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کرے بھی تو وہ اپنا بوجھ صارف پر منتقل کر کے اس میںسے بھی اپنے لیے منافع کی راہ نکال لیتے ہیں ۔حکومت عوام کو صرف اپنے براہ راست کنٹرول اداروں میں سے ہی سہولت فراہم کر سکتی ہے ۔تجارت سے حاصل شدہ محصول سے عوام کو تعلیم ،صحت اور روزگارکے مسائل اگر حل کرنے کی منصوبہ بندی میں آسائشات آڑے نہ آئیں تو یقینا معاشرے پا اس کے مثبت اثرات مہینوں میں نظر آنے لگیں گے ۔بات ایمان اور دیانت پر آتی ہے ۔اگر سیاستدان اتحاد و،ایمان اور دیانت سے چاہیں تو یہ دعوی سے کہا اورکیا جا سکتاہے کہ پاکستان اپنے شہریوں کیلئے ایک جنت ہے ۔سیاسی لوگ مفاد کی خاطر کبھی ایک چھتری توکبھی دوسرے کے نیچے جا کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ اس سے پہلے غلطی پر تھے اور اب بھی غلطی کر رہے ہیں ۔ایک جماعت میں سالہا سال ایک لیڈر کی تقلید اور توصیف میں رطب اللسان جب اس کا ساتھ چھوڑتے ہیں تو یہ ثابت کرتے ہیںکہ وہ غلط آدمی کی پیروی کر تے رہے اور خود بھی غلط تھے ۔اب جس کی ہ

م رکابی کرنے جا رہے ہیں وہ صیح ہو گا لیکن وہ بھی اسی طرح نکلتا ہے تو یہ اگلے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔نہ کوئی نظریہ نہ کوئی منشور تو پھر خدمت کیونکر ہو پائے گی ۔ترقی اور بہبود کے نعرے عمل پذیر کیسے ہو نگے ۔ظہور الہی کو بھٹو نے مروایا اور بی بی کی قاتل ق لیگ ہے یہ سیاسی ایشو نہیں ذاتیات اور ذاتی دشمنیاں ہیں ۔ان کا عوام اور عوامی بہبود سے کوئی تعلق نہیں ۔پیپلز پارٹی سیکولزازم کی علمبردار جماعت اور ق لیگ والے بنیاد پرست روایات کے دعویدار ہیں ،یہ تضاد سیاسی ایشو ہے ۔ان کا منشور ہی مشرق و مغرب کی ترجمانی ہے تو پھر یہ کیسے مملکت کا نظام مل کر چلا ئیں گے ۔نظام چلا نا مقصود ہی نہیں بہتی گنگا سے فیض یاب ہونا مطلوب ہے ۔اس میں اتحاد جس سے بھی ہو جائے ۔اس میں کوئی قاتل نہیں کوئی مقتول نہیں سب ہی مظلوم ہیں۔ یہ ہی دیانتداری یہی ان کا ایمان ہے ۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *