بلوچستان کی محرومی اور نئی حکومت
بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جس کے سینے میں قدرت کے بیش بہا دفینے موجود ہیں۔ جسے رقبہ میں پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جو اپنے محل وقوع کی وجہ سے جنگی وہ اقتصادی اہمیت کا حامل ہے لیکن اس کی یہی خصوصیات بلوچستان میں غریب عوام کے جان کی دشمن ہو گئیں۔ بلوچستان ایرانی سطح مرتفع کے مشرقی حصے پر واقع ہے اور اسی حصے میں بر صغیر کی تاریخ کا سب سے پرانا باب ’’مہر گڑھ‘‘ واقع ہے۔ فارسی کی مشہور تصنیف شاہنامہ میں بھی بہادر بلوچوں کے قصے مشہور ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مثنوی کے دو اہم کردار رستم اور سہراب بھی بلوچستان میں بسنے والے سکہ قبیلے سے ہی تعلق رکھتے تھے جو سیستان میں متمکن تھا۔ بلوچستان بر صغیر کا وہ حصہ ہے جو حضرت عثمان کے دور میں ہے اسلامی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔ حالانکہ اس نے ایک مدت تک اسلامی حکومت کے خلاف باغی تیور اپنائے رکھا اور حضرت علی اور امیر معاویہ دونوں کے دور خلافت میں اس حصے میں بغاوتیں بھی ہوئیں اور خونریز جنگیں بھی۔ ۱۹۴۷ میں جب ہندوستان آزاد ہوا اور بر صغیر دو حصوں میں بانٹا تو بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی تاہم حالات تیزی سے بدل رہے تھے اور بلوچستان کو اپنی یہ صورت حال بچائے رکھنے میں مشکل پیش آنے لگی تھی۔ حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے خان قلات نے ۱۹۴۸ میں پاکستان میں اس شرط کے ساتھ شامل ہونے کی حامی بھری کے دفاع، خارجہ اور اقتصادی امور حکومت پاکستان کے ہاتھ میں ہوگا لیکن بلوچستان ایک آزاد ریاست ہی رہے گی۔ محمد علی جناح کی موت کے بعد ایک بار پھر حالات نے کروٹ لی اور بلوچستان کو پاکستان میں ضم ہونا پڑا لیکن بلوچ عوام میں یہ احساس موجود رہا کہ یہ سمجھوتہ مجبوری کے نتیجے میں عمل میں آیا ہے۔ نتیجتاً آج تک بلوچستان کے قوم پرست رہنما اپنی محرومی کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر بڑے ملک کی تاریخ اس طرح کے جبر و استبداد سے داغدار ہے لیکن ان ممالک نے ان علاقوں اور ان کے سکان کو اس طرح خود میں ضم کیا کہ اب وہ اس ملک سے علیحدہ ہونے کا تصور تک نہیں کرتے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوسکا۔ بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا وہ آج بھی محرومی کی آگ میں جل رہا ہے۔ لا محدود معدنی وسائل سے لبریز یہ صوبہ اپنے حصے کی روٹی تک کو ترستا ہے جبکہ اس صوبے سے مہیا کیے جانے والے گیس سے دوسرے صوبے کے گھروں میں چولہے جلتے ہیں۔
بات صرف معاشی محرومیوں کی ہو تو پھر بھی غنیمت ہے ، اس صوبے میں آئے دن لوگوں کی مسخ شدہ لاشیں دریافت ہوتی ہیں جو ان کے زندہ رہنے کے حقوق بھی چھین لیے جانے کی کہانی کہتی ہیں۔
نئی حکومت سے عوام نے بے انتہا امیدیں لگا رکھی ہیں ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ حکومت ان معصوم بلوچوں کو ان کے جینے کا حق دیتی ہے یا اس دور حکومت میں بھی ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی رہیں گی۔