Home / Socio-political / بے مقصد مذاکرات

بے مقصد مذاکرات

سمیع اللہ ملک

پاک بھارت خارجہ سیکرٹریزکے درمیان دوروزہ مذاکرات ۲۳جون کوشرع ہوئے اورکسی بڑی تبدیلی کے بغیرختم بھی ہوگئے۔اس سے پہلے مارچ سے لیکر جون تک مذاکرات کے تین راوٴنڈوزارت ِداخلہ،دفاع اورٹریڈ سیکرٹریزکے درمیان بھی منعقد ہوچکے ہیں۔اب جو خارجہ سیکریٹریزکے درمیان دوروزہ مذاکرات کادورہوا اس کی بنیادی اہمیت یہ تھی کہ سابقہ مذاکرات کی روشنی میں پاک بھارت تعلقات کوکیسے آگے بڑھایاجائے اوران تعلقات کی روشنی میں آئندہ دہلی میں ہونے والی پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات کاٹائم ٹیبل اورایجنڈہ مرتب دیاجائے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں اطراف سے میڈیاکی جانب سے ان کوبے سوداوربغیرکسی نتیجے پرپہنچنے والے مذاکرات سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ کیاوجہ ہے کہ ایک ارب سے زائد آبادی والے اس خطے میں مایوسی کے بادل کیوں چھائے رہتے ہیں؟

دراصل اس مایوسی کی وجہ پچھلے کئی سالوں پرمبنی ناکام مذاکرات کاایک طویل ٹریک ریکارڈ ہے۔ہردفعہ مذاکرات کاڈھول پیٹاجاتاہے،میڈیاکے سامنے کئی مشترکہ اعلامیوں میں امید کی آس دکھائی جاتی ہے لیکن بظاہرآج تک ان تمام مذاکرات کاکوئی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیابلکہ ہمیشہ فریقین کی طرف سے ایک دوسرے پرالزامات کی بوچھاڑ کرکے مسائل کی سنگینی کومزیدتلخ کردیاجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ بھی پاکستانی ان مذاکرات کوبھارت کی طرف سے ایک وقت گزارنے کاایک بہانہ قراردیتے ہوئے کسی امیدافزاء نتائج کی توقع نہیں کررہے ۔البتہ یہ بات تودرست ہے کہ بالآخران تمام مسائل کاحل مذاکرات کے نتیجے میں ہی سامنے آئے گالیکن کب؟ حالیہ خارجہ سیکرٹریزکے مذاکرات میں جہاں تجارت، دہشتگردی اوردیگرمسائل پرمذاکرات ہوئے وہاں پاکستان کی طرف سے کشمیرکے مسئلے کے پائیدارحل کوایک بارپھرخصوصی اہمیت دیتے ہوئے دوسرے مسائل سیاچین ،سرکریک ،وولربیراج اوردریاوٴں کے پانی کے مسائل کے حل پرجہاں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ،بھارت سے سنجیدگی اختیارکرنے کامطالبہ کیاگیا۔

پاکستان میں سیلاب کی تباہی کے بعدخود بھارت نے پاکستان سے بہت ہمدردی کااظہارکرتے ہوئے امداد کی پیشکش بھی کی تھی ،اس وقت جب یورپی یونین نے ایک مخصوص مدت کیلئے پاکستان کواپنی تجارتی منڈیوں میں رعائت دینے کاپروگرام بنایاجوکہ اس وقت کے حالات کے مطابق پاکستانی کی معاشی حالات کودرست کرنے کاایک بہترین موقع تھا،لیکن اس وقت بھارت نے ”ڈبلیو ٹی او“کے ممبر ہونے کے ناطے یورپی یونین کے اس پروگرام کاراستہ روک دیااوربھارت ابھی تک اپنے اس موٴقف پرقائم ہے۔گویاپاک بھارت مذاکرات کی کامیابی میں ہمیشہ بھارت کاایک مخصوص”مائنڈسیٹ“حائل ہوجاتاہے جسکی بناء پرکسی بھی مسئلے کاحل ابھی تک سامنے نہیں آسکا۔بھارت ہمیشہ ان مذاکرات کی آڑمیں اقوام عالم کویہ تاثردیکردھوکہ دینے کی کوشش میں کامیاب ہوجاتاہے کہ وہ اس خطے میں اپنے ہمسایوں سے پرامن تعلقات کاخواہاں ہے جبکہ حالات ہمیشہ اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں لیکن پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ناتجربہ افراد کی بدولت ہماری ناکام خارجہ پالیسی بھارت کے اس دوغلے پن کابھانڈہ پھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

پاک بھارت مذاکرات کی ناکامی میں جہاں اورکئی عوامل شامل ہیں وہاں مسئلہ کشمیرسب سے بڑی رکاوٹ اس لئے ہے کہ بھارت خود اس مسئلے کے حل کی دہائی دیتاہوااقوام متحدہ کے پاس گیاجہاں اقوام عالم کے سامنے بھارت نے تحریری طورپرکشمیریوں کوخودارادیت دینے کاوعدہ کیااورآج تک بھارت اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں پرعملدرآمدسے گریزکرتاچلاآرہاہے۔پچھلے تریسٹھ سالوں میں بھارت کی سات لاکھ سے زائد فوج اب تک ایک لاکھ سے زائدکشمیریوں کوموت کے گھاٹ اتارچکی ہے اورہزاروں عورتوں کی عصمت لوٹنے کے ساتھ ساتھ معصوم بچے بھی بھارتی افواج کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہے۔بھارت جودنیامیں ایک بڑی جمہوری حکومت کادعویٰ کرتاہے ،آج تک اس نے کشمیرمیں غیرملکی ذرائع ابلاغ یاکسی انسانی حقوق کی علمبردارجماعتوں کواس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ کشمیرکے حالات کاجائزہ لیکراقوام عالم کوبھارتی ظلم کی صحیح تصویردکھاسکیں۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان جب بھی ایک فریق کی حیثیت سے بھارت کی توجہ مسئلہ کشمیرکی طرف دلاتاہے توبھارت بڑی ہٹ دھرمی سے پہلے دوسرے مسائل کوحل کرنے کامطالبہ کرتاہے جبکہ پاکستان دوسرے مسائل کے ساتھ کشمیرکے بنیادی مسئلے کواولیت دیتاہے کیونکہ بھارت کشمیرسے تمام دریاوٴں کے پانی کارخ پاکستان سے موڑکر پاکستان کی زراعت کوتباہ کرکے اس کوصحرامیں تبدیل کرنے کے پروگرام پرعملدرآمدکررہاہے تاکہ پاکستان کی معیشت کواس قدرتباہ وبربادکردیاجائے کہ بالآخرخاکم بدہن پاکستان کے وجودکوخطرات لاحق ہوجائیں اورپاکستان بھارت کی جھولی میں جاگرے اوراس طرح مسئلہ کشمیرہمیشہ ہمیشہ کیلیے ختم ہوجائے۔سیاچین اوروولربیراج کے مسائل کاتعلق بھی کشمیرکے ساتھ منسلک ہے اس لئے ان تمام مسائل کاحل کشمیرکے ساتھ منسلک ہے اوریہ تمام علاقے اس وقت بھارت کے ناجائزتسلط میں ہیں اوریہی وجہ ہے کہ بھارت ان مسائل کے حل میں مختلف تاخیری حربے استعمال کررہاہے جس کی بناء پرہمیشہ یہ مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں۔

سیاچین ،وولربیراج اورسرکریک کوتوایک طرف رکھیں ، اس ایک واقعے سے بھارت کے کردارکااندازہ ہوجائے گاکہ ۲۸مارچ کوبھارتی نیوی نے کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ پانچ پاکستانیوں کوصومالی قزاقوں کی قید سے چھڑوایالیکن بھارت نے باقی تمام دوسرے افرادکوان کے ملکوں میں واپس بھجوادیالیکن تین ماہ گزرجانے کے باوجودپاکستانی ابھی تک بھارتی جیلوں میں قید ہیں اورابھی تک پاکستانی قونصل خانے کے ارکان کوبھی ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ ابھی چنددن پہلے ایک مصری کارگوجہازکوجس میں مصری،پاکستانی اورچھ بھارتی افرادکوصومالی قزاقوں کوبھاری تاوان دیکررہاکروایاگیاحالانکہ اس تاوان کی رقم میں بھارت نے وعدہ کرنے کے باوجودکوئی مالی مددنہیں کی اورپاکستانی عوام نے انسانی ہمدردی کی خاطراپنی جیبوں سے تاوان کی رقم اداکرکے نہ صرف سب کوبحفاظت رہائی دلوائی بلکہ پاکستان میں پرجوش خیرمقدم کرتے ہوئے فوری طورپران کوواپس ان کے ملکوں میں روانہ کردیاگیا۔

سوال یہ ہے کہ بھارتی میڈیاآخراس بھارت کی کھلی منافقت کے خلاف کیوں گنگ ہے اوراوروہاں پرانسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں میدان عمل سے کیوں غائب نظر آتی ہیں؟یقیناوہاں پربھی کئی تنظیمیں اس خطے میں امن قائم کرنے اورنتیجہ خیزمذاکرات کی خواہشمند ہونگی ،ارون دھتی جیسے کئی دوسرے افراداب بھی بھارتی مظالم کوبے نقاب کرنے میں پیش پیش ہیں لیکن محسوس ہوتاہے کہ بھارتی بیوریوکریسی میںآ ج بھی ان شرپسندقوتوں کاعمل دخل زیادہ ہے جنہوں نے اب تک پاکستان کے وجودکودل سے کبھی قبول نہیں کیااور آج تک سارے بحرہندسے متصل تمام علاقوں میں ہندوبالادستی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔

۲۰۰۴ء سے پاک بھارت ”کمپوزٹ ڈائیلاگ“کاسلسلہ شروع ہواورکئی دفعہ ان مذاکرات میں کشمیرکے مسئلے پر پیش رفت کی نوید سناتے ہوئے اس خطے کے عوام کودیگر مسائل کے حل کی امیدبھی دلائی گئی لیکن پھراچانک ۲۶نومبر۲۰۰۸ء ممبئی کے واقعے نے ان تمام مذاکرات کی کامیابی پرنہ صرف پانی پھیردیابلکہ دونوں ملکوں میں جنگ کے آثاربھی نمایاں ہوگئے ۔کئی برسوں کے تعطل کے بعد اب بھارت کوخوداحساس ہوناشروع ہوگیاکہ مذاکرات سے فرارخوداس کیلئے نقصان دہ ثابت ہورہاہے اوراگروہ اب بھی مذاکرات کا ڈھونگ نہیں رچاتے توپھرآئندہ دنوں میں افغانستان میں بھارتی مفادات خاک میں مل سکتے ہیں کیونکہ لندن میں افغانستان کے معاملے پرجس طرح بھارت کونظراندازکیاگیااور مغرب اورامریکانے افغانستان میں پاکستان کے کردارکوجس طرح اہمیت دی ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ مستقبل میں افغانستان میں بھارت کی اب تک ڈیڑھ بلین ڈالرکی سرمایہ کاری اورمفادات بالکل ختم ہوجائیں،یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اپنے رویے میں فوری لچک پیداکرتے ہوئے مذاکرات میں دلچسپی کااظہارشروع کردیا۔

پاک بھارت کے مابین دوجنگیں،پاکستان کودولخت کرنے میں بھارتی کرداراورکارگل کامعرکہ دونوں ملکوں کے درمیان جاری دشمنی کے ایسے حقائق ہیں کہ پاکستان کبھی یہ برداشت نہیں کرے گاکہ افغانستان میں بھارتی موجودگی سے پاکستان کی مغربی سرحدبھی غیرمحفوظ ہوجائے جبکہ مشرقی سرحدوں پرہروقت بھارت کے ساتھ افواج آمنے سامنے مقابلے کی حالت میں تیارکھڑی ہیں ۔ بھارت خودکواس علاقے کی بڑی طاقت سمجھتے ہوئے افغانستان کے ذریعے سنٹرل ایشیاکی ریاستوں میں اپنے مفادات کی برتری کیلئے رسائی چاہتاہے اوریہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان کے معاملات میں بھرپوردلچسپی لے رہاہے۔

سرکریک اور سیاچین دونوں کشمیرکا حصہ ہیں اوریہ دونوں مسئائل ۱۹۶۷ء اور ۱۹۸۴ء کی اچانک بھارتی جارحیت سے پیداہوئے ۔ابھی تک بھارتی افواج نے سیاچین پرقبضہ کررکھاہے سرکریک اورسیاچین کے معاملات پر۲۰۰۴ء میں شروع ہونے والے”کمپوزٹ ڈائیلاگ“میں اچھی خاصی پیش رفت بھی ہوئی تھی ،محسوس ہورہاتھاکہ سیاچین کے بلندترین انتہائی سراوردمہنگے محاذپردونوں افواج بجٹ کی ایک خطیررقم اورجان لیواموسم کی وجہ سے تھک چکی ہیں لیکن حالیہ دفاع سیکرٹریزکے مذاکرات کے بعدصورتحال کافی تبدیل ہوتی نظرآرہی ہے۔بھارتی افواج نے فیصلہ کیاہے کہ سیاچین کابلندترین اورسردعلاقہ مستقبل میں چین کے ساتھ محاذآرائی کی صورت میں ہماری افواج کی تربیتی مشقوں کیلئے ایک بہترین علاقہ ہے اس لئے سیاچین پرقبضہ جاری رکھاجائے ۔بھارت کی معاشی حالت پاکستان کے مقابلے میں کافی بہتر ہے اوراس کاکاروباری حجم بھی پچھلے چندسالوں میں حیرت انگیز طورپربلندیوں کی سطح کوچھورہاہے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ چین کے مقابلے پرسیاچین پراٹھنے والے فوجی اخراجات برداشت کرسکتے ہیں اسی لئے بھارت کادفاعی بجٹ ۴۰بلین ڈالرسے تجاوزکرچکاہے جبکہ پاکستان کادفاعی بجٹ صرف ۵․۵بلین ڈالر ہے۔یہی وجہ ہے کہ سیاچین کے بارے میں بھارتی رویے میں سختی آگئی ہے اور بھارتی حکومت کے ایک خاص طبقے نے ایک دفعہ پھرسیاچین کے مسئلے کو سردخانے میں ڈال کراس خطے کے امن کے سفرکوسبوتاژکردیا ہے۔

جہاں تک سرکریک کے مسئلے کاتعلق ہے وہ بھارت کیلئے توشائداتنااہم نہ ہوجس قدرپاکستان کیلئے ہے ۔اب وہاں پرپانی اس جگہ نہیں بہتاجہاں آج سے بیس پچیس سال بہتاتھا۔ پانی پاکستانی علاقے میں بہتاہے اوربھارت اس پانی کے آدھے حصے پراپنی ملکیت کامطالبہ کررہاہے ۔پاکستان اس کو۱۹۱۴ء کے سندھ طاس معاہدے کے تحت حل کرنے کامطالبہ کرتاہے جس پربرسوں پہلے پاک بھار ت میں اتفاق بھی ہوچکاہے۔۲۰۰۷ء میں پاکستان نیوی کاایک جہازاٹلانٹک بھارت نے محض اس لئے گرادیاتھاکہ یہ ان کے علاقے میں داخل ہوگیاتھاجبکہ یہ سرکریک میں پاکستانی حدودمیں پروازکررہاتھا۔اس لئے بھارتی ہٹ دھرمی کایہ رویہ کسی بھی طورپران بے مقصد مذاکرات کیلئے نتیجہ خیزثابت نہیں ہوسکتے۔

اب انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کوجلدازجلدایسے خطوط پراستوارکرے جہاں اس خطے میں دیرپاامن کیلئے ن مسائل کے حل کیلئے بین الاقوامی برادری بھارت کو مجبورکرے اوراس کیلئے آئندہ بہترین موقع افغانستان سے امریکی اوراس کے اتحادی افواج کے انخلاء کے ساتھ مشروط کیاجاسکتاہے کہ افغانستان میں بھارت کاکوئی کردارقبول نہیں۔

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *