Home / Socio-political / تمہارا میرا رشتہ!

تمہارا میرا رشتہ!

تمہارا میرا رشتہ!

سمیع اللہ ملک

کوئی نہیں جانتا کہ وہ عبدالجلیل اب کہاں ہوگااور کس حال میں ہوگا؟آج سے چودہ سال پہلے غالباً ۱۹۹۸ء میں رمضان المبارک کے آخری عشرے کی بات ہے ‘ فجر کی نماز کے تھوڑی دیر کے بعدمیں مسجدِ نبوی بلکہ روضہ رسول کی بغلی گلی میں کھڑازیارتوں پر جانے کیلئے کسی ایسے ٹیکسی ڈرائیور کی تلاش میں تھا جو اردو جانتا ہوحالانکہ ایک طویل عرصہ ان علاقوں میں گزارنے کے بعد عربی زبان بولنا اور سمجھنا میرے لئے کوئی مشکل نہیں رہا تھا۔اس زمانے میں ابھی غیر ملکی ٹیکسی  چلانے والے مل جاتے تھے۔قریب ہی ایک سانولے سے نوجوان نے میری حیرت کو بھانپ کر اردو میں مجھے زیارتوں پر جانے کیلئے  پکارا ‘میں فوری طور پر اس کی طرف بڑھا اور اس کے ساتھ اس کی ٹیکسی میں جا بیٹھا۔

مدینہ منورہ کی مقدس سرزمین میں گھومتے ہوئے میں نے اس سے تعارف کے طور پر پہلا سوال کیا کہ پاکستان میں تمہارا تعلق کس شہر یا علاقے سے ہے؟ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے مجھے بتایا کہ میں مشرقی پاکستان کے شہر سلہٹ کا رہنا والا ہوں۔مجھے اس قدرنفیس اور شائستہ اردو سننے کے بعد یہ گمان بھی نہ ہوسکا کہ کوئی بنگالی ایسی اردو نستعلیق زبان میں بات کر سکتا ہے ۔میں نے جب وجہ دریافت کی تو اس نے جواب دیا کہ میری ساری تعلیم کراچی کی ایک مشہور دینی مدرسے میں ہوئی ۔یہ خوبصورت زبان تو میرے اساتذہ کرام  اور میرے ساتھی طالب علموں کی محبت کی زبان ہے‘ میرے بچے جومیرے ساتھ یہاں مقیم ہیں اردو زبان ہی بولتے ہیں ۔استاد اور اس مدرسے کے دوسرے ساتھیوں کی زبان اور پھر اس شہر سے اس کی محبت نے اسے اس قدر بدل دیا‘مجھے اس کا یقین ہی نہیں آرہا تھا۔

گزشتہ کئی سالوں سے دنیا کے جس ملک میں مجھے کسی بنگالی نوجوان سے ملنے کا اتفاق ہوا‘اس کی زبان پر شکوے شکائتیں اور مزاج میں ایک واضح تلخی نظر آتی تھی اور ان میں کچھ اردو جانتے ہوئے بھی اردو نہیں بولتے تھے لیکن یہ عجیب شخص ہے ‘نہ اس نے مجھ سے ۱۹۷۱ء کے کشت و خون کا ذکر کیا اور نہ یہ بتایا کہ میرے سامنے کیسے فوجی گھروں میں گھستے تھے اور کیسے نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کردیتے تھے حالانکہ یہ الزامات وہ بچے بھی بڑے یقین کے ساتھ دہراتے تھے جو اس سانحے کے بعد پیدا ہوئے۔مجھے ایک دم لندن کے کالج کی ایک بنگالی استاد یاد آگئی جو ایک کانفرنس میں میرے ساتھ تھی لیکن اس نے مجھ سے محض اس لئے بات کرنے سے انکار کر دیاکیونکہ میرا تعلق اس خطے سے تھا جنہوں نے بنگالیوں پربڑے ظلم ڈھائے ۔یہ الگ بات ہے کہ میں نے اس کا ساتھ نہیں چھوڑا،اور مشرقی پاکستان کی ڈھاکہ یونیورسٹی کے ایک مشہور بنگالی مؤرخ ڈاکٹر مومن چودھری کی ان تمام جھوٹے الزامات کے بارے میں بڑی معرکتہ الآرا کتاب(Athentic Voices of South Asia)جب پڑھنے کو دی تو اس نے نہ صرف معذرت کی بلکہ آج خود ایسے افراد کے سامنے سینہ سپر ہے۔

میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اس نے مجھے جنت البقیع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اندر جانے کو کہا ۔میں نے اسے جب یہ کہا کہ میں نماز فجر کے بعد اور بہت سے نمازیوں کے ساتھ یہاں سے ہو کر گیا ہوں تو وہ تھوڑی دیر تک خاموش نظریں جھکائے کسی گہری سوچ میں گم جنت البقیع کی طرف دیکھتا رہا ‘اس کے ہونٹ ہلتے رہے لیکن میں صرف ہلکی سی بھنبھناہٹ کے سوا کچھ نہ سن سکا۔تھوڑی دیر کے بعد وہ ایک کھلی سڑک پر آگیاتو میں نے اچانک کہاکہ یہاں گاڑی چلانے میں تو بہت مزا آتا ہوگا۔اس نے فوراً اپنی گاڑی روک لی اور بڑے احترام سے مجھ سے فرمائش کرنے لگا کہ اگر آپ چلانا چاہتے ہیں تو بسم اللہ!میری سمجھ میں فوری طور پر کچھ نہیں آیا اور شکریہ کے ساتھ ہی میں نے اس سے سوال کیا کہ کہ تم ۱۹۷۱ء میں کہاں تھے اور تمہاری کیا عمر تھی؟؟

میں اس وقت سلہٹ شہر میں تھا اور ایف ایس سی کا طالب علم تھا۔میں اردو زبان سے بالکل نابلد تھا بلکہ اپنے اسکول اور کالج کے ہندو اساتذہ کی زبانی مغربی پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ اور مشرقی پاکستان کے ساتھ زیادتیوں کے ان گنت واقعات نے میرے دل میں ایک شدید نفرت پیدا کر دی تھی۔لیکن ایک واقعے نے میری سوچ کا دھارا بدل دیا جب مکتی باہنی کے کچھ افراد پاکستانی فوجیوں کی وردی میں ملبوس میرے گھر میں گھس گئے اور ان مکتی باہنی کے کچھ لوگوں کو میں نے پہچان لیا جو میرے کالج کے ساتھی تھے ۔میرے پہچاننے پر انہوں نے مجھ پر گولی چلا دی لیکن میں وہاں سے زخمی حالت میں بھاگ نکلا اور قریب ہی ایک پاکستانی فوج کا ایک گروہ جو گشت پر معمور تھااس ساری صورتحال سے نمٹنے کیلئے جب میرے گھر پہنچا تو وہاں میری تین نوجوان بہنوںکو عصمت دری کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور میرا بوڑھا باپ اس صدمے سے ذہنی توازن کھو چکا تھا۔

مجھے دوسرے زخمی فوجیوں کے ساتھ علاج کیلئے پہلے سلہٹ کے فوجی ہسپتال اوربعد ازاںکراچی بھیج دیا گیااور یہی مجھے معلوم ہوا کہ میر ا بد قسمت باپ بھی چند دنوں کے بعد اپنی مجبورو مقہور بیٹیوں کے پاس پہنچا دیا گیا ہے۔علاج معالجہ کے بعد میں نے وہاں ہی ایک دینی درسگاہ میں داخلہ لے لیا۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد اسی درسگاہ میں استاد کے فرائض سرانجام دیتا رہا اور بالآخر اعلیٰ تعلیم کیلئے مدینہ یونیورسٹی میں مجھے داخلہ مل گیااور اب یہاں تعلیم مکمل کرکے اسی یونیورسٹی میں ملازمت کر رہا ہوں کیونکہ مجھے کراچی سے میرے اساتذہ اور دوسرے ساتھیوں نے پاکستان نہ آنے کا مشورہ دیا ہے کہ یہاں بنگالی ہونے کے سبب مجھے دہشت گردی کے شبے میں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔اب سوچتا ہوں کہ میرا تو کوئی ملک ہی نہیں ‘بنگلہ دیش جانا نہیں چاہتا اور پاکستان اب مجھے قبول کرنے کو تیار نہیں۔اس لئے یہی سوچا ہے کہ اس نبیﷺ کے قدموں میں باقی زندگی گزار دوں جو ہم جیسے بے سہاروں کے ملجاو ماویٰ ہیں۔

میں نے پوچھا ’’تم نے مجھ سے کوئی گلہ کیوں نہیں کیا؟‘‘اس نے جواب دیا کہ میں نے بھی ظلم دیکھے ہیں ‘زیادتیاں برداشت کی تھیں لیکن میرا اور آپ کا رشتہ تو کلمہ طیبہ سے بندھا ہوا ہے۔اس رشتے کو دنیا کی کسی زبان بولنے والے کا ظلم اور زیادتی ختم نہیں کر سکتی۔مجھے جتنی محبت کراچی میں ملی شائد ہی کہیں ملی ہو۔میں اور میرے جیسے اور بھی ساتھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم لڑے نہیں لڑوائے گئے تھے۔ہمارے دلوں میں نفاق پیدا کیا گیا تھا ‘ہم جو ایک کلمہ طیبہ کی لڑی میں پروئے گئے تھے  اسے رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر آمریت اور ان کی پشت بیرونی طاقتوں نے کاٹ کر رکھ دیا لیکن قدرت کا انتقام تو دیکھئے کہ اس سازش میں ملوث تمام کرداروں کو کیسی عبرتناک موت سے ہمکنار ہونا پڑا۔

مجیب الرحمان کو اس کے گھر کی سیڑھیوں پر انہی بنگالی فوجیوں نے قتل کیا جو بنگلہ دیش بنانے میں پیش پیش تھے‘اندراگاندھی جس نے بڑے تکبر کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا تھا کہ آج ہم نے ایک ہزارسال غلامی کا بدلہ لے لیااور دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا‘اسی کے باڈی گارڈ نے گولیوں سے بھون دیا‘اور پھر یحییٰ خان قولنج جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ایڑیاں رگڑتے رگڑتے بستر پر ایک شام مردہ حالت میں پایا گیا اور اس سانحے کا آخری کردار ذوالفقار علی بھٹو اپنے ہی مقررکردہ فوجی جرنیل کے ہاتھوں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ان تمام کرداروں کے اہل خانہ پر بھی نظر دوڑا لیں تو تاریخ اور جبر کے انتقام کی بے شمار داستانیں مل جائیں گی۔میرا ایمان وایقان اب بھی یہ گواہی دیتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں ملوث لوگ اب بھی ایسے ہی عبرتناک و شرمناک انجام کو پہنچیں گے بلکہ وہ طاقتیں جو اس کو کمزور کرکے اس کو غلام بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں ان کا وجود اس دنیا سے مٹ جائے گا۔

وہ جذباتی انداز میں بولے چلا جا رہا تھااور میں سوچ رہا تھا کہ اس کے دل میں میرے لئے اتنی محبت کہاں سے آ گئی کہ وہ سارے زخم بھول کر مجھے بھائیوں سے زیادہ پیار دے رہا ہے۔یقینااس تربیت کے پیچھے وہ استاد بیٹھا ہوا ہے جو مسجد کی ایک چٹائی پر بیٹھا اپنے بوسیدہ پھٹے پرانے لباس سے اپنے تن کو ڈھانپے ہوئے اپنے تمام طالب علموں کو یہ سکھاتا ہو گا کہ تمام مسلمان ایسے ہیں جیسے عمارت کی اینٹیں ‘یہ تو ایک جسم ہیں ،اگر ایک کو تکلیف ہو جائے تو دوسرا بے چین،معاف کرنے والوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے ۔ایسا اسلام کا درس جب کسی طالب علم کو ملے گا تو وہ پھر کیسے ایک مسلمان سے نفرت کر سکتا ہے؟

میرے ملک کی یہ درسگاہیں اور یہ مدرسے نصف صدی سے بھی زائد امتِ مسلمہ کے نوجوانوں کو تعلیم دے رہے تھے جہاں دنیا کے ہر ملک سے نوجوان انہیں اسلامی تعلیمات کی آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی سمجھ کریہاں آتے تھے اور پھر میرے ملک پاکستان سے ایک محبت کا رشتہ لے کر جاتے تھے لیکن آج اس رشتۂ محبت کی تعلیم دینے والی ان درسگاہوں پر پوری دنیا کے مسلمانوں کے دروازے بند کئے جا چکے ہیں ۔وہ طلباء جو دنیا بھر کے ممالک سے کشاں کشاں یہاں آتے تھے اب ہندوستان اور جنوبی افریقہ میں قائم مدارس میں جارہے ہیںکہ میرے دین کا علم سکھانے والے تو ہر جگہ موجود ہیں۔انہیں کوئی علاقہ یا حکومت محدود نہیں کر سکتی۔فاسق کمانڈو مشرف نے اپنے امریکی آقا کے حکم پر پاکستانی وزارتِ خارجہ اور دوسرے اداروں کو ان مدارس کا آپریشن کرنے کا حکم دیا اور تمام غیر ملکی طلباء کو مختلف حیلوں بہانوں سے ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔تین ہزار سے زائد طلباء بھارت اور یورپ اور عرب ممالک کے دس ہزار سے زائد طلباء جنوبی افریقہ کے مدارس میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے داخلہ لے چکے ہیں۔

میں سوچتا ہوں کہ جو تعلیم مشرقی پاکستان کے ظلم و ستم کی داستان کا دکھ بھلا کر محبت کے بیج بو سکتی ہے ‘بھلاہم نے نفرت کے بیج بونے والی تعلیم کو اس پر مقدم کیوں کر لیا؟آج میرے ملک کے عیسائی مشنری کالجوں میں پرنسپل سے لیکر وارڈن تک اور طالبعلموں سے لیکر ان کالجز کے دوسرے ملازمین تک کتنی آسانی سے پاکستانی ویزہ لیکر آجاتے ہیں اورمیرے ملک کے نوجوانوں کو اپنی مخصوص مغربی تعلیم سے آگاہ کر رہے ہیں ۔پاکستان کے بیشتر ایسے اداروں میں کتنے ایسے اساتذہ ہیں جو لندن‘امریکا ‘آسٹریلیااور دوسرے مغربی ممالک  سے یہاں آکر ان پاکستانی طلباء کوتعلیم کے ساتھ بڑے تفاخر کے ساتھ ان ملکوں کا کلچر بھی سکھا رہے ہیںجو میرے ملک کے نوجوانوں کو اپنے ہی ماحول سے متنفر کرکے ان کے دل سے اس ملک کی محبت کو بھی کھرچ کر باہر نکال پھینکنے پر آمادہ کردیا ہے۔

ہم اس بدنصیب دور میں زندہ ہیں جہاں او لیول یااے لیول پاس کر لینے کے بعد ایک طالب علم کو اپنے شہر کی گلیوں سے بوآنے لگتی ہے اور ایسے دینی مدارس سے ان کو نفرت ہونے لگتی ہے لیکن ایسی ہی درسگاہوں میں پڑھنے والے ہمارے ظلم ‘ہماری زیادتیوں اور ہماری ناانصافیوں کو بھول کر صرف ایک بات کہتا ہے کہ تمہارا میرا رشتہ تو کلمہ طیبہ ہے‘تم تو میرے جسم کا حصہ ہو‘تمہیں تکلیف ہوگی تو میری آنکھیں نیل تو ضرور بہائیں گی۔نائن الیون سے پہلے میرا پاکستان یہ افتخار رکھتا تھا کہ دین کی تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی اب این آراو کی پیداواروزیرِ داخلہ رحمان ملک نے اپنے آقاؤں کے حکم پر تمام غیر ملکی طلباء اور ائمہ کرام کو پاکستان سے نکال کر دم لیا ہے! کیاان سب کو نکال کراب پاکستان امن کا گہوارہ بن گیاہے؟اگر نہیںتواس کا ذمہ دارکون ہے؟

About admin

Check Also

یہ دن دورنہیں

امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر پہلاڈرون حملہ ۱۸جون ۲۰۰۴ء کوکیا۔ یہ حملے قصر سفیدکے …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *