سمیع اللہ ملک ، لندن
ملک سے باہر بیٹھی اقتدار پر نظریں جمائے لیڈر شپ کو اگر ملک و قوم سے حقیقی محبت ہوتی تو یقینا ان کا دل اپنے وطن اور اپنی مٹی اور عوام کیلئے بیتاب ہوتا ۔عوام کو بلیک میل کر کے ان سے نفی میں جواب حاصل کر کے کہلا دیا جاتا ہے کہ وطن واپسی سے ان کی جان کو خطرہ ہے ۔کیا ملک میں دیگر لیڈر زندہ نہیں ہیں ۔ان کی جانوں کو خطر ہ نہیں ۔ان جیسے افکار رکھنے والے کئی راہنما اس وقت بھی اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ملک میں موجود ہیں ۔اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہیں جان زیادہ پیاری ہے ،مشن زیادہ پیارا نہیں ۔کیا ان کے دیگر ساتھی جو دنیا سے گذر گئے ان کی جان کی کوئی قیمت نہیں تھی ۔خیبر پختون خواہ بلوچستان اور سندھ میں کئی قوم پرست لیڈر موجود ہیں جو صوبائی حقوق ،خود مختاری ،اور دیگر کئی متنازعہ امور کو بیانات اور مجالس میں بیان کرتے رہتے اور ان کیلئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں ۔ایم کیو ایم حقیقی کے راہنما تو عرصہ دراز سے پس زنداں ہیں ۔موت اگر دیار غیر میں نہ آتی تو ڈاکٹر عمران کو ہرگز نہ آتی ۔ضروری نہیں کہ ہر سیاسی جماعت اکثریتی علاقے اور اس کی اجارہ داری کو صوبہ قرار دیا جائے ۔اگر ملک اور قوم کی خدمت کا جذبہ ہو تو اس صوبائی تقسیم میں ہی یہ خدمت سر انجام دی جا سکتی ہے ۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کے ازلی اور ابدی دشمن جو پاکستان کے وجود سے متنفر ہیں اور پاکستان کو ٹکڑے کرنے کیلئے ہر وقت منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں کا مشن بھی یہی ہے ۔پاکستان کو گروہی اور لسانی بنیادوں پراتنا تقسیم کرو کہ ان میں سے ایک قوم کا احساس مٹ جائے ۔ پاکستان میں گروہی اور لسانی تعصبات کو ہو ا دی جائے اور انہی گروہی اور لسانی بنیادوں پر وفاق پاکستان کو کمزور کیا جائے ۔ہر نسل اور زبان کیلئے اگر صوبہ علیحدہ ہو تو پھر مستقبل میں یہ نسلیں اور زبانیں اپنی برتری کے ثبوت کیلئے ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں ہونگی ۔اس کی ایک جھلک چارروں صوبوں میں پانی کی تقسیم کے موقع پر دیکھی جا سکتی ہے ۔دریائی پانی کی تقسیم کے موقع پر وراٹر مینجمنٹ بورڈ کے اجلا سوں کے موقع پر مختلف صوبوں ،مختلف گروہوں ،لسانی گروپوں کی اپنے اپنے مفادات کیلئے کشمکش صرف وفاق کے زیر اہتما م ہونے کی وجہ سے مذاکرات و بیانات تک محدود رہتی ہے ۔بصورت دیگر اس کیلئے مسلح جدوجہد ہرگز خارج الا امکان قرار نہیں دی جا سکتی ۔دیگر ایسے کئی معاملات ہیں جن پر چھوٹے اوربڑے صوبے اور اس طرح کے الفاظ سے ایک دوسرے پر حقوق کے غضب کا الزام لگایا جاتا ہے ۔اگر وفاق پاکستان نہ ہو تا تو یقینا یہ معاملات باہم جنگ کیلئے انتہائی کافی ومعاون مواد ہیں ۔موجودہ حالات میں سوائے پنجاب کے باقی صوبوں میں دیگر صوبوں کے افراد کو نفرت و تزہیک کی نگاہ سے دیکھا جا نے لگا گیا ہے ۔ یہ سوچ جاگیردارنہ سوچ کے مساوی قرار پائے گی کیونکہ ہر جاگیردار اور مزارعین کیلئے حکمران کا درجہ رکھتا ہے ۔اسی طرح لسانی اور علاقائی تعصب کے حاملین اپنے اپنے علاقہ جات میں اجارہ داریوں کیلئے وفاق پاکستان کے مضبوط قلعہ کی اینٹیں ہلانے کی تمنا کررہے ہیں ۔خود کو قومی سطح پر نہ جانے کی اہلیت کے سبب ان کی سوچ انہیں اپنے علاقہ اور رسوخ پر حکمرانی کی خواب دکھاتی ہے۔پہلے کہاں سے کھاتے تھے اور بعد میں کہاں سے کھائیں گے یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے ۔ ملک کو اکائیوں میں تقسیم کر کے اجارہ داریاں قائم کرنے سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اقوام عالم میں ہر گز سرخرو نہیں کیا جا سکتا ۔کراچی کو صوبہ کا درجہ دیاجائے یا بہاولپور کو یا ہزارہ کو صوبہ بنایا جائے ان علاقوں کی ترقی صرف اچھی پلاننگ سے منسلک ہے ۔اگر لیڈر شپ چاہے تو ان علاقوں میں ان کے عوام کیلئے معاشی زرائع یعنی صنعت و حرفت کو ترقی دےکر کئی محرومیوں کا ازالہ و مداوا کیا جا سکتا ہے ۔کراچی کیا تھا اور کیسے سب کیلئے پرکشش بنا یا گیا ۔اس طرح بلوچستان خیبر پی کے اور دیگر صوبوں میں بھی صنعت و حرفت کو ترقی دیکر کراچی پر بڑھتے دباﺅ اور آبادی کے بوجھ اور معاشی ہجرت کو روکا جا سکتا ہے ۔ملک میں صنعتوں کو ترقی دینے کیلئے توانائی درکار ہے ۔ریلوے کی ضرورت ہے ۔ہم صرف موبائل اندسٹری کو ہی قومی ترقی کا معیار قرار دیتے ہیں۔اس مظلوم قوم کے ساتھ اس سے سنگین مذاق اور کیا ہو سکتا ہے کہ ملک میں بجلی ،پانی ،گیس چینی ،آٹا جیسی بنیادی ضروریات ہی عوام کی دسترس سے باہر ہیں ۔کیا نئے صوبے بنانے سے ملک میں امن وامان لا قانونیت ، انصاف کی فراہمی جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔کیا اس وقت ملکی خزانہ اور دیگر سیاسی و علاقائی ریجنل حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ ایک قوم کی بجائے لسانی اور نسلی گروپوں میں تقسیم ہو ا جائے ۔ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے لیے صرف مبلغ ہونا یا پرچار کر دینا ہی خدمت ہے یا اس پر عمل کر کے دکھانا اور عملی منصوبہ بندی کرنا بھی ضروری ہے ۔فلمی اداکاراﺅں پر تنقید کر دینا اور انہیں ملک کی اہانت کا مجرم قرار دینے سے قوم کی خدمت کا فریضہ ادا نہیں ہو جاتا ۔ہمارے حکمرانوں کی آل و اولا د بیرون ملک جن سرگرمیوں کی مرتکب ہوتی ہے وہ ملک اور قوم کیلئے باعث ندامت کیوں قرار نہیں پاتیں ؟قول و فعل میں تضاد صرف سیاسی دنیاداروں کا وطیرہ نہیں بلکہ مذہبی راہنما بھی اس سے مبرا نہیں ۔اگر ملک میں خلافت کے نظام کیلئے جد و جہد کی بھی جائے تو سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ خلیفة المسلمین کون ہو گا َ؟کیا خلافت کا تاج اٹھانے کے لا ئق ہماری کوئی مذہبی سیاسی ہستی ہے ۔ایک سے بڑھ کر ایک دنیاداری کیلئے حریص کیا اتنے بڑے مذہبی اور سیاسی منصب کیلئے کوالیفائی کر پائیں گے ۔خلافت کا نعر] ]>