سمیع اللہ ملک
کو ئی سوچ سکتا تھا کہ چند سال پہلے عا لمی عدا لت ا نصا ف میں ظا لموں اور ڈکٹیٹروں کو کٹہرے میں یوں کھڑا کیا جا ئے گا کہ فرد جرم کے جواب میں ان کے پاس صفا ئی کیلئے نہ تو کو ئی گو ا ہ ہو گا اور نہ ہی وہ خود ا پنے اوپر لگنے والے ا لز مات کی تسلی بخش صفا ئی دے سکیں گے۔ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ عا لمی عدا لت ا نصا ف کے کٹہرے میں بو سنیا کا ایک جا برڈکٹیٹرما ر کو وچ شیطان صفت ظا لم پریہ بھیا نک اور خونچکا ں فرد جرم عا ئد کی گئی کہ اس نے وژگراڈنا می شہر کے وسط میں سٹی ہال سے چند گز دور ایک مسجد کو ڈائنا میٹ لگا کر اڑا دیا تھا جہاں ان گنت مسلمان جو اللہ کے گھر میں پناہ لئے ہو ئے تھے اس مسجدکے اندر ہی دفن ہو گئے۔ جا برڈکٹیٹرما ر کو وچ نے صفا ئی میں یہ استدلال دیا کہ اس قصبے میں پا رکوں کی بہت کمی ہے اور مسجد کیونکہ پارک پر قبضہ کر کے بنا ئی گئی تھی اس لئے دوبا رہ پا رک کی غرض سے اس مسجد کو منہدم کیا گیا تھا۔
ما ر کو وچ کے مظالم کا نگراں صدر میلا وسوچ عا لمی عدا لت ا نصا ف میں اسی مسجد کی تبا ہی کا جواب دینے لگا تو اس نے ایک عجیب الزام لگایا کہ مسجد میں مقیم مسلما ن مسجد کے مینا روں سے گو لہ با رود بر ساتے اور مشین گنوں کا بے دریغ استعمال کر تے تھے اس لئے اس مسجد کو تباہ کرنا پڑا۔عدالت کے ایک جج نے جب یہ پوچھا ‘اگر ایسا تھا تو کسی گو لی یا بم کانشان آس پاس کی عمارت پر کیوں نہیں؟میلا وسوچ کا رنگ فق ہو گیا ‘اسے ایسے سوال کی قطعاً توقع نہ تھی کہ تا ریخ اپنے ساتھ ثبوت لئے پھر تی ہے۔اس کے بعد فرد جرم میں عائد تما م الزامات ‘ ظلم زیادتی‘قتل و غارت‘لوٹ مار یا آتش زنی اور بے شمار مسلمان خو ا تین کی عصمت دری کے با رے میں اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ میرے کما نڈروں نے کیا ہے ۔وہ بہت خود مختار ہو گئے تھے اور خود ہی ایسے فیصلے کر تے تھے۔
عا لمی عدا لت ا نصا ف نے ایسے میں میلاوسوچ پر ایک ایسی فرد جرم عائد کی جو تا ریخ میں ہر آمر‘ڈکٹیٹر‘ظالم اور فرعون پر اس لمحے عا ئد کی جا تی ہے جب وہ اپنے احتساب سے ڈر کر‘اپنے انجام کے خوف سے سارا ملبہ اپنے ما تحتوں پر ڈال دیتا ہے اور خود کو پاک صاف بے گناہ اور معصو م ثا بت کر نے کی کو شش کرتا ہے۔ عا لمی عدا لت ا نصا ف نے پو چھا ”جب تمہا رے یہ کما نڈر بے گنا ہ لوگوں کا قتل عام کر رہے تھے تو تمہیں اس کا علم بھی ہوا تھااور ابھی تم نے عدالت کے سا منے اس کا اعتراف بھی کیا ہے تو اس بات کا جواب دو کہ تم نے ان کو ا نصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیوں نہیں کیااور ان کو سزا کیوں نہیں دی؟عدا لت نے اسےJoint Criminal Enterprise” ” ”مشترکہ مجرمانہ گٹھ جو“ڑ قرار دیا ور اسے ظالم کو سزا نہ د ینے پر جرم کا شریک کار ٹھہرا یا۔ صدیوں کا یہ ا صول عا لمی عدا لت ا نصا ف کے دروازے پرقا نو نی ا عتبار کا درجہ حا صل کر گیا۔یہی اصول تھا جس کی کسو ٹی پر یزید بن معاویہ ا پنی تقا ریر میں لا کھ صفا ئیاں دینے کے با وجود سید نا امام حسین کے نا حق خون کا ذمہ دار ٹھہرا‘کیونکہ قا تلین حسین اسی کے دور میں دندناتے پھرتے رہے اور سب جا نتے ہیں کہ با لآخر ان سے امام حسین کا انتقام مختار ثقفی نے لیا تھا۔
یہی وہ اصول ہے جو دنیا کے ہر آمر‘ڈکٹیٹر‘ظالم اور فرعون کو اس کے دور میں ہو نے والے قتل‘لوٹ مار‘تشدد اور سیاسی اموات کا ذمہ دار ٹھہر اتا ہے اور یہی وہ مشترکہ مجر ما نہ گٹھ جوڑ ہے جو کسی ظا لم کو بھا گنے کا با عزت را ستہ نہیں دیتا۔یہی وہ کسوٹی ہے جو بتا تی ہے کہ اگر قتل کرنے والے ‘ظلم کر نے والے ‘تشدد روا رکھنے والے اور انسا نی جا نوں سے کھیلنے والے کسی دور میں سرفراز تھے‘اعلیٰ عہدوں پر برا جمان تھے یا ہیں مگر ابھی تک کسی وجہ سے ان پر فرد جرم عا ئد نہیں کی گئی لیکن ایک دن ان کو اسی طرح عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہو نا پڑے گاچا ہے ا ن کو سروں پر قصر سفید کے فرعون کا سایہ ہو‘چا ہے ان کو وقت کے نمرود نے لندن میں پناہ دے رکھی ہو ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ہزاروں بے گناہوں کی لا شیں بند بوری میں ڈال کر سر عام سڑکوں پر ڈال دی جا ئیں‘نوجوان بے گناہ بچوں کے لا شے نا قابل شنا خت حالت میں ان کے ورثاء کو ملیں۔ ایسا ہی عمل میلاوسوچ کے کارندوں نے بھی کیا تھا۔ا نہوں نے بھی زندہ انسان کے جسم میں میخیں ٹھونک کر مسجد کی دیوار کے سا تھ صلیب کی شکل میں لٹکا دیا تھا۔ان تمام مقدمات کی تفاصیل میں اس قدر مماثلت د یکھ کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جا تی ہیں کہ ا نسان اس قدر وحشی اور ظا لم بھی ہو سکتا ہے۔
میلاوسوچ کے کارندے مظلوم لو گوں کوہانک کر کسی گہرے دریا کے پل پر لیجا کر دھکا دے دیتے یا پھر گولی ما ر کر لاش کو دریا برد کر دیتے ۔ایسا ہی عمل کرا چی میں ایک مرتبہ پھرشروع ہوگیاہے۔یوں لگتاہے کہ کراچی پرکسی خونی آسیب کاسایہ ہے جواپنی پیاس بجھانے کیلئے کراچی کے گلی کوچوں میں براجمان ہوگیاہے۔حکیم محمد سعید شہید اور صلاح الدین شہید کا خون نا حق اپناحساب مانگ رہاہے۔۲۰۰۷ء سے لیکر آج تک ۱۵۰۰بیگناہوں کوٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنادیاگیاہے اورملک کاوزیرداخلہ اس خونی ڈرامے کوگرل فرینڈزاورمیاں بیوی کی کاروائی کہہ کرجان چھڑارہاہے اوردوسری طرف مزیدخوف وہراس پیداکرنے کیلئے لندن سے الطاف حسین کراچی کے شہریوں کومہینہ بھرکاراشن جمع کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کو مہاجروں کوواپس بھارت لینے کی درخواست کررہے ہیں۔کشمیراورگجرات میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے والوں کے پاس بصدشوق تشریف لیجائیں کہ موصوف کے پرانے تعلقات ہیں اورساتھ ہی بحیرہٴ عرب میں غرق ہونے کے عزم کا اظہار کرتے نظرآرہے ہیں ویسے توڈوبنے کیلئے چلوبھرپانی ہی کافی ہوتاہے اورساتھ ہی بحیرہٴ عرب میں غرق ہونے کے عزم کا اظہار کرتے نظرآرہے ہیں ویسے توڈوب مرنے کیلئے چلوبھرپانی ہی کافی ہوتاہے ۔
ایک عجب تماشہ جاری ہے جس نے ملک کے تمام محب وطن لوگوں کوپریشان اورشرمندہ کررکھاہے ۔کراچی کے بے شمار صنعت کا روں نے وہاں سے اپنے کاروبار کو سمیٹ کر اپنا سرمایہ کرا چی سے نکال لیاہے کیونکہ وہ بھا ری بھتہ دینے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ روس کے شہر با سلان میں دو سو بچوں کو جب یرغمال بنایا گیا تو روس کی فوج سخت ایکشن پر تلی ہوئی تھی لیکن پیوٹن کی آنکھوں سے نیند غائب چکی تھی ،پورا روس جاگ رہا تھا ۔بچوں کے مرنے پر روس میں تین دن کا سرکاری سوگ منایا گیا اور اس صحافی کو اخبار سے نکال دیا گیا جو سخت ایکشن پر اکساتا تھا ۔ تمام کاروائی کے انچارج اور افسران کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیاتھاجبکہ کراچی میں معاملہ اس کے بالکل برعکس چل رہاہے۔حیرت کی بات تویہ ہے کہ ایم کیوایم نے بھی کراچی میں فوجی آپریشن کامطالبہ کردیاہے جبکہ پاکستانی افواج پہلے ہی تین محاذوں پرتقسیم ملک کے دفاع میں مصروف ہے اورپاکستان کے دشمنوں کی تویہی خواہش ہے کہ پاکستانی افواج کوکراچی میں مصروف کرکے اس کی طاقت کوکمزورکیاجائے تاکہ جب فوج کراچی میں آپریشن کرے توپھر شہریوں پرفوجی مظالم کی من گھڑت داستانیں سناکرمزیدبدنام کیاجاسکے۔
کراچی کے بے شمار صنعت کا روں نے وہاں سے اپنے بڑے بڑے کاروبار کو سمیٹ کر اپنا سرمایہ کرا چی سے نکال لیاہے کیونکہ وہ بھا ری بھتہ دینے کی ہمت نہیں رکھتے ۔ روس کے شہر با سلان میں دو سو بچوں کو جب یرغمال بنایا گیا تو روس کی فوج سخت ایکشن پر تلی ہوئی تھی لیکن پیوٹن کی آنکھوں سے نیند غائب چکی تھی ،پورا روس جاگ رہا تھا۔بچوں کے مرنے پر روس میں تین دن کا سرکاری سوگ منایا گیا اور اس صحافی کو اخبار سے نکال دیا گیا جو سخت ایکشن پر اکساتا تھا۔تمام کاروائی کے انچارج اور افسران کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔
جو قومیں اس طرح کے” مشترکہ مجر ما نہ گٹھ جوڑ“پر عدا لتیں نہیں بٹھاتیں‘انصاف نہیں کر تیں وہاں تو ا بین کی تحریک کی صورت میں مختار ثقفی ضرور اٹھتا ہے اور تا ریخ کا وہ منظر کتنا خوفناک ہے کہ اسی دربار میں ایک روز چبوترے پر ابن زیاد کا سر عبرت کے طور پر لا کر رکھا جاتا ہے۔ نجانے کیوں ماہ نومبر ۱۹۷۱ء کا یہ واقعہ قلم کی نوک پر آگیاجب جنر ل یحییٰ خان ا پنے اقتدار کے آخری دنوں میں لاہور گورنر ہاوٴس میں کسی کام کے سلسلے میں آئے تھے ۔جنرل عتیق الرحمان اس وقت گورنر تھے۔ گورنر ہاوٴس کے باہر جنر ل یحییٰ خان کے خلا ف ایک بھر پور جلوس غصے میں ہا ئے ہا ئے‘اوئے اوئے اور دوسرے نعرے بلند آواز میں لگا رہے تھے۔ان نعروں کی آوازیں گورنر ہاوٴس کی د یوا ریں عبور کرکے سبزہ زار تک پہنچ رہی تھیں۔ جنر ل یحییٰ خان نے بڑے غصے سے پو چھا ”عتیق! یہ کیا چا ہتے ہیں؟“جنرل عتیق الرحمان جو حا لات سے بری طرح چڑ چکے تھے اور وقت کی نبض پر ان کا صحیح ہا تھ تھا‘ انہوں نے دا ئیں با ئیں دیکھ کر فو ری طو ر پر وہ تا ریخی فقرہ کہا جو جنر ل یحییٰ خان کے سا تھ ہمیشہ کیلئے چپک گیا ”سر یہ لوگ آپ کا سر ما نگتے ہیں“۔
جنر ل یحییٰ خان اپنے ما تحت سے ایسے جواب کی ہر گز توقع نہیں رکھتے تھے۔ا نہوں نے جنرل عتیق الرحمان کو انتہا ئی گھور کر دیکھااور غصے سے با ہر جا نے لگے۔جنر ل یحییٰ خان جب دروازے کے پاس پہنچے تو جنرل عتیق الرحمان تیزی سے سا منے آئے ‘ ایک اورتا ریخی فقرہ کہا‘”جنرل صاحب ! میں تا ریخ کا کیڑا ہوں‘میں نے تا ریخ میں پڑھا ہے آج تک کوئی آمر ا قتدار سے عزت اور توقیر سے رخصت نہیں ہوا ‘میرا خیال ہے کہ آپ بھی عزت کے ساتھ نہیں جا ئیں گے لیکن اس کے با وجود میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنا اور ہمارا سر بچا ئیں‘عزت کے ساتھ استعفیٰ دے دیں‘ یہ ملک بھی بچ جا ئے گا اور ہم بھی“۔میرا خیال ہے اگر تمام سول اور فو جی ڈکٹیٹر یہ فقرہ لکھ کر ا پنی میز پر لگا لیتے تو آج پا کستان کی تا ریخ بالکل مختلف ہو تی جو جنرل عتیق الرحمان نے جنر ل یحییٰ خان سے کہا تھا۔
یہا ں تو معا ملہ ہی کچھ اور صورت ا ختیار کر گیا ہے۔چند دن کے اقتدار کیلئے روزانہ بیس پچیس لا شیں ان کی صحت پر کوئی ایسا برا اثر نہیں چھوڑتیں۔یہ خود تو بم پروف ‘بلٹ پروف او ر میزا ئل پروف گا ڑیوں میں سفر کر تے ہیں اور مر نے کیلئے بے گناہ معصوم شہری اور پو لیس کے کا رندوں کو سڑکوں پرچھوڑ رکھا ہے۔ سا ری قوم کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کورخصت کرنے میں اب ایک لمحے کی تا خیر بھی نہیں کر نی چا ہئے کیونکہ اگرموجودہ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کی قربا نی نہ دی تو پو را ملک قربان گاہ بن جائے گا اور ہر شخص ا پنا ا پنا سر ہتھیلی پر ر کھ کر اس قربان گاہ کا طواف کر رہا ہوگا۔اس وقت ہم تا ریخ کی اس گلی کی نکڑ پر کھڑے ہیں جہاں سخت اندھیرے میں سر وں کی بہت بڑی فصل کٹنے کیلئے تیار کھڑی ہے۔