سمیع اللہ ملک
لندن
بھانڈہ پھوٹا بیچ بازار!
قصرِ سفید میں ایک کھلبلی سی مچ گئی ہے اوراس کے دفاعی اداروں کی گرتی ہوئی ساکھ پر کڑی نکتہ چینی ہورہی ہے اوردنیا بھر میں حکومت کرنے والی امریکی انٹیلی جنس اس وقت ایک گرداب میں پھنسی نظر آرہی ہے۔قصر سفید کے فرعون باراک اوبامہ اوراس کی انتظامیہ کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنے اتحادیوں اوردنیا کے سامنے افغانستان میں پھنسی اس کی فوج اوراس کے جاسوسی کے اداروں کی تیارکردہ بانوے ہزار(۹۲۰۰۰)خطرناک جاسوسی رپورٹوں کے انکشاف کا کیا عذرپیش کیا جائے۔سی آئی اے کے سابق سربراہ مائیکل ہیڈنز(Michael Hayden)کا یہ کہنا ہے کہ ‘‘کسی بھی امریکا مخالف انٹیلی جنس کےلئے یہ معلومات کا ایک شاندار خزانہ ہے’’۔ دوسری طرف سیاسی قیادت کو یہ فکر ہے کہ ان دستاویزات کے سامنے آنے کے بعد اس کے یورپ، مشرقِ وسطیٰ اورجنوبی ایشیا میں حلیف کس حد تک اس پر اعتماد کےلئے تیار ہونگے۔یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن میں ایک بھگدڑ سی مچی ہوئی ہے جس کا مقصد امریکی فوج یااس کے خفیہ اداروں کے ان لوگوںیا اس شخص کی شناخت کرنا ہے جو اس رپورٹ کو افشاءکرنے کا مرتکب ہوا ہے کیونکہ ان رپورٹس کے اہداف میں ایک ہدف پاکستانی فوج اورآئی ایس آئی کے طالبان سے دیرینہ تعلقات کا ہوا کھڑا کرنا تھا ۔ آج سے امریکا میں متوقع ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے ۔امریکا کے بڑے بڑے اخبارات اورٹیلیویژن پرکئی امریکی کانگرس کے ممبران پاکستان کےلئے امریکی امداد کو نئے سرے سے جانچنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔بانوے ہزار(۹۲۰۰۰)خفیہ دستاویزات جس کو ”وکی لیکس“(Wiki Leaks)کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ان تمام رپورٹس کو زیربحث لاناتو قطعی ناممکن ہے لیکن اس میں کچھ رپورٹس جس کا تعلق آئندہ پاکستان کے مستقبل سے ہے اس کا مختصر جائزہ حاضرِ خدمت ہے۔
”وکی لیکس’’ کی جاری کردہ اس رپورٹ میں امریکی فوج اوراسکے خفیہ ادارے کا بنیادی ہدف پاکستانی فوج اورآئی ایس آئی ہے ان رپورٹس کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس طالبان کی مدد کررہی ہے ۔ رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ ‘‘امریکی فوجیوں کے خلاف شدت پسند نیٹ ورک کی تنظیم کےلئے آئی ایس آئی نے طالبان کے ساتھ براہِ راست خفیہ میٹینگز کیں’’ان ۹۲۰۰۰ رپورٹس میںسے تقریباً۱۹۰رپورٹس میں آئی ایس آئی کا ذکرکرتے ہوئے ایجنسی پر افغانستان میں نیٹو اورامریکی افواج پر حملوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا گیا ہے۔
”مارچ ۲۰۰۷ءکی ایک رپورٹ میں یہ الزام بھی عائدکیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی نے شدت پسندلیڈر جلال الدین حقانی کو افغانستان میں خودکش حملوں کےلئے ۱۰۰۰ موٹر سائیکلیں مہیا کیں’’۔وکی لیکس کی رپورٹ میں اس اہم نکتے کی بھی نشاندہی کی ہے کہ‘‘ڈرون حملوں کی کامیابی کے حوالے سے غلط دعوے کئے گئے اورافغانستان اورعراق میں دراصل ۳۸ پریڈیٹراورریپر ڈرون طیارے گرکرتباہ ہوچکے ہیں’’۔انہی خفیہ رپورٹس کے اندر ایک اوراہم بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ آج ۰۳سال کے بعد بھی طالبان کے پاس اسٹنگر میزائلز (Stringer Missile) موجود ہیںاوریہ اسٹنگر میزائل کاندھے پر رکھ کر چلائے جاتے ہیں۔ان اسٹنگر میزائل کا نشانہ فضائی افواج اورجنگی جہاز ہوتے ہیں، جنہوں نے روسی افواج کی شکست میں نمایاں اورفیصلہ کن کردار ادا کیا تھا اور مجاہدین کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھااوراب انہی اسٹنگر میزائل نے امریکی اوراتحادی افواج کو برح طرح پسپائی پر مجبور کیا ہے ۔کئی امریکی جہاز اورہیلی کاپٹر ان میزائلوں کا شکار ہو کر تباہ ہوچکے ہیں جن کی بنیاد پر اب امریکا اپنے ہیلی کاپٹرز اورجہازوں کو استعمال کرنے سے گریز کررہا ہے۔
انہی رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ‘‘ شہریوں کو اس ظالمانہ اورشرمناک انداز سے ہلاک کیا گیا ہے کہ اس تہذیب یافتہ دور میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی مثلاً ایک بوڑھے کو جو قوت سماعت سے محروم تھا اجوامریکی وارننگ کوسن نہ سکا اوراس کو ہلاک کردیا گیا ورایک نہتی بوڑھی عورت کوبھی نشانہ بناکر ہلاک کردیا گیا۔ امریکی اورافغان حکام نے ہزاروںشہریوں کی ہلاکتوں کی تعدادکو خفیہ رکھا اورتقریباً۴۴۱مختلف حملوں میں اس طرح کے ظالمانہ حملوں میںہزاروں افغان شہریوں کی ہلاکتوں کو چھپایاگیاہے’’۔
ایسی ہی ایک اوررپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن اب بھی زندہ ہے اوراس جنگ کو جاری رکھنے میں اس کا اثرونفوذاب بھی موجود ہے۔اس سلسلے میں ایک عجیب مثال پیش کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ شدت پسندوں کی شادیاں عربی خواتین سے کی گئیں‘اسامہ بن لادن نے نہ صرف قاری نجیب اللہ کے بھائی اورریڈیوکنٹرولڈبارودی سرنگیں بنانے کے ماہرعبداللہ کی شادی عرب خاتون سے طے کی بلکہ اسامہ بن لادن نے خود اس شادی میں شرکت بھی کی ۔اس کے ساتھ اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکا کے ہاتھوں طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے آٹھ سال بعدآئی ایس آئی کے علاوہ اب ایک اطلاع کے مطابق ایران نے بھی طالبان کو سرما یہ فراہم کرنا شروع کردیا ہے ۔افشاءکی گئیں دستاویزات میں جنرل حمید گل کا تذکرہ آٹھ مرتبہ کیا گیا‘رپورٹس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ۱۹۸۷ءسے ۱۹۸۹ءتک آئی ایس آئی کی سربراہی کرنے والے ریٹائرڈجرنیل نے دسمبر۲۰۰۶ءمیں افغان اوراتحادی افواج پر حملوں کا حکم دیا تھا۔مزید برآں شدت پسندوں کی راہ ہموار کرنے کےلئے ان پر اقوام متحدہ کے اسٹاف کے اغواءکا بھی الزام لگایا گیاہے۔
ان تمام الزامات کے جواب میں پاکستانی افواج کے ترجمان اورآئی ایس آئی نے اس کو ایک افسانہ قرار دیتے ہوئے ‘ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘رد کردیا ہے۔یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ اس رپورٹ کو جہاں امریکی میڈیا اورامریکی کانگرس کے اہم ارکان باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت اچھال رہے ہیں وہاںاس وار آن ٹیرر کی امریکی جنگ میں آخر پاکستانی افواج کی پچھلے تین سالوں میںتین ہزار سے زائد شہادتوں ‘پندرہ ہزار سے زائد سیکورٹی افراد کے زخمی ہونے‘ پانچ ہزارسے زائد پاکستانی سویلین کی مختلف دہشت گردوں کے حملوں میں شہادتوںاوراربوںروپے کے پاکستانی نقصان کا ذکر کیوں نہیں ہے؟جبکہ ان تمام حملوں کی ذمہ داری باقاعدہ طالبان نے قبول بھی کی ہے ؟آج امریکا میں صرف پاکستانی افواج اورآئی ایس آئی کے طالبان کے ساتھ خفیہ رابطوں کے الزامات کا تذکرہ کیوں ہورہا ہے ؟اوراس بے بنیاد الزامات کو آخر کیوں اچھالا جا رہا ہے؟پچھلے نوسال میں پاکستان نے اپنے سارے وسائل کو اس وار آن ٹیرر میں جھونک کر پرائی آگ سے ملک کو برباد کرکے رکھ دیا ہے لیکن !
ان رپورٹس کے انکشاف کایقینی مقصدیہی نظر آتا ہے کہ اوبامہ حکومت پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ وہ پاکستانی حکومت اورفوج کے ساتھ امریکی تعلقات پر نظرثانی کرے تاکہ افغانستان میں امریکی شکست کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالا جاسکے اورپھر اگلے مرحلے میں پاکستان کو ہرطرح کی عالمی امداد سے محروم کرکے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ناکام ریاست قراردیکر اس کی نیوکلیر صلاحیت کو ختم کیا جاسکے۔آج کے امریکی میڈیامیں بڑی شدومد کے ساتھ افغانستان میں امریکی افواج کی شکست کا ذمہ دار صرف پاکستان کو ٹھہرایاجارہا ہے جب کہ پاکستانی فوج کے ترجمان اورآئی ایس آئی نے ان رپورٹس کو محض ایک افسانہ قراردیکر لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔لیکن اس کے پیچھے ہے کیا؟اس کا بھانڈہ بیچ بازار میں پھوٹ چکا ہے کہ ان رپورٹس کا مقصد صرف پاکستان‘اس کی فوج اورآئی ایس آئی پر اپنے دباؤمیں مزید اضافہ اوراپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کےلئے اپنے احکام کی تعمیل مقصود ہے۔
دنیا کے تمام تجزیہ نگار اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ بلاوجہ یا بغیر کسی مقصد کے ایسی رپورٹس دنیا کے میڈیا میں سامنے نہیں لائی گئیں اور اس قدر خوفناک رپورٹس کے انکشاف کے بھی یقینا کوئی خطرناک مقاصد تو ضرور ہونگے۔اس سے پہلے بھی ویت نام جنگ کے بارے میں بھی پینٹاگون نے ایسے ہی خفیہ دستاویزات کے انکشاف میں امریکی حکومت کو یہ پیغام دیا تھا کہ دراصل امریکا یہ جنگ بری طرح ہاررہا ہے اورامریکی قوم کو بھی ایسی ہی تصویر دکھا ئی گئی تھی جس کے بعد امریکا نے شدید عوامی دباؤ کے بعد ویت نام جنگ کو ختم کرنے کا اعلان کیا اورآج بھی ان رپورٹس کوشائع کرنے کا مقصد”ان امریکی اداروں کی خواہشات کو شکست دینا ہے جو اس نام نہاد وارآن ٹیر رکے حامی ہیںاورعین اس وقت جب امریکی کانگرس افغانستان میں جنگ کےلئے تیس ارب ڈالردینے کےلئے بحث کا عمل شروع کرچکی ہے تاکہ امریکی کانگرس کے ارکان کی توجہ افغانستان میں امریکا کی شکست کی طرف مبذول کروائی جا سکے کہ اب امریکی فوج اوراس کے تمام دفاعی اداروں کی حکمت عملی بری طرح تتربترہوچکی ہے اور اب اس بے مقصد جنگ میں امریکا کے بنیادی حلیف بھی درپردہ اس کے خلاف ہوچکے ہیں“۔اسی لئے ایک دفعہ پھرپاکستانی فوج اورآئی ایس آئی کو قربانی کا بکرا بنا کران رپورٹس کی مددسے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کردیا گیا ہے کہ پاکستان اب امریکا کا وفادار دوست نہیں ہے۔
امریکی حکام ان دستاویزات کے حوالے سے اپنے کن مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں ااب ان کا بھانڈہ بری طرح پھوٹ چکا ہے۔اس کی بڑی تصویرجو سامنے آئی ہے جو امریکا کے سب سے بڑے اوربااثراخبار‘‘نیویارک ٹائمز’’جس نے سب سے پہلے یہ دستاویزات شائع کی تھیں اب مختلف انداز میں اپنی آراءکا اظہار بھی کررہا ہے۔اس نے اپنے اداریے میں پاکستان کی فوج اورآئی ایس آئی پر مختلف سنگین الزامات لگاتے ہوئے امریکی حکومت سے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پرنظرثانی کا مطالبہ کیا ہے ۔یہی اخبار ۲۷جولائی ۲۰۱۰ءصفحہ اول پر اپنی ایک خبر میں امریکی حکومت سے پوچھ رہا ہے کہ ان دستاویزات کے انکشاف سے آخر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں ؟ نیویارک ٹائمزکی صفحہ اول کی اس خبر کو ملاحظہ کریں:
”امریکی انتظامیہ کے کئی افسران نے خفیہ طور پر اس امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ افشاءہونے والی خفیہ معلومات اوراس میں بیان کئے گئے پاکستان کے دہرے کردار کو حکومت پاکستان پر دباؤبڑھانے کےلئے استعمال کریں گے تاکہ وہ دہشت گردی کے خلاف امریکا سے مکمل طورپر تعاون پر آمادہ ہوسکے۔“گویا خود امریکی افسران کے اس اعتراف کے بعد کھل کریہ بات سامنے آگئی ہے کہ امریکا ان دستاویزات کو پاکستان پرمزید دباؤ بڑھانے کےلئے استعمال کرے گا۔اسی خبر میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے:
”امریکی انتظامیہ کے تین افسران نے علیحدہ علیحدہ بات کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیاکہ ان دستاویز کے ذریعے پاکستان پر دباؤبڑھانے کا موقع ملے گا ۔ ان میں سے دوافسران نے کہا کہ پاکستان کو وارننگ دی جا سکتی ہے کہ ان خفیہ دستاویزات کی بناءپر کانگریس میں پاکستان کی امداد کاٹنے کےلئے دباؤ بڑھ رہا ہے۔“یعنی اب پاکستان کو من وعن امریکی احکام کی تعمیل کےلئے کہاجائے گا۔اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان دستاویزات کے انکشاف کے پیچھے امریکی حکومتی اداروں کا عمل دخل ضرور ہے۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ انٹیلی جنس اداروں کی بانوے ہزار خفیہ رپورٹس ایک ہی رات میں ”وکی لیکس“(Wiki Leaks) ویب سائٹ پر منظرِ عام پر آجائیں۔ اس رپورٹ کو دنیا میں سب سے پہلے امریکا میں نیویارک ٹائمز‘برطانیہ میں گارڈین اورجرمنی میں مشہور میگزین ” سپیگل“(Spiegel) میں شائع کروانے کا مقصد ہی ان ملکوں کے عوام کو بتانا مقصود تھا جو اس نام نہاد جنگ کاحصہ بنے ہوئے ہیں اوران کے عوام کے ساتھ ساتھ شائد امریکی عوام کو یہ بتانا مقصود ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار امریکا نہیں بلکہ صرف پاکستانی فوج اورآئی ایس آئی ہے ۔
نیویارک ٹائمز نے اس رپورٹ میں امریکی حکومت کی خواہشات کے مطابق امریکی عوام کو اس جنگ کی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے لیکن برطانیہ کے گارڈین نے اس جنگ کی شکست کا ذمہ دار امریکا اوراس کے اتحادیوں کو بھی ٹھہرایا ہے لیکن اس رپورٹس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ امریکا اوراس کے اتحادی یہ جنگ کبھی بھی جیت نہیں سکتے تھے۔اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح ناقص جنگی حکمت عملیوں کی بناءپر جنگی سازوسامان کا نقصان کیا گیا ہے۔مثلاًایک ایسا امریکی میزائل جس کی مالیت ساٹھ ہزارڈالر بتائی گئی ہے محض اس شک کی بنیاد پر فائر کیا گیا کہ طالبان ان پر حملے کی تیاری کررہے ہیں جبکہ وہاں کوئی بھی فرد موجود نہیں تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکا میں بھی اس بات کو شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ ان دستاویزات کے نتیجے میں تلخی بہت بڑھ گئی ہے اورپاکستان کہیں اس شدید دباؤکے نتیجے میں امریکی حمائت سے کلیتاً ہاتھ نہ کھینچ لے جب کہ اس وقت امریکی فوج کے انخلاءکےلئے پاکستان کی ابھی اشد ضرورت باقی ہے اس لئے اس تلخی کی شدت کو فوری کم کرنے کی کوششیں بھی شروع ہو گئیں ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی کانگرس کی فارن ریلیشن کمیٹی کے چیرمین سینیٹرجان کیری نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے پہل کی ہے ۔انہوں نے‘‘وکی لیکس’’کی ان رپورٹس کی تردید تو نہیں کی لیکن گاجر اورچھڑی کی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے امریکی قوم اورکانگرس کو کہا کہ اب پاکستانی فوج میں کافی تبدیلی آرہی ہے اوروہ اب آگے بڑھ کر ان دہشگردوں کے خلاف کاروائی کررہی ہے اس لئے یہ تصویر اب تھوڑی سی مختلف ہے جس کا ذکروکی لیکس کی رپورٹ میں ہے۔
کانگرس کے اس اہم اجلاس میں جہاں افغانستان کے بارے میں بڑی اہم بات چیت ہو رہی ہے’امریکی کانگرس کے سامنے پیش ہوتے ہوئے سینیٹرجان کیری نے یہ بیان دیا :
”شدت پسندوںاورپاکستانی انٹیلی جنس کے درمیان رابطوں کے الزامات نئے نہیں ہیں تمام لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ہم ان الزامات سے نبردآزما ہیںاورہم نے اس سلسلے میں پیس رفت کی ہے ۔جنرل(اشفاق پرویزکیانی)‘جنرل (احمد شجاع پاشا) اوردیگر افسران یہاں کا دورہ کرچکے ہیں اورپاکستان میں بھی ہم نے اس پر کئی میٹنگز کی ہیںاوریہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے‘اس سے ہم کافی عرصے سے نبردآزما ہیں اورکافی پیش رفت کی ہے‘خصوصی طور پرجب ہم سیاسی مشکلات اورخطرات کے باوجود سوات‘جنوبی وزیرستان اوردیگر علاقوں میں پاکستانی آپریشن کی بات کرتے ہیںامریکی انتظامیہ کے دیگر اعلیٰ افسران کے ساتھ ساتھ میں نے بھی پاکستانی قیادت کو خدشات سے آگاہ کیا ہے اورباربار اس بات پر زوردیا ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف جنگ پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکا کے بھی مفاد میں ہے“۔گویا سینیٹرجان کیری نے اس رپورٹس میں جن خدشات کا اظہار کیا گیا ہے اس کو درست سمجھتے ہوئے پاکستان کی محض صرف اس لئے وکالت کی ہے کہ اب پاکستان امریکا کے احکام کی تعمیل کررہا ہے۔
وکی لیکس کی اس رپورٹ پراس مختصر جائزے کے بعداب یہ خدشات یقین کی حدوں کو چھونے لگیں ہیں کہ افغانستان سے امریکا کی رخصتی اب یقینی ہو گئی ہے لیکن امریکا پاکستان کو مزید مشکلات سے دوچار کرنے کےلئے اپنے منصوبے پر عمل کرنے جارہا ہے۔امریکا کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ افغانستان کی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کےلئے پاکستان کونیوکلیر صلاحیت سے محروم کردیا جائے تاکہ اس کے سب سے بڑے اتحادی یہود وہنود کی دیرینہ آرزوپوری ہوجائے۔ اسی لئے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت آج برطانیہ ‘بھارت اورافغانستان بیک زبان پاکستان کو دہرے کردار کا موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔آئی ایس آئی کے سابقہ سربراہ جنرل حمید گل کے موقف سے صد فیصد اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ امریکا کا نائن الیون بہانہ تھا‘افغانستان ٹھکانہ اورپاکستان نشانہ ہے۔انہوں نے بھی یہ کہا کہ” یہ تمام دستاویزات ایک افسانہ ہیں اورسویلین کنٹریکٹر نے کمائی کےلئے یہ معلومات بیچ دیں ہیں“۔
معاملے کی تہہ تک پہنچنے کےلئے اب کوئی مشکل باقی نہیں رہی۔ایران پر حملہ مو
¿خر کردیا گیا ہے ‘عراق سے واپسی کا اعلان پہلے ہی ہوچکا ہے ‘افغانستان سے واپسی بھی طے ہے بلکہ یقینی ہے چنانچہ اس قدر بھاری جنگی مشینری اورامریکی لڑاکا فوج کےلئے کوئی تو ہدف ہونا چاہئے ‘پھر پاکستان کیوں نہیں ؟اب ایک دفعہ پھر بھارتی ‘برطانوی اورامریکی میڈیاسب مل کر پیالی میں طوفان برپا کریں گے اوراس رپورٹس کی بنیاد پرمیڈیا ٹرائل کو وسعت دینے کی کوشش کریں گے۔اب یہ پاکستانی فوج اورآئی ایس آئی کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اس بے بنیاددباؤ سے کس طرح باہر نکلتے ہیں۔جنرل ضیاءالحق کے دور میں بھی پاکستان کے نیوکلیر پروگرام پر عالمی دباؤ بہت زیادہ تھا لیکن افغانستان میں روسی مداخلت کی بناءپر عالمی دباؤ یکسر ختم ہوگیا تھا ۔اب پاکستانی فوجی قیادت اس بات سے واقف ہے کہ روس کی افغانستان میں موجودگی کے دور میں امریکا کو پاکستان کی جتنی ضرورت تھی ‘آج امریکا کو پاکستان کی اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
پاکستان میں بھی ایسی ویب سائٹ کی سخت ضرورت ہے جہاں امریکی فوج‘امریکی انٹیلی جنس اداروں ‘بلیک واٹر کے کالے کرتوت اورپاکستان میں ایسے تما م گروہوں کی نشاندہی کی جائے جو امریکی استعمار کی مدد سے کام کررہے ہیں اور یہ ساری معلومات توپاکستانی خفیہ اداروں کے پاس یقینا ہونگی ۔