Home / Articles / اسلام کی فطری تعلیمات اور قرآن مقدس کا انقلاب

اسلام کی فطری تعلیمات اور قرآن مقدس کا انقلاب

غلام مصطفی ، نوری مشن مالیگاوٴں

Cell.09325028586
بریلی کے دبستانِ علم کے پروردہ ایک عالمی داعیِ اسلام مولانا عبدالعلیم میرٹھی نے اپنے ایک دعوتی لیکچر میں فرمایا تھا کہ:
”سائنس کے مطابق کائنات مختلف اجزا کا ایسا مرکب ہے جس کے تمام حصے خوب صورتی اور توازن کے ساتھ باہم متعلق ہیں، علاوہ ازیں یہ (کائنات) قانون کی ایک مملکت (یا ریاست)ہے، جس میں ہر ذرہ قانون کے مطابق طے شدہ اور مستقل راستے پر چلتا ہے، فضائی سیاروں سے لے کر ساحلِ سمندر کے ذراتِ ریگ (ریت)تک کوئی بھی اس راستے سے انحراف نہیں کر سکتا ۔ ان کی زندگی سائنس کے مطابق قوانین فطرت اور مذہب کی زبان میں قوانین خدا کی پوری طرح تابع ہے، گویا ان کی زندگی اسلام کی زندگی ہے، جس کے معنٰی ہیں ”قوانین خدا کی متابعت“ (اور پابندی) دوسرے الفاظ میں وہ ”مسلم“ ہیں۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کے متعلق یوں اشارہ کیا ہے:
وَلَہٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ(سورة آل عمران:۸۳)
”اور اسی کے حضور گردن رکھے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے اور اسی کی طرف پھریں گے“ (کنزالایمان) (اسلام کے اصول،ص۴)
معلوم ہواکہ کائنات کا دین ایک ہے اور وہ اسلام ہے، کائنات کی ہر شے احکام الٰہی کے توبع ہے اور مسلمان ہے۔ اس فطری دین کی حفاظت بھی رب کے ذمہٴ کرم پر ہے۔ نبی کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو دین ”اسلام“ پیش کیا اس میں اتنی جامعیت ہے کہ زندگی کا ہر گوشہ قانون و اصول سے معمور ہے۔ کوئی گوشہ محروم قانون نہیں۔اور ضابطے سے باہر نہیں۔
جو مبارک کتاب آخری نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب عظیم پر نازل کی گئی وہ ایسی منفرد کہ اس کی حفاظت کا ذمہ رب تعالیٰ نے لیا۔ ۱۴/صدیاں گزر گئیں۔ کتنے طوفان امڈے، صہیونیت نے صدیوں منصوبے بنائے، مستشرقین کی جماعتیں صف آرا ہوئیں، لیکن تحریف کی ہر کوشش ناکام ہوئی، حتیٰ کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں True Furqanکے نام سے ایک کتاب بھی اختراع کی گئی اور اسے اصل قرآن قرار دینے کی نامراد جسارت کی گئی ان تمام فتنوں کی بساط سمٹ گئی اور آج بھی قرآن کی ھدایت عام ہے۔ قرآن کی عظمت عیاں ہے۔ اس کے بغیر انسانیت کا سفر طے نہیں ہو سکتا۔ اس کے بغیر دنیا کا کوئی شعبہ فطری فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ہر فیلڈ قرآن کے نور سے معمور اور اس کی تعلیمات سے فیض یاب ہے۔ سائنس خود اس سے استفادے پر مجبور ہے۔
مطالعہٴ سائنس موجودہ دور کا سب سے نمایاں Subjectہے۔ کائناتی مطالعہ، مشاہدہ، آفاق و انفس میں تدبر و تفکر، تخلیقاتِ قدرت میں غور و خوض کی تعلیم اس کتاب مبین نے دی جس کا نزول اس عظیم قلب پر ہوا جو اسرار و معارف کا خزینہ ہے، جس نے دنیا کو علم دیا، فہم دیا، پھر وہ مبارک کلام دیا جسے نازل کر کے نبوت کا اتمام کر دیا گیا۔ قرآن مقدس کا یہ ارشاد کیا ہمیں دعوتِ فکر نہیں دیتا؟
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ o الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o(سورة آل عمران:۱۹۰۔۱۹۱)
”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ بے کار نہ بنایا پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے“ (کنزالایمان)
قرآن مقدس نے عربوں کو دنیا کا قائد بنایا۔ اسی کتاب مقدس کی بنیاد پر صحراے افریقا میں بسنے والے وحشیوں نے دنیا کو اسلامی تمدن کا مبارک درس دیا، غرناطہ اور طلیطلہ کی درس گاہیں اسی مقدس کلام کے درس کی بنیاد پر صدیوں آباد تھیں۔ اور یورپ ان درسگاہوں میں اپنی نسل کی تربیت کے لیے مستعد تھا… فطری دین کا ہر پہلو ایسا فطری ہے جسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ روزہ بھی ایسا ضابطہ ہے جس کی مثال کسی دبستانِ فکر و نظر میں نہیں، پورے ایک مہینے کے روزے فرض کر کے اسلام نے تربیت نفس کا سامان کیا۔ نفس کی تربیت کا تصور اسلام کے علاوہ کہیں نہیں۔
روزے کی فرضیت کا مقصد و مدعا ہم قرآن ہی سے پوچھتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ (سورة البقرة:۱۸۳۔۱۸۴)
”اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمھیں پرہیز گاری ملے گنتی کے دن ہیں“ (کنزالایمان)
پرہیز گاری کا موسم بے مثال ہم میں موجود ہے۔ پھر کیوں نہ اس کے فطری ثمرات سے استفادہ کر کے اپنی دنیا کو بھی جگمگایا جائے۔ آخرت کو سنوارہ جائے۔اسلام کے پانچ ارکان میں روزہ بھی ہے اس سے روزے کی فطری اہمیت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔قرآن مقدس سے اس کی عظمت کا ثبوت بہم ہونا ہی کافی ہے، اللہ کریم ہمیں قرآن مقدس کی تعلیمات پر عمل کا ذوق عطا کرے اور ساتھ ہی روزے کے مقاصد کو سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین
###

اسلام کی فطری تعلیمات اور قرآن مقدس کا انقلاب غلام مصطفی ، نوری مشن مالیگاوٴںCell.09325028586 بریلی کے دبستانِ علم کے پروردہ ایک عالمی داعیِ اسلام مولانا عبدالعلیم میرٹھی نے اپنے ایک دعوتی لیکچر میں فرمایا تھا کہ: ”سائنس کے مطابق کائنات مختلف اجزا کا ایسا مرکب ہے جس کے تمام حصے خوب صورتی اور توازن کے ساتھ باہم متعلق ہیں، علاوہ ازیں یہ (کائنات) قانون کی ایک مملکت (یا ریاست)ہے، جس میں ہر ذرہ قانون کے مطابق طے شدہ اور مستقل راستے پر چلتا ہے، فضائی سیاروں سے لے کر ساحلِ سمندر کے ذراتِ ریگ (ریت)تک کوئی بھی اس راستے سے انحراف نہیں کر سکتا ۔ ان کی زندگی سائنس کے مطابق قوانین فطرت اور مذہب کی زبان میں قوانین خدا کی پوری طرح تابع ہے، گویا ان کی زندگی اسلام کی زندگی ہے، جس کے معنٰی ہیں ”قوانین خدا کی متابعت“ (اور پابندی) دوسرے الفاظ میں وہ ”مسلم“ ہیں۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کے متعلق یوں اشارہ کیا ہے: وَلَہٓ اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ(سورة آل عمران:۸۳) ”اور اسی کے حضور گردن رکھے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے اور اسی کی طرف پھریں گے“ (کنزالایمان) (اسلام کے اصول،ص۴) معلوم ہواکہ کائنات کا دین ایک ہے اور وہ اسلام ہے، کائنات کی ہر شے احکام الٰہی کے توبع ہے اور مسلمان ہے۔ اس فطری دین کی حفاظت بھی رب کے ذمہٴ کرم پر ہے۔ نبی کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو دین ”اسلام“ پیش کیا اس میں اتنی جامعیت ہے کہ زندگی کا ہر گوشہ قانون و اصول سے معمور ہے۔ کوئی گوشہ محروم قانون نہیں۔اور ضابطے سے باہر نہیں۔ جو مبارک کتاب آخری نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قلب عظیم پر نازل کی گئی وہ ایسی منفرد کہ اس کی حفاظت کا ذمہ رب تعالیٰ نے لیا۔ ۱۴/صدیاں گزر گئیں۔ کتنے طوفان امڈے، صہیونیت نے صدیوں منصوبے بنائے، مستشرقین کی جماعتیں صف آرا ہوئیں، لیکن تحریف کی ہر کوشش ناکام ہوئی، حتیٰ کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں True Furqanکے نام سے ایک کتاب بھی اختراع کی گئی اور اسے اصل قرآن قرار دینے کی نامراد جسارت کی گئی ان تمام فتنوں کی بساط سمٹ گئی اور آج بھی قرآن کی ھدایت عام ہے۔ قرآن کی عظمت عیاں ہے۔ اس کے بغیر انسانیت کا سفر طے نہیں ہو سکتا۔ اس کے بغیر دنیا کا کوئی شعبہ فطری فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ہر فیلڈ قرآن کے نور سے معمور اور اس کی تعلیمات سے فیض یاب ہے۔ سائنس خود اس سے استفادے پر مجبور ہے۔ مطالعہٴ سائنس موجودہ دور کا سب سے نمایاں Subjectہے۔ کائناتی مطالعہ، مشاہدہ، آفاق و انفس میں تدبر و تفکر، تخلیقاتِ قدرت میں غور و خوض کی تعلیم اس کتاب مبین نے دی جس کا نزول اس عظیم قلب پر ہوا جو اسرار و معارف کا خزینہ ہے، جس نے دنیا کو علم دیا، فہم دیا، پھر وہ مبارک کلام دیا جسے نازل کر کے نبوت کا اتمام کر دیا گیا۔ قرآن مقدس کا یہ ارشاد کیا ہمیں دعوتِ فکر نہیں دیتا؟ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ o الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ o(سورة آل عمران:۱۹۰۔۱۹۱) ”بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے جو اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ بے کار نہ بنایا پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے“ (کنزالایمان) قرآن مقدس نے عربوں کو دنیا کا قائد بنایا۔ اسی کتاب مقدس کی بنیاد پر صحراے افریقا میں بسنے والے وحشیوں نے دنیا کو اسلامی تمدن کا مبارک درس دیا، غرناطہ اور طلیطلہ کی درس گاہیں اسی مقدس کلام کے درس کی بنیاد پر صدیوں آباد تھیں۔ اور یورپ ان درسگاہوں میں اپنی نسل کی تربیت کے لیے مستعد تھا… فطری دین کا ہر پہلو ایسا فطری ہے جسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔ روزہ بھی ایسا ضابطہ ہے جس کی مثال کسی دبستانِ فکر و نظر میں نہیں، پورے ایک مہینے کے روزے فرض کر کے اسلام نے تربیت نفس کا سامان کیا۔ نفس کی تربیت کا تصور اسلام کے علاوہ کہیں نہیں۔ روزے کی فرضیت کا مقصد و مدعا ہم قرآن ہی سے پوچھتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ (سورة البقرة:۱۸۳۔۱۸۴) ”اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمھیں پرہیز گاری ملے گنتی کے دن ہیں“ (کنزالایمان) پرہیز گاری کا موسم بے مثال ہم میں موجود ہے۔ پھر کیوں نہ اس کے فطری ثمرات سے استفادہ کر کے اپنی دنیا کو بھی جگمگایا جائے۔ آخرت کو سنوارہ جائے۔اسلام کے پانچ ارکان میں روزہ بھی ہے اس سے روزے کی فطری اہمیت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔قرآن مقدس سے اس کی عظمت کا ثبوت بہم ہونا ہی کافی ہے، اللہ کریم ہمیں قرآن مقدس کی تعلیمات پر عمل کا ذوق عطا کرے اور ساتھ ہی روزے کے مقاصد کو سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین###

About admin

Check Also

جشن آزادی

    Share on: WhatsApp

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *