Home / Articles / تحریک ِنظام ِمصطفی

تحریک ِنظام ِمصطفی

تحریک ِنظام ِمصطفی  کیلئے
قائد کارکن اور تحریکی تقاضے

مولفٴ:۔ محمداحمد ترازی

قارئین محترم!مدیر منتظم محمداحمد ترازی کی کتاب ”تحریک نظامِ مصطفی ﷺ کیلئے قائد کارکن اور تحریکی تقاضے“کا باب دوم کی پہلی قسط آپ کے سامنے حاضرہے.

باب پنجم

قائداور کارکن کا باہمی تعلق

انجمن میں بھی میسر رہی خلوت اس کو

شمع محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق

ہر وہ تحریک جو انسان کیلئے زندگی کی نئی شاہراہ کھلولنا چاہتی ہے اپنی کامیابی کیلئے ایمان و یقین ،عزم وارادہ ،اور اخلاص و قربانی کے ساتھ ساتھ ایک اچھے قائد کی بھی محتاج ہوتی ہے تحریک نظام مصطفی ﷺ کے ہر قدم کیلئے ایک ہی نقش پا رہنما ہے اور وہ ہے نقش پاء مصطفوی ﷺ اسی طرح تحریک کے قائد کیلئے بھی ان ہی نقوش پا کی پیروی میں سعادت اور کامیابی کی ضمانت ہے جو سالار اول پیغمبر انقلاب حضرت محمد مصطفی ﷺ نے چھوڑے ہیں۔

تحریک میں قائد اور کارکن کے درمیان تعلق کی نوعیت کامیابی یا ناکامی کا سبب بنتی ہے قائد اور کارکن کے تعلق کی نوعیت کو نہ سمجھنے والے کارکن تنظیم میں تصادم اور علیحدگی کی فضا کو جنم دیتے ہیں لیکن اس کے بر خلاف وہ کارکن جو قائد اور کارکن کے تعلق کی نوعیت اور اس کے تقاضوں کا خیال رکھتے ہیں تنظیم کیلئے بہت اہم ہوتے ہیں وہ کارکن جو فکری اور انتظامی قیادت کے فرق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کبھی بھی اس مرض کا شکار نہیں ہوتے لیکن وہ کارکن جو فکری اور انتظامی قیادت کے فرق کو سمجھنے میں غلطی کرجاتے ہیں اس مرض میں مبتلا ہو کر تنظیم کو انتشار وافراق سے دوچار کردیتے ہیں یاد رکھیں کہ قائد اور کارکن کے تعلق کے ضمن میں مکمل سپردگی اور تسلیم ورضا کا معاملہ درکار ہوتا ہے اور قائد تحریک سے کارکن کے تعلق کی نوعیت حسن ظن اور دلی تعلق کی بنیاد پر ہوتی ہے اگر کارکن کے دل میں قائد تحریک کی طرف سے والہانہ محبت وعقیدت اور اس کا احترام نہ ہو تو پھر کارکن کی طرف سے کسی سرفروشی کے مظاھرے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

قائد تنظیم کو ایک مرکز پر متحد رکھتاہے لہذاقائد اور کارکن کے تعلق کی نوعیت کو سمجھنے کیلئے ہمیں سنت رسول ﷺ سے بہتر رہنمائی کہیں اور نہیں مل سکتی اور ویسے بھی ہم ایک اسلامی انقلابی تحریک کے داعی ہیں اسلئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ہر حرکت اورہر عمل کا جواز اور بنیاد سنت مصطفی ﷺ سے تلاش کریں۔لیکن یہ بات بھی زہن نشین رہے کہ ہزار جواز ملنے کے باوجود قائد اور کارکن کے تعلق کی نوعیت کے ضمن میں جو تعلق صحابہ اکرام کو زات مصطفی ﷺ سے رہا وہ صرف اور صرف آپ ﷺ اور صحابہ اکرام کا خاصہ ہے اس نوعیت کا تعلق کبھی بھی تحریک میں قائداور کارکن کے درمیان قائم نہیں ہوسکتا ذات نبوی ﷺ کے حوالے سے ایک امتی پر جو حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں وہ حقوق و فرائض کسی دوسرے قائد (غیر نبی ) کے ساتھ کوئی نسبت نہیں رکھتے اسلئے خیال رہے کہ قائد اور کارکن کے تعلق کی نوعیت کے ضمن میں ہمیں اس کردار کا عکس پیش کرنا ہے جو امیر (قائد)اور اطاعت امیر (قائد) کت تعلق میں ہمیں ملتا ہے ۔

قائد اور کارکن میں کوئی تقابل نہیں

قائد اور کارکن میں کے تعلق کی نوعیت کے ضمن میں ہمیں اس بات کو بھی زہن نشین رکھنا ہے کہ قائد اور کارکن کے درمیان کسی بھی سطح پر کوئی مماثلت اور تقابل نہیں ۔ واضح رہے کہ قائد صرف قائد ہوتا ہے اور کارکن صرف کارکن دونوں اپنا اپنا علیحدہ مقام اور تشخص رکھتے ہیں قائد کی شخصیت اور کردار ہر اعتبار سے کارکن سے جدا اور ممتاز ہوتا ہے کارکن قائد کے حکم اور اسکے قول و کردار کی پیروی تو کرسکتے ہیں لیکن قائد سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔صحابہ اکرام کسی چیز میں آپ ﷺ سے مقابلہ کرنے کی جرئات تو دور کی بات مقابلے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے ”ایک موقع پر چند صحابہ اکرام جوکہ قبیلہ بنو اسلم سے تعلق رکھتے تھے باہم تیراندازی میں مقابلہ کررہے تھے آپ ﷺ نے فرمایا اے بنو اسمعیل تیر پھینکو کیونکہ تمہارے باپ تیرانداز تھے اور میں فلاں قبیلہ کے ساتھ ہوں“ دوسرے گروہ کے لوگ فوراََ رک گئے آپ ﷺ نے پوچھا کہ تیر کیوں نہیں پھینکتے وہ بولے اب کیوں کر مقابلہ کریں جبکہ آپ ﷺ ان کے ساتھ ہیں آپ ﷺ نے پرفرمایا تیر پھینکو میں تم سب کے ساتھ ہوں “علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ دراصل ان کے رکنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر وہ اپنے فریق پر غلب آگئے اور رسول ﷺ انکیے ساتھ ہوئے تو آپ بھی مغلوب ہوجائیں گے اسلئے بہتر یہ ہے کہ مقابلہ نہ کیا جائے کہ آپ کی نسبت کسی قسم کا سئو ادب پیدا ہو“

قائد پر مکمل اعتماد

قائد اور کارکن کے تعلق کے ضمن میں کارکن کو ہمیشہ اپنے قائد کی شخصیت اسکی زہانت ،دیانتاور پالیسیوں پر مکمل اعتماد ہونا چاہئے یہی اعتماد اور بھروسہ تحریکی کامیابی کا ضامن ہے کارکن اپنے اندر یہ اعتماد اور بھروسہ صحابہ اکرام کے طرز عمل سے رہنمائی حاصل کرکے پیدا کرسکتے ہیں ہم یہاں قائد کی زات پر اعتماد و بھروسے کے ضمن میں چند مثالیں درج ذیل کر رہے ہیں ۔

واقعہ معراج کی تصدیق حضرت ابو بکر صدیق  یہ کہ کر فرماتے ہیں کہ اگر حضور ﷺ نے فرمایا ہے تو بالکل سچ فرمایا ہے ” حضرت عمر فاروق  سے کسی نے پوچھا کہ قرآن میں تمیم کا طریقہ نہیں بتایا گیا جس پر آپ نے ارشاد فرمایا اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیا تیرے لیے یہ کافی نہیں کی یہ حضور ﷺ نے بتایا ہے“

قائد کی زات پر کارکن کا جتنا زیادہ اعتماد اور بھروسہ ہوگا قائد اور تحریک کی نسبت شکایات میں اتنی ہی کمی رہے گی کارکن صرف اتنا یقین رکھیں کہ ان کا قائد کبھی بھی ان کا اور تحریک کا سودا نہیں کرے گا اگر دل و دماغ صاف رہیں تو قائد پر اعتماد اور یقین کارکن کو قائد کے رنگ میں رنگ دیتے ہیں اور قائد کے اطوار و طور طریقے کارکن کے اطوار و طور طریقوں میں ڈھل جاتے ہیں اس مرحلے پر کارکن کو اتباع قائد میں فخر اور لذت محسوس ہوتی ہے۔

مشترکہ جدوجہد

تحریکہ زندگی اور نصب العین کی بقا کیلئے قائد کی شخصیت تحریک کیلئے بہت اہم ہوتی ہے کامیابی کی منزل کے حصول کیلئے قائد اور کارکن کے تعلق کی نوعیت میں کامل سپردگی اور تسلیم ورضا کا معاملہ درکار ہوتا ہے قائد کے فیصلوں اور زات پر اعتماد شکوک و شبہات کی فضا کو زائل کر کے کارکنان کے دلوں سے تکدر اور بدگمانیوں سے دور کرتا ہے اور انھیں اندیشوں اور وسوسوں سے نجات دلاتا ہے۔

تحریک نظام مصطفی ﷺ کیلئے قائد اور کارکن کے درمیان صحیح خطوط پر تعلق کا تعین بہت ضروری ہے عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایک عام کارکن کے نزدیک تو قائد کا حکم اور فرمان حرف آخر ہوتا ہے اور وہ اسکی تعمیل میں تن من دھن کی بازی لگادیتا ہے لیکن اس کے بر خلاف زی شعور اور سمجھدار کارکن قائد کے فیصلوں کو جب عقل و خرد کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ عمل تحریک میں خرابیوں کو جنم دیتا ہے اور تحریکی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے سمجھدار کارکن کا یہ عمل تحریکی تعین کردہ اہداف کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے تحریک کیلئے ایک ایک کارکن اہم ہوتا ہے کارکن کی زراسی بد گمانی تحریک اس کے مقصد اور نصب العین کو متاثر کرتی ہے۔

ایک اچھا سمجھدار اور باصلاحیت کارکن اپنی تمام تر صلاحیتیں تحریک کیلئے وقف کرتا ہے اور قیادت پر مکمل اعتماد کے ساتھ اپنے قائد کے شانہ بشانہ مل کر مشترکہ جدوجہد میں حصہ لیتا ہے یاد رکھیں کہ قیادت کے فیصلوں کے زیر سایہ اگر جدوجہد مشترکہ ، منظم اور فعال انداز میں کی جائے تو منزل کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔

یکساں طرزو زندگی

تنظیم میں اصول وقواعد کا اطلاق سب پر یکساں انداز میں ہوتا ہے اگر کوئی عام کارکن غلطی کرے تو وہ گرفت کا حقدار ٹھرے لیکن اگر کوئی عہدیدار یا قائد وہی غلطی کرے تو اسکی چشم پوشی کی جائے یہ ایک ایسا خطر ناک طریقہ ہے جس کی خود پیغمبر انقلاب ﷺ نے سخت وعید سنائی ہے آپ فرماتے ہیں کہ اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرتی تو انکے بھی ہاتھ کاٹ دیئے جاتے “اسلام سب کو یکساں حقوق دیتا ہے لہذا تحریک کے کسی معاملے میں مقررہ پالیسی کے ہوتے ہوئے کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس مقررہ پالیسی سے اختلاف کرے اور نئی راہ نکالے۔

کارکنان قائد کی طرز زندگی پر گہری نظر رکھتے ہیں اور قائد کے طرز زندگی کے انداز کو تحریکی نصب العین کے تحت دیکھتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہین اگر تحریکی نصب العین اور قائد کا طرز زندگی ایکدوسرے کا عکس ہوں تو کارکن بھی قائد کے رنگ میں رنگ جاتا ہے قائد کا انداز زندگی کارکن کا انداز زندگی ، قائد کا طرزگفتگو کارکن کا طرز گفتگو،قائد کا طرز معاشرت کارکن کا طرز معاشرت غرض کہ زندگی کا ہر ہر عمل قائد کے رنگ کا عکس ہوتا ہے۔

سیدنا حضرت ابو بکر صدیق  ام المومنین حضرت عایشہ صدیقہ  سے وصال سے چند گھنٹے قبل پوچھتے ہیں کہ پیغمبر انقلاب حضور ﷺ کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی ان سوالات کی اصل وجہ یہ تھی کہ زندگی تو ساری اپنے قائد پیغمبر انقلاب ﷺ کی اتباع میں گزاری ہے اب زندگی کے آخری وقت میں بھی کیوں آقا کی پیروی سے محروم رھا جائے قائد اور کارکن کے درمیان یکساں طرز زندگی کا یہ مقام تنظیمی نظم وضبط اور قائد سے محبت کا اعلی طرین مقام ہے ۔

غیر معقول توقعات سے گریز

بعض اوقات کارکن اپنی قیادت سے غیر معمولی اور نا معقول توقعات وابستہ کرلیتے ہیں جن کے پوری نہ ہونے کی صورت میں وہ شدید زہنی مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں کارکن کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ان کا قائد بھی انسان ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ کسی معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہوجائے یا کسی معاملے میں آپ قیادت سے اختلاف رائے پیدا کرلیں بعض اوقات ہم یہ توقع کرلیتے ہیں کہ قائد جہاں دنیاوی معاملے میں حالات پر مکمل گرفت رکھتا ہے وہاں وہ دینی بصیرت اور روحانی منزلت کے مقام پر بھی ہے اسلئے قائد غلط فیصلے یا رائے قائم نہیں کرے گا روحانی مقام اور منزلت اپنی جگہ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تنظیمی اور انتظامی معاملات میں فیصلے ظاہری حٓلات و واقعات کی روشنی میں کئے جاتے ہیں اسلئے عین ممکن ہے کہ حسب منشاء نتائج حاصل نہ ہوں کیونکہ ان فیصلوں کا تعلق ظاھری حکمت عملی سے ہوتا ہے اور ظاھر ہے کہ حکمت عملی میں توقعات کے مطابق نتائج کا حصول یا اسکے خلاف دونوں صورتوں کا سامنا ممکن ہے اوت یہ بھی ممکن ہے کہ نتائج بروقت بر آمد نہ ہوسکیں اسلئے کارکنان کیلئے ضروری ہے کہ وہ قیادت سے غیر ضروری ، کراماتی نوعیت کی توقعات سے گریز کریں اور قائد سے عشقی اور تحریکی تقاضوں کی نوعیت کو ہوئے حد اعتدال میں رہ کر اپنا سفر جاری رکھیں۔

*****

About admin

Check Also

مصنوعی ذہانت

مصنوعی ذہانت یہ اکیسویں صدی کی  تیسری دہائی  ہےجو  عالمی سطح پر ترقیات  کی صدی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *