Home / Socio-political / ترقی پسند اتحاد حکومت کا تین سالہ دور حکومت اور مہنگائی

ترقی پسند اتحاد حکومت کا تین سالہ دور حکومت اور مہنگائی

ترقی پسند اتحاد حکومت کا تین سالہ دور حکومت اور مہنگائی
عابد انور جب حکومت عوامی مسائل حل کرنے سے منہ چراتی ہے یا ان کے مفادات پر کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کو ترجیح دیتی ہے تو ایسا ہی حشر ہوتاہے جیسا کہ اس وقت ترقی پسند اتحاد حکومت کا ہے ۔ اس کے کھاتے میں صرف بدنامی، طنع و تشنیع اور گھپلے ہیں۔ فلاح و بہبود کے جتنے کام اس نے کئے تھے ان سب پرپانی پھر چکا ہے۔ لوگوں کی زبان پر صرف اور صرف حکومت کا نکما پن سامنے ہے۔ عوام کو کبھی بھی اور کسی لمحے یہ احساس نہیں ہوا کہ حکومت ان کے مفادات کے بارے میں کچھ سوچتی ہے۔ حکومت کی اگر کوئی سوچ ہے بھی تو صرف دو ڈھائی فیصد کے مفادات تک محدود ہے۔ جس طبقہ نے اسے یکطرفہ ووٹ دے کراقتدار تک پہنچایا اسی طبقہ کا ناطقہ بند کرنے پر آمادہ نظر آرہی ہے۔ اس آٹھ سالہ دور میںمرکزی خفیہ ایجنسیوں نے بے تحاشہ مسلمانوں کی گرفتاریاں کی ہیں ۔ایسے علاقے کواپنے نرغے میںلیا ہے جہاں کے مسلمان دہشت گردی سے واقف بھی نہیں ہیں۔ وزارت داخلہ کا رویہ انتہائی مایوس کن رہا ہے اور اس سے بڑھ کر مسلم تنظیموں، علماء اورلیڈروں کا معاملہ رہا ہے جواس ضمن میں بیان دینے کے علاوہ کوئی بھی عملی اقدامات کرنے سے قاصر رہے ہیں۔یہ لوگ کسی وزیرسے ملاقات کو ہی معراج تصور کرلیتے ہیں۔عرضداشت پیش کرنے کے بعد پھر کبھی اس کے بارے میںفکر نہیں کرتے کہ اس کا کیا حشر ہوا۔
متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت نے جیسے تیسے کرکے دوسری میعاد کے تین سال پورے کرلئے ہیں۔ ان تین برسوں میں اس حکومت کو جنتی ذلت ورسوائی ملی ہے شایداب تک کسی حکومت کے حصے میںآئی ہو۔ ٹوجی اسپیکٹرم،کامن ویلتھ گیم گھپلے، مضبوط لوک پال اور کالا دھن کے معاملے پر ٹیم اناہزارے اوربابارام دیوکاحکومت کاقافیہ تنگ کرنا، ریاستی مسائل اور دیگر موضوعات پر ہر وقت یوپی اے حکومت اپوزیشن کے نرغے میںرہی اوریہاںتک کے پارلیمنٹ کا کوئی بھی سیشن ڈھنگ سے اختتام پذیر نہیں ہوسکا۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لئے حکومت مسلسل وعدے کرتی رہی کہ ایک دو مہینے میں ختم ہوجائے گی یا اس پر قابو پالیاجائے گالیکن حکومت کا ہر وعدہ ہرجائی محبوب کا وعدہ ثابت ہوا۔ تمام خوردنی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ آزاد تجارت کے نام پر بنیوں کو عوام کو لوٹنے کھسوٹنے کی کھلم کھلام چھوٹ دے دی گئی ہے۔تاجروں کو تجارتی خسارہ ہورہا ہے لیکن ذاتی دولت میں کوئی کمی نہیں ہورہی ہے۔ فیکٹری مالکان دو روپے کی لاگت والا سامان بازار میں دس روپے میںفروخت کرتے ہیں۔کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت کے پاس روک تھام کے لئے ایسا کوئی میکانزم نہیں ہے جو ان لوگوں پر نظر رکھ سکے ۔ سب کچھ نہیں ہے لیکن عزم کی کمی ہے اور بدعنوانی کا بول بالاہے۔ تاجر اس طرح کے محکمہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے یہ کام انجام دیتے ہیں اوراس طرح قوم کا خسارہ ہوتا ہے۔ ہندوستان میںکسی چیز کی کمی نہیں ہے یہاں کے لوگوں کو پیٹ بھرنے کے لئے دوسرے ملکوں کی طرف نظر گڑائے رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
یوپی اے دوم نے اپنے تین سالہ دور اقتدار کی کامیابیاں گنوائی ہیں۔ جس میں اقتصای شرح نمو سات فیصد، فرقہ وارانہ یکجہتی، مضبوط معیشت اور غربت میں کمی کو کامیابیوں میں شمار کیا ہے۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر اپنی حکومت کی کامیابیاں گنواتے ہو ئے یہ تسلیم کیاکہ گھپلوںکی وجہ سے حکومت کی تصویر بدصورت ہوئی ہے اور بدعنوانی کے مسئلے پر لوگوں میں مایوسی اور ناراضگی ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ مجرم لوگوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ملک کی اقتصای حالت کو مضبوط بتاتے ہوئے کہا کہ اس کے برعکس بین الاقوامی ماحول کے باوجود ملک کی اقتصادی ترقی-12 2011 میں سات فیصد کی شرح سے ہوئی ہے، جو دنیا میں سب سے تیز ترقی کی شرح میں سے ایک ہے۔وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا ہے کہ حکومت اخراجات میں کمی اور مختلف مالی پہلوؤں کے بارے میں سخت فیصلہ لے گی اور ادائیگی کے توازن کو برقراررکھے گی۔ گھریلو اور بیرون ممالک میں صنعتی سرمایہ کاری بڑھانے کے لئے سخت اقدامات کرے گی۔ڈالرکے مقابلے روپے کی کمزور ہوتی حالت کو سدھارنے کے لئے حکومت نے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا لیکن تیل کمپنیوں کے مطالبہ کے آگے جھکتے ہوئے پٹرول کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ حالانکہ فی الحال ڈیزل کی قیمت نہیں بڑھی ہے۔ تیل کمپنیوں کی دلیل تھی کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کے بڑھتے انداز سے ان کی انڈر ریکوی بڑھ رہی تھی۔تیل کمپنیوں کو نقصان نہیں ہوا ہے۔پھر بھی پٹرول کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں نرمی آنے کے اشارے ملنے شروع ہو گئے ہیں۔ ایران نے اپنے ایٹمی تنصیبات کو اقوام متحدہ کی تحقیقات کے لئے کھولنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ اس سے خام تیل کی قیمت میں کچھ نرمی آئی ہے۔
مہنگائی کا توانائی سے گہرا رشتہ رہا ہے جب بھی تیل مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہیں اسی کے ساتھ مہنگائی بھی آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے۔ اس لئے دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر چیز یںمہنگی ہوجاتی ہیں لیکن پیٹرولیم مصنوعات گراں نہیں ہوتیں۔ترقی یافتہ ممالک ہو یا ترقی پذیر وہ اس میدان میں گہری نظر رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ امریکہ، آسٹریلیا، انگلینڈ اور دیگر ممالک سمیت اپنے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیوں کو قابو میں رکھتی ہیں کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی گرانی کا مطلب تمام اشیائے ضروریہ کا مہنگا ہونا ہے۔ہندوستان میں نہ جانے کیوں حکومت نے ٹیکس وصولنے کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کو ہی منتخب کیا ہے۔ یہاں پیٹرولیم مصنوعات پر ۱۰۰ فیصد ٹیکس ہے۔ اس کے باوجود پیٹرولیم کی گرانی کو قابو میں رکھنے کے لئے حکومت کوئی ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھاتی ۔حکومت جتنا پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس وصولتی ہے اس کا ۲۵ فیصد حصہ پیٹرولیم کمپنیوں کو بطور سبسڈی ادا کرتی ہے اور ٹیکس کا ۷۵ فیصد حصہ حکومت کے خزانے میں جاتا ہے۔اس کے سبسڈی کا رونا روکرحکومت عوام پر احسان کرتی ہے۔ہندوستان میں حالیہ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میںزبردست اضافہ ہونے کا خدشہ ہے ۔ جو کہ ایک فلاحی ریاست کے منافی ہے ویسے بھی ہندوستان کبھی بھی فلاحی ریاست نہیں رہا۔ حکومت مختلف بہانے سے عوام کے خون چوسنے کے نت نئے طریقے تلاش کرنے میں ہمیشہ مصروف رہی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام یہاں جم کر پھلا پھولا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کو جم کر ہندوستان کی دولت لوٹنے کا موقع ہر حکومت فراہم کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کی دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ غربت کا فاصلہ مٹنے کے بجائے طویل ہورہا ہے ۔ دنیامیں ہر جگہ غریبی میں کمی آرہی ہے ہندوستان ہی ایسا ملک جہاں کسادبازاری کے بعد خط افلاس کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں دس کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ ہندوستان میں اقتصادی کساد بازاری کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا تھا اور جو بھی پڑا تھا حکومت اس سے ابھر چکی تھی۔ آج ہندوستانی باشندے دنیا میںہر شعبہ میں اپنا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں ۔ ہندوستان تیزی سے معاشی ترقی کرنے والا ملک ہے یہاں کروڑپتیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ گولڈا مین سیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق اگرہندوستان کی معاشی ترقی کی یہی رفتار جاری رہی تو آئندہ عشر ے میں وہ اٹلی٬ فرانس اور برطانیہ کو پیچھے چھوڑ دے گا اور آئندہ پندرہ برسوں میں اوسطاً چار گنا امیروں کی تعداد بڑھ جائے گی جب کہ کار خرید نے والوں کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ ہوگا۔ لیکن بے پناہ معاشی ترقی کے باوجود ابن آدم کو یہاں روٹی اور دال آسانی سے میسر نہیں ہوتی ۔ اگر ہم ترقی پسند اتحاد حکومت کے تقریباً آٹھ سالہ دور اقتدار کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوگا کہ یہ حکومت مہنگائی سے عبارت ہے اور اس پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے ۔ تقریباً تمام اشیاء خورد و نوش کی قیمت ان برسوںکے دوران دوگنی سے بھی زائد ہوگئی ہے ۔ لوور مڈل کلاس کا بجٹ ہر مہینہ کے پندرہ تاریخ کو جواب دے جاتا ہے ۔جو لوور کلاس ہیں ان کے بارے میں سوچنا ہی کیا وہ کس طرح سے زندگی گزارتے ہیں۔ اتنی آمدنی نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک سے پیٹ بھر کھانا کھاسکیں۔ دنیا کے مالدار ترین افراد میں ہندوستانیوں کا شمار ہوتا ہے لیکن ہندوستان میںآج بھی غربت قبیح صورت کے ساتھ منہ پھاڑے ہمارا مذاق اڑاتی نظر آتی ہے۔ چند روپیوں کی خاطر بچوں ٬ بچیوں اور لڑکی کی شادی نہ کرپانے پر لڑکیوں کی فروخت کے واقعات آئے دن اخبارات کے زینت بنتے ہیں۔
ہندوستان کو اولاً کئی ملکوں کے مقابلے میں پیٹرول کچھ مہنگا ملتا ہے دوسرے حکومت ہند نے غیر فلاحی حکومت کا ثبوت دیتے ہوئے پیٹرولیم پر مختلف طرح کے ٹیکس لگا رکھے ہیں ۔ پیٹرولیم مصنوعات پر پیداواری ٹیکس ۳۲ فیصد ہے جبکہ پاکستان میں پیٹرولیم پر پیداوری ٹیکس صرف ۲ فیصد ہے٬ چین میں یہ کچھ بڑھ کر ۵ فیصد ہے جب کہ انڈونیشیا میں۴ فیصد بنگلہ دیش جسے غریب ترین ملک کا درجہ حاصل ہے وہاں ۱۱ فیصد پیداواری ٹیکس ہے اور تھائی لینڈ میں ۲۱ فیصد ہے۔جنوبی ایشیا میں سری لنکا واحد ایسا ملک ہے جہاں پیٹرل پر پیداوری ٹیکس ۲۳ فیصد ہے لیکن اس کے باوجود ہندوستان کے مقابلے میںنو (۹) فیصد کم ہے۔ اسی طرح ڈیزل پر حکومت ہند نے ۱۶ فیصد پیداواری ٹیکس لگا رکھا ہے اس کے مقابلہ فلپائن اور پاکستان میں ڈیزل پر پیداوری ٹیکس نہیں لگتا۔ جب کہ چین میں ۲ فیصد بنگلہ دیش میں ۱۱ فیصد اور انڈونیشیا میں ۴ فیصد پیداواری ٹیکس ہے۔ اسی طرح کسی بھی قابل ذکر ممالک میں پیٹرولیم مصنوعات اتنا زیادہ ٹیکس نہیں ہے جتنا کہ ہندوستان میں ہے۔ امریکہ میں تمام ٹیکسوں سمیت مجموعی طور پر ۶ء۴۵ سینٹ ہے ۔ (امریکی پیسہ کو سینٹ کہتے ہیں)
ہندوستان کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ہر معاملے پر سیاسی رنگ چڑھ جاتا ہے ایک اچھی خاصی فلاحی اسکیم سیاست کی نظر ہوکر کامیابی کے راستے میں دم توڑ دیتی ہے۔ جون ۲۰۰۶ میں حکومت نے قیمت میں اضافہ کیاتھا تو مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں سے کہا تھا کہ وہ اپنا ٹیکس کم کردیں واضح رہے کہ مرکزی ٹیکس کے علاوہ ریاستی سیلس ٹیکس اور ویٹ بھی پیٹرولیم مصنوعات پر لگتا ہے جس کی وجہ سے ہر ریاست میں پیٹرولیم مصنوعات کی الگ الگ قیمتیں ہیں۔ اس کے جواب میں ریاستی حکومتوں نے کہا تھا کہ پہلے مرکزی حکومت اپنا ٹیکس کم کرے جو کہ تقریباً پچاس فیصد کے آس پاس ہے یعنی اگر ہم پیٹرول ۵۰ روپے میںخریدتے ہیں تو اس سے مرکزی حکومت کو تقریباً پچیس (۲۵ روپے) روپے کافائدہ ہوتا ہے جو ہم ٹیکس کی شکل میں دیتے ہیں۔ اگر مرکزی حکومت پیداوار ٹیکس٬ کسٹم ڈیوٹی اور درآمدی ٹیکس میں کمی کردے تو تیل مصنوعات کی قیمتیں اپنے آپ کم ہوجائیں گی۔ اسی بات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں نے خاص کر غیر کانگریس حکومتوں نے مرکز سے مطالبہ کیا تھا پہلے وہ ٹیکس کم کرے اس کے بعد ہی ریاستی حکومتیں اپنا اپنا ٹیکس کم کریں گی۔ گواکی حکومت نے پیٹرول پر ٹیکس کم کردیا ہے جس کی وجہ سے پیٹرول کی قیمت میں ۱۱ روپے کی کمی آئی ہے۔ایسا دیگرریاستی حکومتیں کیوں نہیں کرسکتیں۔ہندوستان کی چالیس فیصد سے زائد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ہندوستانی حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششیں کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہیں اور وہ غریبوں کی امداد کے لیے اپنی کی کل قومی پیداوار کے دو فیصد سے بھی زیادہ رقم خرچ کر رہی ہے۔تاہم عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غربیوں کی امداد کے منصوبے رشوت ستانی، بد انتظامی اور ادائیگیوں میں کمی کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔غریبوں کی امداد کے لیے دی جانے والی رقم میں سے چالیس فیصد ہی صحیح حقداروں تک پہنچ پاتی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ حکومت کی ترجیح کیا ہے؟ کیا اسے تیل کمپنیوں کی حالت بہتر بنانے پر توجہ دینا چاہئے یا پھر پوری اقتصادیات کو مضبوطی بنانے پر ۔
ترقی پسند اتحاد حکومت پر جب تک کمیونسٹ پارٹیوں کا ڈنڈا تھاپیٹرولیم کی قیمتیں قابو میں تھیں لیکن جیسے ہی حکومت کی حمایت سے باہر ہوئیںاس کے بعد لگاتار اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی حمایت کے دور میں جب پیٹرول کی قیمت عالمی منڈی میں ۱۰۴ ڈالر فی بیرل پہنچ گئی تھی تو اس وقت یہاں پیٹرول کی قیمت ۴۵ روپے فی لیٹر تھا ۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بجائے دوسرے متبادل کا کا سہارا لیا جانا چاہئے تھا جس کا مطالبہ بائیں بازو ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں ۔ اگر پیٹرولیم مصنوعات پر پیدواری ٹیکس٬ برآمداتی ٹیکس اور سرحدی ٹیکس میں کٹوتی کی جاتی تو پیٹرولیم اشیاء کی قیمتیں بڑھانے کی نوبت نہیں آتی اور عام آدمیوں پر مہگائی کا بوجھ کم پڑتا۔ وقت آگیا ہے کہ ہندوستان میں رائج ٹیکس کے نظام کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور ٹیکس کی مار ان لوگوں پر مرکوز کی جائے جن کی آمدنی کروڑوں میں ہے۔ ایک لاکھ روپے آمدنی والے اور ایک کروڑ آمدنی والے کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے ۔ اسی صورت میں ہندوستان کی حقیقی آزادی کا خواب پورا ہوگا اور حقیقی جمہوریت کی تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔اس حکومت سے سب کو مایوسی ہاتھ لگی ہے۔ اتحادیوں میں اختلافات بڑھتے جارہے ہیں ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی میعادپوری نہیں کرسکے گی لیکن آثار قطعاً اچھے نہیں ہیں۔ اچھا کام کرنے کیلئے ابھی اس حکومت کے پاس دو سال کا عرصہ ہے لیکن یہی عرصہ اسے زندہ درگور کیلئے کافی ہوگا۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *